ابن صفی - چند تلخ پارے

پھر ایک ایسی بات کہنے والا ہوں جو شاید بہت سے لوگوں کو بہت چبھے۔
میری رائے میں پچھلے ایک سو سال میں اردو زبان کی ترویج اور ترقی میں جتنا ابن صفی کا حصہ ہے ، کسی اور کا نہیں۔ اور اسی ابن صفی کو ادب کے خود ساختہ ٹھیکیدار ادیب ماننے سے انکار کرتے رہے۔
ان کے کچھ اقتباس پیش کررہاہوں، پڑھیے اور سر دھنیے۔۔۔

”مگر تم جو کہتی تھیں کہ تمہیں رمیش سے محبت ہے۔“
”محبت۔۔ محبت تو مجھے تم سے بھی ہے۔“ شِلّی نے بڑی معصومیت سے کہا۔ ”مجھے ہر فضول آدمی سے محبت ہو جاتی ہے۔“
”تو کیا میں فضول ہوں؟“
”ہر وہ آدمی فضول ہے جو کسی مخصوص عورت کے پیچھے وقت اور پیسہ برباد کرتاہے۔“
”کیوں۔۔۔؟“
”اس لئے کہ ہر عورت ۔۔۔ عورت ہوتی ہے۔ چاہے وہ شِلّی ہو یا سڑک کے کنارے گھسٹنے والی مفلوج بھکارن۔“
”مگر وہ شِلّی کی طرح حسین نہیں ہوسکتی۔“
”حسن۔“ شِلّی نے تلخ ہنسی کے ساتھ کہا۔ ”حسن تمہارے کس کام آتاہے۔ حسن سے تمہیں کیا ملتاہے؟“
(گیتوں کے دھماکے)
--------------------------------------------------------------------------------------------

”تم آخر چاہتے کیا ہو؟“
”فقط اتنی سی زمین کہ مرنے کے بعد دفن کیا جاسکوں“
(نیلی لکیر)
--------------------------------------------------------------------------------------------

”کیا تم اسے جانتے ہو؟“
”کیوں نہیں۔ اس کا نام پمیلیا ہے اور میں اسے پیار سے پُمّو کہتاہوں۔“
”پُمّو کہتےہو“۔ حمید نے حیرت سے کہا۔ ”کیا وہ تم سے بے تکلف ہے؟“
”نہیں تو۔ آج تک گفتگو بھی نہیں ہوئی۔ میں ۔۔۔ یونہی بس دل ہی دل میں اسے پُمّو کہتا ہوں۔“
(جنگل کی آگ)
--------------------------------------------------------------------------------------------

تو بیٹے خاں؛ تمہیں محکمہ آرام تو دنیا کے کسی بھی حصے میں نہیں‌ ملے گا۔ ویسے میری نظروں میں ایک ہی جگہ ایسی ہے جہاں آرام ہی آرام ہے۔“
”مجھے اس کا پتہ ضرور بتائیے۔“
”قبر۔۔۔۔“۔
”میں وہاں بھی جانے کو تیار ہوں بشرطیکہ کوئی خوبصورت سی لڑکی میرے ساتھ دفن ہونے کا وعدہ کرلے۔“
”آگئے اوقات پر۔“ فریدی منہ بنا کربولا۔
”میرے باپ دادا کی بھی یہی اوقات تھی جس کا نتیجہ میں بھگت رہا ہوں۔“
(لاشوں کا سوداگر)
--------------------------------------------------------------------------------------------

”چور یا تو پکڑے جاتے ہیں یا عیش کرتے ہیں ۔۔۔ کوئی تیسری بات نہیں ہوتی !“
(ریشوں کی یلغار)
--------------------------------------------------------------------------------------------

”۔۔۔۔ انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کا سب کچھ غلط کر دیا تھا۔ صرف ٹونٹی دار اور بغیر ٹونٹی کے لوٹے کو غلط نہ کر سکے کیونکہ ہندو اور مسلمان صرف اسی ایک بات پر متفق تھے کہ چاہے جان چلی جائے ہم کاغذ ہرگز استعمال نہیں کریں گے۔!“
(پاگلوں کی انجمن)
Comments
35 Comments

35 تبصرے:

محمد وارث نے فرمایا ہے۔۔۔

آپ نے بجا کہا کہ آپ کی اس بات سے بہت سے لوگوں‌ کو اختلاف ہوگا کہ "پچھلے ایک سو سال میں اردو زبان کی ترویج و ترقی میں جتنا ابنِ صفی کا حصہ ہے، کسی اور کا نہیں"۔
میرے خیال میں ابنِ صفی کو سرے سے ادیب ہی نہ ماننا ایک انتہا ہے تو پچھلے سو سالوں میں سب سے بڑا ادیب ماننا ایک ایسا دعویٰ ہے جس کو فقط چند اقتباسات سے ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ یہ بہت بڑا دعویٰ ہے اور دوسری انتہا پر چلا جاتا ہے۔
پچھلے سو سالوں پر اگر ایک اجمالی نظر دوڑائیں تو نثر میں ڈپٹی نذیر احمد، حالی، یلدرم، پریم چند، کرشن چندر، منٹو، عصمت چغتائی، بیدی، قاسمی، انتظار حسین، غلام عباس، اور دیگر بے شمار نام ایسے ہیں جنہوں نے اردو زبان کی ترویج و ترقی کیلیے اپنے اپنے طریقے سے کام کیا ہے، پھر اگر شعراء کا نام لکھنا شروع کروں‌ تو شاید دو چار گھنٹے یہی صرف ہو جائیں :lol:
عرض صرف یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ ابنِ صفی واقعی ایک بڑا اور منفرد نام ہیں، اس میں کوئی شک نہیں‌ اور دیگر عظیم اُدَبا اور شعراء کے ساتھ ساتھ اردو کی ترویھ و ترقی کیلیے انہوں‌ نے بھی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں، جس کیلیے اردو زبان اور اس کو پڑھنے والے انکے زیرِ‌ِ بار ہیں، رہے 'خود ساختہ' ادبی نقاد تو ان پر لعنت بھیجیں، نہ آج تک ایک مصرعہ ان سے موزوں‌ ہوا نہ کوئی تحریر :lol:

راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔

ابن صفی کے قد آور ہونے میں کوئی شبہ نہیں ساتھ ساتھ میں محمد وارث صاحب کی رائے سے مکمل متفق ہوں۔۔ مطلقا تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ابن صفی کا حصہ سب سے بڑا ہے ہم مختلف درجہ بندیوں میں شاید اس طرح کے دعوے کرنے میں حق بجانب ہوں۔

دو نام محمد وارث صاحب کی دی گئی فہرست میں شامل کرنا چاہوں گا۔۔ ابن انشاء‌اور پطرس بخاری۔۔۔ سفرنامہ اور مزاح‌ کو انہوں نے کئی نئی راہیں دکھائیں ہیں۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

وارث صاحب۔۔۔ میں ٹھہرا سدا کا ڈَگ دماغ۔ پھر اپنی بات نہیں سمجھا سکا۔ میں نے لکھا تھا کہ ”اردو زبان کی ترویج اور ترقی“ نہ کہ اردو ادب کی۔
آپ نے جن ادباء کے نام لکھے، اور جن کے نہ بھی لکھ سکے، یہ اردو ادب کی آن، شان اور مٹھا پان ہیں۔۔ :grin: میں اس سے پوری طرح متفق ہوں۔
مثال کے طور پر مجھے مطالعہ کا شوق ابن صفی کے ناولز سے ہی ہوا تھا اس وقت میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ منٹو کون ہے اور منیر نیازی کس بلا کا نام ہے؟ اسی مطالعے کے شوق نے مجھے پھر ادب اور شاعری کا راستہ دکھایا۔ میں نے اسی تناظر میں یہ لکھا تھا۔۔ اور ویسے بھی یہ میری ذاتی رائے ہے۔ اس سے متفق ہونا قطعی ضروری نہیں۔۔۔ :wink:
اور یہ چند اقتباسات دعوی کے ثبوت میں نہیں دیئے گئے تھے بلکہ تفنن طبع کے لئے تھے.. شروع کی دو سطروں میں نے میں نے ویسے ہی اپنا لچ تل دیا تھا... :wink:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

راشد صاحب آنے اور کمنٹنے کا شکریہ۔۔۔ :smile:

بلوُ نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر صاحب آپ جو کہنا چاہتے تھے کم سے کم میں تو سمجھ ہی گیا ہوں :smile:

شازل نے فرمایا ہے۔۔۔

آپ بھی ابن صفی کے چاہنے والے نکلے
میں تو اس شخص پر عاشق تھا
بس اب شادی کرلی ہے نا
اس لئے

