پاکستان پھَس کر ایوارڈز

 پاکستان  پھَس کر ایوارڈز کی طرف سے اس سال کے ونرز کا اعلان کیا جاتا ہے۔  دل تھام لیجیے  بلکہ کمزور دل حضرات و خواتین پانی اور گلوکوز وغیرہ کا بندوبست بھی کر رکھیں۔

ادبی ایوارڈز
بہترین شاعر : وصی شاہ
بہترین فکشن رائٹر : تانیہ رحمن
بہترین ناول نگار : مینا ناز 
بہترین ادبی پرچہ : چترالی
(بہترین ناول نگار کا ایوارڈ "غلطی" سے رضیہ بٹ کو دے دیا گیا تھا، اصل ونر مینا ناز ہیں)

سپورٹس ایوارڈز
بہترین بلے باز : رضوان الزماں
بہترین بالر : اعجاز فقیہہ
بہترین فیلڈر : دانش کنیریا
بہترین وکٹ کیپر : کامران اکمل
بہترین کپتان : ظہیر عباس

سلیبرٹی ایوارڈز
پرکشش ترین مرد  : بابر غوری
 پرکشش ترین عورت : فردوس عاشق اعوان

ٹی وی ایوارڈز
بہترین اداکار : ساحر لودھی
بہترین اداکارہ :  ونیزہ احمد
بہترین اینکر : رانا مبشر

لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز
ایماندار ترین شخصیت :  آصف علی زرداری
بہترین دینی و علمی شخصیت : حضرت مولانا فضل الرحمن دامت برکاتہم العالیہ
بہترین سیاسی مقرر : الطاف حسین

ان ایوارڈز کے لیے جو جیوری نامزد کی گئی تھی اس کے معزز اراکین مندرجہ ذیل ہیں۔
ٹِمّی شکاگو والے
وِکّی چوہدری
شیری 
محسن ممی
ناصر نوزی

