دودھ کا جلا

کسی بھی اچھی خبر، امید افزا بات یا خوشگوار واقعہ سے بدترین توقعات وابستہ کرلینا یا ہولناک نتائج برآمد کرلینا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے! نجانے کیا مسئلہ ہے کہ میں ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ مجھ سے کوئی خوش اخلاقی سے ملے تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ یقینا اسے مجھ سے کوئی کام ہے یا اس کے دل میں تو میرے خلاف بڑے منصوبے ہیں، یہ خوش اخلاقی تو ایک دھوکہ اور منافقت ہے۔ پکا یاد نہیں کہ میری یہ حالت کب سے ہے، لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شاید اس کی ابتداء تب ہوئی تھی، جب میرے ہم جماعت اور بہت پیارے دوست کے پروفیسر والد نے دسمبر ٹیسٹ کے نتیجے میں ردوبدل کروایا اور میں جو کلاس میں اول آرہا تھا، اسے دوسری بھی نہیں بلکہ تیسری پوزیشن پر دھکیل دیا گیا!

تب مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی تھی کہ ایسا انہوں نے کیوں کیا، ویسے سمجھ تو اب بھی نہیں آئی! کالج سے فراغت کے بعد عملی زندگی میں کودا تو پتہ چلا کہ جو کچھ میں نے بچپن سے لے کر آج تک پڑھا تھا، اسے تو میں استعمال ہی نہیں کرسکتا۔ وہ کتابیں اور اساتذہ کی باتیں تو صرف امتحان میں کامیاب ہونے کے لئے ہوتی ہیں۔ عملی زندگی میں اس کا اطلاق کرنے والوں کو "احمق" کے نام سے لکھا اور پکارا جاتا ہے!

ہوش سنبھالنے کے بعد پہلی دفعہ انتخابات کے میلے میں بڑے بڑے رہنما دیکھے اور ان کے حسین و رنگین وعدے سنے۔ تب میں نے سوچا کہ اب تو میری اور اس ملک کی قسمت بدلے ہی بدلے! لیکن نہ قسمت بدلی نہ دن۔ پھر ایک فوجی وردی میں ملبوس صاف گو سا شخص ٹیلی وژن پر نمودار ہوا اور اس نے بتایا کہ آج تک جو ہوا ہے، اسے بھول جاؤ۔ میں وہ تمام غلطیاں درست کردوں گا جو آج تک ہوئی ہیں۔ میرے دل نے کہا کہ لے بھائی! تیری اور اس ملک کی سنی گئی۔ اب تو زندگی سے لطف اندوز ہونے کی تیاری پکڑ! اللہ نے خیر کردی ہے۔ اس کے بعد کی کہانی کہنے کا حوصلہ مجھ میں نہیں!

اب کوئی اخباری کالم یا خبر یا بیان میں یاکسی ٹی وی چینل کے (لوز) ٹاک شو میں این ایف سی ایوارڈ پر داد کے ڈونگرے برسائے یا عدلیہ کے ذریعے بے رحم احتساب کےخواب دکھا کرمجھے بے وقوف بنانے کی کوشش کرے تو بھائی سن لو! میں اور بے وقوف بننے کے لئے تیار نہیں!
Comments
19 Comments

19 تبصرے:

Aniqa Naz نے فرمایا ہے۔۔۔

بھائ، اس بچائ ہوئ عقل کا آپ کریں گے کیا؟

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::عنیقہ ناز:: رینٹ اے بھیجہ کا بزنس شروع کروں گا۔۔۔

راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔

وہ کیا کہا تھا ڈاکٹر صاحب نے کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔۔ ابھی چودھری صاحب ہیں نا میدان میں۔۔ شیروانیاں دیکھ لیں، وردیاں دیکھ لیں۔۔ عمامے اور پگڑیاں بھی دیکھ لیں۔۔ ایک باری کالا کوٹ بھی دیکھ لیں تو کیا خیال ہے۔۔۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا ہمارے جیسے مومنوں کا کہ اگر اسی پرانے سوراخ سے ایک بار پھر ڈس لیا جائے تو؟ اب تو اگر نا ڈسا جائے تو سوراخ میں ہاتھ ڈال کر اطمینان کرتے ہیں کہ حضرت سانب خیریت سے ہیں یا ڈس ڈس کر وفات پاگئے نہیں تو گدگدی کرکے پوچھتے ہیں تم ڈستے کیوں نہیں ڈسو ورنہ میں دوسرا سانب لاکر سوراخ کی رونق بحال کروں۔

افتخار اجمل بھوپال نے فرمایا ہے۔۔۔

"وابستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ" سے میں ہمیشہ یہی سمجھا کہ علامہ نے " واعتصموا بحبل للہ جمیعاً " کا ترجمہ لکھا ہے

