جدید غلامی

ميں تھوڑی دير کے لئے ہال ميں ان اميدواروں کو ديکھنے لگا جو بڑی بے چينی کی حالت ميں اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے تھے اور جو باری بھگتا کے باہر نکلتا تھا۔ اس سے بار بار پوچھتے تھے کہ تم سے اندر کيا پوچھا گيا ہے اور کس کس قسم کے سوال ہوئے ہيں؟ اور ان باہر بيٹھے اميدواروں کے چہروں پر تردد اور بے چينی اور اضطراب عياں تھا۔ ميں کھڑا ہو کر ان لوگوں کو ديکھتا رہا اور حيران ہوتا رہا کہ اگلے زمانے ميں تو لونڈی غلام بيچنے کے لئے منڈی ميں تاجر باہر سے لايا کرتے تھے۔ آج جب ترقی يافتہ دور ہے اور چيزيں تبديل ہو گئی ہيں، يہ نوجوان لڑکے اورلڑکياں خود اپنے آپ کو بيچنے اور غلام بنانے کے لئے يہاں تشريف لائے ہيں اور چيخيں مار مار کر اور تڑپ تڑپ کر اپنے آپ کو، اپنی ذات، وجود کو، جسم و ذہن اور روح کو فروخت کرنے آئے ہيں اور جب انٹرويو ميں ہمارے سامنے حاضر ہوتے ہيں اور کہتے ہيں، سر ميں نے يہ کمال کا کام کيا ہے، ميرے پاس يہ سرٹيفيکيٹ ہے، ميرے پرانے مالک کا جس ميں لکھا ہے کہ جناب اس سے اچھا غلام اور کوئی نہيں اور يہ لونڈی اتنے سال تک خدمت گزار رہی ہے اور ہم اس کو پورے نمبر ديتے ہيں اور اس کی کارکردگی بہت اچھی ہے اور سر اب آپ خدا کے واسطے ہميں رکھ ليں اور ہم خود کو آپ کے سامنے پيش کرتے ہيں۔ ميں سوچتا ہوں کہ کيا وقت بدل گيا؟ کيا انسان ترقی کر گيا؟ کيا آپ اور ميں اس کو ترقی کہيں گے کہ کسی معشيت کے بوجھ تلے، کسی اقتصادی وزن تلے ہم اپنے آپ کو خود بيچنے پر مجبور ہو گئے ہيں۔ اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں لے جا کر يہ کہتے ہيں کہ جناب اس کو رکھ لو۔ اس کو لے لو اور ہمارے ساتھ سودا کرو کہ اس کو غلامی اور اس کو لونڈی گيری کے کتنے پيسے ملتے رہيں گے۔ يہ ايک سوچ کی بات ہے اور ايک مختلف نوعيت کی سوچ کی بات ہے۔ آپ اس پر غور کيجيئے اور مجھے بالکل منع کيجيئے کہ خدا کے واسطے ايسی سوچ آئندہ ميرے آپ کے ذہن ميں نہ آيا کرے کيونکہ يہ کچھ خوشگوار سوچ نہيں ہے۔ کيا انسان اس کام کے لئے بنا ہے کہ وہ محنت و مشقت اور تردّد کرے اور پھر خود کو ايک پيکٹ ميں لپيٹ کے اس پر خوبصورت پيکنگ کر کے گوٹا لگا کے پيش کرے کہ ميں فروخت کے لئے تيار ہوں۔ يہ ايسی باتيں ہيں جو نظر کے آگے سے گزرتی رہتی ہيں اور پھر يہ خيال کرنا اور يہ سوچنا کہ انسان بہت برتر ہو گيا ہے، برتر تو وہ لوگ ہوتے ہيں جو اپنے ارد گرد کے گرے پڑے لوگوں کو سہارا دے کر اپنے ساتھ بِٹھانے کی کوشش کرتے ہيں اور وہی قوميں مضبوط اور طاقتور ہوتی ہيں جو تفريق مٹا ديتی ہيں۔ دولت، عزت، اولاد يہ سب خدا کی طرف سے عطا کردہ چيزيں ہوتی ہيں ليکن عزتِ نفس لوٹانےميں، لوگوں کو برابری عطا کرنے ميں يہ تو وہ عمل ہے جو ہمارے کرنے کا ہے اور اس سے ہم پيچھے ہٹے جاتے ہيں اور اپنی ہی ذات کو معتبر کرتے جاتے ہيں۔

(اشفاق احمد کے "زاویہ" سے ایک اقتباس)
Comments
16 Comments

16 تبصرے:

ابن سعید نے فرمایا ہے۔۔۔

قابل غور بات ہے۔

ابوشامل نے فرمایا ہے۔۔۔

حیران کن بات ہے میں بھی ہمیشہ اسی سوچ کا حامل رہا ہوں، اور اس سوچ کی تعمیر میں ایک استاد کا ہاتھ ہے جن کا ایک جملہ آج بھی یاد ہے "آج کے دور میں ہر شخص اپنے گلے میں "for sale" کی تختی لٹکائے پھر رہا ہے، کہ میری ذات اور صلاحیتیں حتی کہ میری سوچ اور نظریات سب برائے فروخت ہیں۔"
لیکن برادر! یہ ایسا دور ہے، جہاں صلاحیتوں سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ نے خود کو کتنے بڑے ‍ آقا کے پاس کتنے زیادہ پیسوں میں بیچا۔

ابن سعید نے فرمایا ہے۔۔۔

دو برس قبل جب بی ٹیک کے سال آخر میں تھا اور آئی ٹی کمپنیاں کیمپس پلیسمینٹ کے لئے آئی ہوتی تھیں تو لوگ جی جان سے ٹیسٹ اور انٹرویو کی تیاری میں لگے ہوئے ہوتے تھے۔ لوگوں کی گھبراہٹ دیکھنے کے قابل ہوتی تھی۔ ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے تھے کہ بھائی کیا کیا پوچھیں گے کچھ آئیڈیا دو۔ تب میں کسی کونے میں اپنے دو دوستوں کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوتا تھا کہ جاب کے حصول کے پیچھے ہلکان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ "اگر یہ سوچنا شروع کر دو کہ کتنے لوگوں کو جاب دے سکتے ہو تو آپ کی جاب کا مسئلہ از خود حل ہو جائے گا۔"

محمداسد نے فرمایا ہے۔۔۔

اشفاق احمد صاحب اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے لیکن ان کی تحریروں میں موجود سوچ آج بھی ہمارے آس پاس چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ مال و زر کے آگے سربسجود ہونے والوں میں صرف ارباب اختیار یا مخصوص اشخاص ہی نہیں بلکہ ہر ذی روح حسب استطاعت اسی غلامی کے حصول میں مصروف نظر آتا ہے۔ آئی پی ایل میں کھلاڑیوں کی نیلامی سے زیادہ اچھی اور کیا مثال ہوسکتی ہے۔

افتخار اجمل بھوپال نے فرمایا ہے۔۔۔

میں پریشان ہو رہا تھا کہ یہ تو کس بابے کی تحریر ہو سکتی ہے ۔ جعفر صاحب پر کیا بیتی

محمد احمد نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت عمدہ اقتباس ہے۔

*ساجد* نے فرمایا ہے۔۔۔

اشفاق احمد ! ایک ایسی شخصیت جس کی دلچسپ اور حکیمانہ باتیں ریڈیو پاکستان لاہور کے توسط سے بچپن ہی سے میرے ذہن کی تعمیر میں نمایاں عنصر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ وہی "تلقین شاہ" تھا کہ جس کی تلقین میں مزاح کی چاشنی کچھ ایسی رچی بسی ہوئی تھی کہ بچے تو بچے بڑوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کر لیتا تھا۔
آج یہاں یہ تحریر پڑھی تو اس کا ایک ایک حرف ماضی میں لے گیا۔
تحریر پیش کرنے پہ داد قبول کرو اور یہ بھی کہنے دو کہ کبھی کبھی انجانے میں غلط بندے سے بھی صحیح کام ممکن ہو جاتا ہے۔ :lol:

اسید نے فرمایا ہے۔۔۔

تبھی تو میں نوکری کے اتنا خلاف ہوں، مگر جو بھی کہئے، کرنی تو پڑتی ہے۔۔ ۔

اسماء پيرس نے فرمایا ہے۔۔۔

يہ قوم تو پہلے ہي جاہل اور ناکارہ خواتين کے حق ميں دلائل ديتے ديتے نہيں تھکتي اب تم مردوں کو بھي نوکري سے بددل کرنے کی ٹھان لی ہے

کنفیوز کامی نے فرمایا ہے۔۔۔

صدا بہار باتیں جو شاید پاکستان کے آنے والے سالوں میں بھی ایسی ہی صدا بہار رہیں گئیں اور ہمارے بچے بھی انکو پڑھ کر یہ ہی کہیں گے جو میں کہ رھا ہوں ۔