پریشاں ہیں پِنڈ کی جھَلّیاں


سامعین کرام! آداب۔ آج ہم سب یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ عصر حاضر کی مکمل ترین کہانی کار محترمہ ثانیہ فرحان کی تازہ ترین کہانیوں کے مجموعے "پریشاں ہیں پِنڈ کی جھَلّیاں" کی تقریب رونمائی میں شرکت کا شرف حاصل کرسکیں۔ اس مجموعے میں ستتّر کہانیاں شامل ہیں اور مصنفًہ نے نہایت فنکاری اور چابکدستی کے ساتھ اس پُر فِتن دور کی جدلیاتی اور حسیاتی کشمکش کو اپنے گردوپیش کے ماحول کے تناظر میں بیان کیا ہے۔ ہم اپنے کلام کو مختصر کرتے ہیں اور آج کی تقریب کی پہلی مقرّرہ، جو خود بھی ایک عظیم شاعرہ اور دانشور ہیں، کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور ثانیہ کے فن اور شخصیت پر روشنی ڈالیں۔ تشریف لاتی ہیں محترمہ صدیقاں بشیر۔
معزّز سامعین! جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ ثانیہ اور میں بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں (ہال سے چند آوازیں۔۔۔ ہمارے علم میں نہیں ہے۔۔۔)۔ ثانیہ کو اوائل عمری سے ہی ادب سے گہرا شغف تھا۔ پاکیزہ، شعاع، آنچل، خواتین جیسے ادبی ماہنامے، بچپن سے ہی ان کے زیر مطالعہ رہے ہیں۔ انہوں نے سٹار، سونی، زی کے کسی ڈرامے کی کوئی قسط کبھی مِس نہیں کی۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اچھا لکھنے کے لیے اچھا پڑھنا بہت ضروری ہے تو ثانیہ کی کہانیوں میں ان کے زبردست مطالعہ، مشاہدے اور انٹلکچوئلزم کی جھلک نظر آتی ہے۔ خاص طور زبان پر ان کی گرفت ایسی ہے کہ لکھنوی اور دہلوی احباب بھی اس پر رشک کرسکتے ہیں۔ ان کی املاء پر گرفت کی سب سے بڑی وجہ، پرائمری میں ان کی استانی پری خانم کی محنت شامل ہے جو ان کو روزانہ غلط املاء لکھنے پر مرغی بنایا کرتی تھیں۔ قصّہ مختصر، اس محدود سے وقت میں ان کے فن پر پوری طرح روشنی ڈالنا اسی طرح ناممکن ہے جیسے پانچ منٹ میں دو کلو لہسن چھیلنا۔ جاتے جاتے میں اس مجموعے میں شامل ایک کہانی کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جس کا عنوان "اٹک میں کھٹک" ہے۔ اردو افسانے کی تاریخ اور روایت ایسی تحریر کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ میں ثانیہ فرحان کے فن کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں۔ تم لکھو ہزاروں صفحات۔۔۔ ہرصفحے کے ہوں لفظ پچاس ہزار۔۔
سامعین، یہ تھیں صدیقاں بشیر۔ اب آپ کو اپنے خیالات سے مستفید کریں گے اس تقریب کے صاحب صدر، جناب اعظم شاہ اٹکوی، جو حضرو سے تشریف لائے ہیں۔ آپ ایک عظیم فلسفی، شاعر، کہانی نگار، ڈرامہ نگار، ننجا ماسٹر، مافیا چیف اور دیسی بیٹ مین ہیں۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت اس تقریب کو رونق بخشنے کے لیے صرف کیا۔ حالانکہ اس دوران وہ فیس بک پر تقریبا ڈہائی سو زنانہ آئی ڈیز کی والوں پر گھوم سکتے تھے۔ تشریف لاتے ہیں، جناب اعظم شاہ اٹکوی۔۔۔۔
ثانیہ جی اور سامعین۔ محبت بھرا آداب قبول ہو۔ ہم اپنے مقدّر پر جتنا بھی ناز کریں، کم ہے کہ آج ہم اپنی ثانیہ جی کے سامنے موجود ہیں اور ان کی کہانیوں کے عظیم ترین مجموعے پر اپنے زرّیں خیالات و افکار پیش کررہے ہیں۔ ثانیہ جی، صرف کہانی کار ہی نہیں ہیں بلکہ اس دکھوں بھری زندگی میں ایک نخل سایہ دار بھی ہیں جس کے سائے میں لوگ اپنے دکھ بھلا کر راحت پاتے ہیں (سامعین میں سے ایک ناہنجار۔۔۔ جی بالکل ۔۔ ان کا سایہ بھی کسی بڑے برگد کے درخت سے کم نہیں ہے۔۔)۔ اپنے گردوپیش میں پھیلے رنج و آلام کو انہوں نے اس فنکاری سے قلم بند کیا ہے کہ دوران مطالعہ میری چیخیں نکل جاتی تھیں۔ چند کندہ ناتراش ہمسائے ایسی آوازیں سن کر فاسد خیالات میں مبتلا ہوجاتے تھے اور محلّے میں ہمارے بارے غلط خیالات پھیلاتے تھے۔ ان بدنصیبوں کو کیا علم کہ ہم جس کے قتیل ہیں وہ ثانیہ جی جیسی عظیم الشان مصنّفہ ہیں جن کے رشحات قلم ہمارے دل کو تقویت بخشتے ہیں اور دماغ کو روشن کرکے جہالت کی ظلمتیں دور کرتے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اس دور میں زندگی پائی ہے جب ثانیہ جی بھی اس دنیا کو رونق بخش رہی ہیں۔ ہم اکثر سوچا کرتے ہیں کہ بناء ان کے ہماری زندگی کتنی بے ثمر اور بے رس ہوتی اور خاص طور پر فیس بک پر تو شاید ہم دوسرے ہی دن خود کشی کرلیتے۔ اس مجموعے میں چند شگفتہ کہانیاں بھی شامل ہیں۔ ان میں "لاس اینجلس کی کلفیاں" خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس کہانی کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم اتنی شدّت سے ہنسے کہ ہمارے اہل خانہ ہمیں دوبارہ دماغی امراض کے شفاخانے میں داخل کروانے بارے سوچنے لگے تھے۔ اس سے آپ ثانیہ جی کے قلم اور ان کی طاقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہم، ثانیہ جی بارے ساری زندگی بھی بول سکتے ہیں لیکن چونکہ آپ کے پاس وقت کم ہے اس لیے ہم اجازت چاہتے ہیں اور جاتے ہوئے یہ ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا بال پوینٹ ہوتا۔۔۔ 

