32 مارچ

چاند میری زمیں، پھول میرا وطن ۔۔۔۔ سوہنی دھرتی اللہ رکھے ۔۔۔ اے وطن پیارے وطن ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ،  اگر ملی نغموں، ترانوں، نعروں، فوجی پریڈوں سے ملک ترقی کیا کرتے اور قومیں دنیا میں اپنی پہچان بنایا کرتیں تو یقینا ہم اس کائنات میں بسنے والی سب سے عظیم قوم اور سب سے ترقی یافتہ ملک ہوتے۔

سکول کے زمانے میں ۲۳ مارچ کا اپنا ایک رومان ہوتا تھا۔ مارچ پاسٹ کرتے ہوئے چاق و چوبند فوجی، سلامی کے چبوترے کے سامنے سے گزرتے ہوئے ٹینک، توپیں، میزائل اور سونے پر سہاگہ اظہر لودھی کا خون کی گردش تیز کرتا ہوا رواں تبصرہ۔ وہ زمانہ گزرگیا۔ اور اپنے ساتھ بہت سے رومان بھی لے گیا۔ اب 23 مارچ کو بہت سے تلخ سوال میرے سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں اور جواب کا تقاضہ کرتے ہیں۔ میرے پاس ان کا کوئی جواب نہیں!

ایک سوال یہ ہے کہ "پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ" کا کیا مطلب تھا؟ اگر اس کا مطلب پاکستان کو دین اسلام کے مطابق چلانا تھا تو عمر (رض) سے ایک عام آدمی بھری محفل میں پوچھ لیتا تھا کہ یہ کرتہ تو نے کیسے بنا لیا ایک چادر سے؟ اب آپ اپنے کونسلر سے پوچھ کے دیکھیں کہ بھائی یہ ایک ہی سال میں تو موٹر سائیکل سے کار پر کیسے آگیا تو اگلا پورا مہینہ آپ پشت کے بل سو نہیں سکیں گے اور موٹی گدی والی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے بھی دس دفعہ سوچیں گے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ بھونپو نما لوگ اخبارات میں اس دن بیانات چھپواتے ہیں (اب چینلز پر اپنی سریلی آواز میں کلام شاعر بزبان شاعر کی صورت میں بھی) کہ پاکستان قیامت تک قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔ اچھا تو پھر 1971 میں اسرائیل کے دو ٹکڑے ہوئے تھے؟ شاید خدا نے ہمارے لئے اپنے قانون بدل دیئے ہیں۔ ہم جو جی چاہے کرتے رہیں یا یوں کہہ لیں کہ کچھ نہ بھی کریں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں پھر بھی ہم قائم و دائم رہیں گے۔ اور وہ جو مالک کہتا ہے کہ "لیس للانسان الا ما سعی" تو وہ شاید ہمیں چھوڑ کے باقیوں کے لئے کہا گیا ہوگا۔

ہماری رگوں میں یقینا بنی اسرائیل کا خون ہے!

اسی ۲۳ مارچ کے دن چند بزرگ ایسے بھی نمودار ہوتے ہیں، جن کا فرض ہم کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ پاکستان نہ بنتا تو وہ کسی ہندو کی دکان پر منشی ہوتے۔ اور وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار پر آٹھ آٹھ آنسو بہاتے ہیں اور ہمیں سرزنش کرتے ہیں کہ اللہ کا شکر ادا کرو کہ تم ایک "آزاد اسلامی" ملک کے رہنے والے ہو۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتاکہ کیا ہندوستان والےہماری سوکن ہیں؟ یا ہمارا ان سے وٹہ سٹہ ہے؟ کیا ہمیشہ ہم ان کو معیار مان کر ہی اپنی حالت ماپتے رہیں گے؟

ایک اور سوال ہے کہ ریاست اگر ماں جیسی ہوتی ہے تو یہ کیسی ماں ہے جو اپنے ہی بچوں کو کھاجاتی ہے؟یہ ماں ہے یا ناگن؟ یا پھر یہ ریاست صرف اس طبقے کی ماں ہے جن کے لئے اسے بنایا گیا تھا اور جو آج بھی سارے وسائل شیر مادر سمجھ کے ڈیک لگا کے پی جاتے ہیں۔ اور پھر اخبارات اور ٹی وی چینلز پر بھاشنوں کی صورت میں ڈکار مارتے پھرتے ہیں۔ عامیوں کے تعلیم، صحت، روزگار، امن و امان  کے مطالبے پر انہیں ہر سال، اگلے سال ۳۲ مارچ تک کا وقت دے دیتے ہیں۔ اور شاباش ہے ۱۷ کروڑ "غیور" عوام پر جو ۶۲ سال سے ۳۲ مارچ کا انتظار کرتے آرہے ہیں۔ کرتے رہو، قیامت تک!

