دیر

”آپ کی والدہ حیات ہیں؟“ لا ابالی نظر آنے والے اس شخص نے ڈرائیور سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟“ ڈرائیور کے لہجے میں حیرت آمیز برہمی تھی۔
ٹھہریئے!
میرے خیال میں‌ ، ابتداء سے یہ قصہ شروع کرتے ہیں۔
وہ شخص شہر کے مرکزی علاقے سے ویگن میں‌ سوار ہوا تھا۔ اس کو آخری سٹاپ تک جانا تھا۔ خوش قسمتی یا بد قسمتی سے، اسے فرنٹ سیٹ مل گئی۔ جینز ، ٹی شرٹ میں ملبوس وہ شخص اپنے ارد گرد سے لا تعلق نظر آتا تھا۔ حرکات و سکنات اور بدن بولی سے وہ اپنے اندر کی دنیا میں گم رہنے والا لگتا تھا جسے دوڑتی بھاگتی، چیختی چلاتی، پرشور، انسانوں سے لبالب بھری دنیا سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔
ویگن کے چلتے ہی ڈرائیور کا سگریٹ بھی سلگ اٹھا۔ نصیبو لعل کی آواز بھی مقناطیسی فیتے میں‌ سے انگڑائی لے کر جاگ اٹھی۔ اوسطا ہر تیس سیکنڈ کے بعد پریشر ہارن بھی کانوں میں‌ رس گھولتا رہا۔ ڈرائیور نے بھی شاید سوچ رکھا تھا کہ اپنی مہارت کے سارے گر وہ آج ہی آزمائے گا۔ بسوں، ٹرکوں، رکشوں، گدھا گاڑیوں کو اوور ٹیک کرتا، کسی کو گالی دیتا اور کسی سے گالی سنتا ہوا وہ اپنی منزل کی جانب گامزن رہا۔ کنڈیکٹر کی ”روک کے استاد جی“ کی آواز پر وہ سڑک کے عین درمیان بریک لگاکر مسافر اتارتا، چڑھاتا رہا تھا۔
اس سارے ہنگامے کے باوصف، وہ شخص بالکل پرسکون بیٹھا تھا۔ جیسے وہ کوئی تماشائی ہو اور تھیٹر میں‌بیٹھا، اداکاروں کی پرفارمنس سے لطف اندوز ہورہا ہو۔ بالآخر منزل آگئی۔ ویگن مسافروں سے خالی ہوگئی۔ لیکن وہ شخص بدستور گاڑی میں بیٹھا رہا۔ ڈرائیور نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس پر اس شخص نے مندرجہ بالا سوال ڈرائیور سے کیا!
ڈرائیور کی برہمی آمیز ”کیوں“ کے جواب میں وہ یوں گویا ہوا۔
”بھائی صاحب، جب آپ صبح کام پر جانے کے لئے گھر سے نکلتے ہیں تو آپ کی والدہ گھر میں سارا دن آپ کی خیریت اور سلامتی کی دعائیں کرتی ہوں گی کہ میرا بیٹا شام کو خیر خیریت سے گھر کو لوٹ کر آئے۔ اسے اللہ پاک اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ سوچیں، اگر خدانخواستہ آپ کو کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے، آپ زخمی ہوجاتے ہیں یا اس سے بھی بدتر صورتحال سے دوچار ہوکر جاں بحق ہوجاتے ہیں تو آپ کی والدہ کا کیا حال ہوگا؟ اب آپ اس عورت کے دکھ کا اندازہ کریں جو اپنے بیٹے، بھائی، شوہر کے انتظار میں بیٹھی ہے اور اسے پتہ چلے کہ اس کا انتظار ساری زندگی جاری رہے گا اور اس کا پیارا نہیں‌ آئے گا۔“ وہ سانس لینے کو رکا۔ ڈرائیور کے چہرے کے بدلتے رنگوں سےاندازہ ہورہا تھا کہ بات اس کی سمجھ میں آرہی ہے۔
”تو میرے بھائی!“ وہ پھر گویا ہوا، ”اگر آپ کو کسی مسافر کا یا اس کے گھروالوں کا خیال نہیں، تو کم از کم اپنی والدہ کا ہی احساس کریں۔ جو ہر شام آپ کی راہ تکتی ہیں۔ سوچیں کہ صرف پانچ، دس منٹ جلدی منزل پر پہنچنے کے لئے کہیں آپ کو ہمیشہ کے لئے دیر نہ ہوجائے“۔
یہ کہہ کر اس نے دروازہ کھولا اور ویگن سے اتر گیا!
Comments
19 Comments