سفرناک

جہاز میں داخل ہونے والا میں آخری مسافر تھا۔ دروازے پر کھڑی نمانی سی کُڑی، جو مجبورا سب کو السلام علیکم اور خوش آمدید کہنے پر مامور تھی، اس سے مسمسی سی بُوتھی بنا کر میں نے درخواست کی کہ مجھے پچھلی سیٹوں پر جگہ مل جائے تو بندہ شدید مشکور ہوگا کیونکہ فدوی کی طبیعت کچھ اچھی نہیں۔ اس پر اس نے دندیاں نکالیں اور بے مروت سی ہو کر مجھ سے کہنے لگی کہ آپ فی الحال اپنی سیٹ پر بیٹھیں، بعد میں دیکھیں گے۔ اس پر میرا اپنی اس تھیوری پر ایمان دوبارہ تازہ ہوا کہ شکل کا عقل پر اثر ضرور ہوتا ہے۔
 بورڈنگ کارڈ سے سیٹ نمبر دیکھ کر جب اپنی سیٹ تک پہنچا تو وہاں ایک صاحب کوٹ پتلون پہنے براجمان تھے۔ ان سے گذارش کی کہ حضور، یہ سیٹ میری ہے تو انہوں نے میری طرف دیکھے بغیر جواب دیا کہ "تسی ہور کسے سیٹ تے بے جاو، جہاز تے سارا خالی ای اے"۔ پارہ چڑھنے کو ہی تھا کہ میری نظر دوسری ائیر ہوسٹس بی بی پر پڑی جو یہ گفتگو سن کے میری طرف آرہی تھی۔ سبحان اللہ، طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی، پارہ دوبارہ معمول کی ریڈنگ دینے لگا اور میں نے لجاجت سے اس پری صورت بی بی سے مسکین سی شکل بناتے ہوئے پچھلی سیٹوں پر بٹھانے کی فرمائش کردی۔ بی بی کی صنف نازکیت کا مزید استحصال کرتے ہوئے میں نے یہ تڑکا بھی لگایا کہ میری طبیعت خراب ہے۔ اگرچہ یہ بات جھوٹ کے زمرے میں آتی تھی لیکن میں کونسا پوری دنیا میں سچا مشہور ہوں۔ بی بی نے ہمدردی سے میرے دو راتوں سے جگراتے چہرے اور نیند سے بھری آنکھوں کو دیکھا اور اشارے سے اپنے ساتھ آنے کے لیے کہا۔ جہاز کے پچھلے حصے میں تین سیٹیں خالی تھیں۔ بی بی نے مجھے وہاں بٹھایا اور ریلیکس کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اس خوفناک پریزینٹیشن میں مصروف ہوگئی جس میں بتایا جاتا ہے کہ پانی پر لینڈنگ کی صورت میں لائف جیکٹ میں ہوا کیسے بھرنی ہے۔ کیونکہ بی بی میرے پاس ہی کھڑی تھی لہذا زندگی میں پہلی دفعہ میں نے یہ پریزینٹیشن پوری "دلچسپی" سے ملاحظہ کی۔ لیکن پتہ نہیں کیوں سمجھ، مجھے پھر بھی کچھ نہیں آئی۔
ابھی میں کمر بھی سیدھی نہ کرنے پایا تھا کہ ایک بندہ گواچی گاں کی طرح جھومتا جھامتا میرے ساتھ والی سیٹ پر آ براجمان ہوا۔  ہور چوپو۔۔ اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے۔۔۔ سیٹ بیلٹیں وغیرہ کسی جانے لگیں اور جہاز نے مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے ہی اڑان بھرلی۔ پرواز کے ہموار ہونے کے بعد جب میری جان میں جان آئی اور میں نے آنکھیں کھول کر گہری سانس لی تومیرے ہمسائے نے دوران سفر والی کرٹسی دکھاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔ مجبورا مجھے بھی اپنے منہ میاں مٹھو بننا پڑا۔ ایک دوسرے کے رہائشی اور دفتری پوتڑے پھرولنے کے بعد گفتگو جب سیاست پر پہنچی اور میرے فرمودات آس پاس کے باشندوں کے کانوں تک پہنچنے لگے تو آہستہ آہستہ ساری پچھلی خالی سیٹیں بھرنے لگیں۔ ان تماشائیوں میں کچھ اس جہازی ٹاک شو کا حصہ بننے کے بھی خواہشمند تھے لیکن الحمد للہ میرے قلم کی طرح میری زبان بھی کافی دراز ہے لہذا ایک دو در فنطنیاں ہی ان کو صرف تماشائی بنے رہنے کےلیے کافی رہیں۔ اس ٹاک شو میں صرف ایک ہی وقفہ ہوا جو برائے طعام تھا اور اس کے بعد برائے کرنا خالی مثانہ تمام مسافروں کا باری باری۔ اس وقفے کے بعد گفتگو دوبارہ کرپشن، سیاست، عمران، گنجے، سگ مملکت، فیصل آباد، کرکٹ، سپاٹ فکسنگ، پونڈی، پری صورت ائیر ہوسٹس اور گنجے ڈھڈل سٹیورڈ جیسے موضوعات کے گرد گھومتی رہی۔ یہاں ایک بات خصوصی طور پر قابل ذکر ہے کہ جس کوٹ پتلون والے باو نے مجھے سیٹ دینے سے انکار کیا تھا وہ بھی اپنی یعنی میری سیٹ چھوڑ کر اس ٹاک شو کے تماشائیوں میں شامل تھا۔۔۔ پوئٹک جسٹس۔۔۔ ہیں جی۔

