عشق وشق پیار ویار

میں بڑی مشکل میں پڑگیا ہوں!

سیانےکہتے تھےکہ " علموں بس کریں او یار'' تو ٹھیک ہی کہتے تھے!

عشق ومحبت کی اقسام اور ان کی خصوصیات، جب سے پڑھی ہیں تو میرے دل میں بھی بڑی خواہش اور تمنا پیدا ہوگئی ہے کہ میں بھی عشق کروں، محبت میں مبتلا ہوجاوں اور سیانے لوگوں نے محبت کی تعریفوں کے جو پل باندھے ہیں اور بے شمار صفحات، اس کوشش میں کالے کئے ہیں تو ذرامیں بھی اس کا مزا چکھوں!

پر شرط بڑی کڑی لگادی ہے جی کہ محبت کرنے کے لئے اپنا آپ خاک میں ملاو، اپنی انا کو محبوب کے سامنے سرنڈر کرو، اپنے آپ کی نفی کرو۔ اب میرے جیسا بندہ کہ جس کے پاس اپنی انا کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں، نہ علم ، نہ ایمان، نہ شعور، نہ وجدان، تو وہ کیسے اپنی ساری جمع پونجی اس جوئے میں لٹادے؟

دل کی بستی پر محبت کا بلڈوزر چلا کے پرانی بستی ڈھانی اور نئی بسانی بہت مشکل ہے۔ بستی کے پرانے مکین، غم روزگار کی عدالت سے حکم امتناعی لے آتے ہیں کہ جی یہ 420 منزلہ خود غرضی کی عمارت تو آپ بالکل نہیں گراسکتے۔اور اس کے متصل خواہشات کا ڈپارٹمنٹل سٹور بھی بہت ضروری ہے، اس کے بغیر تو کام چلتا ہی نہیں۔ اور انا کا مینار تو وہ ہے جی کہ اس کی آخری منزل پر کھڑے ہوکر بندے کو دوسرے آدم زاد کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں! اوروہ خود کو خدا کا نائب تو کیا خود ہی خدا سمجھنے لگتا ہے! بڑا ہنگامہ کھڑا ہوجائے گا جی دل میں تو۔ خانہ بدوشوں کی بستی کو بھی اگر حکومتی اہلکار گرانے آجائیں تو وہ مسکین بھی مزاحمت پر اتر آتے ہیں۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کرنی پڑجاتی ہے جی بلکہ کبھی کبھار تو گولیاں بھی چل جاتی ہیں، تو دل کی بستی کے مکین تو بڑے ڈاہڈے ہوتے ہیں۔ یہ تو اتنی آسانی سے بستی چھوڑ کے جانے والے نہیں!

اور یہ دل کی بستی ہے بھی بڑی عجیب کہ ایثار و خلوص کی جھونپڑی بنتے تو زمانے لگ جاتے ہیں جبکہ خودغرضی اور کمینگی کے سکائی سکریپر لمحوں میں کھڑے ہوجاتے ہیں!

تودوستو!

میں تو بڑی مشکل میں پڑگیاہوں۔۔۔ کیا کروں؟

Comments
30 Comments

30 تبصرے:

اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔

اب اس بڈھی عمر ميں عشق کی نہيں اللہ اللہ کرنے کی ضرورت ہے کيوں رہی سہی ہڈياں تڑوانے لگے ہو ُ ان ` کے بھائيوں کے ہاتھوں

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ صحیح کہا ہے کسی نے۔ ز

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

کبھی تو مجھے سیریس لے لیا کریں
:|

فرحان دانش نے فرمایا ہے۔۔۔

خالی دماغ اور شیطان کا گھراس بات کا اس پوسٹ سے کیا تعلق ہے۔

سعدیہ سحر نے فرمایا ہے۔۔۔

ھاھاھا اسماء

جعفر ابھی تک پیار ویار عشق وشق نہیں کیا تو دل کی بستی کیسے آباد ھو گئ
ویسے اسماء کی رائے بری نہیں ھے
اگر آپ کو سیریسلی لیا جئے تو پیار اتنے حساب کتاب اور سوچ سمجھ کے نہیں ھوتا
جہاں عقل کام کرنا چھوڑ دے وہی کیوپیڈ اپنا کام شروع کرتا ھے اگرابھی آپ کا دماغ کام کر رھا ھے تو عشق کے وائرس آپ کے دل تک نہیں پہنچ سکتے

