عشق مجازی / عشق حقیقی

(اسد علی کی نذر)


ارشاد:کہاں سے سنی ہے محبت کی تعریف؟



سراج : ‌ہر ایک جگہ سے سنی ہے سرکار۔ مسجد سے، مندر سے، ریڈیو ٹی وی سے، سٹیج سے، جلسے جلوس سے لیکن دکھائی نہیں دیتی ۔۔۔ پکڑائی نہیں دیتی۔۔۔ ہوتی نہیں‌حضور۔

ارشاد:محبت وہ شخص کرسکتاہے سراج صاحب جو اندر سے خوش ہو، مطمئن ہو اور پُرباش ہو۔ محبت کوئی سہ رنگا پوسٹر نہیں کہ کمرے میں‌لگالیا۔۔۔ سونے کاتمغہ نہیں کہ سینے پر سجا لیا ۔۔۔ پگڑی نہیں کہ خوب کلف لگا کر باندھ لی اور بازار میں آگئے طرہ چھوڑ کر۔ محبت تو آپ کی روح ہے۔۔۔۔ آپ کے اندر کا اندر ۔۔۔ آپ کی جان کی جان ۔۔۔

سراج :بس اسی جان کی جان کو دیکھنے کی آرزو رہ گئی ہے حضور! آخری آرزو!!

ارشاد : لیکن محبت کا دروازہ تو صرف ان لوگوں پر کھلتا ہے سراج صاحب جو اپنی انا اور اپنی ایگو سے اور اپنے نفس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ہم لوگ تو محض افراد ہیں، اپنی اپنی انا کے کھونٹے سے بندھے ہوئے۔ ہمارا کوئی گھر بار نہیں ۔۔۔ کوئی آگا پیچھا نہیں ۔۔۔ کوئی رشتہ نہیں ۔۔۔ کوئی تعلق نہیں۔ ہم بے تعلق اور نارشتہ دار سے لوگ ہیں۔

سراج :بے تعلق لوگ ہیں حضور ؟

ارشاد:اس وقت اس دنیا کا سب سے بڑا مرض اور سب سے بڑی Recession محبت کی کمی ہے ۔۔۔۔ اور آج دنیا کا ہر شخص اپنی اپنی پرائیویٹ دوزخ میں جل رہا ہے اور چیخیں ماررہا ہے ۔۔۔۔ اور ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دنیا کی حکومتیں اس روحانی کساد بازاری کو اقتصادی مندے سے وابستہ کررہی ہیں۔

سراج :(اصل موضوع نہ سمجھ کر ۔۔۔ ذرا رک، ڈر کر، شرما کر) ویسے سر، محبت گو مشکل سہی لیکن اپنا یہ ۔۔۔ عشق مجازی تو آسان ہے۔

ارشاد :‌عشق مجازی بھی اسی بڑے پیڑ کی ایک شاخ ہے سراج صاحب! یہ بھی کچھ ایسا آسان نہیں۔

سراج:آسان نہیں‌جی؟

ارشاد :دیکھئے! اپنی انا اور اپنے نفس کو کسی ایک شخص کے سامنے پامال کردینے کا نام عشق مجازی ہے اور اپنی انا اور اپنے نفس کو سب کے آگے پامال کردینے کا نام عشق حقیقی ہے۔ معاملہ انا کی پامالی کا ہے ہر حال میں!

بابا جی اشفاق احمد کی تحریر ”منچلے کا سودا“ سے ایک اقتباس
Comments
37 Comments

37 تبصرے:

بلوُ نے فرمایا ہے۔۔۔

اچھی شئیرنگ ہے

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت اچھا اقتباس ہے، مگر مجھے ڈر ہے ،جلد ہی اس پر بھی جعفر کی واٹ لگ جائے گی۔

اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔

او بھائی منے سلانے کھانے پکانے اور ناولوں کے علاوہ بھی کوئی کام کر ليا کر لگتا ہے بھابی نے بہت ڈھيل دے رکھی ہے ميں نے تو سب پر پابندی لگا دی ہے اب صرف کارٹون ديکھتے ہيں
ديکھا لگا دی ناں واٹ ميرا چھوٹا بھائی ہے جو مرضی کہوں کيوں جعفر؟
ويسے محبت وہی قائم رہتی ہے جو انسان کو نہيں ملتی جو مل جائے وہ مصيبت بن جاتی ہے (ذاتی تجربہ)

خرم نے فرمایا ہے۔۔۔

من چلوں کے سودے ہی تو ہیں عشق حقیقی و مجازی۔ عشق کی تعریف پر لاکھوں میں سے ایک آدھ ہی پورا اُترتاہے۔ اکثر تو جسمانی ہوس کے بخار میں پھنکتے عشق کی اداکاری کرتے پھرتے ہیں۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::بلو:: شکریہ
::منیر عباسی:: کوئی بات نہیں جی، اپنوں کی بات کا کیا گسہ کرنا
ہیں جی؟؟ :lol:
ویسے بھی جی گسہ بھی بندہ اس پر کرتا ہے جس سے پیار ہو!!
::اسماء:: نہ جی ناول نہیں یہ۔۔۔ ڈرامہ تھا، شاید اس وقت پہلی دفعہ چلا تھا ٹی وی پر جب آپ یونیورسٹی میں‌زیر تعلیم تھیں۔۔۔ :grin: منے سلانا بھی نہایت اہم کام ہے۔ :mrgreen:
آپ کا ذاتی تجربہ میرے ذاتی تجربے کا بالکل الٹ ہے!
::خرم:: وہ بھی ضرورت ہے نا جی۔رب نے رکھا ہے یہ پروگرام بندے میں تو پھر جیسے بھوک لگتی ہے ایسے ہی یہ بھی ہے۔ مسئلہ وہاں‌سے شروع ہوتا ہے جب یہ حاجت پوری ہونے کے بعد بندے کی محبت غائب ہوجائے! اور وہ کسی نئی ”محبت“ کی تلاش میں‌ نکل جائے! جو ایک ہی کھونٹے سے بندھا رہے تو وہ تو سچا عاشق ہوا نا جی۔۔۔
مرے بت خانے میں تو کعبے میں‌گاڑو برہمن کو

اسدعلی نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر :: بھت شکریہ!

عشق حقیقی کی اس سے اچھی تحریف شایدھی کوئ کر سکے۔

ہزار خوف ہو ليکن زباں ہو دل کي رفيق
يہي رہا ہے ازل سے قلندروں کا طريق
ہجوم کيوں ہے زيادہ شراب خانے ميں
فقط يہ بات کہ پير مغاں ہے مرد خليق
علاج ضعف يقيں ان سے ہو نہيں سکتا
غريب اگرچہ ہيں رازي کے نکتہ ہائے دقيق
مريد سادہ تو رو رو کے ہو گيا تائب
خدا کرے کہ ملے شيخ کو بھي يہ توفيق
اسي طلسم کہن ميں اسير ہے آدم
بغل ميں اس کي ہيں اب تک بتان عہد عتيق
مرے ليے تو ہے اقرار باللساں بھي بہت
ہزار شکر کہ ملا ہيں صاحب تصديق
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھي مسلماني
نہ ہو تو مرد مسلماں بھي کافر و زنديق
(اقبال)

DuFFeR - ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

اسماء‌جی : کونسا تجربہ ذاتی ہے؟ محبت نا ملنے کا یا مصیبت بن جانے کا؟

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

پاپے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھا گیاں‌ہے تو۔ :grin:
بس کچھ بھی کہو، کیسے بھی کہو۔ حتمی بات تو یہی ہے ناں‌کہ
تیرے من چلے کا سودا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھٹا اور میٹھا۔ بس اک فیصلہ
جیوندہ رہ!!!!