قاعدہ خلاص

ہمیں اندازہ ہے کہ آپ اس قاعدے سے "نکونک" آچکے ہیں اور  علم پھیلانے کا جو بیڑا، ہم نے آپو آپ ہی اٹھا لیا تھا، اس نے ہمارے دماغی کندھے بھی شل کرنے شروع کردئیے ہیں لہذا آج وچکارلے قاعدے کا اختتام کرکے ہم کچھ عرصے کے لیے اس بیڑے کو زمین پر پٹخنے والے ہیں۔ امید ہے کہ ہمارا "وچکارلا" علم، ڈینگی کی طرح پھیلے گا اور سب کو متاثر کرکے ہی دم لے گا۔ تو آئیے قاعدے کا اختتام کرتے ہیں۔
ل۔۔۔۔ لڑائی: یہ ترقی کی اماں جان ہوتی ہے۔ اس کا ملاپ جب سیاست سے ہوتا ہے تو دھڑا دھڑ بچےجنم لینے لگتے ہیں جنہیں ترقی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ علامہ صاحب یوں تو بڑے عظیم بحرالعلوم تھے لیکن ان سےبھی ہجّوں کی ایک غلطی ہوگئی تھی (جبکہ ہماری ایک عظیم ادیبہ ساتھی غلطی سے ایک دفعہ درست ہجّے لکھتی پائی گئی تھیں) جب انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ "آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز"۔
م ۔۔۔۔ مالٹا: یہ مالٹے رنگ کا ایک پھل ہوتا ہے جو وٹامن سی، اورنج جوس اور گلا خراب کرنے کے کام آتا ہے۔  کھٹّا مالٹا بہت ہی مالٹا ہوتا ہے اور طبیب حضرات کے لیے نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
ن ۔۔۔۔ نعرہ: یہ ایک بہت مفید چیز ہوتی ہے۔ اس کے مُوجد بارے تاریخ خاموش ہے لیکن گمان ہے کہ وہ اس کائنات کا پہلا ماہر نفسیات تھا۔ یہ بھی شنید ہےکہ نعرے کی ایجاد کسی حکم شاہی کا نتیجہ تھی تاکہ رعایا کا کتھارسس ہوتا رہے اور گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔
و۔۔۔۔ووٹ: یہ ایک پرچی ہوتی ہے جسے بکسے میں تہہ کرکے ڈالا جاتا ہے۔ البتہ ووٹ ڈالنے والوں کو کچھ عرصہ بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ پرچی، بتّی بنا کر، ان کو واپس دے دی گئی ہے۔اس مظہر کو "جمہوریت بہترین انتقام ہے" کہا جاتا ہے۔ علامہ صاحب یہاں پھر یاد آتے ہیں جو اس بتّی سسٹم کے اتنے زیادہ پرستار نہیں تھے کہ جس میں ان کا اور مُودے دھیں پٹاس کا ووٹ ایک جیسی اہمیت رکھتا ہو۔
ہ۔۔۔ہم زلف: یہ سالی کا شوہر ہوتا ہے پنجابی میں اسے "سَانڈو" کہتے ہیں۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پر سیانوں نے ہم زلف کی دوستی کو کچھ زیادہ اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا اور اس کو ایک ایسی کہاوت میں بیان کیا ہے جو یہاں بیان نہیں کی جاسکتی!
ء ۔۔۔: یہ پَخ ہوتی ہے۔ جو مختلف الفاظ کے ساتھ لگائی جاتی ہے تاکہ ان کو دھوکہ دیا جاسکے اور لفظ یہ سمجھیں کہ عبارت کا سارا بوجھ ان پر نہیں ہے۔
ی ۔۔۔ یلا یلی:  یہ لفظ استاد محترم سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس کے اسرار و رموز ایک خاص عمر میں ہی پوری طرح ظاہر ہوتے ہیں۔ اس بارے جتنا کم لکھا اور جتنا زیادہ محسوس کیا جائے، اتنا ہی اچھا ہے۔
ے۔۔۔۔: اسے بڑی ے کہتے ہیں تاکہ چھوٹی ے کو احساس ہوتا رہے کہ اس پر نظر رکھنے کے لیے کوئی بڑا موجود ہے اور وہ آوارہ نہ ہوسکے!