خرم نے فرمایا ہے۔۔۔

غلامی اور نوکری میں تو فرق ہے۔ اشفاق صاحب نے بھی نوکری کی۔ ہاں لیکن جو مزاج ہمارے معاشرہ کا ہے وہاں سمجھا یہ جاتا ہے کہ نوکری افسر کی عطا ہے اور جو ایسا نہ سمجھے اور نوکری کو اپنا فرض سمجھ کر ادا کرے اس کے ساتھ "باندر کلا"‌کھیلا جاتا ہے۔ ایک بلاگر تو اس سب کچھ کو تمام عمر جھیل چکے ہیں۔ ایسی نوکری اور ایسی سوچ غلامی ہے لیکن جب تعلیم ہی صرف پیسے کمانے کے لئے حاصل کی جائے اور ہر عمل دنیاوی نفع و نقصان کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو پھر غلامی ہی ہے اور وہ بھی بدترین۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::ابن سعید:: درست فرمایا۔۔۔
::ابوشامل:: ایسے ہی برائے فروخت لوگوں‌میں‌، میں‌بھی شامل ہوں۔۔۔ پر جی مجھے تو کوئی مفت میں‌لینے کو بھی تیار نہیں۔۔۔ ;-)
::محمد اسد::‌ متفق!!
::افتخار اجمل بھوپال:: بابے سے آپ کی مراد عمررسیدہ ہے یا وہی اشفاق صاحب والے بابے۔۔۔ :smile:
::محمد احمد::‌شکریہ۔۔
::ساجد:: غلط بندہ، صحیح کام کرے تو وہ زیادہ قابل تعریف بات ہے۔۔۔ ;-)
::اسماء:: اچھا جی۔۔۔ چلئے ٹھیک ہے، آپ نے ڈگری لے کے کونسا ایٹم بم ایجاد کرلیا ہے۔۔۔ :mrgreen:
::کنفیوز کامی::‌ سچ آکھیا بھائی جان۔۔۔
::خرم:: صرف ہمارے معاشرے میں‌ نہیں‌بلکہ اسے مسلم معاشرے پر بھی منطبق کیا جاسکتا ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے!!!!

اسد علی نے فرمایا ہے۔۔۔

نوکری کی تہ نخرہ کی۔۔۔!
بہرحالےکوئ مانے یا نہ ما نے آپسی تفريق ھمیشہ باعث زوال ھی ھو تی ھے۔۔۔جاھے وہ اک گھڑی میں آءے یا صدیوں میں۔۔۔
ھمہارےدین ے سب سے ذیادہ زور برابری پہ دیا۔۔۔کاش ھم اس کو اھمیت دے سکیں۔۔۔

راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔

اس سے ایک مثبت پہلو نکالا جائے تو شاید "اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز" کی مشن اسٹیٹمنٹ کا دیباچہ بنا کر قوم کو ترقی کی راہ پر لگایا جاسکتا ہے جو کئی قوموں کی ترقی کی کنجی بھی ہے۔۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جاب، کیرئیر، نوکری اور بیگار کو خلط ملط تو نہیں‌کیاجارہا؟‌ ہمارے سرکاری اداروں میں تو ہر بندہ ہی بادشاہ ہوتا ہے نوکری کہاں ;-) لیکن اب بہت سے معاشرے ایسے وجود میں آگئے ہیں جہاں شاید اشفاق صاحب اپنی رائے پر نظر ثانی کرتے۔۔ سو فیصدی نہیں لیکن صورتحال بہتری کی طرف جارہی ہے۔ اصل چیز عزت نفس ہوتی ہے کہ وہ بحال ہے یا نہیں اگر بہادر شاہ ظفر جیسی بادشاہی ملے تو کیا فائدہ؟‌

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::اسد علی:: جی یہی بات ہے، انسانیت کی۔۔۔ جو ہم میں‌ ختم ہوتی جارہی ہے۔۔۔
::راشد کامران:: اگر اس پورے مضمون کو آپ پڑھیں تو اشفاق صاحب بنیادی طور پر پاکستانی معاشرے ہی کی بات کررہے ہیں۔ جہاں‌کہیں بھی وہ اپنے قیام یورپ کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کے نظام تعلیم اور معاشرت کی تعریف ہی کرتے نظر آتے ہیں۔

راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔

بالکل درست کہ رہے ہیں۔۔ شاید اطالوی عدالت میں اپنے بطور ٹیچر کسی ٹریفک چالان میں پیش ہونے کا قصہ کئی دفعہ بیان کرکے انہوں نے اساتذہ کی عزت کی بابت توجہ دلائی تھی۔۔

تبصرہ کیجیے