Aniqa Naz نے فرمایا ہے۔۔۔

محبت اپنا اپنا تجربہ ہے
یہاں فرہاد و مجنون معتبر نہیں

شاعر؛
نامعلوم

Aniqa Naz نے فرمایا ہے۔۔۔

اسد آپ نے میری پوری ایک پوسٹ اٹھالی۔ اچھی بات نہیں کی۔

فائزہ نے فرمایا ہے۔۔۔

محبت کوئی تجربہ نہیں ۔ اس میں انسان کے تمام تجربے ، علم اور تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس میں مشاق اور مبتدی دونوں ایک جیسے ہیں۔ اس میں کوئی اتھارٹی نہیں ہو سکتا۔ اور محبت کی راہ کا پہلا کانٹا انا ہی ہے۔

نوائے ادب نے فرمایا ہے۔۔۔

اچھی گفتگو ہو رہی ہے مزہ آیا پڑھ کر
میں تو کہتا ہوں محبت ، محبت ہی ہوتی ہے ۔ حاصل ہونا یا نا ہونا کی سوچ محبت سے باہر ہوتی ہے۔
اور محبت کے بدلے محبت چاہنا بھی محبت سے باہر ہے
محبت بس محبت ہے
ہر طرح کے بدلے ، حاصل ، لاحاصل ، سے پاک

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::اسد علی:: شکریہ تو آپ کا! جن کے نام یہ پوسٹ ہے۔
اب آپ اقبال کی گواہی لے آئے ہیں تو پھر ہم کیا کہہ سکتے ہیں اس کے بعد۔ :smile:
::عمر احمد بنگش:: مجھے وہم سا ہونے لگا ہے کہ بڑا ہو کر میں سیاستدان بنوں گا۔ پوچھو کیسے؟ ابھی پچھلی پوسٹ پر سب لڑ لڑ کر ہلکان ہورہے تھے۔ اب کیسے ایک دوسرے کو لڈو کھلا رہے ہیں :lol: کیسا ایشو بدلا ہے میں نے :grin:
بس یار باباجی کی برکت ہے۔ ان کے نام پر لوگ کھنچے چلے آتے ہیں ویسے ہی۔ میرا تو کوئی کمال نہیں‌اس میں!
::عنیقہ ناز:: درست!
::فائزہ:: محبت کا تجربہ نہیں، بلکہ محبت ایک تجربہ یا واقعہ یا حادثہ یا سانحہ ہے، جیسا بھی کسی پر گزر جائے اسے محبت ویسی ہی لگتی ہے۔ یہی بات عنیقہ نے اپنے تبصرے میں کہنے کی کوشش کی ہے شاید میری رائے میں۔
::نوائے ادب::‌ محبت تو بجائے خود ایک صلہ ہے تو اس میں نفع نقصان کا تو کوئی سوال ہی نہیں آتا! درست کہا۔۔۔

اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔

آہ ہ ہ ، ڈفر دکھتی رگ نہ چھيڑو ميری ، بس مصيبتيں اتنی پڑيں مجھ پر کہ آسان ہو گئيں

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

اسما ء صاحبہ، میرا مشورہ ہے ، اب کے بعد ذرا سوچ سمجھ کے لکھئے گا، ڈفر اور جعفر نے بات پکڑنی شروع کر دی ہے ۔۔

اللہ خیر کرے ۔۔ :twisted:

اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔

منير صاحب سوچی پيا تے بندہ گيا
( سمجھ نہ آئے تو انٹر پرٹر سے ٹرانسليشن کروا ليں )

DuFFeR - ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

سارے محبت محبت کر رہے ہیں اور مجھے آج تک یہ نہیں پتا چلا کہ
”یہ محبت ہوتا کیا ہے؟“ :?: :?: :?:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::ڈفر:: جس کا ناخوب بھی خوب لگے۔