میں جعفر حسین ہوں

میں جعفر حسین ہوں اور میں شیعہ نہیں ہوں!۔
یکایک ایسا بیان جاری کرنے پر آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہم القاعدہ میں شامل ہوگئے ہیں یا کم ازکم سعودی پے رول پر تو آہی گئے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ دونوں قیاس، درست نہیں ہیں۔ اس بیان کی جڑیں ماضی میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں اور مجبورا ہمیں یہ اعلان کرنا پڑا ہے ورنہ جہاں اتنی دیر ہم نے بغیر وضاحت کے گزار دی ہے، بچا کچھا عرصہ بھی جیسے تیسے گزر ہی جاتا لیکن ہمارا پیمانہ صبر، چونکہ لبریز ہوچکا ہے بلکہ "ڈُلنا" بھی شروع ہوگیا ہے پس اس قصّے کا "کٹّا کٹّی" نکالنا ضروری ہوچکا ہے۔ تو آئیے، اس کہانی کو فلیش بیک میں لیے چلتے ہیں۔
ہمارا نام رکھنےکی سعادت، ہمارے داداجنت مکانی کے حصے میں آئی تھی۔ روایت ہے کہ ہم کُونڈوں والے دن پیدا ہوئے تھے، جسے اس وقت بنا تخصیص فرقہ، حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب دن کی حیثیت حاصل تھی اور اکثر گھرانوں میں حلوہ پوری وغیرہ بنائے جاتے تھے اور تقسیم کیے جاتے تھے۔ ہمارا نام اسی نسبت سے جعفر حسین رکھا گیا تھا۔ بچپن اسی لیے سنہرا ہوتا ہے کہ اس وقت آپ صرف بچے ہوتے ہیں، شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث وغیرہ نہیں ہوتے۔ ہم بھی چھٹی جماعت تک صرف بچے ہی تھے اور اپنے نام کی وجہ سے کسی خصوصی یا امتیازی سلوک کا نشانہ اگر بنے بھی ہوں گے تو ہمیں پتہ نہیں چلا تھا۔
ساتویں جماعت میں پہنچے تو ہمارے ایک استاد جو چی گویرا کا فیصل آبادی ایڈیشن تھے یعنی شدید انقلابی تھے، ہیڈ ماسٹر کے خلاف نعرہ بغاوت ہو یا دوسرے کولیگز کے ساتھ اِٹ کھڑکّا، وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹے تھے اور "انٹی ایسٹبلشمنٹ" ہونے کی وجہ سے سینئیرز یعنی نویں، دسویں کے طلباء میں عمران خان کی طرح مقبول تھے، انہیں بطور سزا ساتویں جماعت کو اردو پڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ پڑھاتے وہ خوب تھے اور نہایت دلچسپ شخصیت تھے۔ وہ " مولابخش" پر بالکل یقین نہیں رکھتے تھے اور مزے دار کہانیاں اور واقعات پورے ڈرامائی تاثر کے ساتھ سنانا ان پر ختم تھا۔ ایک دن پیریڈ کے اختتام پر انہوں نے کمرہ جماعت سے باہر جاتے ہوئے دروازے پر توقف کیا اور ہمیں اپنے پاس بلاکر آہستگی سے دریافت کیا، "کیا تم سیّد ہو؟" ہم حیران ہوئے اور نفی میں سر ہلادیا۔ اس پر انہوں نے پھر سیّد پر "زور" دیتے ہوئے ہم سے دوبارہ پوچھا لیکن ہمارا جواب پھر نفی میں تھا۔ وہ ذرا مایوس تو ہوئے لیکن سکول کا بقیہ عرصہ ان کی خصوصی توجہ ہم پر ارزاں رہی۔
