دلڑی علیل اے

آپ خود کو جتنا مرضی سنگدل بنانے کی کوشش کرلیں، اخبار پڑھنا چھوڑ دیں کہ روزانہ ایک ہی خبر کوئی کب تک پڑھے؟ نیوز چینلز پر تین حرف بھیج دیں کہ فشار خون بلند نہ ہو اوربھوک لگتی رہے۔ کوئی کیلے کے چھلکے سے پھسل کر ٹانگ تڑوالے تو اس پر ہنس ہنس کے دہرے ہونے کا حوصلہ پیدا کرلیں لیکن پھر بھی آپ کے پتھر دل میں یہ سن کر رقت پیدا ہوسکتی ہے کہ ایک یتیم لڑکی جوخاندان کی واحد کفیل ہو، اپنے خاندان کے لئے رزق کا بندوبست کرنے کے بعد، رات گئے، گھر کی عافیت میں واپس جاتے ہوئے اسے، دولت اور رسوخ کے نشے میں چور دو افراد اغوا کرکے ساری رات ہوس کا نشانہ بناتے رہیں اور صبح سڑک پر پھینک دیں۔ یہ ماجرا پڑھ کر میرے جیسے سنگدل کے دل میں بھی جونک لگ سکتی ہے، اس کی آنکھ میں بھی آنسو اور زبان پر بددعا آسکتی ہے۔ اس کے دل میں بھی تمنا جاگ سکتی ہے کہ کاش! میں اپنے ہاتھوں سے ان بے غیرتوں کے ٹکڑے کروں۔آپ یقینا مجھے جذباتیت کا شکار قرار دیں گے، قانون کی پاسداری کا آموختہ یاد دلانے کی کوشش کریں گے، قانون کو ہاتھ میں لینے کے بھیانک مضمرات سے آگاہ کریں گے، معاشرے میں انارکی پھیلنے کے خدشات سے ڈرائیں گے۔ لیکن انارکی اور کس طرح کی ہوتی ہے؟

میں بہت تکلیف میں ہوں اور مجھے بہت دکھ ہے اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اس کیفیت سے نکلنے کے لئے کیا کروں؟ ظالموں کے لئے بددعائیں کرتے ہمیں باسٹھ سال ہوگئے۔ سنتے تھے کہ مظلوم کی بددعا لگ جاتی ہے لیکن ہماری تو بددعا بھی نہیں لگتی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ہی ظالم ہیں!

Comments
19 Comments

19 تبصرے:

اسماء پيرس نے فرمایا ہے۔۔۔

اللہ غارت کرےان بيس سال کے دونوں چار سو بيسيوں کوشايد اسی ليے اسلام ميں ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان کی سزا رکھی گئی ہے جب اپنی جند پر پڑے گي تو ہی عقل ٹھگانے آئے گی

اسد علی نے فرمایا ہے۔۔۔

بھت ذکھہ ھوا۔۔یہ پڑھہ کر۔۔
ذمہ داری شایدان حیوانوں کے والدین کی پھی ھے جنہوں نے ان کو اتنی ڈھیل دے رکھی ھے کہ وہ ھر را ہ جلتی عورت بہ اپنی شیطانی خواھشات پوری کرنے کے درپے ھوجاتےھیں۔۔۔

بلوُ نے فرمایا ہے۔۔۔

ماں باپ کی ڈھیل کیا جناب وہ تو اس وقت خود کسی ایسے ہی کام میں مشغول ہوں گے اپنے بچوں کو کیا روکیں گے
اور جعفر صاحب کی بات دل کو لگتی ہے کہ ہم خود ہی ظالم ہیں

sadia saher نے فرمایا ہے۔۔۔

سلام جعفر

بلاگ ایسا لکھا ھے مجھے لگ رھا تھا میں اپنا بلاگ پڑھ رھی ھوں
اس واقعے کے نتیجے میں کوئ جلوس نہیں نکلا ھوگا پتا نہیں ایف آی آر بھی کٹی ھو گی یا نہیں ۔۔۔ اس واقعے کے بارے میں ٹی وی پہ دیکھا تھا بہت غصہ آیا تھا مگر کچھ دن ایسے ٹاپکس پہ کچھ نہ لکھنے کی قسم کھائ ھے