اوراس پیشینگوئی کے لئے آپ کو رینڈ کارپوریشن کی کسی ریسرچ، ہنود ویہود لابی کا ایجنٹ یا کافروزندیق ہونے کی ضرورت نہیں کہ معاملات اسی طرح چلتے رہے تو ہمارے ان داتاؤں کے پاس کچھ زیادہ ۲۳ مارچیں منانے کا وقت نہیں رہ گیا۔ حشرات الارض کا کیا ہے، آپ کے پاؤں کے نیچے آکر نہ کچلے گئے تو کسی اور کے پاؤں کے نیچےآکر کچلے جائیں گے۔ اور فرق تو ان کو بھی نہیں پڑے گا۔وہ نئےفاتح کے استقبال کے لئے ائیر پورٹ پر ہار لے کر کھڑے ہوجائیں گے، جیسےان کے باپ دادا انگریزوں کے لئے گھنٹوں دھوپ میں کھڑے رہا کرتے تھے۔

بس ذرا حکمرانی کا مزا کرکرا ہوجائے گا!

Comments
36 Comments

36 تبصرے:

گمنام! نے فرمایا ہے۔۔۔

:cry:

پھپھے کٹنی نے فرمایا ہے۔۔۔

اگر يہ تمہاری اپنی تحرير ہے تو اتنے افسردہ کيوں ہو خير جب انسان چاليس سے اوپر کا ہو جاتا ہے تو ايسی بہکی بہکی باتيں کرنے لگتا ہے عمر کا تقاضا ہے اور ہم جيسوں کی برداشت، تئيس مارچ کو اوپر جان کر بتيس مارچ لکھا ہے تو ٹھيک نہيں تو تمہاری بتيسی کسی محب وطن نے باہر کر دينی ہے

راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔

پانی پانی کرگئی۔۔۔۔۔

پھپھے کٹنی نے فرمایا ہے۔۔۔

ميں نے دائيں طرف موجود اسماء کے نام پر کلک کيا کہ ديکھوں کونسی ہے تو آگے پھپھے کٹنی تھی خوشی ہوئی يہ ديکھ کر کے کوئی کام بغير کہے بھی ہو جاتا ہے اسليے اوپر جو ميں نے تمہيں عمر رسيدہ کہا وہ الفاظ واپس ليتی ہوں اب تم نو جوان ہو نو انگلش والا

سعد نے فرمایا ہے۔۔۔

آپ کی بات تو درست ہے مگر یہ مجھے ٹائٹل میں 23 مارچ کی جگہ 32 مارچ کیوں نظر آ رہا ہے؟

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

ابھی سے کیوں رو رہے ہیں ابھی تو رونے کے اور بہت مقامات آنے والے ہیں 16 فیصد مزید ٹیکس ہر خریداری پر پلس پٹرورل کی قیمت کا اضافہ آنے والا ہے :roll:
میں تو یونہی خوش ہورہا تھا مگر لگتا ہے کتے کی دم والا مسئلہ ہے :sad:

احمد فارغ نے فرمایا ہے۔۔۔

جناب قصور ان حشرات الارض‌کا بھی ہے جنہیں جب موقع بھی ملتا ہے تو انہی ڈکیتوں قاتلوں کو ووٹ دیتے ہیں، اور پھر ہماری عظیم فوج ہے جو اپنی ہی عوام کو بیچ دیتی ہے اور صرف جیتتی جب ہے جب اگلا نہتا وزیر اعطم ہو

عمر بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

ہاں‌راشد صاحب والی بات درست ہے کہ پڑھنے والے کو پانی پانی تو کر ہی رہی ہیں‌یہ باتیں، کیوں‌ناں‌میں‌ان میں‌کچھ اضافہ کر کے اپنے ڈوب مرنے کا اہتمام کر دوں :|
وہ کہیں‌خوب لکھا ہوا تھا کہ جب مغرب ایجادات کر رہا تھا تو ہمارے ہاں‌شعروں‌کا وزن برابر کیا جا رہا تھا، وہ پتہ نہیں‌کوئی مشکل سا لفظ ہے۔۔۔۔ کسی شاعر سے پوچھو کیا کہتے ہیں‌اسے؟ تو ہم نے ملی ترانوں، قومی لیڈروں اور بوٹوں‌کے شاہراہ دستور پر رقص‌کے علاوہ کمایا ہی کیا ہے؟ ہو نہہ
ہمارے لیڈر ہیں‌بھائی تو انھیں‌کیوں‌لتاڑ‌رہاہے؟ ہم تو شخصیت پرست قوم ہیں، ہر ایک نے اپنا ان کہا، خدا قسم کا لیڈر پال رکھا ہے جو غلطی تو کر ہی نہیں‌سکتا۔۔۔ اس کی ایسی کی تیسی جو جناب کو کچھ غلط کہے۔۔۔ دفع بھی کر یار، اب جب لوگ عقیدے کی حد تک ایسے شخصیات کو چاہیں‌گے، وہاں‌منطق کیا کام کرے گی؟‌وہاں‌ بحث کیا معنی رکھتی ہے؟
اچھا ہم نے اپنے انڈیکیٹر خوب رکھے ہیں، بھارت میں‌غربت زیادہ ہے پاکستان میں‌کم، بھارت میں‌اتنے ٹی وی بکتے ہیں‌اور پاکستان میں‌پانچ گنا زیادہ، بھارتی غلیظ ہیں‌ہم "پاک"، اسرائیل کا خاتمہ ہو گا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی انٹرنیٹ‌کو لے لو، تھوڑی دیر پہلے سوچ رہا تھا کہ یہ لاجواب ہے، دنیا بھر نے اس کے بنانے اور بڑھانے میں‌کسی ناں‌کسی طور حصہ ڈالا ہے، پاکستانیوں‌کی کنٹریبیوشن کس قدر ہے اور اس میں سے کتنا حصہ سنجیدگی کا پہلو رکھتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔ ہر طرف مایوسی ہے، اندھیر ہے لیکن میں‌مایوس نہیں‌ہوں، میرے خیال میں‌یہ ایک عمل ہے، ایک پروٹوکول ہے۔۔۔۔ انشاءاللہ ہم سرخرو ضرور ہوں‌گے۔۔۔ ہم شاید نہ دیکھ سکیں‌لیکن یاد رکھو۔۔۔۔ ہمارے لوگوں‌کو ہوش ضرور آئے گا۔۔ انشاءاللہ :razz:

اتنے طویل تبصرے کے لیے معذرت خواہ۔۔۔

محمداسد نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر بھائی! اس قوم کو مت جگائیں، یہ کسی ضروری کام سے سورہے ہیں :| اور ان حکمرانوں کو مت سلائیں، یہ کسی ضروری کام میں لگے ہوئے ہیں۔
بس یہ گنگنائیں:
یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہیں ______ اس کے!!! :evil:

راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔

32 مارچ کا سوال کرنے والوں کی نظر۔۔
ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے۔

یہ میڈیا کا قصور ہے یا ہماری حس مزاح بھی حالات کی نظر ہوا چاہتی ہے؟‌ عین ممکن ہے کچھ عرصے بعد لوگ شعروں کا تجزیہ بھی یوں کیا کریں کہ تمام شہر ایک وقت میں کیسے دستانے پہن سکتا ہے۔

خاور نے فرمایا ہے۔۔۔

ٹائٹل میں 32 مارچ کا لکھ کر انگریزی کا وھ فقرھ یاد کروا دیا جس پر چھٹی جماعت میں همارے هم جماعت الطاف کو مار پڑی تھی
میک اے تھرٹی ٹو اینڈ ٹیک اٹ!!!ـ
کاغذ کی
اگر یه تحریر کاغذ پر هوتی تو تھرٹی ٹو بن کر کچھ لوگوں کے ٹوک ان کو جانی تھی

sadia saher نے فرمایا ہے۔۔۔

ھم خیالی دنیا مین زندہ رھنے والے لوگ ھیں ھم خوش ھیں ھم نے پاکستان اسلام کے نام پہ حاصل کیا تھا اس کے بعد اسلام کے کیا حال ھو رھا ھے اس کے بارے میں کیا سوچنا ۔ ھم نے پاکستان اس لیے حاصل کیا تھا ایک ایسا ملک جہاں مسلمانوں کی حکومت ھو ھندو ان کا استحصال نہ کر سکیں اب حکومت مسلمانوں کی ھے استحصال کون کر رھا ھے ۔۔
خیر آپ بھی اپنے گھر پاکستان کا ایک جھنڈا لگائیں
اور آنکھیں بند کر کے گائیں چاند میری زمین پھول میرا وطن

ویسے 32 دن کس مارچ کے تھے ؟؟؟
آپ ایک نئ تاریخ لکھ رھے ھیں ایک نئ ھسٹری

میرا پاکستان نے فرمایا ہے۔۔۔

لگتا ہے جعفر صاحب نے بتیس مارچ لکھ کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے "جس طرح بتیس مارچ کوئی دن نہیں‌ہے اسی طرح یوم پاکستان بھی اب یوم پاکستان نہیں ہے"۔

نعمان نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ ریاست ہے کہ ناگن کی جگہ اگر ہوتا یہ ماں ہے کہ ناگن تو زبردست پنچ بنتا۔ باقی پوسٹ اچھی تھی۔ یقینا ہمارا آج کا نوجوان اپنے بچپن کے خوب ٹوٹنے پر افسردہ ہے کہ وہ مملکت خداد عظیم فلاحی ریاست کا شہری نہیں بلکہ دنیا کے انتہائی کرپٹ اور تشدد زدہ ملک کا بدنصیب عام شہری ہے۔

کنفیوز کامی نے فرمایا ہے۔۔۔

میری طرف سے سب کو 23 مارچ بہت ذیادہ ہی مبارک ہو اس سے اچھی جگہ نہیں ہو سکتی تھی مبارکباد دینے کی ۔ ;-)

قدیر احمد نے فرمایا ہے۔۔۔

زبردست جعفر۔ اگر ہر پاکستانی ایسا سوچنے لگ جائے تو ہماری قسمت بدل جائے، مگر ہم لوگ سوچنے پر تیار ہی نہیں، جذباتی قوم۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

