اشرف سٹیل مارٹ

اس دنیا میں سب سے بڑی ہیکڑی علم کی ہیکڑی ہے۔ صاحبِ علم فرد اور صاحبِ علم گروہ بے علم لوگوں کو صرف حیوان ہی نہیں سمجھتا، بلکہ ہر وقت انہیں اپنے علم کے ”بھؤو “ سے ڈراتا بھی رہتا ہے۔ وہ اپنے علم کے تکبّر کا باز اپنی مضبوط کلائی پربٹھا کے دن بھر بھرے بازار میں گھومتا ہے اور ہر ایک کو دھڑکا کے اور ڈرا کے رکھتا ہے۔ اس ظالم سفّاک اور بے درد کی سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی اس کے پھل دار علمی احاطے سے ایک بیر بھی توڑنا چاہے تو یہ اس پر اپنی نخوت کے کتّے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ اپنے بردوں کو اچھّا غلام بننے کا علم تو عطا کرسکتا ہے۔ لیکن انہیں باعزّت زندگی گزارنے کے رموز سے آگاہ نہیں ہونے دیتا۔ زمانہ گزرتا رہتا ہے اور اپنے اپنے دور کا ہر ذی علم برہمن، اپنے دور کے شودر کے کان پگھلتے ہوئے سیسے سے بھرتا چلا جارہا ہے۔

=====================================================================

علم کی ہیکڑی بڑی ظالم ہیکڑی ہے۔ یہ علم کے پردے میں بے علم اور معصوم روحوں پر بڑےخوفناک حملے کرتی ہے۔ علم اور جان کاری کا حصول اپنے قریبی لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور ان کے شبے میں اضافہ کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ ایک جان کار ایک ان جان سے صرف اس لیے ارفع، اعلا اور سپیرئیر ہوتا ہے کہ وہ جانتا ہے۔ اس نے واقفیت، معلومات، خبر، گُن اور ابلاغ کے بہت سے کالے اپنی دانش کے پٹارے میں ایک ساتھ جمع کررکھےہوتے ہیں۔ وہ جس بستی، جس آبادی اور جس نگری میں بھی جاتا ہے، اپنے پٹارے کھولے بغیر وہاں کے لوگوں کو سیس نوانے اور دو زانو ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔ ڈاکٹر، وکیل، ملاّ، پریچر، سیاست دان، معلّم، مقرر، کالم نگار، مندوب، اپنے نالج اور اپنی جان کاری کے پگھلے ہوئے سیسے کو نہ جاننے والے لوگوں کے کانوں میں ڈال کر انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گنگ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ماؤف کردیتا ہے۔ علم والا یہ نہیں چاہتا کہ اس کے علم کا کوڑیالا کسی اور کے پاس جائے اور اس کی پٹاری خالی کرجائے۔ البتہ وہ یہ ضرور چاہتا ہے کہ اس کے علم کا کالا ہر بے علم کو ڈس کر واپس اس کے پاس پہنچے، تاکہ وہ اگلے  آپریشن کی تیاری کرسکے۔ سچ تو یہ ہے کہ علم والا بے علم کوسوائے شرمندگی، بے چارگی، کم تری اور لجاجت کے اور کچھ نہیں دے سکتا۔ اور کسی شرمندہ، بے چارے، کم تر اور ہیٹے شخص کو درماندگی کے سوا اور دیا بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن لوگوں کے درد کا درماں کرنے کےلیے انہیں علم کی بجائے اس یقین، اعتماد اور اطمینان کی ضرورت ہوتی ہے جو اُمّی پیغمبر پریشان اور خوارو زبوں لوگوں کے کندھے پر ہاتھ دھر کر عطا کرتے رہے ہیں۔

