خالہ امبالو

گیند ایک دفعہ پھر خالہ کے صحن میں جاگری تھی۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو خالہ نے اندر سے آواز دی۔ "کون اے"؟۔ "گیند آئی ہے آپ کے صحن میں"۔۔۔ میں نے جواب دیا۔ درّانہ وار باہر آتی ہوئی خالہ نے اپنا لاؤڈ سپیکر کھولا اور گلی والوں کی تفنّن طبع کےلئے فری چینل نشر کرنا شروع کردیا۔ "ہائے ہائے گیند سیدھی ہانڈی میں گری ہے جاکے، کوئی ان شیطانوں کو روکتا بھی نہیں کہ گلی میں نہ کھیلو، میں بے چاری غریب کہاں سے پکاؤں گی دوبارہ ہانڈی۔۔۔ ہائے میں لٹ گئی، برباد ہوگئی، ان کا بیڑہ غرق ہو، غریبوں کا جینا دوبھر کردیا۔۔۔ ہائےےےےے۔۔۔"۔

خالہ نے واویلے کے ساتھ بیَن کرنے بھی شروع کردیئےتھے۔ میں نے صورتحال سے بالکل بھی متاثر نہ ہوتے ہوئے ڈھیٹ پن سے کام لیا اور کہا کہ ''خالہ! ذرا دکھاؤ تو وہ ہانڈی جس میں گیند گری ہے۔۔۔۔"۔ اسی دوران گلی کے اکثر گھروں کے دروازوں کی چوکھٹیں آباد ہوچکی تھیں۔ خواتین گھر کے کام کاج چھوڑ چھاڑ، مفت کاتھیٹر دیکھنے، دروازوں میں جم چکی تھیں۔ استاد پونکے نے بھی ڈیک بند کرکے سگریٹ سلگالیا تھا اور بنچ پر گلی کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا تھا اور بھنویں اچکا اچکا کر مجھے اکسانے اور ہلاشیری دینے کی کوشش کررہا تھا تاکہ یہ ڈرامہ جاری رہے اور اس کی شام اچھی گزر جائے۔

خالہ نے میری طرف قہر آلود نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، " ہانڈی کے بالکل پاس ہی گری ہے، اگر بیچ میں گر جاتی تو۔۔۔۔۔؟"

اس انٹی(آنٹی نہیں) کلائمکس پر گلی کی خواتین اور استاد پونکے کی مایوسی اور اداسی قابل دید تھی۔

ان کے چہرے دسمبر کی آخری تاریخیں لگ رہے تھے۔۔۔۔

Comments
0 Comments

0 تبصرے:

تبصرہ کیجیے