آزادی بڑی چیز ہے لوگو۔اس کی قدر کرو۔ ہم اگر آزاد ہیں تو ایک دن عدل و انصاف۔ اور خوشحالی و ترقی کی منز ل بھی پا لیں۔ خدا نخواستہ اگر آزادی نہ رہی تو سب کچھ خواب پریشاں ہوجائے گا۔

کمینہ فطرت قوم سے آزادی حاصل کرنے کی قدر وقیمت اگر کسی سے پوچھنی ہے تو فلسطینیوں اور کشمیریوں سے پوچھی جائے ، اُن مظلوم اور بے بس قوموں سے پوچھی جائے جو اپنے ملک میں اپنی آزادی سے اپنی اقدار اور مزہب پہ عمل کرنے سے محروم ہیں۔ جو کسی بے بس پنچھی کی طرح اپنے پنجرے میں پھڑپھڑانے کے سوا کچھ کر نہیں پاتے۔ اپنی بے بسی اور لاچاری کا باعث جن کی آنکھوں سے آنسو نہیں بلکہ دلوں سے خون بہتا ہے۔آج ہم آزادی کی قدر نہیں کر پا رہے کہ ہمیں آزادی اندھے کی کھیر کی طرح قدرے آسانی سے مل گئی مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی ہماری طرح کم ظرف ہوں۔

اسمیں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا ایک بازہ ٹوٹ کر مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بنا مگر وہ واپس بھارت کی گود میں نہیں گرا۔ کسی غیر مسلم طاقت کے سایہ طفیل میں نہیں بیٹھا۔ پاکستان کے موجودہ مسائل تیسری دنیا کے نوے فیصد ممالک سے ملتے جلتے ہیں۔ جن پہ دیر یا بدیر ایک دن قوم قابو پا لے گی۔ قوموں کی تاریخ میں ساٹھ باسٹھ سال کا عرصہ ایک دودھ پیتے بچے کی مانند ہے۔ قومیں صدیوں بلکہ ہزاروں سال لیتی ہیں ۔ تب جا کر انمیں ایک قوم کا سا مزاج پیدا ہوتا ہے۔

مجھے عمر بھائی کی اس بات سے اتفاق ہے کہ "میں مایوس نہیں "ہمیں پاکستان کے بارے میں مایوس نہیں ہونا چاہئیے ۔ انشاءاللہ ایک وقت آئے گا یہ ملک ہر معراج پا لے گا۔

آپ سب کو یوم پاکستان مبارک ہو۔

Aniqa Naz نے فرمایا ہے۔۔۔

اعمال کا دارومدار نیتوں پہ ہے۔ میزد سادہ کریں تو نتاءج کا دارومدار نیتوں پہ ہے۔ پاکستان بناتے وقت نیت یہ تھی کہ مسلمانوں کو ترقی کے لئے ایک ایسا وطن بنے گا جہاں وہ ہندئووں کی بالا دستی کے بغیر اپنی بقاء کے لئے جد وجہد کریں گے۔ جہاں ریاستی امور اس ھساب سے بنیں گے تمام شہریوں کو انسانی بنیادی حقوق حاصل ہونگے۔
لیکن ہوا یہ کہ پاکستان بنتے کے ساتھ ہی پوری تحریک پاکستان کی نیت تبدیل ہو گئ۔ حکمرانی کا مزہ ، گندم کے اس ذائقے سے کم نہ تھا، جسکے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ آدم نے جنت میں کھانے کی جسارت کی۔
رفتہ رفتہ اس نیت میں مزید ہٹائو دیکھنے میں آئے۔ اب سوال پاکستانی مسلمانوں کی بقاء کا نہیں رہا، بلکہ بڑی سوچ بچار کیساتھ اسے اسلامی نفاذ حکومت سے جوڑ دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کو اس لئے ملا کہ ہم ہمیشہ اس طرح عدم استحکام کا شکار رہیں۔ پاکستان شاید اسکو جھیل جاتا۔ لیکن اسلامی نفاذ حکومت کا مسئلہ ، کس نے گھڑا اور اسے اب تک اس ملک کے عدم استحکام کے لئے کون استعما ل کر رہا ہے۔ مسلمان بحیثیت انسان ختم ہو گیا۔ اور کاغذ پہ اپنے بنائے ہوئے افرادی اصولوں کے نفاذ پہ لڑائ ہو رہی ہے۔ واہ۔ فلاح کا تصور تو ختم ہو گیا، اب اپنے ذاتی خداءووں کی بالادستی کے لئے لڑائ ہو رہی ہے۔ بہت خوب
اگر کوئ شخص حالات دیکھکر اپنی نیت تبدیل کرے تو اس شخص کے بارے میں لغت میں اچھے الفاظ نہیں ہیں۔ اور اگر کوئ قوم ایسا کرے تو اسکے بارے میں کیا کہنا چاہئے۔
تو جناب، آپ نے بجا فرمایا، بتیس مارچ کبھی نہیں آئے گی۔ محض انشاءاللہ کہنے سے کچھ نہیں ہوتا سوائے یہ کہ یہ اصطلاح ایک مذاق بن جائے۔ نیت درست ہو اور پھر قوم کو ایک ٹارگٹ ملے جسکی سمت وہ کام کرے تو ہی کچھ ہوگا۔ بٹی ہوئ نیت میں تو دراصل کسی کے پاس کچھ نہیں رہتا۔ اور پھر صورت حال سے مفاد پرست عناصر فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہ اٹھا رہے ہیں ۔ یہی ہوگا۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