ان کا نام سیّد گلزار حسین تھا۔
کالج میں پہنچے تو جذبہ "اسلامی" سے سرشار تھے۔ اسی لیے جمعیّت میں شامل ہوئے اگرچہ اس پر ہمیں فخر نہیں ہے لیکن کوئی شرمندگی بھی نہیں ہے۔ اس سے کم ازکم ہمیں ان سوالات اور استفسارات سے نجات مل گئی جو ہمارے نام کی وجہ سے ہمیشہ ہمارے ساتھ جڑے رہتے تھے۔ کالج کے اساتذہ بھی ایک دفعہ ہمارا نام سن کر غور سے ہمیں دیکھتے اور جب ہمارے سینے پر لگے ہوئے جمعیّت کے "بِلّے" کو دیکھتے تو ان کی پریشانی کم اور حیرانی زیادہ ہوجاتی۔ جبکہ ایک دو کیسز میں یہ حیرانی کم اور پریشانی زیادہ ہوتی بھی دیکھی گئی۔
ہمارے بچپن کے ایک دوست، جو محلے دار بھی تھے، اہل تشیّع سے تعلق رکھتے تھے۔ جبکہ سکول سے کالج تک ہمارے ہم جماعتوں میں بھی شیعہ حضرات شامل رہے۔ جن میں سے دو تین ہمارے جگری یار بھی ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود ہم حضرت اکبر الہ آبادی کے پیروکار رہے کہ
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں۔۔۔۔ فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
ہم میں فالتو عقل تو کیا، جتنی عقل چاہیے تھی وہ بھی نہیں تھی۔ لہذا آج تک ہم مذہبی بحثوں سے کنّی کتراتے رہے۔ البتّہ اپنے لنگوٹیے کو ہم ضرور چھیڑا کرتے تھے کہ یار، اس دفعہ دس محرم کو میں بھی تمہارے ساتھ جاوں گا تم زنجیر زنی کرتے ہوئے تھک جاو تو مجھے بتانا میں تمہیں زنجیریں مارتا رہوں گا۔ اس پر وہ پہلے تو گالیاں دیتا اور پھر ہنستا۔ جبکہ "بتّیاں بجھانے" والی بات پر صرف گالیاں ہی دیتا تھا اور میں ہنستا تھا۔
ہمارے ابّا راوی ہیں کہ بھلے وقتوں میں محرّم میں بڑے سے بڑا فساد بھی تین چار لوگوں کے پھٹے ہوئے سروں اور سوڈے کی بوتلوں کے دو تین کریٹ ٹوٹنے تک ہی محدود رہتا تھا۔ انقلاب ایران کی فصل چونکہ ایرانی ضروریات سے زائد ہوگئی تھی لہذا انہوں نے یہ انقلاب برآمد کرنے کا سوچا اور چونکہ پہلاحق ہمسایوں کا ہوتا ہے تو یہ اثنا عشری انقلاب سب سے پہلے ہماری قوم کو ہی بھگتنا پڑا۔ عرب و عجم کی اس جدید کشمکش میں عرب کسی سے پیچھے کیوں رہتے۔ لہذا انہوں نے بھی اپنے "گھوڑے" تیار کیے اور پھر اللہ دے اور بندہ لے۔ وہ گھمسان کا گھڑمس برپا ہوا کہ اس اسلامی مملکت میں کوئی مسلمان ہی باقی نہ بچا، سب کسی نہ کسی زاویے سے کافر قرار پائے۔