======================================================================

علم کی ہیکڑی بھی عجیب ہیکڑی ہے۔ شہسوار کے پاس گھوڑا بھگانے کا علم ہوتا ہے تو وہ اسے چابک بنا کر استعمال کرتا ہے۔ مہاوت اپنا علم آنکس کی زبان میں ادا کرتا ہے۔ دانش ور، عالم، مفکر، گیانی، دوان اپنے علم کی تکّل جھپ کھلا کر لوگوں کے باطن میں اترتا ہے اور ان کی بے پردگی کا نظارہ کرکے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ علم والا آپ کو کچھ دیتا نہیں، آپ کی ذلتّوں کا معائنہ کرکے آپ کو سندِ خفّت عطاکرجاتا ہے۔ آپ اس کے علم سے حصہ نہیں بٹا سکتے جو اصلی ہے، جو اس کا ہے، جو نافع ہے۔ البتہ وہ علم جو پرانی گرگابی کی طرح ڈھیلا اور لکرچلا ہوجاتا ہے، اسے ضرور پس ماندہ گروہوں کو عطا کردیا جاتا ہے۔ جیسے پرانے لیر ے بڑی محبت سے خاندانی نوکر کو دے دیئے جاتے ہیں۔ ہاں بس ایک اُمّی ہوتے ہیں جو اپنا سب کچھ بلا امتیاز سبھوں کو دے دیتے ہیں اور اس کی کوئی قیمت طلب نہیں کرتے۔ وہ اپنا سارا وجود، پورے کا پورا وجود لوگوں کو عطا کردیتے ہیں اور ان کے باغ وجود سے علم نافع کی نہریں ابد تک رواں دواں رہتی ہیں۔ لیکن ہمارے علم کی نخوت بڑی ڈاہڈی نخوت ہے۔ یہ رعونت تو انسان کو انسان نہیں سمجھتی، البتہ اس کے ڈے ضرور مناتی رہتی ہے۔

اشفاق احمد کی کہانی “اشرف سٹیل مارٹ” سے اقتباسات

Comments
18 Comments

18 تبصرے:

سعد نے فرمایا ہے۔۔۔

اس مسئلے کا سادہ حل یہ ہے کہ خود بھی علم حاصل کر لو :grin:

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

:| افسوسناک حد تک، علم کا حصول اب صرف سٹیٹس سمبل رہ گیا ہے بھائی، اور مزے کی بات بتاؤں‌‌تو ہر کوئی افسر بننے کے لیے علم حآصل کر رہا :sad:
اور یارا جی۔۔۔۔۔ علم تو اب نیا سامراج ہے ہمارے معاشرے کا۔۔

یاسر خوامخواہ جاپانی نے فرمایا ہے۔۔۔

:lol: آپ بھی اور اشفاق احمد صاحب بھی انگریزی میڈ یام سکول میں کیوں نہیں پڑھے؟
ویسے یہ اشفاق احمد صاحب کون ہیں جی؟
:lol:

عمران علی مغل نے فرمایا ہے۔۔۔

:shock:
خیریت

افتخار اجمل بھوپال نے فرمایا ہے۔۔۔

کوئی ايسی منڈی ہے جہاں علم بکتا ہو ؟ مجھے ڈھائی گرام علم کی اشد ضرورت ہے ۔ جس ميں سے ايک گرام ميں علم کی ہيکٹری والے کے منہ ميں ٹھونس کر اس کا منہ بند کر دوں گا ۔ ايک گرام سڑک پر بکھير دوں گا تاکہ جس کا جی چاہے وہاں سے اُٹھا لے اور باقی کا آدھا گرام ميں اپنے پاس سنبھال کر رکھوں گا تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