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::بلو:: شکریہ ۔۔۔ اس کا مطلب ہوا کہ آپ بھی ڈگ دماغ ہیں۔۔۔ :lol:
گونگے دیاں رمزاں گونگا ای جانے۔۔۔ :mrgreen:
::شازل::‌ ارے صاحب۔۔ ابن صفی کے قتیل تو ان گنت ہیں ۔۔۔ یہ اور بات ہے کہ مانتے ہوئے شرماتے ہیں۔۔
میرے والد بتایا کرتے ہیں کہ ان کے ایک ان پڑھ دوست نے صرف ابن صفی کے ناول پڑھنے کے لئے اردو لکھنا پڑھنا سیکھا تھا۔۔۔ پہلے وہ اپنے کسی دوست کا منت ترلا کرکے ان سے پورا پورا ناول سنا کرتے تھے۔۔ یہ ہوتی ہے چاہت۔۔۔
:smile:

شازل نے فرمایا ہے۔۔۔

یار یہ کیا بات ہے کہ ایک ہی ناول کو بار بار پڑھو اور پھر بھی وہ لطف اور مزا جو سہاگ کی ۔ ۔ ۔
میں تو اس کی وجہ ہی سے نئے افق اور نیا رخ پڑھتا تھا اب ایک زمانہ ہو گیا ہے ڈائجسٹوں کو چھوئے ہوئے بھی

ڈفرستان کا ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

میں ابن صفی کے آپ کے بیان کردہ کسی حصے کو کم نہیں‌کرنا چاہوں گا
لیکن وارث صاحب کی بات بالکل درست ہے کہ چند اقتباسات سے کچھ ثابت کرنا مشکل ہے
ویسے میں نے ابن صفی کو نہیں پڑھا :mrgreen: میری اردو پڑھنے کی پیاس شروع ہوئی نسیم حجازی اور رضا علی عابدی کو پڑھنے کے بعد

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::شازل::‌ یہی ادب کی نشانی ہے۔۔۔ غالب کی غزل ہزاروں بار پڑھیں ہر بار بھی ایک نیا لطف ملتا ہے۔۔۔ اگر آپ آن لائن پڑھنا چاہتے ہیں ابن صفی کے ناول تو میں آپ کو لنک دے سکتاہوں۔۔۔ جہاں‌سے آپ ڈاونلوڈ بھی کرسکتے ہیں۔۔۔
::ڈفر:: میریا سوہنیا ۔۔۔ میں نے وارث صاحب کے تبصرے کے جواب میں بھی لکھا تھا کہ یہ اقتباسات کچھ ثابت کرنے کے لئے نہیں تھے۔۔۔ صرف لطف اندوز ہونے کے لئے تھے ۔۔۔ اگر وہ تبصرہ پڑھ لو تو تمہارے لئے بھی مضمون واحد ہے۔۔۔
رضا علی عابدی میرا بھی فیورٹ ہے۔۔۔ نسیم حجازی کو سولہ سال کی عمر کے بعد پڑھنا، میرے نزدیک گناہ کبیرہ ہے۔۔۔ :mrgreen:
پڑھو یار۔۔۔ ابن صفی کو۔۔۔ اگر مزا نہ آئے تو میرا نام رحمان ملک رکھ دینا۔۔۔ :lol:

شازل نے فرمایا ہے۔۔۔

اگر ابن صفی کسی دوسرے ملک میں پیدا ہوتا تو دوسرے عالمی شہرت یافتہ اس کے آگے پانی بھرتے نظر آتے

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::شازل:: agreed :smile:

مزمل ھندی نے فرمایا ہے۔۔۔

ابن صفی پر تنقید سراھنے کے ظرف کی کمی کی وجہ سے ہے۔

مزمل ھندی نے فرمایا ہے۔۔۔

ابن صفی پر تنقید سراھنے کے ظرف کی کمی کی وجہ سے ہے
ابن صفی کے فن تک رسائ کے لیے،ان ہی کی سی ذھانت درکار ہے
ابن صفی کے ناول سائنس فکشن کا بھی درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی تحاریرمیں مذکور بہت سی ایجادات حال میں منظر عام پر آئ ہیں۔
وہ بیک وقت انسانی نفسیات،سائنسی ایجادات،بذلہ سنجی،حاضر جواپی اور بے مثال ذہانت کے امتزاج سے وہ رنگ پیدا کرتے ہیں کہ پڑھناشروع کرنے کے بعد رکنا محال ہو جاتا ہے۔۔۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

خوش آمدید مزمل صاحب
بالکل متفق ہوں‌ آپ سے
ابن صفی ایک نابغہ روزگار تھے

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر ، ذرا مجھے بھی ابن صفی کے ناولز والا لنک دے دیجئے گا۔ ایک قتیل یہاں بھی ہے۔ :oops:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ لیجئے جناب لنک
http://www.esnips.com/web/NovelsOfIbneSafi
:smile:

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت بہت شکریہ،

آپ کا بلاگ بلاگ رول میں جمع کر دیا گیا ہے۔

قوعقو نے فرمایا ہے۔۔۔

تو بیٹے خاں؛ تمہیں محکمہ آرام تو دنیا کے کسی بھی حصے میں نہیں‌ ملے گا۔ ویسے میری نظروں میں ایک ہی جگہ ایسی ہے جہاں آرام ہی آرام ہے۔“
”مجھے اس کا پتہ ضرور بتائیے۔“
”قبر۔۔۔۔“۔
”میں وہاں بھی جانے کو تیار ہوں بشرطیکہ کوئی خوبصورت سی لڑکی میرے ساتھ دفن ہونے کا وعدہ کرلے۔“
”آگئے اوقات پر۔“ فریدی منہ بنا کربولا۔
”میرے باپ دادا کی بھی یہی اوقات تھی جس کا نتیجہ میں بھگت رہا ہوں۔“
(لاشوں کا سوداگر)

قوعقو نے فرمایا ہے۔۔۔

ابن صفی بیچارے تو علی عمران اور ایکسٹو کے کردار تخلیق کرکے اس جہاں سے رخصت ہوگئے۔۔ان کے بعد جس کا دل کیا اس نے اپنی عمران سیریز شروع کر دی۔ اس کے ساتھ کسی حد تک انصاف مظہر کلیم ایم اے نے کیا ہے۔ جوزف اور جوانا کے کردار بھی انہی کی اختراع ہیں۔ مظہر کلیم کمال طریقے اپنے ناولوں میں سڈنی شیلڈن اور جیفری آرچر وغیرہ کے پلاٹ‌ استعمال کرتے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ آج کل کتنی عمران سیریزیں لکھی جا رہی ہیں۔ آخری مرتبہ غالباً میں نے عمران سیریز کا ناول بائیس سال قبل پڑھا تھا۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

بلاگ پر خوش آمدید ۔۔
ایک تصحیح کردوں۔۔۔ جوزف کا کردار ابن صفی کا ہی تخلیق کردہ ہے، البتہ جوانا کا کردار مظہر کلیم نے متعارف کروایا تھا۔۔۔
امید ہے آپ اپنی قیمتی رائے سے مستفید کرتے رہیں گے

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

مزمل ہندی صاحب۔۔۔
بہت عمدہ مضمون شئیر کیا آپ نے۔۔۔
اگر آپ اجازت دیں تو اسے پوسٹ کی صورت میں شائع کردوں۔۔۔

مزمل ھندی نے فرمایا ہے۔۔۔

آپ کی خواہش کا احترام کرتا ہوں جعفر بھائ! بخوشی شاءع فرمائں-

مزمل ھندی نے فرمایا ہے۔۔۔

بھيانک آدمی ابن صفى کی عمران سيريز کا چوتھا ناول ہے۔


ناول کا خلاصہ
ساحل کے کنارے بندرگاہ کے پاس اے بی سی ہوٹل کے سامنے ايک بيابان علاقہ ہوتا ہے، جس پر رات ہوتے ہی ايک گمنام آدمی کی حکومت چھاجاتی ہے۔ عمران اپنی حماقتوں سميت اے بی سی ہوٹل وارد ہوتا يے اور آتے ساتھ ہی اس کی حماقتيں گل کھلانا شروع کر ديتی ہيں۔

روشی ہوٹل کی ايک ميز پر بيٹھی خاموشی سے عمران کو ديکھ رہی ہوتی ہے اور دل ہی دل ميں عمران کی حماقتوں سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہے۔ آخرکار اس سے رہا نہيں جاتا اور وہ عمران کی ميز پر جا بيٹھتی ہے۔

جب عمران بيابان علاقے ميں پچاس ہزار روپے اپنی جیبوں ميں ٹھونسے جانے لگتا ہے، تو وہ اسے روکنے کی بہت کوشش کرتی ہے، مگر عمران اس کی ايک نہيں سنتا۔ عمران پر قاتلانہہ حملہ ہوتا ہے اور وہ لٹ لٹا کر ہوٹل واپس پہنچتا ہے۔

آخر کار عمران اس آدمی کا پتہ لگا ليتا ہے جس کی حکومت رات کو اس علاقے ميں ہوتی ہے۔ وہ ايک سمگلر ہوتا ہے جو رات کو اسی علاقے سے اپنے سمگلشدہ مال کو گوداموں ميں پہنچاتا تھا اور اس علاقے کو اپنی غیرقانونی سرگرميوں کے لئيے صاف کرنے کے لئيے اس نے اس علاقے ميں رات کو دہشت پھيلا رکھی تھی۔

عمران ايک خونريز ٹکرائو ميں مرتے مرتے بال بال بچتا ہے۔ مگر بالآخر سمگلر اور اس کا گروہ پکڑے جاتے ہيں۔