افتخار اجمل بھوپال نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ تو بتائیں آپ کے دل میں کوئی جھُگی بھی ہے کہ صرف بلند عمارتیں ہی ہیں ؟
اس سے میں حساب لگاؤں گا کہ آپ کے دل میں کونسے موسم کی لڑکی فٹ ہوتی ہے

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

بھائی صاحب!

ذرا بچ کے ۔ یہ نہ ہو "عزتِ سادات" بھی جائے اور "خارِ مغیلاں" سے جان نہ چھوٹے۔
وہ عشق نہیں ہوتا جس میں خود غرضی ہو۔
عشق وہ نہیں ہوتا۔ جسکا محل کسی غریب اور مجبور کے کے ارمانوں پہ تعمیر ہو۔
اسطرح کے کے عشق نہیں ہوتے بلکہ اپنی غرضوں اور تشنہ تکمیل حسرتوں کی بھڑاس نکالنے کے لئیے جاتی عمر میں جھنجال پال لینا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک آدھ سال میں پچھتاوہ گریبان پکڑ لیتا ہے۔ مداوہ کسی صورت نہیں ہوتا۔ کہ خود ہی سارے دروازے اپنے ہاتھوں بند کئیے ہوتے ہیں۔وقت واپسی کا سفر نہیں کرتا۔گریبان چھوٹتا نہیں۔خدا ملتا نہیں۔ صنم روٹھ جاتا ہے۔سب سے پہلی چوٹ شخصیت اور انا کے بُت پہ پڑتی ہے۔ خسارے جان کو آن لیتے ہیں۔ شیشہ روز سوال کرتا ہے۔ آنکھیں چار نہیں ہوتیں اور جھکنے لگتی ہیں۔ذات کے حصار میں ایسا الاؤ بھڑکتا ہے۔ جس میں ہر شئے خس و خاشاک کی طرح بھُس ہوجاتی ہے۔جس کی نظر نہ آنے والی راکھ دیوانوں کی طرح سر پہ انڈیل کر گھومتے دیکھ کر سب چاھنے والے پیچھے بہت پیچھے کہیں گُم ہوجاتے ہیں۔عشق ندارد اور احساسِ زیاں اتنا کہ شروع کا کیف و انسباط بہت بھاری گذرتا ہے۔ ہر طرف سے تُھو تھُو ہونے لگتی ہے۔

