مچلکہ برائے نیک چلنی

منکہ مسمی جعفر، حال مقیم حال دل، بقائمی ہوش وحواس اقرار کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی کسی سیاسی موضوع پر لکھنے کا پاپ نہیں‌کروں گا۔ کبھی کسی پر تنقید نہیں‌ کروں گا۔ سب کی تعریف کروں گا۔ تمام نقطہ ہائے نظر کو درست مانوں گا چاہے ایک دوسرے کی ضد ہی کیوں نہ ہوں! بھٹو کو بھی شہید سمجھوں گا اور ضیاء الحق کو بھی۔ بے نظیر کو دختر مشرق اور نواز شریف کو قائد اعظم ثانی سمجھوں‌گا۔ پرویز مشرف کو پاکستان بچانے والا اور اسلام کا سپاہی سمجھوں گا۔الطاف حسین کو اپنے زمانے کا سب سے ذہین، راستباز، حق پرست اور بے باک لیڈر سمجھوں‌گا۔ منظور وٹو کو پاکستان کا سب سے دیانتدار شخص سمجھوں‌گا (اگر چہ صدرپاکستان اس اعزاز کے زیادہ مستحق ہیں لیکن وہ کچھ 14 سال قید کا چکر ہے، اس لئے ان کا نام نہیں لکھا)۔ بریگیڈئیر بلے کو نشان حیدر دینے کی پرزور سفارش کروں‌گا۔
اور بھی لوگ جو کہیں اور لکھیں‌گے، میں‌پیشگی ان سے متفق ہونے کا اعلان کرتا ہوں!
فدوی
جعفر

بارے کچھ ذکر سوئی اٹکنے کا

”بات 1992 کے آپریشن سے شروع ہوتی ہے“۔ یہ کہہ کر اس نے گہرا سانس لیا، پہلو بدلا اور یوں گویا ہوا۔ ” جدید انسانی تاریخ میں اس سے بڑا ظلم ، اس سے بڑی زیادتی کسی قوم نے کسی کے ساتھ نہیں کی ہوگی۔ قائد تحریک کے مطابق 15 ہزار افراد نے جام شہادت نوش کیا، لاکھوں افراد زخمی ہوئے، کروڑوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، اربوں ۔۔ اوہو ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو روزگار سے محروم ہونا پڑا۔ مرے پر سودرّے کے مصداق، ہمیں غدار بھی ٹھہرایا گیا اور جناح‌پورکے نام سے نئی ریاست بنانے کا الزام لگایا گیا۔ اس سارے ظلم کا ذمہ دار کون تھا؟ نواز شریف! اس نے ہمیں دھوکہ دیا، اسی کے ہاتھ پر معصوموں کا خون ہے، وہی ہے جو ہزاروں عورتوں کے بیوہ ہونے اور بچوں کے یتیم ہونے کا سبب ہے۔ اگر قائد تحریک بروقت ایجنسیوں کے ارادے بھانپ کر فرار ۔۔ نہیں ۔۔ نہیں ۔۔ میرا مطلب ہے، ہجرت نہ کرجاتے تو ان کو شہید کردیا جاتا اور ان کا مزار عظیم احمد طارق کے پہلو میں بنایا جاتا“۔
یہاں تک پہنچتے پہنچتے اس کا سانس پھول چکا تھا۔ شدت جذبات سے اس کا رنگ قرمزی جھلک دینے لگا تھا۔ میں نے اپنے دوست کو پانی کا گلاس پیش کیا۔ پانی پی کر جب اس کے اوسان بحال ہوئے تو میں نے عرض کی۔ ”آپ کی باتیں دل پر اثر کرتی ہیں، ہولو کاسٹ کے بعد 1992 کا آپریشن انسانی تاریخ کا بدترین المیہ ہے۔ اس کے ذمہ داروں کو کڑی سے کڑی سزا دی جانی چاہئے۔ اگرچہ جانے والے واپس نہیں آیا کرتے، لیکن ان کے پسماندگان کو یہ سکون تو ہوگا کہ ان کے پیاروں پر ظلم کرنے والے کیفر کردار کو پہنچ گئے ہیں“۔ یہ کہہ کر میں نے پہلو بدلا، سگریٹ سلگایا، گہرا کش لے کر نتھنوں سے دھواں نکالتے ہوئے دوبارہ اپنی بات شروع کی۔ ”لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ وہی قائد تحریک ہیں، وہی نواز شریف ہے، لیکن اب 1997 ہے! اب دونوں پھر شیروشکر ہوچکے ہیں۔ کیاصرف پانچ سالوں میں‌ہی قائد تحریک تاریخ کے اس سب سے سے بڑے ظلم پر بقول شجاعت حسین ”مٹی پاء“ چکے تھے؟؟؟ آگے چلتے ہیں! 1994 میں‌نصیر اللہ بابر کے دور میں‌جو کچھ ہوا، اس کے نوحے ابھی تک پڑھے جاتے ہیں۔ کراچی میں‌ باقاعدہ دو فوجوں کی جنگ ہوئی جس میں‌جنگی قیدیوں کے تبادلے بھی ہوئے۔ اللہ بخشے بے نظیر نے قائد تحریک کو چوہے کے لقب سے بھی نوازا۔ کیا صرف قبرستان میں فاتحہ پڑھنے سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں؟ یا یہ کسی گرینڈ ماسٹر کی سکیم آف تھنگز ہے؟‌یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کربلا کے مجرموں میں سے شمر تو ملعون ہو اور ابن زیاد، مفاہمت کے این آر او کے بعد دوست اور رحمۃ اللہ علیہ ہوجائے؟“
میرے دوست کا رنگ بدل گیا، اس کے چہرے پر غیظ و غضب کے آثار نظر آنے لگے۔ اس نے میز پر مکا مارا اور چلاتے ہوئے کہنے لگا۔ ”بات 1992 کے آپریشن سے شروع ہوتی ہے۔ جدید انسانی تاریخ میں اس سے بڑا ظلم ، اس سے بڑی زیادتی کسی قوم نے کسی کے ساتھ نہیں کی ہوگی۔ قائد تحریک کے مطابق 15 ہزار افراد نے جام شہادت نوش کیا، لاکھوں ۔۔۔۔