سفرناک

جہاز میں داخل ہونے والا میں آخری مسافر تھا۔ دروازے پر کھڑی نمانی سی کُڑی، جو مجبورا سب کو السلام علیکم اور خوش آمدید کہنے پر مامور تھی، اس سے مسمسی سی بُوتھی بنا کر میں نے درخواست کی کہ مجھے پچھلی سیٹوں پر جگہ مل جائے تو بندہ شدید مشکور ہوگا کیونکہ فدوی کی طبیعت کچھ اچھی نہیں۔ اس پر اس نے دندیاں نکالیں اور بے مروت سی ہو کر مجھ سے کہنے لگی کہ آپ فی الحال اپنی سیٹ پر بیٹھیں، بعد میں دیکھیں گے۔ اس پر میرا اپنی اس تھیوری پر ایمان دوبارہ تازہ ہوا کہ شکل کا عقل پر اثر ضرور ہوتا ہے۔
 بورڈنگ کارڈ سے سیٹ نمبر دیکھ کر جب اپنی سیٹ تک پہنچا تو وہاں ایک صاحب کوٹ پتلون پہنے براجمان تھے۔ ان سے گذارش کی کہ حضور، یہ سیٹ میری ہے تو انہوں نے میری طرف دیکھے بغیر جواب دیا کہ "تسی ہور کسے سیٹ تے بے جاو، جہاز تے سارا خالی ای اے"۔ پارہ چڑھنے کو ہی تھا کہ میری نظر دوسری ائیر ہوسٹس بی بی پر پڑی جو یہ گفتگو سن کے میری طرف آرہی تھی۔ سبحان اللہ، طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی، پارہ دوبارہ معمول کی ریڈنگ دینے لگا اور میں نے لجاجت سے اس پری صورت بی بی سے مسکین سی شکل بناتے ہوئے پچھلی سیٹوں پر بٹھانے کی فرمائش کردی۔ بی بی کی صنف نازکیت کا مزید استحصال کرتے ہوئے میں نے یہ تڑکا بھی لگایا کہ میری طبیعت خراب ہے۔ اگرچہ یہ بات جھوٹ کے زمرے میں آتی تھی لیکن میں کونسا پوری دنیا میں سچا مشہور ہوں۔ بی بی نے ہمدردی سے میرے دو راتوں سے جگراتے چہرے اور نیند سے بھری آنکھوں کو دیکھا اور اشارے سے اپنے ساتھ آنے کے لیے کہا۔ جہاز کے پچھلے حصے میں تین سیٹیں خالی تھیں۔ بی بی نے مجھے وہاں بٹھایا اور ریلیکس کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اس خوفناک پریزینٹیشن میں مصروف ہوگئی جس میں بتایا جاتا ہے کہ پانی پر لینڈنگ کی صورت میں لائف جیکٹ میں ہوا کیسے بھرنی ہے۔ کیونکہ بی بی میرے پاس ہی کھڑی تھی لہذا زندگی میں پہلی دفعہ میں نے یہ پریزینٹیشن پوری "دلچسپی" سے ملاحظہ کی۔ لیکن پتہ نہیں کیوں سمجھ، مجھے پھر بھی کچھ نہیں آئی۔
ابھی میں کمر بھی سیدھی نہ کرنے پایا تھا کہ ایک بندہ گواچی گاں کی طرح جھومتا جھامتا میرے ساتھ والی سیٹ پر آ براجمان ہوا۔  ہور چوپو۔۔ اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے۔۔۔ سیٹ بیلٹیں وغیرہ کسی جانے لگیں اور جہاز نے مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے ہی اڑان بھرلی۔ پرواز کے ہموار ہونے کے بعد جب میری جان میں جان آئی اور میں نے آنکھیں کھول کر گہری سانس لی تومیرے ہمسائے نے دوران سفر والی کرٹسی دکھاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔ مجبورا مجھے بھی اپنے منہ میاں مٹھو بننا پڑا۔ ایک دوسرے کے رہائشی اور دفتری پوتڑے پھرولنے کے بعد گفتگو جب سیاست پر پہنچی اور میرے فرمودات آس پاس کے باشندوں کے کانوں تک پہنچنے لگے تو آہستہ آہستہ ساری پچھلی خالی سیٹیں بھرنے لگیں۔ ان تماشائیوں میں کچھ اس جہازی ٹاک شو کا حصہ بننے کے بھی خواہشمند تھے لیکن الحمد للہ میرے قلم کی طرح میری زبان بھی کافی دراز ہے لہذا ایک دو در فنطنیاں ہی ان کو صرف تماشائی بنے رہنے کےلیے کافی رہیں۔ اس ٹاک شو میں صرف ایک ہی وقفہ ہوا جو برائے طعام تھا اور اس کے بعد برائے کرنا خالی مثانہ تمام مسافروں کا باری باری۔ اس وقفے کے بعد گفتگو دوبارہ کرپشن، سیاست، عمران، گنجے، سگ مملکت، فیصل آباد، کرکٹ، سپاٹ فکسنگ، پونڈی، پری صورت ائیر ہوسٹس اور گنجے ڈھڈل سٹیورڈ جیسے موضوعات کے گرد گھومتی رہی۔ یہاں ایک بات خصوصی طور پر قابل ذکر ہے کہ جس کوٹ پتلون والے باو نے مجھے سیٹ دینے سے انکار کیا تھا وہ بھی اپنی یعنی میری سیٹ چھوڑ کر اس ٹاک شو کے تماشائیوں میں شامل تھا۔۔۔ پوئٹک جسٹس۔۔۔ ہیں جی۔
Comments
15 Comments

