فرار

انسانی ذہن بھی کمال کی چیز ہے!

ہمارے ایک جاننے والے ہیں، دوست اس لئے نہیں کہ دوستی تو ہمیشہ برابر والوں میں ہوتی ہے، ڈاکٹر ہیں، اپنا کاروبار بھی ہے۔ایک یورپی ملک کی شہریت کے حامل ہیں۔ مہنگی گاڑیاں ہیں، پر تعیش رہائش ہے۔ غرض دنیا کی ہر آسائش میسر ہے۔ صحت بھی مثالی ہے۔ اولاد کی نعمت سے بھی مالامال ہیں۔ لیکن جب بھی ملتے ہیں تو ان سے گفتگو کرکے یہ احساس ہوتا ہے کہ ان سے زیادہ فکرمند اور پریشان شخص اس دنیا میں شاید ہی کوئی اور ہو! شہریت یورپی ملک کی، رہائش خلیجی ملک میں اور فکر میں مبتلا ہیں ایک تیسری دنیا کے پسماندہ ملک کی۔ اتنے دلدوز اور دل سوز انداز میں اپنے آبائی وطن کے مسائل (سیاسی) پر اظہار خیال کرتے ہیں کہ آنکھیں بھر آتی ہیں۔ گفتگو کا اختتام ہمیشہ اس نوٹ پر ہوتا ہے کہ "ہم کبھی نہیں سدھر سکتے"۔اس آدھ پون گھنٹے کی گفتگو سے مجھے ہمیشہ یہ لگتا ہے کہ ان کا ذہن اپنی مسائل سے عاری زندگی سے بور ہو کر کچھ ٹینشن اور مایوسی کا خواہاں ہے جو اسے اپنی روزمرہ کی زندگی میں میسر نہیں آتی۔ اس گفتگو کے اختتام پر جب وہ جانے کے لئے اٹھتے ہیں تو ان سے زیادہ خوش باش اور تروتازہ شخص پوری محفل میں کوئی نہیں ہوتا۔

انسانی ذہن بھی کمال کی چیز ہے!

ایک دوسرے دوست ہیں، سولہ افراد کے کنبے کے واحد کفیل! ملازمت پیشہ، روز کنواں کھودنے والے۔ بلوں، دوائیوں، فیسوں کے چکر میں گوڈے گوڈے دھنسے ہوئے۔ ان سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو باتوں کی ایسی پھلجڑیاں چھوڑتے ہیں کہ شب برات کا گمان ہونے لگتا ہے۔ چٹکلے پہ چٹکلا، ہر آنے جانے والے پر فقرے چست کرنا،سنجیدگی سے اتنے دور، جتنا پوستی، پانی سے ہوتا ہے۔ ان کی باتوں سے کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا کہ اس بندے کو غم روزگار چھو کر بھی گزرا ہوگا۔ ہر بات اور ہر واقعے میں سے مزاح برآمد کرلینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کبھی ان کے منہ سے اپنی پریشانیوں کا ذکر نہیں سنا۔ جب بھی سنا، کوئی لطیفہ یا کثیفہ ہی سنا!

میرا ناقص مشاہدہ بھی اس کی گواہی دیتا ہے کہ جو بندہ اوپر سے جتنا ڈپریس، مایوس اور ٹینشن میں مبتلا نظر آتا ہے، اندر سے وہ اتنا ہی مطمئن اور پر باش ہوتا ہے، یہ سارے ڈفانگ اس نے جان بوجھ کر پالے ہوتے ہیں کہ اصلی نہ سہی نقلی غم ہی سہی! جبکہ جو شخص ہر وقت ہنسنے ہنسانے میں لگا رہے، باتوں کے توتے مینا بنابنا کر اڑاتا رہے، وہ حقیقت میں پریشانیوں اور مشکلات کے عین بیچ میں زندگی کررہا ہوتا ہے!
Comments
19 Comments

19 تبصرے:

Aniqa Naz نے فرمایا ہے۔۔۔

اپ نے صحیح کہا کہ یہ آپکا ناقص مشاہدہ ہے۔ دنیا میں ان لوگوں کی سوانح حیات پہ نظر ڈالیں جنہوں نے انسانیت کو اسکے دکھ اور درد کی تکلیفوں سے سنجیدہ طریقے سے نجات دلانے کی کوشش کی تو انکی اکثریت وہ تھی جس نے اپنے ھصے کے کام پہ نظر کی اور وہ کیا جو وہ کر سکتا تھا۔ اس میں سنجیدہ اور متین طبیعت کے لوگ اور ہنس مکھ بھی شامل ہیں۔ آپکے تجربے سے الگ میں یہ دیکھتی ہوں کہ جو لوگ آج کی دنیا میں زندہ رہتے ہیں وہ بہت خوشگوار موڈ میں رہتے ہیں۔ وہ کیلا کھاتے ہیں اور اسکے چھلکے کہیں راستے میں چھوڑ دیتے ہیں اور جب اس پہ سے کوئ پھسل جاتا ہے تو ہنس ہنس کر یہ قصہ کسی اور کو سناتے ہیں کہ وہ شخص کسطرح گرا اور کتنے اوٹ پٹانگ انداز سے زمین پہ پڑا تھا۔ کچھ لوگوں کو اپنے معمولی مصائب بھی پہاڑ لگتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے اطراف کے سنگین مسائل کو بھی قسمت کا لکھا سمجھ کر گذار دیتے ہیں۔ کچھ خواتین اپنی آمدنی کا بیشتر ھصہ اپنے بچوں کی تعلیم تربیت پہ خرچ کر دیتی ہیں سال میں اپنے لئیے دو جوڑے بناتی ہیں اور خوش رہتی ہیں اور کچھ کے لئیے یہ مسئلہ بہت اہم ہوتا ہے کہ انکے جنید جمشید کے نئے پرنٹس کا کلیکشن مکمل نہیں۔ اور وہ اسی بات پہ آنسو بہاتی ہیں۔ تو یہ تو ترجیحات کا مسئلہ ہے۔
کچھ لوگوں کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ انکے پاس عالیشان گھر ہو اسکے لئیے وہ اپنے بچوں کا اور اپنا پیٹ کاٹتے ہیں اور اپنا مقصد حاصل کرتے ہیں۔ پھر بھی اداس رہتے ہیں کہ ان سے اچھے گھر دوسروں کے پاس ہیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ انکے بچے دنیا کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکیں تو انکے پاس جو چار پیسے جمع ہوتے ہیں اس سے وہ بیرون ملک کا دورہ کر آتے ہیں۔ تفریح کرتے ہیں۔ ہمارے ایک جاننے والے ڈاکٹر ہیں جو اپنے پیشے کے ماہرین میں سے ہیں انکی آمدنی کا بیشتر حصہ امدادی سرگرمیوں میں گذر جاتا ہے خود وہ انتہائ سادہ زندگی گذارتے ہیں اور ہمیشہ باتوں کی پھلجھڑیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔
اربوں انسانوں کی اس دنیا میں انسانوں کو اتنی آسانی سے دو جماعتوں میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ بہتر یہ ہے کہ صرف اپنی زندگی جینے کے بجائے اپنے اطراف کے لوگوں پہ نظر کرتے رہیں اگر آپ غمزدہ ہیں تو ان میں سے کچھ آپ سے زیادہ دکھ میں ہونگے اور اگر آپ خوش ہیں تو اپنی خوشی شیئر کر لیں۔ زندگی ایک پہئیے کی طرح ہے۔ نہیں معلوم اس پہئیے پہ آپ کس باری میں بالکل بر عکس حالت میں چلے جائیں۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

پس ثابت ہوا کہ آپ واقعی پی ایچ ڈی ہیں۔۔۔ :mrgreen:

محمودالحق نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر صاحب آپ اور انیقہ ناز صاحبہ نے معاشرے میں پائے جانے والے رویوں کو سچائی کی عینک سے دیکھا اور دکھانے کی کوشش کی ۔ روز ہی ایسے لوگوں سے واسطہ پڑ جاتا ہے کہ جن کا فلسفہ زندگی کانوں کے پردے سے ٹکرا کر لوٹ جاتا ہے ۔ہر وقت پریشانی ، دولت کی کمی کا رونا ، ضروریات کا پورا نہ ہونا ، مسائل میں گھرے رہنا ۔اس کے بر خلاف میری ایک تحریر " انسان متوکل " میں ایک ایسے غریب آدمی کا ذکر ہے جو بیس سال پہلے میرے دل پر نقش چھوڑ گیا ۔