عشق، دل کی دہلیز سے اندر گھسنے کے لئیے دستک نہیں دیتا۔ یہ ہوتا۔ کیا نہیں جاتا۔ جب ہوجائے تو سود وزیاں کے بارے استفسار نہیں کرتا۔ خودی پہ بے خودی طاری ہونے لگتی ہے۔ خوداری دلداری میں بدل جاتی ہے۔آکاش بیل کی بُوٹی کی جسم و جان کو جکڑ لیتا ہے۔ تن ، من ، دھن، ظاہر ، باطن، حاضر، غائب، دانش عقل ہر شئے بے بس ہوجاتی ہے۔ شعور باطل اور آنکھیں مُندھ جاتی ہیں۔ مگر۔۔۔ پرانی بستی کے زندہ آثار اپنے ہونے کا۔ اپنے وجود کا، اپنے جواز کا ایسا احساس دلاتے ہیں کہ ایک ہی جھٹکے میں آنکھیں وا جاتی ہیں۔ سماعت کام کرنے لگتی ہے۔ شعور حاضر ہوجاتا ہے۔عقل لگامیں کینھچ لیتی ہیں ہمت مفقود ہوجاتی ہے۔ پاؤں لڑکھڑانے لگتے ہیں۔ارد گرد کی دنیا نظر آنے لگتی ہے۔ زندہ وجود سوال کرتے ہیں۔ پھیلے ہوئے ہاتھ، اٹھی ہوئی انگلیاں شرم سے پانی پانی کر دیتی ہیں۔ سماعت خراش ہوجاتی ہیں۔ کھلی آنکھیں دُکھنے لگتی ہیں۔سودوزیاں حاضر ہوجاتا ہے۔ عشق یا دل کی انگڑائی چپکے سے ، دبے پاؤں رخصت ہونے لگتی ہے۔ پچھتاوہ روح پہ چھا جاتا ہے۔ پیچھے ہٹنے کی کسک چھبن کر نس نس کو لیر لیر کر جاتی ہے۔ یہ کسک زندگی بھر سینے میں رڑکتی رہتی ہے۔ اردگرد دنیا مسکراتی ہے۔ مگر دل کی بستی خالی ہوجاتی ہے۔ پچھلی عمر میں سینے میں دبی چنگاری پچھتاوے کا الاؤ بن کر لعنت ملامت کرتا ہے۔ من میں پچھتاوے آگ لگائے دیتے ہیں۔ عشق رفتہ کی کوئی آواز نہیں آتی کوئی سراغ نہیں ملتا۔ دل ان راہگزاروں پہ کو ایک دفعہ پھر بار دیکھنے کی ضدکرتا ہے جن سے کبھی عشق کا قافلہ گزرا تھا۔ عشقِ رفتہ کی یادیں زادِ راہ کی طرح لحد کی آغوش تک ناگزیر نشے کی طرح پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ سینہ بھڑکتا رہتا ہے۔

عشق وہ جو کسی کو لیر لیر نہ کرے۔ جس میں خودغرضی نہ ہو۔ جو الوہی ہو۔ آئے تو جائے نہیں۔ ٹہر جائے۔ جسے مانے بغیر، جسے جانے بغیر چارہ نہ چلے۔ عاشق صادق اس کی لاج رکھتے ہیں۔وعدہ نہیں کرتے ، کر لیں تو تکمیل میں جان لڑا دیتے ہیں، حالات کو اپنی مرضی پہ ڈالتے ہیں۔ دنیا سے ٹکرا جاتے ہیں۔ عشق و فرض کی منزلوں سے سرخرُو گزر جاتے ہیں۔ عشق کی لاج رکھ جاتے ہیں۔ سوز کو ساز عطا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ غیر معمولی ہوتے ہیں۔ وہ غیر معمولی حالات میں زمانے کی چٹان سے ٹکرا ٹکرا کر رستہ نکال لیتے ہیں۔ نہ کسی کو آزاد کرتے ہیں نہ برباد کرتے ہیں دل اور دنیا عشق اور فرض میں تمیز رکھتے ہیں۔ یہ جراءت عاشق صادق میں ہوتی ہے ۔ یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ عشق صادق ہو تو اپنا آپ منوا لیتا ہے اور اؤل در دلِ معشوق پیدا می شود ہوتا ہے۔ اگر معشوق کو عشق کی آنچ نے پگھلایا نہیں۔ عاشق میں صداقت پیدا نہیں ہوتی۔ اور ساری مشق بیکار جاتی ہے۔ معشوق عشق کی آگ میں پگھلے تو عاشق میں صداقت ہوتی ہے۔

آپ دیکھ لیں کیا آپ غیر معمولی انسان ہیں۔ عشق کی یہ تینوں صورتیں ہیں۔

چوتھی صورت بھی ہے مگر وہ احمقانہ ہے۔

ریحان نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجئے
ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

تو آپ جائیے

اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔

جاويد گوندل صاحب آپ نے بھی جعفر کی طرح ناول پڑھنا شروع کر دئيے ہيں کيا؟ اتنی مشکل اردو آپ لوگوں کوآتی کيسے ہے ميں حيران ہوں حالانکہ آپ ميں سے زيادہ تر بيرون ملک رہتے ہيں خير جاويد گوندل صاحب سے ان کی اجنبی کے بارے ميں پوچھنا تھا کہ يہ عشقيہ شعر و شاعری کی اسلام ميں اجازت ہے کيا؟ مذيد يہ کہ ادھر جس نوجوان کی تصوير لگی ہے وہ کيا آ پ ہيں ؟ ميرا مطلب ہے آپکی پچاس سالہ تصوير ہے وہ ؟ اگر وہ آپکی تصوير ہے تو پھر تو ميں تعريف کروں اگر کسی اور کی ہے تو ميں اجنبيوں کی تعريف نہيں کرتی

اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔

اور اس تصوير ميں چابی سے جو دل پھوٹ رہے ہيں انکا رنگ نیلا کر ديں آپکو پتہ نہيں پنک رنگ لڑکيوں کے ليے ہوتا ہے (جاويد گوندل صاحب کے ليے)

حجاب نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر ، آپ کا یہ عشق وشق مجھے بانو قدسیہ کے کسی دکھ بھرے ناول سے متاثر لگتا ہے ایسے ہی الفاظ کہیں پڑھے ہیں سچی مچّی -- مگر کہاں یہ یاد نہیں ا رہا ورنہ ثبوت پیش کرتی :razz: ویسے وہ کون تھی ؟؟؟؟؟؟؟

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

مجھے آپ سے ہمدردی ہے بھیا :|
لو لے لیا سیریس اب :mrgreen:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

اسماء بی بی!

ناول پڑھنا۔ اور ٹی وی ڈرامے وغیرہ دیکھنا میرے بس کا روگ نہیں۔ یہ مجھ سے نہیں ہوتا۔ ایسے فضول شوق سے کسی روکتا نہیں کہ ہر ایک کی اپنی سردردی اور ذہنی اسطاعت ہے۔ مگر انکی عقل پہ ماتم کرنے کی‌خواہش ضرور اٹھتی ہے جسے بمشکل روکتا ہوں۔ :razz:

اردو ہی پہ بس نہیں جو زبان بھی میں نے سیکھی۔ کوشش کی کہ اسے اچھے طریقے سے سیکھوں۔ اب یہ ایک الگ بات ہے کہ کہ میری کوششیں ہمیشہ بارآور ثابت نہیں ہوتیں۔ اور میری رائے میں ہمیشہ کوئی کمی رہ جاتی ہے۔ ہمیشہ بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ انسان علم میں کبھی کامل نہیں ہوتا اور زبانیں بھی لسانی علم ہے۔

بی بی! میری کوئی اجنبی نہیں، جس کی بابت آپ مجھ سے دریافت کریں۔

بی بی! سچی بات تو ہی ہے کہ میں نے شاعری کسی کے لئیے نہیں بلکہ اپنے جنون کو ایک رستہ دینے کی کوشش میں کی ہے۔ یہ جیسے آمد ہوتی ہے اسے دوبارہ نہیں چھڑتا خواہ اس میں بہتری کی ہزار گنجائش ہو۔ جبکہ بہت سے دوستوں کے اصرار پہ سوچتا ہوں اپنی شاعری چھیڑ چھاڑ کروں۔

بی بی! آپکی نوازش ہے کہ آپ نے، شاعری میں میری طبع آزمائی کو دیکھا۔ مگر پھر سے غور کی جئیے گا اسمیں بہت سی شاعری، نسلِ انسانی، ملک و قوم کے حالات اور اپنے بد نصیب لوگوں کی عام زندگی کی مجبوری اور محرومیوں سے متاثر ہو کر کی ہے یا یوں کہیں کہ ہوگئ ہے۔

بی بی! سچی بات ہے کہ میں نے شاعری کرتے ہوئے اسلامی پہلو کے بارے میں غور نہیں کیا۔ میری ذاتی رائے میں شاعری کی تو کسی حد تک اجازت ہے مگر غالبا عشقیہ شاعری کو مناسب نہیں سمجھا جاتا۔

بی بی! چابی کے ساتھ نکلتے دلوں کا رنگ اسلئیے گالبی نہیں کہ یہ رنگ خواتین کے لئیے مخصوص ہے۔ بلکہ اسلئیے سرخی مائل گلابی ہے کہ یہ دل کا رنگ کے قریب ترین خوشنماء رنگ ہے۔