15 تبصرے:

ضيا ألحس، خان نے فرمایا ہے۔۔۔

اس پوسٹ کا اتنا شور تھا ۔۔۔۔۔۔ در شاباش

Abdul Qadoos نے فرمایا ہے۔۔۔

سگ مملکت ویکھ لو فیر میں نے کیسانام دیا ہے

افتخار اجمل بھوپال نے فرمایا ہے۔۔۔

فير جاز اُتر گيا

درویش خُراسانی نے فرمایا ہے۔۔۔

شکل کا عقل پر اثر ضرور ہوتا ہے۔
.
.
.
اچھا فارمولا ہے

Obaid Farooq نے فرمایا ہے۔۔۔

بھائی فیر ہم اگلے ہفتے آ رہے

Obaid Farooq نے فرمایا ہے۔۔۔

ہر دفعہ اپروول؟

زینب نے فرمایا ہے۔۔۔

پوسٹ تو اچھی ہے لیکن سگ مملکت کیا کہنے
:)

یاسرخوامخواہ جاپانی نے فرمایا ہے۔۔۔

ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ فئیر کیا ہوا؟
ساتھ والی سیٹ کے موٹے کے خراہٹوں سے آپ کی آنکھ کھل گئی؟

SHUAIB نے فرمایا ہے۔۔۔

خوفناک پریزینٹیشن - ہا ہا ہا

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

درویش بھائی، اسی لئے تو بعض لوگ اپنی شکل دکھانے کی جگہ کوئی، چڑیا، پھول، کتاب ، کارٹون وغیرہ رکھ دیتے ہیں مگر شکل نی دکھاتے۔

یقین نی آتا تو فیس بک پہ دیکھ لیں۔ :ڈ


ڈس کلیمر : اوپر والے بیان کا استاد سے کوئی تلق نی ہے۔


ویسے استاذی ، ہمت ہے آپ کی۔ کیونکہ میں تو دوران سفر مطالعہ کرنے یا سونے کو ترجیح دیتا ہوں۔ کیونکہ مین نے کئی مرتبہ یہ دیکھا ہے کہ اس قسم کی گفتگو کا کوئی فیدہ نہیں ہوتا،بلکہ تھکاوٹ ہی آخر میں نصیب ہوتی ہے۔

