اس لئے ان کو خام جانتا ہوں

اس لئے ان کو خام جانتا ہوں
اپنے اشکوں کے دام جانتا ہوں
اور تو کوئی خوبی مجھ میں نہیں
دکھ اٹھانے کا کام جانتا ہوں
خواہشیں ہاتھ باندھ لیتی ہیں
ایک ایسا کلام جانتا ہوں
کون ہوں اس کی کیا خبر مجھ کو
میں تو بس اپنا نام جانتا ہوں
بے سبب تو نہیں جھجک میری
میں تمہارا مقام جانتا ہوں
گھر پہنچنے میں دیر کیسے کروں
اپنی گلیوں کی شام جانتا ہوں
کام لیتا ہوں بھولپن سے حسن
ورنہ باتیں تمام جانتا ہوں
حسن عباسی
Comments
8 Comments

8 تبصرے:

خرم ابن شبیر نے فرمایا ہے۔۔۔

السلام علیکم
ماشاءاللہ بہت پیاری غزل ہے مطلع تو ماشاءاللہ بہت پسند آیا باقی غزل بھی بہت پیاری ہے خوب

بے سبب تو نہیں جھجک میری
میں تمہارا مقام جانتا ہوں

گھر پہنچنے میں دیر کیسے کروں
میں اپنی گلیوں کی شام جانتا ہوں


بہت عرصے بعد کوئی غزل پڑھ کے لکھنے کو دل چاہ رہا ہے

پھپھے کٹنی نے فرمایا ہے۔۔۔

اچھی ہے اچھی ہے غزل بھی وہ بھی

محمد وارث نے فرمایا ہے۔۔۔

اچھی غزل ہے!

دو جگہ ؔپ نے شاید ٹإپنگ کی غلطی ہے، مطلع اور چھٹے شعر میں، دوسرے مصرعے کے شروع میں، "میں" اضافی لکھا گیا ہے جس سے وزن خراب ہو رہا ہے۔

محمداسد نے فرمایا ہے۔۔۔

کام لیتا ہوں بھولپن سے حسن
ورنہ باتیں تمام جانتا ہوں

واہ! بہت ہی عمدہ انتخاب ہے!

خرم نے فرمایا ہے۔۔۔

حیف اس چارگرہ کپڑے کی قسمت غالب
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
:smile:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

انتخاب کی پسندیدگی پر احباب کا شکریہ
اور وارث صاحب کا خصوصی شکریہ، غلطی کی نشاندھی پر :smile:

سعد نے فرمایا ہے۔۔۔

واہ بہت خوب جناب۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

شکریہ سعد

تبصرہ کیجیے