رنگ بازیاں

کالج کینٹین کا منظر ہے۔ ایک میز کے گرد سات آٹھ لڑکوں کا ٹولہ بیٹھا ہوا ہے۔ ان میں سے کچھ سگریٹ سے شوق کر رہے ہیں اور کچھ چائے سے۔ ان میں سے ایک میں بھی ہوں۔ گرما گرم بحثیں جاری ہیں۔ چائے ختم ہو چکی ہے اور ہماری جیبوں میں پیسے بھی۔ اچانک ایک لڑکے کی انٹری ہوتی ہے اور وہ ہم میں سے ایک سے جھک کر ملتا ہے۔ جیسے پیر سے مرید ملتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد میز پر چائے ، کولڈ ڈرنک ، سموسے اور گلاب جامن بہار دکھانا شروع کردیتے ہیں۔ ہم سب کے ”دور“ گھوم جاتے ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے؟‌ ہمارا وہی دوست آنکھ بچا کر ہمیں اشارہ کرتا ہے کہ ”موجاں کرو“ ۔ ان کھابوں سے انصاف کرنے کے بعد وہی نئی انٹری سب سے عقیدت مندانہ انداز سے مل کر اور بل دے کر رخصت ہو جاتا ہے۔
تو میرے بھائیو! یہاں سے اصل کہانی شروع ہوتی ہے۔ ہم سب مل کر باجماعت اس دوست (اس کا نام وسیم فرض کرلیں، اور اس کا تعارف یہ ہے کہ وہ ایک طلبہ تنظیم کا سرگرم رکن تھا اور پر جوش قسم کی آتشیں تقریریں کیا کرتا تھا) کے اوپر چڑھ گئےکہ اؤئے یہ کیا تھا؟ تس پر وسیم نے وضاحت کی کہ چند دن پہلے یہ لڑکا میرے پاس آیا اور روہانسی آواز میں‌ مجھ سے مدد کی درخواست کی کہ ایک لیکچرر نے اسے اپنی کلاس سے نکال دیا ہے، داخلے جانے والے ہیں اور اسے ڈر ہے کہ اس کی حاضریاں کم پڑ جائیں گی اور اس کا داخلہ رک جائےگا۔ اس پر وسیم صاحب نے مونچھوں کو تاؤ دیا اور اسے کہا بس اتنا سا کام ہے۔ چلو میرے ساتھ۔ دیکھ لیتے تمہارے سر کو بھی ۔ :mrgreen:
وہاں سے وہ سیدھے ان لیکچرر کے پاس گئے۔ وسیم نے اسے باہر کھڑا کیا اور اندر جا کر ڈھٹائی سے لیکچرر صاحب کے پیر پکڑ لئے وہ پریشان کہ یہ کیا مصیبت آگئی؟ وسیم بولا کہ سر جب تک آپ وعدہ نہیں کرتے کہ آپ میری بات مانیں گے میں آپ کے پیر نہیں چھوڑوں گا۔ تنگ آ کر انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میں وعدہ کرتا ہوں۔ اس پر وسیم نے ساری سمسّیا ان کے گوش گزار کی۔ انہوں نے کہا بس اتنی سی بات ہے۔ کل سے اسے کلاس میں بھیج دینا۔
اس سارے سین پارٹ کے بعد وسیم صاحب مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے باہر آئے اور اس کانٹے میں پھنسی ہوئی مچھلی سے مخاطب ہو کر کہا، ”اتنی سی بات تھی، میں نے ان کو وارننگ دے دی ہے کہ یہ اپنا بچہ ہے، آئندہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا تو ۔۔۔۔۔ :lol:
بس وہ دن جاتا ہےاور آج کا آتا ہے، یہ بچہ جب بھی ملتا ہے میری ایسے عزت کرتا ہے کہ شائد اپنے باپ کی بھی نہ کرتا ہو۔۔۔۔ :lol:

ضروری اعلان: :wink:

اس سارے واقعے سے کوئی کسی قسم کا سبق حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اور نہ ہی اسے کسی شخص یا واقعہ پر منطبق کرنے کی کوشش کرے۔ ایسا کرنے والا نتائج کا خود ذمہ دار ہوگا۔ :wink: :wink: :wink:
Comments
10 Comments

10 تبصرے:

محمد وارث نے فرمایا ہے۔۔۔

اچھی تحریر ہے جعفر صاحب، گدھے کو باپ بنانے میں ہماری قوم ماہر ہے :smile:

Anaa نے فرمایا ہے۔۔۔

تحریر واقعی بھت اچھی ہے -جعفر

ڈفرستان کا ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

وہی تو
اسے کہتے ہیں شانپتیاں
دوہرے چہرے اور کتے کرتوت
سادہ لفظوں میں بولے تو
ہمارے حکمران

لفنگا نے فرمایا ہے۔۔۔

ڈفر نے درست کہا
پر یہاں تو لوگ گدھے کو کیا باپ بنانا باپ کو گدھا بنائے پھرتے ہیں۔ کہ گھر سے نکلے پڑہنے کو اور۔۔۔۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

وارث - انا :: شکریہ :smile:
::ڈفر:: :grin: شانپتیاں۔۔۔ انڈین فلمیں کم دیکھا کرو۔۔۔ :mrgreen: :mrgreen:
::لفنگا:: بلاگ پر خوش آمدید۔۔۔ ہاں جی بس ٹھیک کہتے ہیں آپ۔۔ ایسے ہی ہوتے ہیں لونڈے لپاڑے۔۔۔۔ :grin: :grin:

کیپٹن ظہیر نے فرمایا ہے۔۔۔

جناب عالی! کوشش تو آپ نے اچھی کی ہے مگر آپ کو مزید درستگی کی ضرورت ہے۔۔۔۔ :grin: لگتا ہے کہ آپ عبد اللہ طارق سہیل بہت پسند ہیں۔ مگر میری تجویز ہے کہ آپ کبھی سنجیدہ آرٹیکل لکھیں کیونکہ اتنی رنگ رنگیلیاں کبھی کبھی حوالات کا رخ کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔۔۔ :grin:

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

کیا ہے یار۔۔۔۔۔۔۔اندر کی بات کوئی ایسے بتاتا ہے، لمیاں‌پاے بندا آپکو :mrgreen:
گستاخی معاف

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::ظہیر:: بالکل ٹھیک کہا، میرے استاد بھی یہی کہتے تھے تمہیں درستگی کی ضرورت ہے۔۔۔ اپنے دماغ کی۔۔۔۔ :mrgreen: :mrgreen:
::عمر:: اندر کی بات بتانے پر تو مجھے کوئی ایوارڈ شوارڈ ملنا چاہئے کیونکہ یہاں اندر کی بات بتاتا کون ہے؟؟؟؟‌ ہیں جی۔۔۔ :mrgreen: :mrgreen:
اور گستاخیاں تو آپ کی اتنی ہوگئیں ہیں کہ اب آپ کو بھی کسی این آر او کی ضرورت پڑے گی معافی کے لئے ۔۔۔۔ :wink: :wink:

uncletom نے فرمایا ہے۔۔۔

واہ یہ تو کمال کا سین ہو گیا

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::انکل ٹام::‌ جی نہیں‌۔۔۔ وسیم کا سین ۔۔ کمال کا نہیں۔۔۔ :mrgreen:

تبصرہ کیجیے