نظام تعلیم - دے دھنا دھن (ہفتہء بلاگستان -2)

تعلیمی نظام کی بات ہوتے ہی، دانشوروں کے منہ سے جھاگ بہنے لگتے ہیں، جذبات کی شدت سے ان کے قلم اور زبان سے شعلے نکلنے لگتے ہیں اور وہ اپنی دانشوری کی پٹاری سے قسم قسم کے سانپ برآمد کرکے تماشا شروع کردیتے ہیں۔ جونہی بحث ختم ہوتی ہے اور لذت کام و دہن المعروف کھابوں کا آغاز ہوتا ہے، یہ دانشور سب کچھ بھول بھال کر سموسوں اور شامی کبابوں کا تیاپانچہ کرنے لگتے ہیں! خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ قسم کی بات تھی جو دانشوروں سے میرے قدیمی حسد کا نتیجہ ہے۔ آمدم برسر مطلب۔۔۔
پاکستان کے نظام تعلیم میں چند بنیادی خرابیاں ہیں۔ ذیل کی سطور میں ان خرابیوں اور ان کے حل پر بات کی جائے گی۔
سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس ملک میں‌ عام آدمی کو ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں تعلیم، چاہے ناقص ہی کیوں نہ ہو، میسر ہے۔ پچھلے باسٹھ سالوں سے یہ اتیاچار اس ملک کی اشرافیہ پر کیاجارہا ہے۔ یہ کمی کمین لوگ چار جماعتیں پڑھ کر اپنے انہی ان داتاؤں کے خلاف زبان طعن دراز کرنے لگتےہیں‌۔ جو کہ نہایت شرم اور رنج کا مقام ہے۔
سرکاری سکولوں میں ابھی تک اساتذہ کے نام پر ایسے دھبے موجود ہیں جو تعلیم کو مشن سمجھ کر پھیلا رہے ہیں۔ حالانکہ تعلیم ایک کاروبار ہے اور اسے اسی طرح چلایا جانا چاہئے۔
اسی نیچ طبقے کے لوگ کچھ الٹا سیدھا پڑھ کر قانون کی حکمرانی، آئین اور دستور کی بالادستی، عوام کا حق حکمرانی (؟) قسم کی اوٹ پٹانگ باتیں بھی کرتے ہیں جو ہمارے جاگیردار، صنعتکار، خاکی و سادی افسر شاہی جیسی آسمانی اور دھلی دھلائی مخلوق کی طبع نازک پر بہت گراں گزرتی ہیں اور ان کے بلند فشار خون کا سبب بھی بنتی ہیں!
ان مسائل کے حل کے کے لئے سب سے پہلے تو بلا کسی ہچکچاہٹ کے تعلیم حاصل کرنےکا حق صرف اشرافیہ کی اولاد کے لئے مخصوص کرنا چاہئے۔ عوام کے تعلیم حاصل کرنے کو سنگین غداری کے زمرے میں لانا چاہئے اور اس پر سخت ترین سزا ہونی چاہئے!
ایچی سن، لارنس، کیڈٹ کالجز اور ایسے ہی دوسرے تعلیمی اداروں کو پورے سال کاتعلیمی بجٹ دینا چاہئے۔ تاکہ ہماری اگلی حکمران نسل پوری تسلی اور اطمینان سے تعلیم حاصل کرسکے۔ یہ گندے مندے سرکاری سکول بند کرکے اس سے حاصل ہونے والی رقم سے مندرجہ بالا اداروں کے تمام طالبعلموں کو نئے ماڈل کی گاڑیاں، ڈیزائنرز آؤٹ فٹس، رے بان کے چشمے، فرانس کے پرفیومز وغیرہ وغیرہ سرکاری خرچے پر فراہم کرنے چاہئیں۔ تمام سرکاری کالجز اور جامعات کو بھی بند کرکے ان سے حاصل ہونے والی رقم سے اسی آسمانی مخلوق کو سال کے چھ مہینے یورپ، ”تھائی لینڈ“، امریکہ وغیرہ تعطیلات پر بھیجنا چاہئے۔ تاکہ ان کا ”وژن“ وسیع ہوسکے۔
نچلے متوسط طبقے کے منتخب بچوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے تاکہ کلرکی شلرکی کا کام بھی چلتا رہے۔ ماتحتوں کے بغیر بھلا افسری کا کیا خاک مزا آئے گا! اس کے لئے پورے ملک میں‌ دس بارہ تعلیمی ادارے کافی ہیں۔
جو عوام اس تعلیمی انقلاب کے نتیجے میں سکولوں اور کالجوں سے فارغ ہو، اس کو نازی کیمپس کی طرز پر کیمپوں میں‌ رکھا جائے اور ان سے بیگار کیمپ کی طرز پر سڑکیں، پل اور ڈیفنس ہاوزنگ اتھارٹیز کی آبادیاں بنانے کا کام لیا جائے۔ ان کو کھانے کو اتنی ہی خوراک دی جائے کہ تیس پینتیس سال سے زیادہ نہ جی سکیں۔ اس سے ایک تو آبادی کا بوجھ کم ہوگا اور دوسرا ملک میں ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا!
امید ہے کہ ان اصلاحات سے وہ مقاصد ایک ہی جست میں حاصل ہوسکیں گے جو ہماری اشرافیہ سلو پوائزننگ کی صورت میں حاصل کرنے کی کوشش پچھلے باسٹھ سالوں سے‌ کررہی ہے!
Comments
30 Comments