آخر ميں عمران روشی کو اپنے ساتھ ہی لے جاتا ہے۔

‘‘http://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%DA%BE%DB%8C%D8%A7%D9%86%DA%A9_%D8%A2%D8%AF%D9%85%DB%8C’’ مستعادہ منجانب

مزمل ھندی نے فرمایا ہے۔۔۔

پتھر کا خون ابن صفى کی عمران سيريز کا گیارھواں ناول ہے۔

ناول کا خلاصہ
محکمئہ خارجہ کی سیکرٹ سروس کا سربراہ علی عمران، سیکرٹ سروس کے دیگر آٹھ مبران کی مدد سے ایک ایسے ملک دشمن منضم گروہ کا پتہ لگاتا ہے، جو ملک کی تباہی کے لئیے اعلی حکومتی افسران کو اغوا کرتا ہے اور انہیں نجی جیلوں میں بند کر دیتا ہے۔ اس کے بعد ان پر بیپناہ تشدد کر کہ ان سے ملک کے خفیہ رازوں کا پتہ لگایا جاتا ہے۔

اسی دوران جولیانا فٹزواٹر ان ضالم لوگوں کے ہاتھ آجاتی ہے اور وہ اسے تشدد کا نشانہ بنانے کی نیئت سے اغوا کر لیتے ہیں۔ عمران عین موکہ پر پہنچ کر جولی کو بچا لیتا ہے۔ مگر وہ اسے پھر بھی معاف نہیں کرتی کیونکہ وہ کہتی ھے کہ عمران کو اس کی مدد کے لئیے اتنی دیر نہ کرنی چاہئیے تھی۔

عمران گروہ کے دونوں لیڈروں کو پکڑ لیتا ہے۔ مگر ایکسٹو کے آدمی عمران کو ذلیل کرنے کے بعد اس سے ان کو چھین لیتے ہیں اور عمران روتا رہ جاتا ہے۔ انھیں یہ نہیں پتہ ہوتا، کہ دراصل عمران ہی ان کا سربراہ ایکسٹو ہے اور وہ دل ہی دل میں قہقہے لگا رہا ہے۔

‘‘http://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%AA%DA%BE%D8%B1_%DA%A9%D8%A7_%D8%AE%D9%88%D9%86’’ مستعادہ منجانب

مزمل ھندی نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر بھائی یہ سپ ان لوگوں کے لیے ھے جو ابن صفى سے اب بھی خاطر خواہ دلچسپی نھیں رکھتے۔

مزمل ھندی نے فرمایا ہے۔۔۔

قبر اور خخبر ابن صفى کی عمران سيريز کا تیرھواں ناول ھے۔


جب سر سلطان کے قریبی دوست کرنل جوزف کا قتل ھو جاتا ھے تو سر سلطان عمران کو طلب کرتے ھیں۔ کرنل جوزف کے جسم میں ایک خخبر پیوست ھوتا ھے جو کبھی ٹپ ٹاپ نايٹ کلب کی ایک رقاسا ممی بیڈ فرڈ کا ھوا کرتا تھا۔

عمران تفتیش شروع کرتا ھے اور کیپٹن فیاض کا پیچھا کرتے کرتے ٹپ ٹاپ نايٹ کلب پہنچ جاتا ھے۔ یہاں پر اسے سونیا کا پتا چلتا ھے جو سونیاز کارنر کی مالکا ھوتی ھے اور کسی زمانے میں ممی بیڈ فرڈ کی قریبی دوست بھی رہ چکی ھوتی ھے۔

عمران ممي کي قبر پر جاتا ھے مگر کچھ خاص معلوم نہیں کر سکتا۔ وہ سونياز کارنر جاتا ھے اور سونيا سے ملتا ھے۔ وہ اسے ان چھے آدميوں کے متعلق بتاتي ھے جنھوں نے پندرہ سال قبل ممي بيڈ فورڈ کو زنا بلجبر کا نشانا بنانے کے بعد اسے قتل کرکے اس کي لاش کو پھينک ديا تھا۔

ابھي عمران سونيا سے باتيں کر ھي رھا ھوتا ھے کے پارکر نامي ايک آدمي کمرے ميں اتا ھے اور عمران سے لڑ پڑتا ھے۔ عمران اس کا اور سونيا دونوں کا مار مار کر بھرکس نکال ديتا ھے اور ان دونوں کو بيھوش حالت ميں چھوڑ کر چلتا بنتا ھے۔