بلاگستان میں ہماری آمد ایک عظیم تاریخی واقعہ (سانحہ بھی کہہ سکتے ہیں) ہے۔ شروع میں ہمیں اکثر محسوس ہوا کہ اکثر ساتھی ہمیں وہی سمجھتے تھے جو آج تک لوگ ہمارا نام سن کے سمجھتے آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک دو مثالیں تبصروں کی شکل میں بھی موجود ہیں، جو ڈھونڈنے والے ڈھونڈ سکتے ہیں۔ جب ان ساتھیوں سے تعلق بڑھا اور یہ محترم بلاگرز سے اوئے اور تو کے مرحلے پر پہنچے تو تقریبا سب نے ہی ہم کو یہ ضرور کہا کہ اوئے ہم تو تمہیں شیعہ سمجھے تھے۔ تس پر ہم نے انہیں وہی کہا جو ہم آج تک سب سے کہتے آئے ہیں، کہ تم کوئی پہلے شخص نہیں ہو جسے یہ "خوش فہمی" ہوئی ہو۔ فیس بک پر بھی ہمیں دھڑا دھڑ ایسے گروپس میں شامل کیا جاتا رہا جہاں مخصوص لوگوں کو ہی داخلہ دیا جاتا ہے۔ جن دنوں ملعون خاکوں کا بہت شور تھا، انہی دنوں ہمیں فیس بک پر ایک ایونٹ کا دعوت نامہ ملا، جس کا عنوان "ڈرا عمر ڈے" تھا۔ یقین مانیے، زندگی میں بہت کم ایسے لمحات ہوں گے جب ہمیں اس شدّت سے غصّہ آیا ہو۔ اپنے عقیدے پر قائم رہنا ایک چیز ہے اور کسی کے لیے قابل احترام شخصیات کو گالی دینا اور چیز۔ مذہبی رواداری اور وسیع المشربی کے نام پر ہم ایسی خرافات کو ہضم کرنے کی ہمّت کبھی پیدا نہیں کرسکے۔ ہمیں یہ بھی حیرانی ہوتی ہے کہ ان سب چیزوں کے دعوت نامے تو ہمیں بھیجے جاتے رہے لیکن کبھی کسی نے ہمیں "مُتعہ" کرنے کی دعوت نہیں دی۔ اب پتہ نہیں اس کے لیے بھی کوئی خصوصی "کرائی ٹیریا" ہے۔
اونٹ کی کمر پر آخری تنکا کے مصداق حالیہ دنوں میں ہمیں ایک سرکاری ملازمت صرف اس لیے نہیں مل سکی کہ ہمارے نام کی وجہ سےہم پر شیعہ ہونے کا شبہ کیاگیاتھا۔ باوجود اس کے کہ ملازمت کے لیے درکار تمام ضروری چیزیں ہمارے پاس وافر موجود تھیں اور انٹرویو بھی بہت دھانسو ہوا تھا، ہمیں لارا لگا دیا گیا۔ معاشی مار سب سے "گُجھّّی" ہوتی ہے کہ نشان بھی نہیں پڑتا اور تکلیف بھی بہت ہوتی ہے۔ اگر چہ ہم نے بہت یقین دلایا کہ ہم وہ نہیں ہیں جو آپ سمجھے ہیں اور ثبوت کے طور پر اپنے والد سے لے کر پردادا تک تمام نام ان کے گوش گذار کیے۔ لیکن شاید وہ حضرات سمجھے ہوں کہ ہم "تقیہ" سے کام لے رہے ہیں۔ ہم نے کبھی سچّا ہونے کا دعوی نہیں کیا اور مختلف وجوہات مثلا کمینگی، خودغرضی، بزدلی کی بناء پر اکثر جھوٹ بولتے پائے جاتے ہیں لیکن اپنے ان جھوٹوں کو ہم نے مذہبی جواز دینے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ یہ بات عربی بھائیوں کو سمجھانا لیکن کارے دارد ہے کہ دماغی طور پر ان میں اور پختون بھائیوں میں بالکل فرق نہیں ہےکہ جہاں سوئی اٹکی سو اٹک گئی۔
ہم "بٹر فلائی افیکٹ" کو کبھی سمجھ نہیں پائے تھے۔ خود پر گزری ہے تو یہ اتنی اچھی طرح سمجھ میں آیا ہے کہ لگ سمجھ گئی ہے۔ لہذا ہم ایک دفعہ پھر اعلان کرتے ہیں کہ
میں جعفر حسین ہوں اور میں شیعہ نہیں ہوں!۔