30 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال نے فرمایا ہے۔۔۔

آپ کی تحاریر پڑھتا رہا تو مجھے ڈر ہے جب آپ درست بات کر رہے ہوں گے تو میں اس کا اُلٹ نہ سمجھ بیٹھوں

اور ہاں یاد آیا ۔ یہ تحریر تو آپ نے طنز و مزاح والے دن لکھنا تھی مگر پہلے لکھ دی :lol:

اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔

آپکی تمام باتيں درست ہيں جعفر ، اور يہی وجہ ان دو چار وجوہات ميں سے سب سے بڑی ہے جو مجھے مستقل پاکستان واپسی سے روکتی ہے جب ميں نے پاکستان کے ُاچھے ` سکولوں کی فيس اور داخلہ فيس وغيرہ پتہ کرائی اور اسکو تين سے ضرب ديا تو ميرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے اگر کسی فرانسے کو بھی ادھر کے اچھے سکول کے چارجز بتاتی ہوں تو وہ بھی حيران ہو کر مجھے يوں ديکھتے ہيں جيسے کہہ رہے ہوں کہ پاکستانی فيس بتا رہی ہو يا آکسفورڈ کي؟ اور پھر ميں اپنے پاکستانی سسٹم کامقابلہ کرنے بيٹھ جاتی ہوں ادھر سے جہاں گورا کالا پیلا سب علاقے کے ايک سکول ميں بہت امير بھی بہت غريب بھی گاڑيوں والے سے ليکر صفائی والوں تک سب ايک سکول ميں سب کی برابر عزت کوئی فيس نہيں کوئی اپنی مرضی سے سکول کو عطيہ دے تو ٹھيک نہ دے تو بھی اسکی عزت ميں کمی نہيں ، پاکستان ميں امير اور غريب طبقے کے درميان ہر شعبہ ميں واضح فرق دکھائی ديتا ہے يہاں ساتھ والے کا پتہ نہيں کہ وہ اندر سے کتنا امير ہے ، ميں ايسے بھی لوگوں کو جانتی ہوں جو فرم کے مالک ہيں اور انکے گھر والے صفائی تک کا کام کرتے ہيں اور بتاتے ہوئے شرماتے نہيں ، بے شک ايسا فرق بھی کہيں اکا دکا علاقوں ميں ہو گا ادھر بھی مگر اکثريتی ايسا سسٹم ہے جيسا ميں نے بتايا
دوسرا يہ بھی ہے کہ محنت کرے انسان تو کہاں سے کہاں بھی پہنچا ديتا ہے اللہ مياں انسان کو، اس سلسلے ميں آپ بلاگرز کو ديکھ سکتے ہيں جو ميرے اندازے کے مطابق جو ميں نے انکی تحريروں سے لگايا ہے زيادہ تر سرکاری سکولوں سے پڑھے ہوئے ہيں مگر اللہ کے فضل و کرم سے اچھی پوزيشن پر بيٹھے ہيں
وہ طبقہ جس کا آپ نے ذکر کيا کھبی بھی يہ نہيں چاہے گا کہ ہم آگے آئيں وہ ہميں آگے بڑھنے سے روکنے کے ليے روڑے اٹکائيں گے مگر اسميں قصور ہمارا ہے اس طبقے کو ادھر تک پہنچانے والے بھی تو ہم ہی لوگ ہيں جب ہم ہی اپنا فائدہ نہ سوچيں گے تو انہوں نے بھلا ہمارا فائدہ کيوں سوچنا ہے