محمداسد نے فرمایا ہے۔۔۔

کہانی کا وہ حصہ تو آپ نے لکھا ہی نہیں جسے پڑھنے کا ہمیشہ اشتیاق رہا۔ کیوں کہ ہم نے جب شعور سنبھالا تو وردی کو جبری آتے ہی دیکھی۔ مضمون بہت سوں کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ لیکن سوائے امید کہ اور چارہ ہی کیا ہے۔ جو کچھ نہ کرسکے وہ امید ہی کرلے۔
کسی فرد یا ادارے کی کوششیں جزوقتی خوشیاں بھی فراہم کردیں تو اسے بھی بھرپور طریقہ سے "انجوائے" کرلینا چاہیے۔ کیا پتہ ۔ ۔ ۔ ۔

اسماء پيرس نے فرمایا ہے۔۔۔

مجھے بھی ہر کسی کو ديکھنے کی عادت ہے شکی نگاہوں سے، ميرا پڑوسی بچوں کی چھٹی کے وقت ميرے ساتھ ساتھ چلتا آتا اور باتيں کرتا آتا ہے ميں نے گھر آ کر بتايا کہ يہ آدمی مجھے تاڑو دکھائی ديتا ہے تو جواب ملا يہ پاکستانی نہيں ہے محلے داری کی خاطر ساتھ آتا ہے ايک دن ميں بلڈنگ کی سيڑھيوں سے اوپر آ رہی تھی تو چار پانچ ہٹے کٹے لڑکے جو اوپر سے بڑی تيزی سے آ رہے تھے ہميں ديکھ کر رک گئے اور نظريں نيچی کر ليں گھر آ کر ميں نے حسب عادت کہا مجھے تو يہ سب چور لگ رہے تھے تومياں جي کو سخت غصہ آيا کہنے لگے کہ وہ اوپر کی منزل پر رہنے والے مسلمان تھے اور ميرے سر پر دوپٹہ ديکھ کر رک کر نگائيں نيچی کر ليں تاکہ ميں اطمينان سے گزر جاؤں عزت دينے کي خاطر ؛ پر انہيں معلوم نہيں تھا تم پاکستانيوں کو عزت راس نہيں آتی

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

صرف آپ کے ساتھ ہی ایسا نہیں ہو رہا جعفر۔

پاکستان میں بد قسمتی سے عمومی سوچ ہی ایسی بن گئی ہے، پہلے شک کرو، پھر بعد میں یقین۔

اگر کسی نے ہمارے اعتماد کو دھوکہ دیا ہے تو جان لیجئے ہم نے بھی کبھی کسی کو دھوکہ دیا ہوگا، چاہے وہ معمولی سا ہی کیوں نہ ہو۔

وہ اچھے دن جو ہمارے بزرگ یاد کرتے رہتے ہیں ، اب شائد کبھی بھی نہ آئیں۔

فزکس کا ایک قانون ہے اینٹروپی کا۔ مجھے علم نہیں اردو میں اس کا ترجمہ کیا ہوگا، مگر خلاصہ یہ ہے کہ اس کائنات کی ترتیب روزانہ بگڑتی ہی جا رہی ہے اور یہ سلسلہ اس بے ترتیبی کے مکمل ہونے تک جاری رہے گا۔
(شائد یہی ترجمہ بنتا ہے(۔۔۔

نعمان نے فرمایا ہے۔۔۔

اگر آپ بیوقوف بننے کو تیار نہیں تب بھی کسی کا کچھ نہیں بگڑتا تاوقتیکہ ایک دن ہم سارے بیوقوف مل کر ان عقلمندوں کو پکڑ کر کوٹنا شروع کردیں۔

آپ کے لکھنے کا انداز بہت اچھا ہے۔

حجاب نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر ، اب تک تو آپ کی پیشانی پُر شکن ہو چکی ہوگی شک کی نظر سے دیکھنے والی عادت سے :roll:

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

تے تیرا کی خیال آ، میں‌تیرا اعتبار کراں‌گا؟ :mrgreen:

میرا پاکستان نے فرمایا ہے۔۔۔

بنگش صاحب کا قفرہ پسند آیا

انکل ٹام نے فرمایا ہے۔۔۔

پہلے میں بھی ہر ایک کو شک کی نظر سے دیکھتا تھا ، پھر امی کے ساتھ ایک دو دفعہ بحث کی اور امی نے سمجھا دیا ، اب جو میرے ساتھ برا کرے میں اسکو بھی اچھی نظر سے دیکھتا ہوں کہ دیکھو کتنا اچھا بندا ہے خیال کرتا ہے ۔