جوليانا فٹزواٹر رابطا قام کرکے ايکس ٹو يعني عمران کو کرنل جوزف کے گھر ميں دريافت ھونے والے ايک خفيا کمرے کے بارے ميں بتاتي ھے جھاں پر يوں لگتا ھے کے جيسے کسي کي زبردست جھڑپ ھوي ھو۔

اتنے میں عمران کو فیاض سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں پتا لگتا ھے جو ممی کی قبر پر دیکھا گیا ھے۔ عمران اس کو آمادہ کرتا ھے کے وہ اخبار میں اس کا حلیا چھپوا دے۔

رات کو جب عمران جوزف لاج تفتیش کررھا ھوتا ھے تو اسے ایک میز کے خفیا خانے سے انتہاءی نازک نویت کی حکومتی دستاویزات ملتی ہیں۔ عمران اپنے باس سر سلطان کو ان دستاويزات کے بارے میں فون پر بتاتا ھے اور وہ اسے فورا طلب کرتے ھیں۔ عمران سر سلطان سے اگلواتا ھے کے کس طرح انھوں نے ایک نوجوان حسینا کے عشق میں مبتلا ھو کر ان دستاویزات کو کھویا اور وہ کتنا شرمندہ ھیں۔ وہ بتاتے ھیں کے اس لڑکی کا نام گلوریا کارٹر ھے۔

اب عمران کو گلوریا کی تلاش ھوتی ھے کیونکے کاغزات میں سے دہ کلاز غاءب ھوتے ھیں جنھیں ڈھوندھنا سخت ضروری ھوتا ھے۔ اخرکار عمران گلوریا سے مل بیٹھتا ھے اور خوب اس کا ناک میں دم کرتا ھے۔

انسپکٹر پرویز ایک مشتبا آدمی کا تعاقب کرتے کرتے ایک ہوٹل پہنچتا ھے جہاں پر دو آدمی اسے دیکھ کر گھبرا جاتے ھیں۔

جولیا ایکسٹو کو بتاتی ھے کے پارکر گلوریا کے ساتھ دیکھا گیا ھے اور اس نے آدھا گھنٹا اس کے گھر کے اندر گزارا ھے۔ کیپٹن جعفری بتاتا ھے کے کارٹر گلوریا کے گھر سے نکلنے کے بعد سیدھا سونیاز کارنر گیا تھا اور وہ وہیں رہتا بھی ھے۔ جوليا ايکسٹو کو بتاتي ہے کے پارکر اور گلوريا کا منٹو پارک کے اندر جھگڑا ہو گيا ہے۔ اتنے ميں کيپٹن جعفري کا فون اتا ہے اور وہ خبر ديتا ہے کے پارکر کا پيچھا کرتے کرتے وہ چيري بلاسم کلب گيا تھا جہاں اس نے پارکر کو گلوريا کے قتل کا منصوبا بناتے ہوہے سنا ہے۔

عمران چھے بجے چيري بلاسم پہنچ جاتا ہے اور گلوريا کو اس کے قتل کے منصوبے کا بتا کر اس کا اعتماد حاصل کرنے کي کوشش کرتا ہے۔ گلوريا بڑي چالاکي سے شراب پينے کي اداکاري کرتي ہے اور تھوڑي سي شراب چپکے سے اپنے بٹوے ميں رکھ کر عمران کے ساتھ اپنے گھر اجاتي ہے۔ جب وہ اپني بلي کو وہي شراب پلاتي ہے تو بلي تڑپ تڑپ کر مر جاتي ہے۔ گلوريا ششدر رہ جاتي ہے اور اب اسے عمران پر يقين ا ہي جاتا ہے۔

عمران کے ضور دينے پر وہ آخرکار خفيا دستاويزات کے بقيا دو کلاز بھي عمران کے حوالے کر ديتي ہے۔ گلوريا سے مزيد معلوم ہوتا ہے کے کرنل جوزف اور پارکر اصل ميں اکٹھے کام کررہے تھے اور پارکر نے انہيں تشدد کے دوران غلطي سے جان سے مار ديا تھا جب کے وہ صرف ان سے وہ خفيا دستاويزات ہتھيانا چاہتا تھا جو عمران نے کرنل جوزف کے گھر ميں اتفاقا ڈھونڈھ نکالي تھيں۔ کرنل جوزف ان چھے آدميوں ميں سے ايک تھا جنھون نے ممي بيڈفورڈ کے ساتھ زيادتي کي تھي۔ پارکر نے موقعے کا فايدہ اٹھانے کا سوچا اور ان کے مردہ جسم ميں ممي بيڈفورڈ کا چاقو اس ليے گھونپ ڈالا تاکے وہ بقيا پانچ آدميوں کوخوفزدہر کر سکے اور وہ اسے رقوم ادا کرتے رہيں۔