گمنام صاحب یا صاحبہ۔ بلکہ صاحبہ ہی کہ ہمیشہ اچھا گمان کرنا چاہئے، بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ۔ اور تحریر پسند نہ آنے کی معذرت۔ آئندہ بہتر لکھنے کی کوشش کروں‌گا۔
::راشد کامران:: دیکھئے اقبال کہاں‌کہاں ہمارے کام آتے ہیں۔
::اسماء:: میرا دماغ بڈھے کا، دل بچے کا اور زبان دراز ہے۔ لہذا تینوں حصوں کی عمر بھی الگ الگ ہے۔ چالیس لکھ کے آپ نے رعایت کی، پچپن لکھنا چاہئے تھا۔ 32 مارچ والی پہیلی تبصروں‌پر نظر دوڑانے سے حل ہوگئی ہوگی۔ نہیں‌ہوئی تو ایک دفعہ پھر پوسٹ اور تبصرے پڑھ ڈالئے۔ اللہ نے چاہا تو ضرور افاقہ ہوگا۔ بلاگ رول میں‌ شامل کروانے کے لئے کہنے کی کیا ضرورت ہے جی؟ مجھے جو بلاگر اچھا لگتا ہے، بلکہ اچھا نہیں بھی لگتاتو بھی میں اسے بھی شامل کرلیتا ہوں :grin:
::سعد خالد::‌اس لئے عنوان 32 مارچ ہی ہے!
::احمد فارغ:: جہاں‌تک انتخابات کا سوال ہے تو میں‌اسے آمریت بذریعہ ووٹ کا نام دیتا ہوں پاکستان کے "تناظر" میں۔ اور یہ بھی حشرات الارض پر تہمت ہے کہ وہ اپنے حکمران چنتے ہیں۔ نسل در نسل سے وہ ایک ہی طبقے کے محکوم چلےآتے ہیں۔ اوراگر احباب جان کی امان دیں تو یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ قیام پاکستان نے یہ محکومیت کا جال اور بھی مضبوط کیا ہے۔
::عمر بنگش:: پوسٹ تو بھائی اب تو لکھتا نہیں۔ یہ تبصرہ ہی پوسٹ کردے۔ میری تحریر سے تو ڈھیر اچھا ہے۔ ساری باتوں سے متفق ہوں۔ اور معذرت کرنی ہے تو اپنے بلاگ پر نہ لکھنے کی کر۔ کہ ہم جیسے تو اسی آس میں‌ دن میں‌ پانچ چھ چکر لگاتے ہیں کہ شاید کچھ لکھا ہو۔۔۔۔
::محمد اسد::‌ نہیں‌جناب، جگا نہیں‌رہا۔ جن کو جگانے کے لئے اللہ کی کتاب کچھ نہیں کرسکی، میں کیا کرسکوں گا؟
::راشد کامران::‌ میری طرف سے آپ نے وضاحت کردی۔ شکریہ
::خاور کھوکھر:: لکھتے وقت 32 کا یہ مطلب میرے ذہن میں‌نہیں‌تھا لیکن سوچا جائے تو یہی مطلب ہونا چاہئے۔
::سعدیہ سحر:: ہندو کے استحصال کی بھی لمبی کہانی ہے اور ہمارا قومی معدہ ابھی اتنا مضبوط نہیں ہوا کہ اسے ہضم کرسکے۔ 32 مارچ والی وضاحت تو ہوچکی ہوگی اب تک۔
::میرا پاکستان:: یہ بھی کہا جاسکتاہے۔ لیکن میرا لکھنے کا مقصد تھا کہ ساری سلامیاں، پریڈیں، موج میلے تو ان کے لئے ہیں اور ہمارے لئے 32 مارچ کے وعدے۔ نہ 32 مارچ آئے گی نہ وعدہ پورا ہوگا۔ اور ویسے بھی وعدہ کوئی قرآن حدیث تو ہوتا نہیں!
::نعمان:: آپ کی اجازت کے بغیر ہی میں‌نے ناگن والاجملہ بدل دیا ہے۔ اگرچہ یہ وہ مکا ہے جو لڑائی کے بعد یاد آیا ہے لیکن پھر بھی میں نے اپنے منہ پر مار لیا ہے۔
::کنفیوز کامی::‌ خیر مبارک اور آپ سب کو 32 مارچ مبارک۔
::قدیر احمد:: شکریہ قدیر بھائی۔
::جاوید گوندل::‌ جناب میں‌ بالکل آپ سے متفق نہیں۔ بات پھر وہی آگئی کہ بنگلہ دیش علیحدہ ہوا تو ہندوستان کے ساتھ نہیں‌ملا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ علیحدہ کیوں ہوا؟ اور اگر کیبنٹ مشن پلان پر عمل ہوجاتا تو پھر؟ آج ساٹھ کروڑ سے بھی زیادہ مسلمان کیا ہندوستان میں‌اقلیت ہوتے؟ اور کوئی ان کا ایسا استحصال کرسکتا، جو اب کیا جارہا ہے؟ یہ ایک طالب علم کے سوال ہیں۔ لیکن ان کے جواب دینے کے لئے ابھی ہم بحیثیت قوم بالغ نہیں ہوئے۔ ابھی تک تو ہم صرف، اٹس فن ٹو بی ینگ۔۔۔۔ ایں ںںںںںں۔۔۔۔ ہیں!
::عنیقہ ناز::‌ پس ثابت ہوا کہ کچھ مسئلے ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں دو نابغے متفق ہوتے ہیں!