بی بی! اس سائٹ پہ تصویر میری ہے۔ مگر کافی پرانی ہے۔ آپ نے اجنبی کی بات کی ہے تو وضاحت کر دوں۔ کہ اجنبی غالبا میں ہوں۔

انشاءاللہ جیسے وقت ملا اس سائٹ کو نئے سرے سے مزین کرؤنگا۔تانکہ بہت سے دوستوں اور بہن بھائیوں کا گلہ دور ہو۔

ریحان نے فرمایا ہے۔۔۔

جاوید گوندل بھائی ۔۔ آج بہت عرصہ کسی کی لکھی بات بہت کھٹکی ہے ۔

آپ کو ناول پڑھنا ۔۔ ڈرامے دیکھنا یہ فضول کے شوق لگتے ہیں ۔۔ کیوں ! ۔۔ آپ ڈرامے نہیں دیکھتے ۔۔ ناول نہیں پڑھتے مطلب کہ یہ فضول کہ شوق ہو گئے !

گوندل بھائی اسی دنیا میں اسی معاشرہ میں انسانوں کی بہت بڑی تعداد ناول پڑھتی ہے ۔۔ کھانا چھوڑ دیتے ہیں پر ڈرامہ دیکھنا نہیں چھوڑتے ۔۔ ان کے اس شوق کو کوئی ایسے ہی فضول کا شوق کہ دے گا کیا ۔

کہنے کو تو پھر کچھ لوگ ( شاید وہ جو ناکام ہوے ہو عشق میں ) عشق کو بھی فضول گردانتے ہیں ۔۔ عشق جو موضوع ہے جعفر صاحب کی پوسٹ کا ۔۔ عشق جو اپنے آپ میں ایک طاقت رکھتا ہے ۔۔ اس طاقت سے غیر آشنا کچھ انساں اسے فلرٹازم کی نظر کر چکے پر اشعار کی شکل میں یہ بہت سے دلوں میں زندا ہے ۔

یہ عشق وشق پیار ویار کا کانسپیٹ ہمارے زہنوں میں پھر یا تو ناول سے آتا ہے یا ڈراموں سے یا انسانوں سے ۔۔ جدھر سے آیا ویسا ہی ہوگیا ۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

ریحان بھائی!

آپکی باتیں درست ہیں۔ مگر میں نے صرف اپنی بات کی ہے کہ یہ باتیں میرے بس کی نہیں ۔ مجھے سزا دینی ہو تو کسی ہندی اردو ڈرامے یا مووی کے سامنے بٹھانے پہ مجبور کر دیں۔ :lol:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

حجاب نے بالکل درست لکھا ہے کہ یہ تحریر بانو قدسیہ سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے
اس میں‌جس عشق کا ذکر کیا ہے وہ نر اور مادہ کا عشق نہیں ہے کہ میری رائے میں تو وہ مجبوری ہوتی ہے، اسے عشق کا نام دینا دونوں سے زیادتی ہے۔ افزائش نسل بہتر لفظ ہے۔ ویسے بھی 99 فیصد کیسز میں جب کوئی نر کسی مادہ کو آئی لو یو کہتا ہے تو جوابا یہی سننے کی خواہش بھی رکھتا ہے، اور اگر جواب میں اسے بھی یہ نہ کہا جائے تو وہ کسی اور منزل کی تلاش میں نکل جاتا ہے تو اس طرح یہ عشق نہ ہوا، مجبوری ہوگئی، جیسے بھوک لگنا ہماری مجبوری ہے، سونا مجبوری ہے، وغیرہ وغیرہ
میں جس کی محبت میں مبتلا ہونے کی خواہش رکھتا ہوں، وہ انسان ہے۔ بنا کسی رنگ ونسل اور مذہب و ملت کی تخصیص کے۔ صرف انسان۔ یہ ہے تو بہت مشکل ہے، لیکن میں کوشش ضرور کروں گا!