بلاامتیاز نے فرمایا ہے۔۔۔

استاز پرچی فیس لگا کر ایسے کام کیا کر ۔۔
تو ٹکٹ پیس ہے ۔۔
مفت میں لوگاں کو انٹر ٹین کرنے کا ٹھیکہ لیا وا تو نے۔

سعد نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ پی آئی اے کے جہاز پر سفر کی داستاں ہے؟

noor نے فرمایا ہے۔۔۔

جس کوٹ پتلون والے باو نے مجھے سیٹ دینے سے انکار کیا تھا وہ بھی اپنی یعنی میری سیٹ چھوڑ کر اس ٹاک شو کے تماشائیوں میں شامل تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہا ہا ہا ۔ ۔ ۔۔ ۔

ہم سب کا یہی حال ہے ۔۔ ۔مارا

عادل بھیا نے فرمایا ہے۔۔۔

میری محلے میں روزانہ پی آئی اے کی وین آتی ہے، اِن پیسیز کو پِک کرنے کیلئے۔ اِس وین میں ایک ہی مرد ہوتا ہے یعنی ڈرائیور تو۔۔۔۔۔۔۔ :پ

خیر بھیا لوگوں کو انٹرٹین کرنے کی اِس صلاحیت کے نقصانات بھی بہت ہوتے ہیں؟ کبھی بیان تو کیجئیے

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

تو، تُو کیا سمجھا تھا کہ میں کوئی علی پور کا ایلی ٹائپ پوسٹ لکھ رہا ہوں؟
بٹ صاحب، آپ نے کب دیا تھا یہ نام؟ میری ایجاد ہے یہ۔ یا پھر خیال ٹکرا گئے ہیں لیکن سائیکل سے جہاز کیسے ٹکرا سکتا ہے؟
جی بھوپال صاحب، اتر گیا اور وقت سے دس منٹ پہلے ہی اتر گیا
بس جی یہ ذرا فاسقانہ سا فارمولا ہے، درویشوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
یار عبید، اب اگلے ہفتے کی بجائے اگلے سال کا انتظار کرنا پڑے گا
زینب، بلاگ پر خوش آمدید۔ سگ مملکت کے واقعی کیا کہنے۔ تگنی بلکہ چوگنی کا ناچ نچا رہا ہے سب کو بشمول خاکی مجاہدین۔
شاہ جی۔ یہ سچی سفرناکی ہے، تارڑانہ ٹچ نہیں ہے اس میں۔
شعیب۔ سچ بتائیں کہ سفر شروع ہونے سے پہلے مسافروں کو یہ بتانا کہ جہاز کے سمندر پر لینڈ کرنے کا بھی امکان ہے، خوفناکی کی انتہا نہیں ہے؟
مرشد۔ ٹچکریں مریدوں سے اچھی نہیں فراز۔۔۔ مرید فیصلابادی ہیں کچھ تو خیال کر۔ جہاز کی گھوں گھوں میں مطالعہ تو ویسے ہی آؤٹ آف کوئسچن ہے، سونا چند وجوہات کی وجہ سے ممکن نہیں۔ لہذا یہی آپشن باقی تھا جو استعمال کیا گیا۔
بلے شاہ۔ چل فیر چھپوا ٹکٹیں۔ تیرا کمیشن ٹین پرسنٹ
جی بالکل پی آئی اے کی ہی داستان ہے۔
نور محمد۔ بلاگ پر خوش آمدید۔ اور آپ کی ہاہاہاہا سے اندازہ ہوا کہ آپ کو تحریر پسند آئی۔ جس کے لیے شکریہ
بھیے۔ تو اتنا چھوٹا ہو کے پیس جیسے الفاظ استعمالتا ہے؟ بری بات۔۔۔

تبصرہ کیجیے