جسے شک ہو وہ ایک آدھ چکر اردو بلاگنگ کے پونے عدد علمی ماموں اور ادہی عدد مامیووں کے نصف بلاگ دیکھ لیں۔ جواب مثبت آئے گا۔
ہمارے معاشرے میں جس قدر جاننے والے منافق ہیں اسقدر شاید انپڑھ منافق نہیں۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::سعد:: یہ سادہ نہیں میسنا حل ہے اگر علم حاصل کرکے خود بھی یہی کچھ کرنا ہے
::عمر احمد بنگش:: بندر کے ہاتھ استرے والی بات ہے۔
::یاسر:: میں تو پڑھا ہوں، اشفاق احمد کے بارے علم نہیں، اشفاق احمد کون ہیں؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔۔۔ ;-)
::عمران علی مغل:: مطلب؟
::افتخار اجمل بھوپال:: بلیک مارکٹ میں‌ پتہ کرکے دیکھیں، جو علم بندے کا یہ حال کرے وہ تو وہیں ملتا ہوگا
::جاوید گوندل:: ماموں اور مامیاں :shock: یہ کون ہیں جی؟

جہالستان سے جاہل اور سنکی ۔ نے فرمایا ہے۔۔۔

استاد صاحب، آداب
ارادے کجھ ٹھیک ناہی لگدے ۔ کولوں لکھدے تے ترکھ درباری ہو جاندے ۔

عثمان نے فرمایا ہے۔۔۔

یا استاذ جعفر حسین۔۔۔
عینکیں فروخت کرتے کرتے یہ آپ دستار اشفاق احمد میں کیوں سردے بیٹھے؟ کوئی "بلاگی دانش" پر پوسٹ لکھی ہوتی تو اہل ظرافت کی رگ ظرافت کا کچھ سامان ہوتا۔ یہاں تو تشنگی ہوئی نہ تشفی۔ اور پھر دل جلوں کے مرہم کے لئے پھٹکڑی چاہیے۔ آپ ہیکڑی سے ڈرا رہے ہیں؟ :lol:
باقی رہا میں چول۔۔۔تو چول تو کوئی بھی عینک پہن لے۔۔اس نے تو چولیں ہی مارنی ہیں۔ کوشش کرتے ہیں:
یہ کہانی تو آپ ہی نے پڑھی ہو گی۔ کیا اشفاق احمد نے "صاحب علم" کی کوئی تعریف اور مقام متعین کیا ہے؟ کیا علم مقید ہے جسے انھوں نے کسی گروہ سے مختص کردیا؟۔ اوپر دی گئی تحریر انسانی رویے کے بارے میں ہے۔ ہر شخص علم کی سیڑھی پر کہیں نہ کہیں کھڑا ہے۔ کون اوپر کون نیچے اس کا فیصلہ بھی ہر کوئی اپنی من پسند عینک سے کرتا ہے۔ تو پھر جو اوپر والا ہے وہ نیچے والے پر دھونس جما رہا ہے۔ اب ذرا بتائے کہ اس سیڑھی پر "صاحب علم" اور "صاحب جہل" کی کوئی آفاقی تعریف اور تقسیم کہاں سے آگئی؟ :|
علم تو ہردم ارتقاء کی حالت میں ہے۔ لوگ آگے آئیں اور اس کے ارتقاء میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ڈرنے والے اس کے ارتقاء اور بہاؤ سے ڈر گئے۔ "صاحب علم" کا ڈراوا کیسا؟
نوٹ: حلفیہ بیان دے چکا ہوں کہ اوپر چولیں ماریں ہیں۔ اب اگر کوئی "علمیت" کا بہتان مجھ پر لگاتا ہے تو اس پر کفارہ لازم ہے۔

ابوشامل نے فرمایا ہے۔۔۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے غالبا کہ "طالب دنیا کے پاس علم بالکل اس طرح ہے جیسے رہزن کے ہاتھ میں تلوار"

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::سنکی:: ہروقت اپنی ہی نہیں‌سنانی چاہیے اسی لیے اشفاق احمد کو زحمت دینی پڑی
::عثمان:: یہ کہانی صرف میں نے ہی نہیں‌اور بھی بہت سے لوگوں نے پڑھی ہے۔ بہتر ہوگا کہ ایک دفعہ آپ بھی پڑھ لیں۔ آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کا جواب مل جائے گا۔
::ابو شامل:: ایک تو "آپ جیسے لوگ " ہر بات میں‌اسلام کا تڑکا لگا دیتے ہیں۔