محمد احمد نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر بھائی

واقعی ان لوگوں نے ہمارا اعتماد بری طرح مجروح کردیا ہے۔ میرا حال بھی آپ سے مختلف نہیں ہے۔ میں اکثر رحمان ملک کی تقریر سے اگلے ہونے والے خود کش اور ڈرون حملوں کے مقام کا تعین کرتا ہوں ۔ قریشی صاحب کی باتوں سے اندازہ کرتا ہوں‌ کہ اب امریکہ کیا چاہتا ہے ویسے یہ سب ایسا ہی چلتا رہے گا اور ہم یوں ہی تکرار کرتے رہیں گے۔

پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ

خرم نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر - جب ہم آپ نے ان لوگوں سے حساب لینے کی بجائے ان کی تقلید شروع کردی تبھی سے یہ گنڈوئے سانپ بن گئے وگرنہ ان کی کیا مجال۔ اور بے اعتباری ہمیں ان پر ہر معاملہ میں ہے پر ووٹ انہی کو دیں گے کہ وہاں پر ذات، برادری، قوم، بولی کا مسئلہ ہوتا ہے۔ :mrgreen:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::راشد کامران:: تحریر کے موضوع پر تحریر سے ڈھیروں عمدہ تبصرہ۔۔۔ ویسے جناب، میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب نے جس شجر کا ذکر کیا تھا وہ شاید سیب یا انار کا شجر ہوگا، جس شجر سے ہم پچھلے باسٹھ سالوں سے وابستہ ہیں وہ کیکر کے شجر ہیں!
::افتخار اجمل بھوپال:: میرے خیال میں آپ بالکل ٹھیک سمجھے
::محمد اسد:: یہ امید جی بڑی دودھاری تلوار ہوتی ہے، پوری نہ ہو تو بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ اس لئے ہمارے بڑوں نے ہمیں امید سے ہی ناامید کردیا ہے۔ تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔۔۔
::اسماء:: آپ کے شک تو نہایت بے ضرر قسم کے ہیں :cool:
::منیر عباسی:: ڈاکٹر صاحب جہاں‌ تک یہ سوال ہے کہ پہلے دن اچھے تھے اور ہمارے بزرگ ان کو بیان بھی کرتے ہیں تو اس وقت ہمارے بزرگ جوان تھے، ان کے بزرگ میسر ہوں تو ان سے پتہ چلے گا کہ وہ زمانہ بھی بہت ہی خراب تھا اور دراصل ان کی جوانی کا زمانہ بہت اچھا تھا، یہ وہی انڈے اور مرغی والا معاملہ ہوجائے گا۔۔۔
::نعمان:: مشورہ تو آپ کا بالکل صائب ہے۔ لیکن میرے جیسے بے وقوف ابھی کم ہیں‌جو خود کو بے وقوف تسلیم بھی کریں۔ یہاں تو جس سے بات کریں، وہ افلاطون سے کم نہیں! پسندیدگی کا شکریہ۔ آپ کی حوصلہ افزائی خمیرہ مروارید کا کام کرتی ہے :smile:
::حجاب:: :lol:
::عمر احمد بنگش::‌ :mrgreen: :grin: ;-)
::میرا پاکستان:: جی بنگش صاحب تو فقروں‌کے بادشاہ ہیں۔۔۔
::انکل ٹام:: ہر ایک کی وضاحت کی جائے۔۔۔ :mrgreen:
::محمد احمد:: جی بس یہی بات جو آپ نے کی ہے۔ ان لوگوں نے ہم سے امید بھی چھین لی ہے۔
::خرم:: متفق!!!! :smile:

sadia saher نے فرمایا ہے۔۔۔

سلام جعفر

حالات نے سب کو ایسا بنا دیا ھے ھر جیکیٹ میں بم کا شک ھوتا ھے ھر گاڑی میں دھماکہ خیز مواد کا شک ---- مجھے تو ھر سیاست دان پہ کیمنے بے ایمان چور ھونے کا شک ھوتا ھے میں تو چیف جسٹس کو بھی شکی نظروں سے دیکھتی ھوں اس کی ڈوریاں کون ھلا رھا ھے

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::سعدیہ سحر:: :cry:

خرم شہزاد خرم نے فرمایا ہے۔۔۔

سچ کہا آپ نے میں بھی اب اور بے وقوف نہیں بننا چاہتا

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::خرم شہزاد خرم:: تو اس کا مطلب ہے کہ ہم دو ہو چکے ہیں۔۔۔ کیوں‌ بھئی کوئی اور ہے۔۔۔ جو بے وقوف نہیں بننا چاہتا۔۔۔

تبصرہ کیجیے