ڈفر - DuFFeR نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت عرصے بعد چند دن پہلے اخبار اٹھایاتو فرنٹ پیج پہ یہی خبر نطر آئی، اس کے بعد سے ابھی تک اخبار کا پھر سے بائیکاٹ جاری ہے
لیکن ٹی وی پہ جو دیکھا کہ وزیر اعلٰی صاحب نے ”بچی“ کو چیک، ایس ایچ او کو شاباش اور میڈیا کو ایک خبر دی اور اپنی مشہوری سمیٹ کر اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔ ہم بحیثیت مجموعی ایک بے غیرت اور ذلیل قوم ہیں اور ہمیں اسے ماننے میں کسی لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہئے

راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔

نہیں آپ جذباتیت کا شکار نہیں ہیں۔۔ واقعتا اس طرح کے افراد کو سخت سے سخت سزائیں ملنی چاہئیں اور نا ملنے کی ہی صورت میں لوگ قانون ہاتھ میں لینا شروع کردیتے ہیں۔ جن لوگوں کا اورڑھنا بچھونا دولت ہو وہ سوائے چیک کے اور دے بھی کیا سکتے ہیں۔ اب شاید ہمارے ملک میں بھی انصاف صرف چیک کی صورت میں ملتا ہے۔ جتنا بڑا ظلم اتنا بڑا چیک اور جہاں تک مظلوم کے لیے آواز بلند کرنے کی بات ہے تو یہ مسئلہ ایک ایسی سیاست کی نظر ہوچکا ہے جس میں ظالم اور مظلوم کا ایک خاص سیاسی اور مذہبی تعلق ضروری ہے ورنہ میڈیا، عوام اور سیاستدانوں‌ کے لیے اس کی مارکیٹ‌ ویلیو اتنی زیادہ نہیں‌ہوتی۔ جب تک طالبان کوڑے نا ماریں یا امریکن سی آئی اے کسی کو اٹھا کر نا لے جائے واقع قابل احتجاج نہیں‌ہوتا ۔ بات شاید اختلافی ہوجائے لیکن اپنے ملک پر نظر ڈالتا ہوں ‌ تو یہ سب دیکھنے کو ملتا ہے اور اس پر لہک لہک کر کچھ لوگ جب دوسروں کو اپنے تہذیبی خنجر سے خودکشی کی بشارتیں دیتے ہیں تو دل کورونا اور جگر پیٹنا درست سمجھ آتا ہے۔

Aniqa Naz نے فرمایا ہے۔۔۔

ہر دکھ اور اذیت کا تاوان پیسے کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے۔ چاہے وہ بارہ سالہ بچی شاذیہ کا قتل ہو یا ہوس کا شکار ہونے والی کوئ لڑکی۔ اپنے آپکو کمزور سمجھنے والے، اپنے آپکو حقیر اور کمتر سمجھنے والے، اپنے ساتھ ہر زیادتی کو ہونے دینے کی اجازت دینے والے ظالم ہی ہوتے ہیں۔
میں راشد کامران کیساتھ ہوں۔ انسانی ہمدردی کو بھی مختلف خانوں میں بانٹ دینے والے معاشرے میں یہی کچھ ہوگا۔ ایک عام آدمی جسکی کوئ سیاسی اہمیت نہ ہو اسکے لئیے کون اٹھ کھڑا ہوگا۔
جواب یہ ہے کہ اسے اپنے لئیے خود اٹھنا ہوگا۔ اور اسے اپنے اندر لڑنے کی ہمت پیدا کرنا ہوگی۔
میرے کانوں میں اس وقت بھی ٹی وی سے آواز آ رہی ہے کامران خان کی۔ مسئلہ حکومت، اپوزیشن اور ججز کے درمیان چل رہا ہے۔ مگر اس میں ہم کہاں ہیں یہ نہیں معلوم چل رہا۔
جمال الدین افغانی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ جب تک چار چھ سر نہ کٹیں کچھ نیا ہونا ممکن نہیں۔ مجھے تو پاکستانی سیاست کا منظر نامہ اب یہی کہانی سنا رہا ہے۔ ایک ایک کر کے نہیں ہمیں اس تبدیلی کے لئے کچھ زیادہ سر چاہئیں۔