سعدیہ سحر نے فرمایا ہے۔۔۔

سلام جعفر

بہت تلخ ھے یہ حقیقت
اور یہ بھی حقیقت ھے یہ کمی کمین لوگ ان کو زرا بھی موقعہ ملتا ھے جب بھی پرھنے کا تو پہلی دوسری پوزیشن یہی لوگ لیتے ھیں امیر باپوں کے بیٹے نمبر بڑھوا کر بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتے

یاسر عمران مرزا نے فرمایا ہے۔۔۔

اچھا انداز ہے برائیوں کی نشاندہی کرنے کا، سیاسی حضرات یہ تحریر پڑھ کر بہت خوش ہوں گے

راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔

واہ صاحب۔۔ چھا گئے آپ تو۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

بھائی!
کیا ارادہ ہے۔ کیا ہم بھی اپنی قومیت واپس کردیں-؟ یہ ملک ہمارا ہے اِن "انھوں" کی جن کی بات آپ نے کی ہے ۔ یہ ملک ان کے باواجان کی جاگیر نہیں۔ آخر کب تک وہ اس پہ قبضہ کئیے بیٹھے رہیں گے۔ کبھی تو جمہور کو اپنا حق لینے کا طریقہ آہی جائے گا۔ ہم نہ سہی ہماری آئیندہ نسلیں سہی۔ کو شش کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔؟

سارے ملک میں یکساں نظام تعلیم اور یکساں نصاب ہونا چاہئیے ۔ بلکہ اگر وردی (یونیفارم) کاپبند کیا جائے تو وردی کا رنگ تک ایک جیسا ہونا چاھئیے۔

ورنہ یہ قوم چوں چوں کا مربہ بنے رہنے پہ بدستور اینڈتی رہے گی ۔ اور ایک قوم کبھی نہیں بن پائے گی۔ اور یہ وہے وہ سازش جو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ کہ یکساں نظام تعلیم اور یکساں نصاب کی عدم موجودگی کا بندو بست اس قوم کو تقسیم رکھنے کے لئیے کیا گئیا ہے۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::افتخار اجمل بھوپال::‌ نہیں‌ جناب، میں نے سخت سنجیدہ ہوکر لکھا ہے، بلکہ مجھے تو تحریر میں سے چیخوں کی آوازیں بھی آرہی ہیں۔۔۔
::اسماء:: آپ جو تعریفیں کرتی ہیں ناں، ان مغربیوں کی تو نوے فیصد تک ٹھیک ہی کرتی ہیں۔ ساری دنیا کی ”سنگی میں انگوٹھا“ انہوں نے ایسے ہی نہیں دیا ہوا۔۔ بڑی خوبیاں ہیں ان میں۔ جن میں‌ سے ایک آپ نے بیان بھی کی ہے۔ ان کا نظام تعلیم! جہاں تک عام آدمی کے محنت کرکے مقام حاصل کرنے کی بات ہے تو محنت صرف عام آدمی پر ہی کیوں فرض کردی ہے ہماری حکمران کلاس نے؟ ان کی اولاد ماؤں کے پیٹ سے ڈاکٹریٹ کرکے آتی ہے؟ مساوی مواقع کیوں نہیں ملتے عوام کی اولاد کو؟ کیا ہم انسان سے ایک درجہ نیچے ہیں بلکہ ان کے حیوانوں سے بھی؟ یہ سب ہوتے ہوئے جب کوئی مجھے آزادی مبارک کا پیغام دیتا ہے تو میرا دل چاہتا ہے کہ۔۔۔۔ بس رہنے دیں!
::سعدیہ سحر:: پہلی دوسری پوزیشن کا سوال نہیں، سوال مساوی مواقع کا ہے!
::یاسر عمران مرزا::‌ شکریہ
::راشد کامران:: آپ کی تعریف میرے لئے سند کا درجہ رکھتی ہے!
::جاوید گوندل::‌ باسٹھ سال کے تجربے سے تو یہی ثابت ہوا ہے کہ یہ ملک انہی کے باوا بلکہ اماں کی بھی جاگیر ہے! عوام کو چوسنے کے لئے وقتا فوقتا لالی پاپ دے دئیے جاتے ہیں۔ جن کی تفصیل آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ میری تو دعا ہے کہ اب آر یا پار ہوہی جائے۔