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

ہیں۔ یہ کیا۔؟

بھائی صاحب!
۔۔۔دل کی بستی پر محبت کا بلڈوزر چلا کے پرانی بستی ڈھانی اور نئی بسانی بہت مشکل ہے۔ بستی کے پرانے مکین، غم روزگار کی عدالت سے حکم امتناعی لے آتے ہیں کہ جی یہ 420 منزلہ خود غرضی کی عمارت تو آپ بالکل نہیں گراسکتے۔اور ۔۔۔۔۔

انسانوں سے محبت میں مندرجہ بالا نگارشات کا وجود تعلق یا بنتا ہے۔
لگتا ہے آپ گردشِ ایام کی سختیوں کا اندازہ کر تے ہوئے ابھی سے دل میں عشق کی انگڑائیوں سے کنارہ کش ہو رہے ہیں۔

آپ نے ایک دفعہ پھر کانٹا بدل دیا ہے۔ وہ آپ کی تصویر والا معاملہ آپ نے بیچ میں ہی چھوڑ دیا۔ اس افتاد سے بھی آپ ہاتھ اٹھا رہے ہیں۔ اگر تو سر اوکھلی میں نہیں دیا تو بہتر اگر دے دیا ہے تو موصلوں سے کیا ڈرنا بھائی!؟

اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔

جاويد گوندل صاحب ميرے اوپر والے تبصرے ميں غلطی سےُ پچاس سال پہلے کی تصوير ہے` کی جگہ لکھا گيا ُپچاس سالہ تصوير ہے` اسکے ليے معذرت خواہ ہوں ؛ آپ تو جوانی ميں اچھے خاصے ہوتے تھے تصوير يہی رہنے ديجيے گا ويب سائيٹ ميں باقی چاہے تبديلياں کر ديں

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

بی بی! ہوتے تھے سے کیا مراد ہے آپکی۔؟ کیا میں کوئی موہنجو دوڑو یا آثارِ قدیمہ سے متعلق شئے ہوں؟

بی بی! جو ہوں جیسا ہوں ۔ بس ایسا ہی ہوں۔ اسمیں اللہ کی مرضی شامل تھی میرا اسمیں کوئی دوش اور فخر نہیں۔

ابوشامل نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر! بہت اچھی تحریر ہے۔ جذبات کی ترجمانی بہت خوبصورت انداز میں کی ہے۔ یاد ہے ایک مرتبہ میں نے آپ کو کہا تھا کہ ہر شخص میں کچھ خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو اسے دوسرے سے ممتاز بلکہ فائق تر بنا دیتی ہیں۔ آپ کی یہ تحریر ثابت کرتی ہے کہ آپ لکھنے کے حوالے سے مجھ سے بہت آگے ہيں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::جاوید گوندل:: بس جی میرا کانٹے بدلنے والا ذرا بدحواس سا ہے، کبھی بھی کانٹا بدل دیتا ہے۔۔ ;-)
::ابو شامل:: صاحب شرمندہ مت کیجئے۔۔۔ اور یہ کوئی مصنوعی انکساری نہیں ۔۔۔
میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ آپ کو اچھے لگے، یہ آپ کی اچھائی ہے۔۔۔
بہت شکریہ، آپ کی حوصلہ افزائی کا۔۔۔ :smile:

بلوُ نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر صاحب عشق کر کے کیا کریں گے ؟؟؟

بلوُ نے فرمایا ہے۔۔۔

جاوید صاحب آپ تو جواب میں پوری پوسٹ ہی لکھ دیتے ہیں :mrgreen: :mrgreen: :mrgreen:

اسد علی نے فرمایا ہے۔۔۔

میرے گھر کے ستھ ٹرین کی پٹری ھے۔۔وہ جگھآپکے لیےمناسبھے عشق کے ممکناانجام تک پہنچناچاھتے ھوں اگر تو۔۔۔

آپ نے جو کمنٹ میرے بلاگ پہ کیا وہ ڈیایٹ ھو گیا بائ مشٹیک۔۔ شکرےھ وہ پوسٹ پسند کرنے کا