پارکر کو سونیاز کارنر پر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اور آخر ميں عمران گلوريا کو سر سلطان کے پاس لے جاتا ہے اور وہ ان سے ان کو دھوکا دينے کي معافي مانگتی ہے۔ اس طرح عمران سر سلطان کو بدنامي سے بچا ليتا ہے اور ملک کو لاحق خطرہ بھی ٹل جاتا ہے۔

‘‘http://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A8%D8%B1_%D8%A7%D9%88%D8%B1_%D8%AE%D8%AE%D8%A8%D8%B1’’ مستعادہ منجانب

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::مزمل:: واہ صاحب۔۔۔ کیا بات ہے۔۔۔ بہت شکریہ ان زبردست ریویوز کے لئے۔۔۔

مزمل ھندی نے فرمایا ہے۔۔۔

ایک زمانہ تھا کہ دنیائے ادب میں "اسرار ناروی" کا نام بڑا مقبول ہو رہا تھا۔ اس جیسے ابھرتے ہوئے شاعر سے نقادانِ فن کو خاصی توقعات وابستہ ہو چلی تھیں۔ اور بقول مجنوں گورکھپوری :
خانوادہ نوح ناروی کے اس سپوت کی اُٹھان بڑی خوش آئیند تھی !
عین اسی زمانے میں ، جبکہ "طغرل فرغان" کے طنزیہ و مزاحیہ شہ پارے بھی قبولیتِ عام کی سند پا رہے تھے کہ اچانک یہ دونوں نام (اسرار ناروی اور طغرل فرغان) دنیائے ادب سے ناپید ہو گئے۔
یہ ہندوستان پر سے برطانوی اقتدار ختم ہونے سے کچھ دنوں پہلے کی بات ہے۔ مندرجہ بالا دونوں نام ختم ہو جانے کے بعد ایک تیسرا نام ابھر کر سامنے آیا :
ابن صفی (بی۔اے)
جو جاسوسی کہانیوں کے سلسلے میں بڑا مشہور ہو رہا ہے۔ یہ تینوں نام : اسرار ناروی ، طغرل فرغان اور ابن صفی ۔۔۔ دراصل ایک ہی شخص "اسرار احمد" کے قلمی بہروپ تھے۔
پہلے دو ناموں کو اسی شخص کا تیسرا قدآور نام "ابن صفی" نگل گیا۔ صرف "ابن صفی" ہی کہنا کافی نہیں ، "بی۔اے" کا دُم چھلا بھی ساتھ لگا ہوا ہے جو ایک طرح کا تخلص ہو کر رہ گیا ہے۔ جس طرح ابن صفی کے ساتھ بی۔اے چپک کر رہ گیا ہے اسی طرح جاسوسی ادب کے ساتھ ابن صفی کا نام ایسا لازم و ملزوم ہو گیا ہے کہ یہ نام لئے بغیر اردو میں جاسوسی ادب کا کوئی تذکرہ مکمل ہی نہیں ہو سکتا۔

ابن صفی کا پُراسرار نام اختیار کرنے میں اسرار احمد صاحب کی انفرادیت پسند افتاد طبع کو بھی خاصا دخل رہا ہے۔ وہ تنوع کے شائق ہیں اس لئے جدت طرازیاں فرماتے رہتے ہیں۔
شعر و ادب کے دبستان سے ازخود جِلا وطنی اختیار کرنے کا بھی کچھ یہی سبب رہا ہے۔ اپنے لئے علیحدہ راہ نکالنے کے شوق نے سرّی ادب کے خارزار میں آبلہ پائی کرائی۔ انہوں نے ایک ایسے زمانے میں سرّی ادب کے شعبہ میں قدم رکھا جب چند منشی قسم افراد کے غیرمعیاری تراجم و طبع زاد ناولوں کے گھٹیا پن کی وجہ سے اس صنف کو خارج از ادب سمجھا جاتا تھا۔
اس زمانے میں جاسوسی ناولوں کے نام بمع عرفیت ہوا کرتے تھے مثلاً : فومانچو کی بیٹی عرف سنہری جوتا۔ :00006:

اسی بنا پر اسرار احمد صاحب نے "ابن صفی۔ بی اے" کا قلمی نام اختیار کیا تاکہ نام کی معقولیت اور تعلیم کی سند سے قارئین کو ناول کے معیاری ہونے کا احساس ہو۔ اس کے ساتھ ہی ان کے ذہن میں یہ خیال بھی موجود تھا کہ اگر یہ تجربہ ناکام ہو جائے تو اس کی زد میں صرف "ابن صفی" آئے ، اسرار احمد ، طغرل فرغان اور اسرار ناروی محفوظ رہیں۔
لیکن ہوا یہ کہ تجربہ نہ صرف کامیاب رہا بلکہ "ابن صفی۔ بی اے" ایسا مقبول ہوا کہ بقیہ تمام ناموں پر غالب آ گیا۔