19 تبصرے:

ابوشامل نے فرمایا ہے۔۔۔

بڑا ہی صبر والا آدمی تھا۔ یہاں تو پہلے دو گالیاں دیتے ہیں پھر بولتے ہیں "آہستہ چلا اوئے" :lol:

جاوید گوندل ، بآرسیلونا ۔ اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

لگتا ہے ۔۔ صلہ عمر۔۔ والے عمر احمد بنگش بھائی۔۔۔ کے بلاگ کا سیب کھلانے والا بابا۔۔ اب ڈرائیوروں کی ۔۔ماہیتِ قلب۔۔ پہ مقرر ہیں۔

محمد احمد نے فرمایا ہے۔۔۔

ویسے ہم پاکستانیوں کی نفسیات کے حساب سے تو ڈرائیور کو شاباش دینی ضروری ہے کہ اُس نے اتنی بات بھی سُن لی۔ نہ صرف سن لی بلکہ چہرے کے رنگ بھی بدل لئے ورنہ یہاں تو سب ہی کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::ابوشامل::‌ مشکلیں اتنی پڑیں ”اس“ پر کہ آساں‌ ہوگئیں
::جاوید گوندل::‌ بابا تو جی چھپا ہوتا ہے ہر بندے کے اندر۔۔۔ حالات سازگار مل جائیں تو نکل آتا ہے باہر ۔۔۔
::محمد احمد:: :smile:
دل سے جو بات نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے
پَر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

یاسر عمران مرزا نے فرمایا ہے۔۔۔

ایک کان سے سن کر دوجے کان سے نکال دے گا وہ بات، اگلے دن پھر وہی دھینگا مشتی

محمد احمد نے فرمایا ہے۔۔۔

دل سے جو بات نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے
پَر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

اس بات میں واقعی کوئی شبہ نہیں!

میرا پاکستان نے فرمایا ہے۔۔۔

لگتا ہے یہ بابا جعفر صاحب کا ہی ہے۔ بات اس کو دل کو چھو لینے والی ہے امید ہے ڈرائیور کے پلے پڑ گئی ہو گی۔

افتخار اجمل بھوپال نے فرمایا ہے۔۔۔

لگتا ہے کسي نے یہ تحریر غور سے نہیں پڑھي
"ویگن مسافروں سے خالی ہوگئی۔ لیکن وہ شخص بدستور گاڑی میں بیٹھا رہا"
پھر جعفر صاحب کو اس مکالمہ کا علم کیسے ہوا ؟

پس ثابت ہوا کہ جعفر صاحب ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر براجمان تھے اور اُنہوں نے ہی ڈرائيور کو نصیحت کی

نتیجہ اب میں يعنی افتخار اجمل بھوپال اطمینان سے مر سکتا ہوں کیونکہ میرا نعم البدن پیدا ہو گیا ہے اور برسرِپیکار ہے

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::یاسر عمران:: اپنا ہی نسکان کرے گا۔۔۔ :grin:
::میرا پاکستان::‌ اسی امید پر بات کی تھی جی اس نے کہ پلے پڑ جائے۔۔۔
::افتخار اجمل بھوپال:: یا پھر جعفر صاحب خود ہی ڈرائیور تھے۔۔۔ :grin:
اتنی بڑی ذمہ داری میرے حوالے نہ کریں جی ۔۔۔ میں بہت غیر ذمہ دار آدمی ہوں۔۔
آپ کی محبت کا شکریہ۔۔۔

شعیب صفدر نے فرمایا ہے۔۔۔

اچھا وہ تو ٹھیک ہے مگربس میں کچھ ایسے مسافر بھی تو ہوتے ہیں کہہ رہے ہوتے ہیں۔
اوئے اسے بیچ کے نا گدھا گاڑی لے لے۔ کیا کر رہا ہے میں نے گھر بھی پہنچنا ہے۔

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

گاڑی کو ڈرائیور، جبکہ ڈرائیور کو سواریاں‌چلاتی ہیں۔۔۔۔۔ سو سب کو ہی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہاں‌یہ ضرور ہے کہ ڈرائیور یا اس کا کنڈیکٹر بدتمیزی کر سکتا ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ عوام ان کو کبھی کبھی ٹہوکے دیتے رہیں تاکہ ان کی اپنی ہی سہولت اور حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔
جاوید صاحب::: بات تو سچ ہے جناب، یہ کوئی پنگا ہے، کئی بابے مل گئے مجھے تو، اب تو میں‌ویسے ہی بغیر کسی مقصد دن میں‌دو چار پھیرے شہر کے اسی آس پر لگا ہی لیتا ہوں‌لوکل ٹرانسپورٹ‌پر۔۔۔۔۔ :razz:

DuFFeR - ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ ویگن ڈرائیور اور مسافر شرطیہ پاکستانی تو ہو نہیں‌سکتے
ورنہ مکالمہ کچھ حقیقی رنگ لئے ہوئے ہوتا :lol:
جاوید صاحب اور جعفر نے بابوں کی خوب کہی
شائد آج کل بابوں کا سیزن چل رہا ہے
میرے بلاگ پر بھی تین بابے نکلے ہوئے ہیں آج کل :mrgreen:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::شعیب صفدر:: کسی ڈرائیور نے آج تک مسافروں کے کہنے پر کرایہ تو کم کیا نہیں۔۔۔ ان کے کہنے پر رفتار فورا بڑھا دیتا ہے۔۔۔۔ :neutral:
::عمر:: لالے، بات جتنی بھی کڑوی کیوں نہ ہو، مناسب انداز سے سمجھائی جائے تو ”ہوڑ مت“ بندے کی سمجھ میں‌ بھی آ جاتی ہے۔ لٹھ مارنے کے انداز میں تو کوئی نماز پڑھنے کی دعوت بھی قبول نہیں‌کرتا۔
::ڈفر:: بالکل، پاکستانی نہیں‌تھے، فیصل آبادی تھے ۔۔۔ :mrgreen:
تیرے بلاگ کے بابے شرپسند ہیں، یہ بابے امن پسند ہیں۔۔۔ :grin:

واجد علی (آزاد کشمیر) نے فرمایا ہے۔۔۔

گاڑی کو ڈرائیور، جبکہ ڈرائیور کو سواریاں‌چلاتی ہیں۔۔۔۔۔ بقول عمر بنگش ایساہی ہے

ابوشامل نے فرمایا ہے۔۔۔

آج کراچی میں ٹرانسپورٹ کی ہڑتال ہے۔ گاڑیاں جو ایک منٹ میں 6 آتی تھیں۔ نصف گھنٹے انتظار کے بعد ایک ملی۔ اوپر نیچے کھچا کھچ بھری ہوئی۔ من مانا کرایہ اور من پسند رفتار۔ 40 منٹ کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں ہوا :( بہرحال اس میں اہم بات یہ کہ رش میں مجھے بقایا دینا بھول گیا اور پھر مکر گیا کہ وہ سب کو بقایا دے چکا ہے۔ بہرحال انگلی ٹیڑھی کر کے بقایا جات نکلوا ہی لیے :)
یہ ہے ہمارے ہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی کہانیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::واجد علی:: خوش آمدید۔۔ لیکن بقول میرے ایسا نہیں ہے۔۔۔ :grin:
::ابوشامل::‌ کل میرے بلاگ کی بھی ہڑتال تھی۔ شاید یہ بھی ڈیزل پر چلتا ہے :mrgreen: آپ نے جو روداد لکھی ہے، وہ کلاسیکی مثال ہے، اس عربی محاورے کی کہ عوام اپنے حکمرانوں کے رستے پر چلتے ہیں۔

حارث گلزار نے فرمایا ہے۔۔۔

میرے خیال میں پاکستان میں اب ایسا ہوتا نہیں ہے۔ شاید ہی کوئی شخص کسی کو نصیحت کرنے کا سوچتا ہوگا۔ اور اسکی وجہ خودغرضی بھی ہے اور وقت کی کمی بھی۔

مگر جس طریقے سے آپنے پاکستانی ڈرائیوروں کی حقیقت پیش کی، پڑھ کے اچھا لگا۔ ۔ ۔ اللہ آپکی لکھاری صلاحیتوں کو مزید نکھارے۔ آمین

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::حارث گلزار:: آپ کا کہنا درست ہے کہ آج کل ایسا نہیں‌ہوتا۔ لیکن اس کا کردار چونکہ کافی دیر سے پاکستان سے باہر ہے لہذا اس میں‌قومی کردار کی خصوصیات کم ہوگئی تھیں، امید ہے جب مستقل پاکستان آجائےگا تو وہی کرے گا جو اوپر زیادہ تر تبصرہ نگاروں نے کہا ہے۔۔۔
اللہ آپ کو بھی مجھے پسند کرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے۔۔۔ :grin:

حارث گلزار نے فرمایا ہے۔۔۔

ہا ہا ہا ۔ ۔ ۔ :lol:

چھا گئے ہو۔ ۔ ۔

تبصرہ کیجیے