ابن شبیر نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر بھائی اللہ بہتر کرے گا انشاءاللہ


"وہ کہیں‌خوب لکھا ہوا تھا کہ جب مغرب ایجادات کر رہا تھا تو ہمارے ہاں‌شعروں‌کا وزن برابر کیا جا رہا تھا، وہ پتہ نہیں‌کوئی مشکل سا لفظ ہے۔۔۔۔ کسی شاعر سے پوچھو کیا کہتے ہیں‌اسے؟ تو ہم نے ملی ترانوں، قومی لیڈروں اور بوٹوں‌کے شاہراہ دستور "
عمر بھائی اس میں شاعروں کا کیا قصور ہے کیا پاکستان کی تاریخ شاعروں سے بھری پڑی ہے ایک دفعہ میرے بلاگ پر بھی کسی نے یہی بات لکھی تھی شاہد راشد بھائے تھے
میرے بھائی وزن کا سلسلہ یا علم عروض کی اگر آپ کو سمجھ نہیں‌ تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ ہر معاملہ ان بیچاڑوں پر رکھ چھوڑیں
آپ تو پاکستان کی تاریخ کو ایسے علم عروض اور شاعر بچاروں پر ڈالتے ہیں جیسے خلیل صاحب پاکستانی تھے
میرے بھائی یہ وزن کا چکر حضور ص کے دور سے بھی پہلے کا ہے اور جب یہ چکر ہندوستان میں آیا تو اس وقت پاکستان نہیں تھا اور کیا ہندوستان میں یہ چکر نہیں ہے دنیا کا کون سا ملک ہے جہاں ادب نہیں ہے اور وزن کا چکر نہیں ہے
علم حاصل کرنے سے آتا ہے اور ہر کوئی اپنی مرضی سے علم حاصر کرتا ہے اور علم عروض بھی ایک علم ہے
وزن برابر کرنے والے دنیا کے ہر کونے میں ہیں بس فرق اتنا ہے کہ ان بچاروں نے اپنا کام ٹھیک سے کیا اور منظرِ عام پر آ گے اور ان کے مقابلے میں ایجادات کرنے والوں نے وزن بھی برابر کیا اور ایجادات بھی کی

آپ نے کہا تھا کسی شاعر سے

پھپھے کٹنی نے فرمایا ہے۔۔۔

خرم تم ان کی باتوں پر بالکل دھيان نہ دو اپنے عروض صحيح کرو يہ تو چاہتے ہی يہ ہيں کہ ہم خوش رہنا بھی چھوڑ ديں ابھی مجھ سے کل جب ايم بلال کے بلاگ کے بارے ميں گھر ميں معلومات پوچھی گئيں تو ميری معلومات نہ ہونے کے برابر تھيں تو مجھے بھی يہی جواب ملا کہ کبھی علم وہنر کی باتيں بھی سيکھ ليا کرو بلال کے بلاگ پر لکھی باتيں سمجھنے کی کوشش کرو ہر روز وزٹ کيا کرو دماغ کو اس رخ پر لگاؤ وغيرہ وغيرہ مگر تم نے ان کی ايک نہيں سننی ، سننا ميری مجبوری ہے ليکن دوسرا کان فورا استعمال کر ليتی ہوں ان کو ايجادات کرنے دو ہم ان کے دربار ميں مسخرے لگ جائيں گے جعفر ہمارا سردار ہو گا

ابن شبیر نے فرمایا ہے۔۔۔

خرم کا کیا ہے آپی خرم نے تو کچھ کیا ہی نہیں ہے لیکن جنوں نے کچھ کیا ہے ان کو بھی نا مانا جائے تو یہ اچھی بات نہیں
علم تو علم ہوتا ہے جیسے اردو ادب کی کتابیں پڑھ کر کوئی ڈاکٹر نہیں‌بن سکتا اسی طرح سائنس کی کتابیں پڑھ کر کوئی شاعر نہیں بن سکتا خیر سوچ اپنی اپنی خیال اپنا اپنا