ابن صفی نے اپنے لئے ایک نئی راہ ڈھونڈی اور اس شعبہ (سرّی ادب) کے اجارہ دار منشیوں کی اجارہ داری ختم کر کے سری ادب کی اہمیت اور مقام کو تسلیم کروا لیا۔

(افتخار جمیل کے مضمون سے اقتباس)

راشد اشرف نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت خوب - یہاں صفی صاحب ک چاہنے والے موجود ہیں - لگے ہاتھوں ہماری صفی صاحب پر بنائی گئی ویب سائٹ بھی دیکھ لیں:

www.wadi-e-urdu.com

خیر اندیش

راشد اشرف

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::راشد اشرف:: خوش آمدید جناب
ابن صفی کے چاہنے والے تو ہرجگہ موجود ہیں‌جی۔۔۔
آپ کی سائٹ بہت عمدہ ہے۔۔۔

راشد اشرف نے فرمایا ہے۔۔۔

جناب ابن صفی کے پیشرس سے ایک چشم کُشا اقتباس - دور ابتلا میں مبتلا عصر حاضر کے چاک گریبانوں و حرماں نصیبوں کو مصنف کا نیک مشورہ -- وہی سادہ اور دلنشیں انداز کہ جس کے لیے ہم سب صفی صاحب کے چاہنے والے سراپا رہن عشق ہیں:

"خالق کائنات، اشرف المخلوقات کو ہر آن سرگرم عمل دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے انہیں یکسانیت کا شکار نہیں ہونے دیتا۔۔۔خوشی اور غم کے یہی وقفے ہمیں آگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ بخشتے ہیں، کامرانی کی نئی منزلوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔۔۔

غموں کو آہ و زاری کے سپرد کرنے کے بجائے مستقبل کی سوچو کہ دوبارہ غم پلٹ کر تمہاری طرف نہ آنے پائے۔۔۔ مسرت کو قہقہوں کا نوالہ نہ بناؤ بلکہ اس انرجی کو اس تگ و دو میں صرف کردو کہ وہ مسرت اب تم سے چھننے نہ پائے۔۔۔"

راشد اشرف نے فرمایا ہے۔۔۔

دوستو! استاد محبوب نرالے عالم کو ابن صفی صاحب نے ایک لازرال کردار بنا ڈالا ---- آُپ محبوب نرالے عالم کے نام سے جانے جاتے تھے، 2005 میں انتقال کیا اور صفی صاحب کے اہل خانہ بھی تب سے لاعلم تھے کہ آخر استاد کے ساتھ کیا معاملہ ہوا، آخری وقت کہاں گزرا، کس نے داد رسی کی، مدفن کہاں ہے وغیرہ وغیرہ --- الحمد اللہ، یہ تلاش بارآور ثابت ہوئی اور اب آپ پڑھ سکتے ہیں استاد پر ایک عدد مضمون جسے اس خاکسار نے تحریر کیا یے، پتہ ہے: (مضمون کے علاوہ استاد سے متعلق مواد اس قدر بھرپور مقدار میں دستیاب ہے کہ بقول محمد حنیف صاحب، اس کی مدد سے تو استاد پر ایک ویب سائٹ شروع کی جاسکتی ہے:
http://ibnsafi.blogspot.com/

راشد اشرف نے فرمایا ہے۔۔۔

ابن صفی صاحب کے حوالے سے یہ سوال کہ صفی صاحب نے ایکسٹو کا نام ایکسٹو کیوں رکھا تھا ?

راشد اشرف نے فرمایا ہے۔۔۔

دوستو!
مشتاق احمد قریشی صاحب کی ابن صفی صاحب پر نئی کتاب "دو بڑے" چھپ کر تیار ہے، عنقریب مارکیٹ میں دستیاب ہوگی --- کتاب کی قیمت دو سو روپے ہے اور اسے قریشی صاحب نے خود چھاپا ہے - یہ کتاب ابن صفی اور ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کے فن کا احاطہ کرتی ہے
مشتاق احمد قریشی صاحب نے ہمیں مذکورہ کتاب کی ایک کاپی مرحمت کی ہے جسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ یہ دراصل ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کے صفی صاحب کی عمران سیریز کے 19 ناولز پر ان کی لکھی دلچسپ رائے کا مجموعہ ہے

تبصرہ کیجیے