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

لے تو ہن سچیاں‌نہ سنا سانوں :mrgreen:
او تمھیں‌پتہ نہیں‌ہے کہ ہم پر کوئی اثر نہیں‌ہونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :roll:
ویسے ایک بات ضرور ہے کہ چھا تو گئے ہو تم :oops:

حجاب نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت اچھا لکھا ہے جعفر -- آپ کی ہر پوسٹ بہت اچھی ہوتی ہے ۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::عمر احمد بنگش:: نئیں یار، سچیاں نئیں‌جلے دل کے پھپھولے ہیں۔ چھاجانے والی بات پر بقول امانت چن ”میں کوئی کالا بدّل آں، جیہڑا چھا گیاں“ :grin:
::حجاب:: خوش آمدید، مجھے شک پڑتا ہے کہ آپ پہلی دفعہ میرے غریب خانے پر تشریف لائی ہیں اور آتے ہی اتنی تعریف کردی ہے جو مجھ سے سنبھالی نہیں‌جارہی۔ بہت بہت شکریہ۔۔۔ امید ہے آئندہ بھی عزت افزائی کرتی رہیں گی۔ :smile:

DuFFeR - ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر صاحب کہیں فوزیہ وہاب سے قریبی شناسائی تو نہیں آپ کی؟
ایسے دردمندانہ اور مخلص مشورے وہ بہت دیتی ہیں سرکار کو
اور ہاں‌فردوس عاشق اعوان بھی تو ہے۔
اگر اوپر والی بات ٹھیک ہے تو دونون‌کی فیس بک آئی ڈی فوراً سے پہلے ارسال کرو
مجھے بھی اپنا مستقبل محفوظ بنانا ہے
اور ہاں سرکار آپ کی تجاویز پر عمل کر چکی ہے
تمام میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے سیلف فنانس کی بنیاد پر ہوا کریں گے
جہاں 4 ہزار فیس تھی وہاں 37 ہزار ایک سمسٹر کی اور جو پہلے سیلف فنانس 35 ہزار سمیسٹر کے تھے وہاں 75 ہزار فیس ہوا کرے گی
پنڈی اسلام آباد کا تو یہ حال ہے
نئی خبر یہ ہے کہ ایچ ای سی جس جس یونیورسٹی کو فنڈ دیتی ہے وہاں اب سیلف فنانس پر ہی داخلے ہوا کریں گے اورر فیسیں بھی اسی حساب سے ہوں گی

اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔

ڈفر ان دونوں خبروں کے کوئي source بھی ہيں يا سنی سنائی چلا رہے ہو

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

ہہم تعلیم "ترقتی" جارہی ہے۔

خرم نے فرمایا ہے۔۔۔

تو آپ کا کیا خیال ہے آپ جیسے لوگوں‌کی تعداد میں اضافہ کرکے اپنے لئے مسائل پیدا کریں؟ ارے ابھی کل کو بلاول نے بادشاہ بننا ہے۔ پھر حسین نواز ہے پھر مونس الٰہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان کا بھی سوچنا ہے کچھ ان کے ماں باپ نے کہ نہیں؟ آپ لوگوں کو تو بس یہ ازبر کروانا ہے کہ چاہے آپ کچھ بھی کرلو آپ کی حالت بدلنے کی نہیں‌سو یا تو اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دو اور یا پھر کہیں نکل نکلا جاؤ اور پرت کے واپس نہ آؤ۔