پھپھے کٹنی نے فرمایا ہے۔۔۔

اور
انداز اپنا اپنا

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

تصحیح،
معاملہ،معاملات

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

::جاوید گوندل::‌ جناب میں‌ بالکل آپ سے متفق نہیں۔ بات پھر وہی آگئی کہ بنگلہ دیش علیحدہ ہوا تو ہندوستان کے ساتھ نہیں‌ملا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ علیحدہ کیوں ہوا؟ اور اگر کیبنٹ مشن پلان پر عمل ہوجاتا تو پھر؟ آج ساٹھ کروڑ سے بھی زیادہ مسلمان کیا ہندوستان میں‌اقلیت ہوتے؟ اور کوئی ان کا ایسا استحصال کرسکتا، جو اب کیا جارہا ہے؟ یہ ایک طالب علم کے سوال ہیں۔ لیکن ان کے جواب دینے کے لئے ابھی ہم بحیثیت قوم بالغ نہیں ہوئے۔ ابھی تک تو ہم صرف، اٹس فن ٹو بی ینگ۔۔۔۔ ایں ںںںںںں۔۔۔۔ ہیں!
معملہ یہ ہے کہ اب تو پاکستان بن گیا اب پیچھے تو جایا نہیں جاسکتا تو سوچنا یہ ہے کہ آگے کے معملات کو کس طرح صحیح کیا جائے ہے کوئی حل جناب کی نظر میں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
تنگ دلی کا تو جو عالم ہے سب کو نظر آہی رہا ہے ہے ایسے میں ایسی باتیں کچھ ہضم نہیں ہوتیں :oops:

راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔

ابن شبیر بھائی میری یہ مجال کہ عروض سے چھیڑ خانی کروں کوئی اور ناہنجار ہوگا جس نے یہ گستاخی کی ہوگی اور اگر میں ہی تھا تو معافی کا طلبگار ہوں :smile:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::خرم ابن شبیر:: کیا ہوگیا بھائی جان، عروض والی بات دل پر ہی لے لی۔ ویسے بھی ابھی آپ شاعری کے رنگروٹ ہیں، اسی لئے جذبہ اتنا جواں ہے۔ عمر کی بات سمجھنے میں شاید آپ غلطی کرگئے۔ بہرحال 20 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو تو آمد بھی زیادہ ہوتی ہوگی ۔۔ نئیں۔۔۔۔
::اسماء::‌ او جی آپ فکر نہ کریں، خرم بھائی جان شاعر ہیں تو یہ قبیلہ کسی کی بات پر بھی کوئی دھیان نہیں‌دیتا۔۔ اس لئے ٹھنڈ رکھیں :grin:
::راشد کامران:: شکر ہے جلد خیال آگیا آپ کو۔ ورنہ سات سو سینتیس بند کی نظم آپ کی شان میں‌ارشاد کی جاسکتی تھی۔ ;-)

محمد احمد نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر بھائی!

حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہیں کہ "محبِ وطن" ہونا بھی ایک گالی بنا دیا گیا ہے حالانکہ اگر ہم لوگ واقعتاً محبِ وطن ہوتے تو اس قسم کی پوسٹ کی نوبت ہی نہ آتی۔

نہ جانے لوگ کیوں اب بھی پاکستان کے وجود کو ہی غلط ثابت کرنے پر تُلے رہتے ہیں جبکہ اتنے عرصے میں تو لوگ غلط فیصلوں کو بھی قبول کر لیتے ہیں۔ پھر جیسا بھی ہے پاکستان ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے بلکہ بقول ڈاکٹر اسرار احمد پاکستان کا قیام بھی مشیّتِ الٰہی ہے۔

پھراُن لوگو ں سے پاکستان کی بہتری اور اس سلسلے میں سعی کی کیا اُمید رکھی جاسکتی ہے جو پاکستان کے وجود پر ہی تذبذب کا شکار ہیں۔

خرم ابن شبیر نے فرمایا ہے۔۔۔

سوری راشد بھائی وہ اپنے قدیر احمد بھائی تھے
آپ سے معذت چاہتا ہوں نہیں جعفر بھائی دل پر کیوں لیں گے بس ویسے ہی

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

محمد احمد صاحب آپ کو یہ جان کر شدید صدمہ ہوگا کہ یہ جو تحریر مینے اوپر اپنے تبصرے میں لکھی یہ میری نہیں بلکہ جعفر صاحب کی تھی جسے میں محض کاپی پیسٹ کرنے کا گناہ گار ہوا ہوں البتہ اس میں آخر کے دو جملے میرے ہیں!
مگر وہ تو آپ کی طرح محب وطن ٹھرے اس لیئے ان کو تو یوں بھی سات خون معاف ہیں :???:

محمد احمد نے فرمایا ہے۔۔۔

عبداللہ بھائی !

