آر یا پار

ہم لوگوں میں کوئی مینو فیکچرنگ فالٹ ہے ضرور۔ہم بیچ کے راستہ اور درمیانی راہ سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے مچھر موسپل سے بھاگتاہے۔ بھٹو کو ولن بنایا تو اس کے مرنے کے بیس سال بعد تک اسے سولی پر لٹکائے رکھا۔ اب اسے ہیرو بنایا ہے تو ایسے لوگ بھی اس کے تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں جو اپنے پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے اسے پھانسی دینے کے مطالبے کرتے تھے۔
ہم انسان کو انسان سمجھنے سے انکاری ہیں۔ لہذا ہم نے انسان کو فرشتے اور شیطان میں بانٹ دیا ہے۔ ضیاء الحق سے خوش ہوئے تو اسے مرد مومن مرد حق کا خطاب دے دیا ، ناراض ہوئے تو ”وینگی مُچھ تے کانی اکھ ضیاء الحق ضیاء الحق“ کا نعرہ بلند کر دیا۔
روزمرہ کے معاملات دیکھ لیجئے، ہم سب کے اندر ایک چھوٹا سا رب چھپا بیٹھا ہے جو اپنے جاننے والوں سے مکمل بندگی کا تقاضا کرتاہے۔ ہم اپنے دوستوں سے چاہتے ہیں کہ ہماری ہاں میں‌ہاں ملائیں جس سے ہم ملیں اسے سے وہ بھی دوستی رکھیں اور جو ہمیں پسند نہ ہو اسے وہ بھی رد کر دیں۔
رشتے داری میں بھی یہی رنڈی رونے ہیں۔ خاندان میں کوئی شادی ہو تو ہماری شرطیں ہوتی ہیں، کہ خالو رشید کو بلاؤ گے تو میں نہیں آؤں گا اور ماموں حفیظ کو نہیں بلاؤ گے تو پھر بھی نہیں آؤں گا۔
کسی مولانا سے یہ کہہ کر دیکھیں کہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے بھی ہو تو نماز ہو جاتی ہے تو وہ وہیں بیٹھے بٹھائے آپ کو ہنود و یہود لابی کا سرگرم رکن ثابت کردیں گے۔
دوسروں کے ایمان پر شک کرنا ہمارا قومی کھیل بن چکا ہے۔
”سب بے ایمان ہیں ایک میں ہی ایماندار ہوں“ ہمارا قومی ماٹو بن گیا ہے۔
کچھ ہے ضرور ۔۔۔ یا تو ہمارے جینز میں خرابی ہے یا آب و ہوا میں یا خوراک میں یا پھر دماغ میں ۔۔کوئی چیز ایسی ضرور ہے جو ہمیں آر یا پار کے طرز فکر پر مجبور کرتی ہے۔۔
سوچ سوچ کر تھک چکا ہوں۔۔
لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا
کہ آخر ہمارے ایسا ہونے کی کیا وجہ ہے؟؟؟؟‌
Comments
11 Comments

11 تبصرے:

افتخاراجملبھوپال نے فرمایا ہے۔۔۔

آپ اتنی چلدی گبھرا گئے ۔ میں پچاس سال میں معلوم نہیں کر سکا

کامران اصغر کامی نے فرمایا ہے۔۔۔

او یار یہ سب انا پرستی ہے میرے بھائی آج کے دور میں واقعی ہر آدمی کی اپنی ایک دنیا ہے اور اپنا ایک خدا شیطان کا مجھے پتا نہیں اس کی ضرورت ہے کہ نہیں کیوں کہ اس کے حصے کا کام آدمی خود کر لیتا ہے بے چارہ شیطان یقینا اللہ سے معافی کا طلب گار ہو گا اور کہ رہا ہو گا کہ یا اللہ ویلا ( فارغ ) بیٹھ کے تنگ آگیا ہوں مجھے کسی اور دنیا میں بھیج دے۔اگر ہم دوسروں کے لیے جینا شروع کر دیں تو یہ بدل سکتا ہے مگر بدلے گا نہیں کیوں کہ ہم مسلمان ہیں۔۔۔۔۔۔۔ :sad:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

افتخار صاحب۔۔۔ گھبرایا نہیں، تھک گیا ہوں۔۔۔ لیکن دم لے کر پھر شروع ہو جاؤں گا۔۔۔ ٹلوں گا نہیں جب تک پتہ نہیں‌ چلتا۔۔۔ :smile:
::کامی:: سوال گندم، جواب چنا ۔۔۔ :mrgreen: :mrgreen: :mrgreen:

محمد وارث نے فرمایا ہے۔۔۔

واقعی بجا بات ہے، انتہا پسندی ہماری زندگی کے ہر رویے، ہر زاویے، ہر گوشے، ہر معاملے میں در آئی ہے!