فائزہ نے فرمایا ہے۔۔۔

میٹرک میں سائنس لیبارٹری میں تجربے کرتے تھے تو ایک ڈیڑھ گھنٹہ لگتا تھا۔ اور سانحہ ، حادثہ تو منٹوں یا سیکنڈوں میں ہی وقوع پذیر ہو جاتا ہے چاہے اس کے اثرات کئی سالوں تک رہیں ۔ ہاں واقعات کی طوالت پر کہہ نہیں سکتی کتنے لمبے ہو سکتے ہیں۔ لیکن محبت میں ٹائم بہت لگتا ہے جو ٹائم نہیں لیتی وہ وقتی ، جزو وقتی ہوتی ہے لائف ٹائم نہیں ہوتی یاد رہنے والی نہیں ہوتی تو پھر محبت بھی نہیں ہوتی۔

DuFFeR - ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

میں تو اس بات پر حیران ہوں‌کہ لوگ محبت کو ڈیفائن کیسے کر لیتے ہیں؟

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

میری طرف سے آپ کو اور تمام قارئین اکرام کو پاکستان کا یوم آزادی مبارک ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ پاکستان کی ترقی اور عزت میں اضافہ فرمائے۔ اور پاکستان اور پاکستان سے باہر رہنے والے تمام پاکستانیوں کی ترقی اور عزت میں بھی اضافہ فرمائے۔آمین

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر ذرا ترجمہ تو کردو ، پلیز۔ مگر سیاق و سباق کے ساتھ۔
خوش خطی کے نمبر علیٰحدہ سے ہونگے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

یار اپنے استاد امام دین غراتی نے کہا تھا ۔۔ میری محبوب کی ادائیں تو دیکھو ۔۔ وہ منجھی تے بیہہ کے جؤان کھڈی دے اے۔ ایک حقیقت تو اس شعر میں بھی پنہاں ہے ۔ یہ بھی شاید مجاجی ہے کہ آخر کو امام دین نے بھی تو اپنے مجاج میں بات کی ہے۔ اپنے بابا غالب بھی کچھ یوں کہہ گئے کہ عشق وشق کیا ہے بس سنگدل کے سنگ آستاں سے سر پھوڑنا یا دوسرے لفظوں میں ٹکریں مارنے کا نام عشق ہے۔ :lol:

عشق پہلے بچے کے پوتڑے دوھوتے ہی اپنی تکمیل کو پہنچ جاتا ہے یعنی ہوا ہوجاتا ہے۔ :lol: رات کو جب منا ڑیں ڑیں کرتا ہے میاں دروازے کا لات مارتا ہے ۔گھر والی برتن دہونے کے بہانے زور زور سے دیگچوں کو چٹختی پھٹکتی ہے۔ منے کی ریں ڑیں اور بڑھ جاتی ہے۔ کتا مالکوں کے موڈ سے ڈر کر باہر بھاگ جاتا ہے۔ ہمسائے کان لگا کر سن گن لیتے ہیں۔ تو ایسے میں عشق مجاجی سے آگے بڑھنا بہت مشکل ہے بھائی۔ :lol:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

امام دین گجراتی۔۔

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

محبت قربانیاں مانگتی ہے چاہے حقیقی ہو یا مجازی،
بس جس سے محبت ہو اس کے لیئے انسان خود کو بدل لیتا ہے جو محبوب کو پسند ہو خود کو اس رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے،یہ مجھ کم عقل کا خیال ہے،
باقی گوندل صاحب کی آپ بیتی سن کر افسوس ہوا،اسی لیئے ان کے ذہن پر اتنا برا اثر ہوا ہے کہ بات بے بات دانت نکالا کرتے ہیں :mrgreen:
ویسے تجربہ تو نہیں لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ اچھے محبت کرنے والے شادی شدہ جوڑے جیسے جیسے ایک دوسرے کے جزبات کا احترام کرتے ہیں اورایک دوسرے کو عزت دیتے ہیں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آپس میں محبت دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی ہے،نوٹ یہاں عزت سے مراد آپ جناب کرنا ہرگز نہیں بلکہ بدزبانی اور بد کلامی سے پرہیز ہے ورنہ
لڑائی جھگڑے تو تقریباًہر میاں بیوی میں ہوتے ہیں :razz:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