محمد ریاض شاہد نے فرمایا ہے۔۔۔

میرے خیال میں ہر شخص اس بات کا بھوکا ہوتا ہے کہ اس کی بات کو سنا جاءے ۔ اس کے ہونے کا اقرار کیا جاءے اس سے ہمدردی کی جائے ۔ چنانچہ ہر شخص مختلف طریقے اپناتا ہے کچھ وہ جن کا آپ نے ذکر کیا ہے ۔ پہلے زمانے میں صوفیا نفسیاتی معالج کا کردار ادا کرتے تھے ۔ لوگ ان کے پاس جا کر اپنا دل ہلکا کر لیتے تھے اور وہ کبھی نہیں کہتے تھے کہ بھئی کیا بونگیاں مار رہے ہو ۔ وہ سکون اور توجہ سے اس کی بات سنتے تھے اور تسلی دینے ، اللہ کی رسی کا مضبوط سہارا پکڑنے کی تلقین کے ساتھ کھانا بھی کھلاتے تھے ۔ اب یہی کام نفسیاتی معالجین بھاری فیسوں کے عوض کرتے ہیں ۔

ڈفر - DuFFeR نے فرمایا ہے۔۔۔

جس کی ”کنڈلی“ میں رونا لکھا ہو وہ ہر حالت میں روتا ہی رہتا ہے
اور پاگل تو ہمیشہ ہنستا ہی ہے :mrgreen:

ڈفر - DuFFeR نے فرمایا ہے۔۔۔

ایک تو انگریزی فلمیں دیکھنے کی وجہ سے اردو کے ہجے بھی خراب ہو گئے ہیں
یارا جی پچھلے تبصرے میں ”کس“ کو ”جس“ کر دینا

خرم ابنِ شبیر نے فرمایا ہے۔۔۔

اس کا مطلب ہے آپ بھی اندر سے پرشان ہوتے ہیں

راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔

گستاخی معاف لیکن دوسری پروفائل پڑھ کر تو ایسا لگا جیسے حکومت پاکستان کی بات ہورہی ہے یعنی سر تا پا مسائل ہی مسائل لیکن مجال ہے جو صدر سے لے کر وزیر تک کسی کی بھی پیشانی پر ایک بل آیا ہو۔۔ ہر محفل میں پھلجڑیاں ہی پھلجڑیاں اور قہقہے ہی قہقہے اور مدت پوری کرنے کا عزم۔۔ اگر حکومتوں کی انسانی شکل ہوسکتی تو آپ کے دوسرے فلاں سے جڑواں کی حد تک مشابہ ہوتی ۔۔۔

گستاخی کی معافی پہلی ہی طلب کرلی ہے۔ :smile:

*ساجد* نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر اور انیقہ کی باتیں اتنی گہری ہیں کہ ان کے مطالب کی گہرائی میں جاتے جاتے آکسیجن کی کمی سے دم گھٹنے لگ گیا۔ :roll:
فلسفہ ، منطق ، جبلت ، مہیج اور استخراج تو نہ جانے آپ کے بیان کردہ بندوں کو کس کس درجہ میں تقسیم کریں گے لیکن بشری درجہ ان کا یہی ہے کہ یہ ہمارے جیسے ہی انسان ہیں ۔ اور ہم جب اندھیرے میں خود کلامی کر کے اپنے ڈر کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو شاید اسی قسم کا "فرار" اس کے پیچھے ہوتا ہے جو متذکرہ کرداروں میں آپ نے دکھایا۔
انسانی فطرت ہمیشہ سے تغیر پسند ہے اور تغیر پذیر بھی۔ یہ عمل ہماری زندگی کے بہت ابتدائی دور سے شروع ہو جاتا ہے اور تا حیات وقوع پذیر رہتا ہے۔اس کو کہیں استقلال نہیں اور یہ عدم استقلال بعض اوقات انسان سے بے وقوفیاں بھی سرزد کروا دیتا ہے۔ سو ایک خوش حال انسان جب مایوسی کی باتیں کرے اور مفلوک الحال باتوں کی پھلجھڑیاں چھوڑے تو وہ ۔۔۔۔ٹوں ٹوں۔۔۔۔ہی کہلائے گا۔ ;-)
اف ۔ نفسیات کی زبان میں کسی کو بے وقوف کہنا کتنا مشکل ہے۔ :mrgreen:

کنفیوز کامی نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر کے کرداروں کا ایک عینی گواہ