شازل نے فرمایا ہے۔۔۔

آپ کے خیالات بہت عمدہ ہیں مجھے اپنی جوانی یاد آرہی ہے
ایک جگہ آُ پ نے "رنڈی رونے ہیں" کا لفظ استعمال کیا ہے
یہ کچھ جچ نہیں‌رہا اگر اسے تبدیل کردیں کسی مناسب لفظ سے تو کیا بات ہوگی
شکریہ

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

ایک واری فیر سنجیدہ گل :mrgreen: لے فیر میری پُھل جڑیاں سنڑ :mrgreen:
جناب جی! یہ تو مجھے نہیں‌پتہ کہ ہم ایسا کیوں‌کرتے ہیں، لیکن یہ ضرور پتہ ہے کہ کیسے کرتے ہیں، مطلب ہمارے ہاں‌جو طرز فکر کی بات کریں‌تو وہ بنیادی طور پر جذبات کے ساتھ منسلک ہوتی ہے، جو کہ سراسر حماقت ہے۔
ایسا نہیں‌ہے کہ جذبات نہیں‌ہونے چاہیے، جذبات ضرور ہوں‌لیکن جذبات میں‌بہنا نہیں‌چاہیے، مثلاً‌بھٹو صاحب کے کافی متوالے ان کے نام اور شہادت کی وجہ سے ووٹ‌ڈالتے ہیں‌نہ کہ پیپلز پارٹی کی پالیسیوں‌کے لیے۔
دوسری بات یہ کہ ہم اگر اپنے اندر چھوٹا سا رب پالتے ہیں، تو اس کی وجہ تربیت یا ہمارا ماحول ہے، ہم میں‌سے اکثریت لوگ کبھی بھی "فنا"‌کے عمل سے نہیں‌گذرتے یا پھر کبھی کوشش نہیں‌کرتے۔ اس کو میں‌واضع ایسے کروں‌کہ ناکامی کا منہ دیکھنا دراصل بڑی بھاگوان بات ہوتی ہے، انسان اپنا جائزہ لیتا ہے اور اپنی سمت کو ازسرنو ترتیب دینا شروع کر دیتا ہے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ، گھر، دوست، احباب ہمیں‌شہ دیتے ہیں‌کہ جی تو کیسے ناکام ہو سکتا ہے۔ نتیجہ ایک چھوٹا سا رب، کیونکہ رب کبھی ناکام نہیں‌ہوتا ناں، :oops: سنڑے نیں‌فیر میرے خطبے :mrgreen:
بھیے، بھاویں‌اے تیری پوسٹ‌دا جواب نہ ہووے، میں‌دل دی بھڑاس کڈ دتی اُو :twisted:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::وارث::‌ اس کا کوئی حل بھی ڈھونڈنا چاہئے۔۔۔
::شازل::‌ :smile: ارے صاحب ۔۔۔ آپ ابھی بھی جوان ہی ہیں۔۔۔ دل چھوٹا مت کریں۔۔۔ :smile:
پنجابی میں رنڈی، بیوہ کے لئے بھی استعمال کیا جاتاہے اور یہ محاورہ اسی سیاق وسباق میں دیکھیں تو برا نہیں لگے گا۔۔۔ :smile:
:؛عمر:: تحریر میں ٹون تو نہیں ڈال سکتا۔
تمہارے تخیل پر چھوڑتا ہوں۔۔۔
ملاحظہ ہو۔۔۔
اے کون پیا بولدا اے۔۔۔ اے کون پیا بولدا اے۔۔۔ اے کون ن ن ن پیا بووووووولدا اے۔۔۔ ۔اے اپنے عمر لالا نیں۔۔ اے کی پئے آکھدے نیں ۔۔ اوئے مسلماناااااااااااا!! اے تینوں پئے سمجھاوندے نیں ۔۔۔ اوئے توں سمجھدا کیوں‌ نیئں ۔۔ اوئے توں بندے دا پتر کیوں نہیں بندا۔۔
:mrgreen: :mrgreen:

شازل نے فرمایا ہے۔۔۔

واہ کیا بات ہے
ویسے ایک لطیفہ یہ بھی بنتا ہےکہ کسی بیوہ عورت کو رنڈی کہہ کرپکاریں
اور وہ جوتا لے سر ڈھونڈنے چل پڑے
ویسے آپ کی بات درست ہے
رانڈ بھی مناسب لفظ ہے

ڈفرستان کا ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں
اور اس مسئلے پر ایک عمدہ تحریر فیصل صاحب نے بھی لکھی ہے
جس میں اس کا حل بھی موجود ہے
فیصل صاحب ملیں گے اس پتے پر
http://shahfaisal.wordpress.com

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::ڈفر:: میرا یہی سوال ہے کہ کیوں سمجھتے ہیں عقل کل۔۔۔؟؟؟؟
فیصل کی پوسٹ پڑھی ہے میں‌ نے اور بہت خوب لکھا ہے انہوں نے۔۔۔ :smile:

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ آپ نے ٹون ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ کیا؟ :mrgreen:

تبصرہ کیجیے