:lol: عبداللہ :lol: ہت تیرے کی ۔ یہ آب بیتی نہیں جگ بیتی ہے۔ ابھی ایسے تجربے سے گزرنے کا اتفاق نہیں ہوا تو سند رہے پہلی اطلاع آپ کو دونگا۔ لوگوں کے ایسے حالات دیکھ کر مجاجی سے تو ہم باز آئے۔

یہ کیا لکھا ہےـ؟ ۔۔۔۔بس جس سے محبت ہو اس کے لیئے انسان خود کو بدل لیتا ہے جو محبوب کو پسند ہو خود کو اس رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔۔

ارے بابا یہ محبت تو نہ ہوئی سزا ھوگئی۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی۔ اپنا آپ بدلنے والے اور وہ بھی کسی کے لئیے ۔۔۔ یہ کمزور لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے۔ کہ محبت کی اور بھاگ لئیے۔ ارے بھائی ۔ اگر ہمت نہیں تو محبت مت کرو۔ اگر کرتے ہوتو آگے بڑھو اور ایک ہی جھٹکے میں اپنی محبت، محبت والی چھین لاؤ اٹھا لاؤ۔ یہ کیا بات ہوئی مہھبت کی تھی ۔۔ اس کی اماں نہیں مانتی ۔ میرا ابا نہیں مانتا۔۔ زنگی گزر جائے مگر،،، وغیرہ وغیرہ جو محبت محبت کر کے ساری عمر آہیں بھرتے ہیں ان کی محبت کچی ہوتی ہے۔ وہ فلمیں زیادہ دیکھتے ہیں مگر محبت کم کر تے ہیں۔ :lol:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

مجھ کو یارو معاف کرنا
میں کھڈے میں ہوں
(مصروفیت کا کھڈا۔۔۔ کچھ اور نہ سمجھیں)

Aniqa Naz نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ جو محبت والی بات کی ہے جاوید صاھب نے، چھین لینے اور کچھ اٹھا لینے کی تو میرا خیال ہے کہ یہ صرف مردوں کی مد میں کی گئ ہے :evil:
خواتین بیچاری کیا کریں :?: ایسی محبت تو انکے لئے بڑی مشکل ہوگی ;-)
ویسے صوفی ازم میں محبت کی بنیاداسی فلسفے پہ رکھی گئی ہے۔ یعنی جس سے محبت ہوگی اسکے لئے خود کو بدلنا ہوگا۔ یہاں فنا فی الشیخ سے فنا فی الذات کے مرحلے تک لے جایا جاتا ہے۔ اپنی ذات کی نفی ہی سب سے اہم چیز سمجھی جاتی ہے۔ صوفیا میں ایک گروہ ملامتی کہلاتا ہے جو اپنے آپ کو ان حالات سے گذارنا پسند کرتے ہیں جہاں انکی ذلت ہو اور لوگ انکو لعنت ملامت کریں، کہا جاتا ہے کہ اس طرح میں کی محبت کم ہوتی ہے۔

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

ایک ساردار جی کو کسی نے دیکھا کہ راستے میں ایک کھڈا کھود اس میں بیٹھے ہوئے ہیں اور کسی گہری سوچ میں مبتلا ہیں۔

تھوڑا انتظار کرنے کے بعد وہ شخص سردار جی سے مخاطب ہوا اور پوچھا ’ سردار جی یہ کیا ہورہا ہے ؟‘ سردار جی نے بڑے اطمینان سے جواب دیا گہری سوچ کر رہا ہوں‘ ۔۔

کہیں ایسا تو نہیں ہورہا مصروفیات کے کھڈے میں جعفر کے ساتھ؟

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::منیر عباسی:: :lol:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

محترمہ عنیقہ بی بی!