امتیاز نے فرمایا ہے۔۔۔

یار پوسٹ پڑھ کر بڑی شرمندگی ہوئی ہے خود پر 1010101010 ویں مرتبہ
پڑھتا جا رہا تھا اور سوچ رہا تھآ کہ جعفر عید کی چھٹیوں میں اردو نیشنل جیو گرافک دیکھتا رہا تو اس کے اثر سے یہ ایسی باتیں کر رہا ہے۔۔
لیکن نیچے اشفاق صاھب کا نام پڑھ کر۔۔
:(

حجاب نے فرمایا ہے۔۔۔

مبارک ہو آپ کے بلاگ کی واپسی تو ہوئی :smile:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::امتیاز:: او یار، تجھے میری باتیں اور اشفاق احمد کی باتیں ایک جیسی لگتی ہیں؟
دھیان کر دھیان۔۔
::حجاب:: بس جی اس بلاگ کے قارئین کی بدقسمتی ہے :grin:

عبدالقدوس نے فرمایا ہے۔۔۔

:roll:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::عبدالقدوس:: کَے ہویا بھائی؟

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

سچ تو یہ ہے ان دونوں‌، بابا اور بی بی کی تحریری پرت در پرت کھلتی جاتی ہیں۔ جتنی مرتبہ پڑھو، اتنی مرتبہ نئے اسرار کھلتے ہیں۔
ان اقتباسات میں چھپی تلخی نے پسینہ نکال دیا۔ اپنے آس پاس کے کردار نظر میں‌گھوم گئے، ایک لحظے کو تو یوں‌لگا کہ آئینہ دیکھوں‌تو شائد اس میں‌بابا یہ سب کچھ بولتا نظر آئے۔

یہ اصلی معنوں‌میں‌بابا تھا۔ وہ بابا، درویش مجذوب جس کے زندگی بدل ڈالنے والے فیض‌کی تلاش میں‌لوگ دو نمبر پیروں‌کے ہاتھوں‌لٹ جاتے ہیں۔یہ بابا زندگی بد ڈالنے والی باتین کرتا تھا اور ہم نے اسے ڈرامہ نگار سے آگے کچھ سمجھا نہیں۔ بابا زندہ تھا، مجھے لاہور جانا تھا کالج میگزین کے اقبال نمبر کے سلسلے میں۔ رمضان کا مہینہ تھا، وقت کم تھا اور مجھے جسٹس جاوید اقبال اور بابا دونوں‌سے ملنا تھا۔ میں‌صرف جاوید صاحب سے مل پایا۔ان سے بات چیت ہوئی، اور انھوں‌نے اپنے ایک متنازعہ نقطہ نظر کو بہت اچھے طریقے سے پیش کیا، مجھے پھر بھی اختلاف تھا، مگر سچ تو یہ ہے کہ شائد میں‌سمجھ ہی نہیں‌پایا ان کی بات کو۔

بابا سے ملنا تھا، فون نمبر ڈھونڈا، فون کیا، علم ہوا سو رہے ہیں، علیل ہیں۔ اگلے دو دنوں‌میں‌سُستی کی اور مل نہ پایا۔ اب سوچتا ہوں‌شائد مل لیتا تو اچھا ہوتا، کیا خآک اچھا ہوتا؟ ایک ایک تحریر تین تین چار چار مرتبہ پڑھو تو سمجھ آتی ہے، اس وقت تو شائد میں کچھ حاصل کر بھی نہ پاتا۔

پھر سوچتا ہوں‌نہ مل کر غلطی کی۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::منیر عباسی:: بالکل غلطی کی، اور بڑی غلطی کی!

تبصرہ کیجیے