ذلّت لیگ

میں نے پالٹی بنائی اے۔ بڑی مشور ہورئی اے۔ لوگ ایں، شامل ہورئے ایں۔ الیکشن اے، میں نے جیتنا اے۔ نوایشریف اے، جلتا اے۔ میری پاپولیرٹی اے، فیش بک اے، فین ایں، مزے ایں۔ پالٹی کے تین لاکھ رکن ایں، فیش بک پر آتے ایں، میرا پیج وِییَٹ کارتے ایں۔ کومنٹ کارتے ایں۔ لائک کارتے ایں۔ اور پاپولیرٹی کیا ہوتی اے؟

کرشٹینا لیمب اے۔ بڈھی اے۔ پیسے کھاتی اے، میرے خلاف رپوٹیں چھاپتی اے۔ کہتی اے، میں شراب پیتا اوں، ویلیں دیتا اوں۔ میرے پیسے ایں، اس کو کیا تکلیف اے؟ مجے سب پتہ اے۔ اسلام میں نشہ حارام اے، میں شراب پیتا اوں۔۔۔مجے نشہ نئیں اوتا اے۔۔۔۔ اس لئے مجے شراب حلال اے۔۔۔۔

میرے پاس آئی اے، میں نے لفٹ نئیں کرائی اے۔ گصہ اے، کیا اے۔ مجے ڈر نئیں لاگتا اے۔ دو باتیں ایں۔ فیش بک اے، پالٹی اے۔ راشد قاریشی اے۔ اچھا آدمی اے۔ لوگ اس کو چھیڑتے ایں، دو نمبر جرنل اے۔ ایسی بات نئیں اے۔ میں نے اس کو جرنل بنایا اے۔ ۔۔۔۔یہ باتیں جھوٹی باتیں ایں، یہ نون لیگیوں نے پھیلائی ایں۔ تم شاہ جی کا نام نہ لو، کیا شاہ جی شدائی ایں۔۔۔

لوگ مجھ کو یاد کارتے ایں۔ آہیں بھارتے ایں۔ میں ایک دن لُوٹ کر آؤں گا۔۔۔۔ میرا انتظار کارنا۔۔۔ہچچ ہچچچ۔۔۔ ہچکی اے ۔۔۔آتی اے۔۔ عوام یاد کارتی اے، نشہ نئیں اے۔۔۔ مجے سب پتہ اے۔ اسلام کا پتہ اے، نظام کا پتہ اے، عوام کا بی پتہ اے، میں نے جنگیں لڑیں ایں، میں بہادر اوں، مجے ڈر نئیں لاگتا اے۔۔ ہچچ ہچچچ ہچچچ۔۔۔

دو دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔

کہ ایک بادشاہ تھا، ایک ملکہ تھی، ملکہ وزیر کی بیوی تھی، جبکہ بادشاہ نے نرگس سے شادی کرلی تھی۔ نرگس، ہزاروں سال رونے کی وجہ سے بے نور ہوئی تھی یا بے نور ہونے کی وجہ سے ہزاروں سال روئی تھی، یہ بادشاہ نے کبھی اس سے پوچھا نہیں تھا۔ ایک دفعہ پوچھنے کی کوشش کی تھی تو نرگس ساری رات 'مینوں دھرتی قلعی کرادے میں نچّاں ساری رات' پر ناچ ناچ کے پاگل ہوگئی تھی۔ محل کے سارے ملازموں اور نوکروں اور غلاموں اور خواجہ سراؤں (کبھی بندے کا نہانے کو نہیں بھی دل کرتا) نے بھی یہ غصیلا مجرا مفت دیکھاتھا اور بادشاہ کی درازی عمر کی دعائیں کیں تھیں۔ لہذا بادشاہ کو آئندہ کے لئے 'کَن' ہوگئے تھے۔