خرم نے فرمایا ہے۔۔۔

دیکھ کاکے بغیر افزائش نسل کے عشق وشق جو ہے نا وہ بے کار کی بات ہے۔ یہ جذبہ اولین ہے اور ہر جاندار میں موجود ہے۔ سو پہلی بات تو یہ کہ یہ افسانوی قسم کے عشق سے باز رہنا۔ ایویں ہی اتنی محنت بھی کروگے اور کھوہ کھاتے میں بھی ڈالو گے۔ بھلا یہ کیسا عشق کہ پیار کسی سے ہو اور بستر میں کوئی اور ہو؟ منافقت ہوئی جی یہ تو اور اس کو پروموٹ وہ کرتے ہیں جو خود کسی جوگے نہیں ہوتے۔ سو کاکا جی عشق کرنا ہے تو پھر ویاہ کے بھی لانا وگرنہ
ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو۔ ;-)

خرم نے فرمایا ہے۔۔۔

اور سچی بات یہ ہے کہ عشق وہی اچھا جس میں‌آپ بھی کسی کے معشوق ہو۔ ایک ہاتھ سے تالی بجائے جانا۔۔۔۔ اپنی سمجھے سے کچھ باہر لگتا ہے۔ یار عشق وہی جس میں بندہ سینے پر ہاتھ مار کر کہہ سکے کہ ہاں ہے کرلو جو کرنا ہے۔ یہ جو چھُپ چھُپ کر رو رو کر کم دلوں والی آہیں بھرنا ہے نا یہ تو ایویں ہی دل پشوری ہے۔ عشق ایک طاقت ہے جس سے انسان اچھے کام کرسکتا ہے۔ سو اگر عشق میں زور ہے نا تو یہ سب سکائی سکریپر فوراً ملیا میٹ‌ہوجائیں گے اور ایک نیا سکائی سکریپر کھڑا ہوگا جس کی بنیاد سیدھی ہوگی۔ عشق کو جھگی وہ بناتے ہیں جو اپنی کم ہمتیوں‌کو عشق کے سر منڈھتے ہیں۔ وگرنہ عشق تو بندے کو خدا سے ملا دے لالے۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::بلو:: یار یہ تو سوچا ہی نئیں ابھی تک۔۔۔ جب کریں گے تب دیکھیں گے۔۔۔ :cool:
::اسد علی:: دیکھیں‌ بھائی جان۔۔ پہلے میں‌ چالیس ہزار کا ٹکٹ خرچ کرکے آپ کے پاس آؤں اور پھر ٹرین کی پٹڑی پر عشق کے انجام تک پہنچوں۔۔۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ میں یہیں کسی ٹرالے کے نیچے آ جاتا ہوں۔۔۔ پیسے تو بچیں‌گے ناں۔۔۔ :grin:
::خرم:: آپ کے مشورے سر آنکھوں پر ۔۔۔ متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صرف پھوکے مشورے ہی نہیں بلکہ ان کے پیچھے تجربہ بھی ہے ;-) ۔ افزائش نسل اور عشق کے بارے میں‌میرے خیالات بڑے واضح ہیں جو آئندہ کبھی موقع ملا تو آپ کے ساتھ شئیر کروں گا۔

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر کیا ہو گیا
خیریت ہے نا کہیں واقعی یہ مرضِ نا مُراد لگ تو نہیں گیا جو ایسے ایسے خیالات وارِد ہو رہے ہیں مُجھے تو گھبراہٹ شُرُوع ہو گئ ہے

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::آپی:: بالکل خیریت ہے۔۔۔ :grin: بس ذرا ڈرامہ کرنے کی عادت ہے :mrgreen:

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

سکائی سکریرپ بلڈنگ بن تو جائے غریبوں کا خانہ خراب کر کے ۔۔ پر پتا نہیں نئے کرائے دار کیسے ہوں ۔ دِلے نامراد کی حفاظت بھی کریں ۔۔۔ نئی آبادیوں کے چکر میں تنہائیوں میں نہ کھو جاویں ۔۔

تبصرہ کیجیے