محمداسد نے فرمایا ہے۔۔۔

بات تو یہی لگتی ہے ہم بھی ظالم ہیں۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا جاتا۔ معلوم نہیں کیوں تمام مذمتیں، تمام ہمدردیاں اب گھسی پٹی لگتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر واقعہ کے بعد ہمارا ٹیپ ریکارڈر ایک مخصوص دھن سنانا شروع کردیتا ہے اور پھر اسی دھن کو سنتے سنتے ہیں میٹھی نیند سو جاتے ہیں۔ آنکھ تب کھلتی ہے جب منہ پر ایک اور تمانچہ رسید ہو۔

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

ہر بات کے ذِمے دار ہم خُود ہیں بحیثیتِ مجمُوعی ہم شرمسار بھی ہوتے ہیں لیکِن سِوائے زبانی جمع خرچ کے اور کیا کرتے ہیں یا کیا کر سکتے ہیں؟؟؟
یہ تو ایک بچی کی کہانی ہے جو سامنے آ گئ ورنہ اور کِتنی ان کہی ہیں جو سینوں میں کہیں بند گُھٹی رہ جاتی ہیں کبھی نہیں کہی جاتیں اور ہم بس ایک کے بعد ایک کہانی کے گواہ پُرانی باتوں کو بُھولنے کے ماہِر ہیں

D:\Shahida folder\AURAT,HAKOOK KITAB KI HAD TAK.htm

کنفیوز کامی نے فرمایا ہے۔۔۔

یارا میں خود ایسی خبروں سے رنجیدہ ہوجاتا ہوں دل کرتا ہے ایسے لوگوں کو چوک میں لٹکا دو شاید پھر ہی سکون مل جائے۔ :sad:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

معاشرتی طور پہ ہم بے حس ہو چکے ہیں۔ اور بے حس قوموں کے ساتھ کوئی بھی انجام کم ہوتا ہے۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

اب میں ان تبصروں کا کیا جواب دوں؟
شرمندگی، دکھ اور بے بسی ہی ہے

لفنگا نے فرمایا ہے۔۔۔

شرمندگی کہ ہم نام نہاد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندے ہیں۔

خرم نے فرمایا ہے۔۔۔

فیض صاحب یاد آرہے ہیں اور ان کی شورش بربط و نے۔

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

اس شرمندگی دکھ اور بے بسی کو اپنی طاقت بنا لیجیئے!

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

جی خُرم بِالکُل درُست کہا آپ نے

اِن طوق و سلاسل کو اِک دِن، سِکھلائيں گے شورِشِ بربط و نے
وُہ شورِش جِس کے آگے زبُوں،ہنگامہ ہے طبلِ قيصرو کِسر

آزاد ہيں اپنے فِکرو عمل،بھر پُور خزينہ ہِمّت کا
اِک عُمر ہے اپنی ہر ساعت، اِمروز ہے اپنا ہر فردا

لیکِن کب تک

احمد عرفان شفقت نے فرمایا ہے۔۔۔

بے انتہا صدمہ اور تکلیف ہو ئی تھی مجھے بھی اس واقعے کا جان کے۔۔۔

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

احمد یہ پاکستان میں پیش آنے والا پہلا واقعہ نہیں ہے ،اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آخری بھی نہیں ہوگا :oops: :sad:
آج ہی کراچی سے ایک گینگ پکڑا گیا ہے جو پنجاب سے کم عمر لڑکیاں نوکری دینے کے بہانے لا کر ان سے برا کام کرواتے تھے اور اس اڈے کے مالکوں کا تعلق بھی پنجاب سے ہی ہے!

uncletom نے فرمایا ہے۔۔۔

اآآآآآآآآآہہہہہہہہہہہہہہہہہ

تبصرہ کیجیے