نور، بچپن میں چائلڈ آرٹسٹ تھی، اور بڑی ہو کے بھی 'بچوں' والے کام ہی کرتی تھی، نور اور نرگس 'سہیلی بوجھ پہیلی' تھیں، بادشاہ کا تہترواں شہزادہ، جونور کے کمرشل اور نرگس کے ڈانس نما مجرے یا مجرے نما ڈانس دیکھ دیکھ کے بڑا ہوا تھا، اس کو شکار کا بہت شوق تھا۔ وزیر کی بیوی جو ملکہ تھی، وہ خفیہ طور پر گھر میں اسلحہ بناتی تھی اور پینٹ شرٹ اور موٹر سائیکل والے روشن خیالوں کو بیچتی تھی جن کی نہ داڑھیاں تھیں اور نہ ہی وہ امریکہ کو گالیاں دیتے تھے، اچھے بچے۔۔۔ بس یہ اچھے بچے سڑکوں اور گلیوں میں لوگوں کو ملکہ سے خریدا ہوااسلحہ دکھاتے تھے کہ دیکھو کیا شاندار چیز ہے۔۔۔ پر پتہ نہیں کیوں لوگ ان کو اپنے فون، پرس ، گھڑیاں وغیرہ دے دیتے تھے، حالانکہ انہوں نے کبھی خودداری کی وجہ سے ان سے کوئی چیز مانگی نہیں تھی شاید بلکہ یقینا تحفتا دیتے ہوں گے۔ شہزادی اور ملکہ کی چچیری بہن کی نند کے دیور کی بڑی بہن کی بیٹی بہت اچھی دوست تھیں۔ وہ دونوں کالج سے سیدھی جوس کارنر پر ڈیٹ مارنے جاتی تھیں، جہاں شہزادہ بھی شکار کھیلتا تھا۔

الحمرا سے بگھی والے نے جب بادشاہ سے محل جانے کے زیادہ پیسے مانگے تو بادشاہ نے غصے میں آکر اسے وزیر اعظم بنا دیا۔ جس پر بگھی والے کو اپنی بگھی بیچنی پڑی تاکہ اچھے اچھے سوٹ اور چمکیلی چمکیلی ٹائیاں خرید سکے۔ بگھی میں لگے ہوئے خچروں نے اپنے مالک کی اس بے وفائی پر عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائرکردیا۔ عالمی عدالت انصاف نے ترنت بگھی والے کو غاصب قرار دے دیا لیکن چونکہ بگھی والے کو استثناء حاصل تھا اس لئے خچروں نے جنیوا کے مشہور چوک میں اجتماعی خود کشی کی یرکانوے لگائی جس پراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے وزیر اعظم کو انسداد بے رحمی حیوانات کے آرٹیکل تیرہ سو پینٹھ بٹا ساڑھے چتالی سو کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے انہیں ساڑھے اٹھونجہ دفعہ پھانسی اور بادشاہ کی تین لگاتارچُمّیوں کی سزادی۔ بادشاہ اور وزیر اعظم اور وزیر کی بیوی یعنی ملکہ اور شہزادی، جو بادشاہ کی وجہ سے شہزادی نہیں تھی بلکہ ملکہ کی وجہ سے شہزادی تھی اور شہزادے (تہترویں) اور نرگس اور سہیلی بوجھ پہیلی نے اعلی سطحی یعنی چھت پر منعقد اجلاس میں آم چوستے ہوئے اقوام متحدہ کو جی بھر کر کوسنے دیئے اور بادشاہ نے اپنے باقی بہتّر شہزادوں کو ٹرائی سائیکل دلوانے کے لئے آئی ایم ایف سے قرضے کی درمندانہ اپیل وزیر یعنی ملکہ کے شوہرکو 'رات بھر کرو اب کھل کہ بات' والے پیکج پر املا کرائی۔

اگر کسی کو اس کی سمجھ آئے تو براہ کرم مجھے بھی سمجھائے ۔۔ اوراس تحریر سے، میری آجکل جو ذہنی حالت ہے اس کا اندازہ 'ارام ناں' لگایا جاسکتا ہے۔۔