معلوم نہیں آپ کو یہ کیوں لگا کہ میں آپ سے مخاطب ہوں جبکہ میں نے باقاعدہ جعفر بھائی کو ہی مخاطب کیا ہے۔ اور پھر میں نے اُن تمام لوگوں کے بارے میں بات کی ہے جو پاکستان کے قیام کو ہی غلط سمجھتے ہیں آپ اُن میں شامل ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ آپ خود کرسکتے ہیں۔

آپ نے جعفر بھائی کو میری طرح کے محبِ وطن کہا ہے نہ جانے آپ محبِ وطن ہونے سے کیا مُراد لیتے ہیں۔ بہرکیف مجھے کسی کی دل آزاری ہرگز مقصود نہیں تھی۔

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

اگر وہ نہیں جو میں سمجھا تو اس سہوکے لیئے اور اس سے ہونے والی آپکی دل آزاری کے لیئے معذرت خواہ ہوں!
میرے اس طرح کہنے کی وجہ دراصل کچھ لوگوں کے سوچنے کا وہ انداز ہے جو یہ کراچی کے رہنے والوں اور خصوصا ان لوگوں کے لیئے جو پنجاب سے تعلق نہیں رکھتے کے لیئے ہوتا ہے،
پےہ نہیں کس نے ان کے دماغ میں یہ خناس بھر دیا ہے کہ سوائے پنجاب کے کوئی محب وطن نہیں خاص کر وہ جو اپنے حق کی بات کریں ان سے بڑا غدار اس روئے زمین پر کوئی نہیں،
اب آپ دیکھ لیں پختون خواہ کے مسئلے کو بلا وجہ اٹکایا ہوا ہے اور آج نواز شریف کا بیان؟؟؟؟؟؟؟؟

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::محمد احمد:: صاحب اب اس موضوع پر کوئی سنجیدہ بات ممکن نہیں رہی۔جس کے لئے میں معذرت چاہتاہوں وجہ آپ بخوبی جان گئے ہوں گے۔

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

جناب جعفر صاحب لیجیئے میں خاموش ہوا جاتا ہوں آپ کرلیجیئے سنجیدہ بات :roll:

افتخارراجہ نے فرمایا ہے۔۔۔

کیا آپ نے یہ پوسٹ تپانے کو لکھی ہے؟؟ ہم تو پہلے ہی تپے بیٹھے ہیں، ریاست ماں جیسے ہوتی تو صدر کیا ہوا؟؟ جس ملک کا باپ ایسا ہوگا ادھر حالات جیسے ہونے چاہئیں تھے ویسے ہی ہیں، بس یہ فکر کرو کہیں آپ کو بھی بغاوت کے چکر میں اندر نہ ڈال دیا جائے۔ یہ رونا ہم روچکے

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت خوب ایز یوژول ' عادت سے مجبور ہیں آپ :)

آپ نے ' جیسے ہمارے باپ دادا " کیوں نہیں لکھا ؟ :)

آپ کا اپنا ذاتی حصہ کیا ہے اس ناگن کو ڈسنے سے روکنے میں ؟ ملک چھوڑنے کے علاوہ

سوالات سے صرف ارباب اختیار کو ہی نہیں ہم سب کو نفرت ہے ' ہم سب صرف سوالات کرنا جانتے ہیں ' جواب دینا اور ڈھونڈنا دوسروں کے کھاتے میں

اب اگر آپ سے پوچھا جائے ' سائنس پڑھی آپ نے ' کچھ ایجاد کیا یا انوویٹ کیا ' عالمی اور ملکی سطح پر آپ کا کیا کردار ہے جس سے اکثریت کو فائدہ ہوا ہو ؟ کوئی کھیل کا میدان جس میں اپنے نام کا جھنڈا گاڑا ہو ؟ کوئی بہت اعلی پالیسی بنائی ہو ؟

انگلش موویز اور سیزنز دیکھ دیکھ کر ہی کچھ قابل تحسین قابل فخر کام کرنا شروع کیا ہو انہی کی طرح ؟

اور عمر بنگش صاحب ! بغداد میں تاتاری اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے ' جنگ عظیم دوئم میں سب سے زیادہ ایجادات ہو رہیں تھیں ' ان دونوں واقعات کے دوران اسلامی ممالک اور برصغیر میں " تخلیقی و تعمیری سوچ والے " لوگ کیا کر رہے تھے ؟ کچھ ایجاد کیا ہو " اچھی " سوچ والوں نے ؟ یا ایسے سارے اپنے اپنے ممالک چھوڑ کراچھے ملکوں میں جا بسے ؟

اپنا عمل انگریزوں سے منوانے کے بعد پورے پاکستان کے سامنے رکھ کر اس ملک پر جتنی جیسی مرضی تنقید کریں ' قابل قبول ہو گی ' خود کورا کاغذ ہیں ہم اور دوسروں کو کہتے ہیں ہمیں پڑھو ' FARCE

تبصرہ کیجیے