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::محمود الحق:: بلاگ پر خوش آمدید۔۔۔ :smile:
اپنی تحریر "انسان متوکل" کا کوئی لنک ہے تو عنایت کیجئے۔
::محمد ریاض شاہد:: بلاگ پر خوش آمدید ۔۔۔ :smile:
جی بالکل۔۔۔ اسی سے ملتی جلتی بات اشفاق احمد بھی کہہ چکے ہیں۔
::ڈفر:: تو اس کا مطلب ہے کہ ہم دونوں پاگل ہیں‌ :grin:
انگلش فلموں اور کس کا تعلق خوب جوڑا ہے۔۔۔ ;-)
::خرم ابن شبیر:: اندر اور باہر ہر طرف سے ہی پریشان ہوتا ہوں، میرا فوٹو تو ملاحظہ کر ہی چکے ہوں گے آپ، بلکہ ملاحظہ کیا، لگایا ہی آپ نے تھا اپنے بلاگ پر۔۔۔ :mrgreen:
::راشد کامران::‌ ایک جوہری فرق ہے جی اس بندے اور حکومت پاکستان میں۔۔۔ یہ بندہ اپنے فرائض ادا کرکے یہ ہاہا ہی ہی کرتا ہے۔ "تھک میں‌ وڑیاں" نہیں تلتا۔۔۔ :grin:
::ساجد:: وہ جی میں نے یہ بتانے کی ناکام کوشش کی تھی کہ ہر بندہ اپنے حالات سے فرار چاہتا ہے۔ جسے کوئی غم نہیں، وہ اپنے مصنوعی غم تخلیق کرلیتا ہے۔ جبکہ پریشانیوں میں‌ دھنسا ہوا بندہ، مزاح‌ کو اپنے حالات سے فرار کا آلہ سمجھ کر استعمال کرلیتا ہے۔ اور یہ میرا ناقص مشاہدہ ہے، جس کی ناقصیت کی تصدیق کامل مشاہدے والوں نے بھی کردی ہے۔۔۔ :smile:
::کامی:: ایہہ پوسٹ جے ڈاکٹر دے ہتھ لگ گئی تے فیر؟؟؟؟ :grin:

ابوشامل نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر کا تجزیہ کم از کم میری شخصیت کی حد تک تو درست ہے۔ بلاگ پر دیکھیں تو دنیا کا کھڑوس ترین آدمی، جس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہیں آئی ہوگی۔ لیکن حقیقت میں میری کوشش ہوتی ہے کہ خوش مزاج کہلاؤں۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::ابوشامل:: آپ میرے تجزیے سے متفق ہیں ؟؟؟ آپ کا مشاہدہ بھی ناقص ہے۔۔۔ :mrgreen:

اسید نے فرمایا ہے۔۔۔

بھائی آپ تو اشفاق احمد کی گدی سنبھالنے کو بے چین ہیں،
ویسے آپ کی آخری منطق واقعی سے اختلاف ہے، جو خوش ہوتے ہیں وہ واقعی خوش ہوتے ہیں۔۔ ۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::اسید:: میاں، منطق نہیں، مشاہدہ ہے، اب اسے شاہدہ نہ سمجھ لیں۔۔۔ :mrgreen:

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

بسم اللہ کر دی ہے تو باقی کے ساڑھے چھ ارب انسانوں‌کی اقسام پر بھی غور کر ڈالو :razz: کیونکہ میرے خیال میں‌ہر شخص‌اپنے تئیں‌ایک علیحدہ ہی قسم ہے اور اس کا تعلق اس کے زہن سے ہے۔ ہاں‌دو یار چار میں‌تقسیم کرنا ہے تو جسمانی ساخت یا ایناٹمی کے لحاظ‌سے کر دو :mrgreen:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::عمر احمد بنگش:: مکرر عرض ہے کہ اس تحریر کا مقصد انسانوں کی اقسام بیان کرنا نہیں تھا۔ اور یہ ہے بھی خالصتا میرا اپنا مشاہدہ، جو ناقص ہے۔
انسانوں کو دو اقسام میں‌تقسیم کرنا ہو تو یہ بہت آسان ہے۔
پہلی قسم : جو آپ کو اچھے لگتے ہیں
دوسری قسم: جو آپ کو زہر لگتےہیں
:cool:

حارث گلزار نے فرمایا ہے۔۔۔

اگر دیکھا جا ٕے تو کیا یہ ظاہری بناوٹ نہیں؟ جو شخص خوش ہے اسکے لیٕے بھی اور جو ناخوش اسکے لیٕے بھی۔ ۔ ۔ مگر جو شخص ظاہری طور پہ خوش ہے، کم از کم زندگی جی تو رہا ہے۔ ۔ ۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::حارث گلزار:: آپ کا نقطہ نظر بھی قابل غور ہے :idea:

تبصرہ کیجیے