آپ رقم طراز ہیں۔۔۔ یہ جو محبت والی بات کی ہے جاوید صاھب نے، چھین لینے اور کچھ اٹھا لینے کی تو میرا خیال ہے کہ یہ صرف مردوں کی مد میں کی گئ ہے
خواتین بیچاری کیا کریں ایسی محبت تو انکے لئے بڑی مشکل ہوگی۔۔۔۔

مرد جب کسی سے محبت کرتے ہیں تو دوسرا فریق کوئی خاتون ہی ہوگی۔ جب مرد ہمت کرے تو اس خاتون کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔ رہ گئی بات بعد کے معاملے تو اگر تو محبت سچی ہے تو مرد اور خاتون ہر چیز درست کر لیتے ہیں حتٰی کے وہ شادی کے لئیے ہر اپنے پیرنٹس کو بھی راضی کر لیتے ہیں ۔ اگر اتنی سی مستقل مزاجی نہ ہو تو پھر محبت نہیں وہ فلرٹ اور چار دن کا شغل ہوتا ہے۔

شادی کے بعد سچی محبت کرنے والے مرد کبھی بھی اپنی بیوی کو زندگی میں کہیں بھی اس کی محبت پہ شرمندہ نہیں ہونے دیتے۔

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

مکرمی جاوید صاحب، آپ کا کہنا ہے کہ

مرد جب کسی سے محبت کرتے ہیں تو دوسرا فریق کوئی خاتون ہی ہوگی۔ جب مرد ہمت کرے تو اس خاتون کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔

مجھے اجازت دیجئے کہ میں صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک کی تحصیلوں، غورغشتی، حضرو، اور دوسرے قصبوں/ شہروں یعنی شینکہ، کامرہ گوندل وغیرہ اور صوبہ سرحد کے جنوبی اضلاع کا نام لوں جہاں آپ کا یہ کہنا بے کار جاتا ہے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

محترم ڈاکٹر صاحب!

محبت ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ بیچ بیچ کا کوئی رستہ نہیں ۔ البتہ بیچ بیچ میں دل لگی تو کی جاسکتی ہے مگر اسے محبت نہیں کہا جاسکتا۔ اور ایسے معاملے میں حتمی قدم مرد حضرات ہی اٹھاتے ہیں۔

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

آپ کے گرانقدر خیالات کو رد نہیں کر سکتا، اس بارے میں میرا علم صرف ٹی وی ڈراموں اور پاکیزہ اور خواتین ڈائجسٹوں تک محدود ہے، البتہ میں نے پچھلے مراسلے میں ایک اور بات کی طرف ایک لطیف پیرائے میں اشارہ کیا تھا۔

:mrgreen: :mrgreen:
کُھل کر نہیں کہہ سکتا ، بھائی نے نکال باہر پھینکنا ہے، فیر اپن کہاں جائے گا؟

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

ڈاکٹر منیر عباسی صاحب۔

میرا تجربہ بھی اس حد تک ہے ۔ کہ ایسے کئی احباب کو جانتا ہوں جنہوں اوکھلی میں سر دیا۔ اکثر نے مراد پائی ۔ مگر اوکھلی میں متواتر سر دیے رکھنے کے بعد وہ بھی نہائت مسقل مزاجی کے ساتھ۔

بہر حال میں آپ کے خیالات کی قدر کرتا ہوں۔ ھر کیس اپنی نوعیت کے حساب سے مختلف ہوتا ہے۔

اسدعلی نے فرمایا ہے۔۔۔

Aniqa Naz
جی نہیں۔۔۔میں نے آج سے پہلے آپ کے بلاگ میں جہانکے کی جسارت نہں کی۔۔

حارث گلزار نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت خوب۔ اور میں اسماء سے اتّفاق کرتا ہوں کہ صرف اسی محبت کی قدر ہوتی ہے جو نہ مل سکے، جو محبت مل جائے ءسکی قدر نہیں رہتی۔ ۔ ۔

میں نے کچھ ہی دن پہلے یہ اقتباس پڑھا تھا، اور دوبارہ یہاں پڑھ کر بہت مزہ آیا۔ ۔ ۔

تبصرہ کیجیے