اسدعلی نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر بھائ۔۔۔
مجھے آپ کی با توں سے اختلاف نھیں ۔۔۔اور بحیت سابق طا لب علم لازنس کاج ۔۔شاید میرے لیےیھ پڑھنا ذیادہ تکلیف دہ تھا۔۔۔
درہ یھ بھی دیکھیے۔۔۔
http://www.esnips.com/doc/62730321-daa8-4e18-9f18-14c33c5ed572/sad

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::ڈفر:: فوزیہ وہاب سے میرا کسی قسم کا کوئی ”تعلق“ نہیں!
فردوس عاشق اعوان عورتوں کے بھیس میں چوہدری نیامت اللہ ہے!
شکر کر، حکومت نے میری تجاویز پر جزوی عملدرآمد کا فیصلہ کیا ہے، اگر پورا عملدرآمد کردیتی تو اب تک ہم سب تعلیم یافتہ ہونے کے الزام میں آئین کے آرٹیکل 6 کا سامنا کررہے ہوتے!
::جاوید گوندل:: آہو جی۔۔۔
::خرم:: ازبر کروا نہیں‌رہے، کرواچکے ہیں!
::اسد علی:: لارنس کالج پر اعتراض نہیں، اعتراض اس پر ہے ایسے اداروں کے پاس سے بھی عام آدمی کا بچہ گزر نہیں‌سکتا!

Aniqa Naz نے فرمایا ہے۔۔۔

تو آپ کا خیال ہے کہ آپ تعلیم یافتہ نہیں۔

اوئےجاہل، یہ سب کیا بکواس لکھ ڈالی ہے۔ ایک ایک کو لے چلو اور قلم کی نب سے چھترول لگائو۔ کاغذ میں لپیٹ کر سیمنٹ کے تازہ پیسٹ میں ڈالدو اوئے اور پھر اس مجسمے کو کسی سرکاری اسکول کی بلڈنگ کے آگے کھڑا کر دینا۔ اوئے جھوٹے کو اسکے گھرپہنچا کر آنا۔ اوئے تعلیم کا ۔۔۔۔۔۔۔ کہتا ہے میں تعلیم یافتہ نہیں۔

بہت اچھا،

ہوں،۔۔۔۔۔۔۔ آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کرنے والوں سے میرا کوئ تعلق نہیں۔ میں تو آپ لوگوں کو جانتی بھی نہیں۔ کون او تسی۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::انیقہ ناز:: کیا بات ہے جی، آپ کی پنجابی بھی رواں ہورہی ہے۔۔۔ :lol:
مجسموں والی گرہ خوب ہے!!

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر حالانکہ تم اپنی عزت افزائی پر مجھ سے خاصے ناخوش ہو،پھر بھی میں تمھاری مزید عزت افزائی سے باز نہ آؤں گا اور اس تحریر سے تم نے دوبارہ اپنی عزت بحال کروالی ہے،بہت بہت مبارک ہو :mrgreen: ;-)

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر:: اب عبداللہ سے اپنی ناراضگی ختم بھی کر ڈالو۔ دیکھو نا کہاں کہاں نہیں اظہار کیا عبداللہ نے تمہاری ناراضگی کا۔

:mrgreen:
چلو شاباش۔۔۔ :mrgreen:
مجھے یقین ہے اب وہ آپ کو اپنی تصویر نہیں دکھائیں گے۔ عقلمند کو اشارہ ہی کافی ہے۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

:lol: :lol:

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

منیر صاحب آپکی سفارش کی ایسی کوئی خاص ضرورت تو نہ تھی پھر بھی شکریہ اور اس بات کا بھی کہ میرا وہ تبصرہ جس میں سنی تحریک کے گرو گھنٹال کا گوجرہ کے واقعے میں فساد بھڑکانے میں سب سے آگے ہونے کا ذکر تھا کو بڑی صفائی سے ڈلیٹ کر گئے ، :evil:

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

رہا جعفر کے ڈرنے کا سوال تو تصویر دکھانے کی تو نوبت ہی نہیں آئی وہ تو میری تصویر دیکھے بغیر ہی ڈر گیا :mrgreen:

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

عبداللہ، میں تو آپ کی مدد کر رہا تھا، آپ بُرا مان گئے۔ چلو جعفر میری سفارش ڈیلیٹ کر دو۔ شاباش۔ ان کے ساتھ نیکی کرنا فضول ہی ہے۔

اور جناب آپ کون سے تبصرے کی بات کس سے کر رہے ہیں؟ مجھ سے؟ مگر میں نے تو ابھی تک اپنے بلاگ پر گوجرہ والے واقعے سے متعلق کچھ لکھا بھی نہیں ہے، ایک نامکمل اور غیر شائع شدہ مراسلہ ہے، میرے کمپیوٹر میں، اور بس۔آپ نے اس پر پہلے سے ہی تبصرہ کر دیا۔

واہ بھئی۔ اب تو مجھے بھی آپ کی صالحیتوں کا معترف ہونا پڑے گا۔

واضح رہے ، کہ مندرجہ بالا تبصرہ اُسی صورت میں کار آمد ہے اگر آپ نے مجھے مخاطب کیا ہوا ہو۔ بصورت دیگر اسے نظر انداز کر دیجئے۔

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

اب میں آپ کو اور کیا شرمندہ کروں، گوجرہ کے فساد پر ابھی ایک نامکمل مراسلہ لکھا پرا ہے، چہ خوب،غالباًاگلے فساد کے انتظار میں خدانخواستہ،
مینے ااپنا تبصرہ آپکی پچھلی پوسٹ پر محض اس لیئے لکھ مارا تھا کہ سنی تحریک کی مطلومیت کی داستان اپ کے بلاگ پر کچھ عرصہ پہلے برے اہتمام سے شائع ہوئی تھی تو سوچا آپکو بھی کچھ ان کے کرتوتوں کے بارے میں بتایا جائے ہم کراچی والے تو انہیں بھگت ہی رہے ہیں مگر حسب توقع وہ تبصرہ جناب نے ڈلیٹ کر دیا ویسے آپکی یادداشت کے لیئے دوبارہ لکھ دیتا ہوں :twisted:
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/07/090702_christian_attack_fz.shtml
پولیس کے مطابق سنی تحریک کے ایک مقامی رہنما قاری لطیف نے معاملہ کو بگاڑا اور اگلے روز مسجد سے اعلانات کرائے گئے کہ مسیحوں نے توھین رسالت کی ہے۔پولیس کا کہنا کہ قاری لطیف نے تیس چالیس نوجوانوں پر مشتمل ایک فورس بھی بنارکھی ہے جس میں بارہ اور چودہ برس کے لڑکے بھی شامل ہیں۔
خیر آپ چھاپیں نہ چھاپیں لوگوں نے بی بی سی پر تو پڑھ ہی لیا ہوگا،
باقی آپکی نیکی سے اللہ محفوظ رکھے :mrgreen:

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/07/090702_christian_attack_fz.shtml

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

بخدمت جناب ڈاکٹر منیر عباسی صاحب
جناب عالی!
ہن آرام جے۔۔۔
:lol: :lol:
فدوی
جعفر
سائیڈ نوٹ: لاتوں کے بھوت ۔۔۔ ;-)

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

بری بات جعفر، عباسی صاحب تو تم سے ہمدردی کررہے تھے اور تم نے انہیں لاتوں کے بھوت کا لقب دے دیا :lol: :mrgreen:

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

سرکار ہُن ودھیا آرام اے۔
;-)

منظرنامہ » ہفتہ بلاگستان ایوارڈ : نامزدگیاں نے فرمایا ہے۔۔۔

[...] نظام تعلیم : دے دھنادھن از [...]

تبصرہ کیجیے