ان کا تو صرف ہاتھ ہی پکڑا تھا مجھے تو آنکھ بھی مار دی۔۔۔ بس پھر صاحب ..... پڑھنی پڑی۔۔۔
دیکھئے کیا زبردست شاعری ہے۔۔۔
رات کٹتی ہے کسی خوف کی نگرانی میں
دن گزرتا ہے کسی اور پریشانی میں
بات کرنا تو الگ ، بات وہ سنتا بھی نہیں
ہم جسے اپنا کہے جاتے ہیں نادانی میں
کوئی تو ہو جو ہمیں بھیڑ سے باہر لے جائے
گم ہوئے جاتے ہیں خلقت کی فراوانی میں
یہ زمیں صورت افلاک ہوا کرتی تھی
یہ زمیں خاک ہوئی خاک کی ارزانی میں
کیسی مٹی ہے، پڑی رہتی ہے مٹی ہوکر
کیسا پانی ہے کہ پانی ہی نہیں پانی میں
(کوثر علی)