کھَٹ مِٹھّا شِیر خُرما

عید کے پُر کیف (پُر مسرّت اس لیے نہیں لکھا کہ ہمیں مسرّت شاہین پسند نہیں، اور کیف تو آپ سمجھ ہی گئےہوں گے) موقع پر ہم آپ کے لیے ایک خصوصی ترکیب کے ساتھ حاضر ہیں۔ چھوٹی عید اور میٹھا لازم و ملزوم بلکہ ظالم و مظلوم سمجھے جاتے ہیں۔ہماری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ذیابیطس کے بڑھنے کا ایک بڑا سبب، چھوٹی عید بھی ہے۔ احباب، اعتراض کرسکتے ہیں کہ یہ تحقیق اور اس کا نتیجہ، ماروں گُھٹنا پھوٹے آنکھ، کے مصداق ہے لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ کچھ ایسا بعید از امکان بھی نہیں ہے۔ چھوٹی عید پر جتنا میٹھا پکایا اور کھایا جاتا ہے، ہمیں خدشہ ہے کہ مستقبل قریب کی چھوٹی عیدوں پر قورمہ بھی شیرے میں پکایا جانے لگے گا۔ اس یکسانیت کو ختم کرنے کے لیے آج ہم اس ترکیب کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں۔


یہاں برسبیل تذکرہ ہم یہ بھی کہتے چلیں کہ سویّاں (جنہیں پیار سے شِیر خُرما بھی کہا جاتا ہے، یہاں خُرما سے مراد خرم شہزاد خرم نہیں ہے) اور آم کھانے کا کوئی معقول طریقہ آج تک دریافت نہیں ہوسکا۔ ہاتھ منہ "لَبیڑے" بغیر آم اور "سُڑکے" مارے بغیر سویّاں کھانا،اتنا ہی مشکل ہے، جتنا ہمارے مدیر کا انگریزی پر عبور حاصل کرنا۔ موضوع سے انحراف کا خدشہ نہ ہوتا تو ہم ان کی انگریزی کے ٹوٹے ضرور پیش کرتے۔ بہرحال، ہم آج جو شِیر خُرما المعروف "سیویاں" بنانے جارہے ہیں، انہیں معقول طریقے سےکھانا نہایت آسان ہے۔ صرف کھانا البتہ کافی مشکل ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ "نفیس" چیزوں کا "ٹیسٹ" ڈویلپ کرنا پڑتا ہے!


تمہید کافی طویل ہوگئی ہے، اس دیباچے کی طرح جو کتاب کے متن سے بھی دو صفحے زیادہ ہو! بہرحال زیادہ دیر کبھی بھی نہیں ہوتی، لہذا اجزاء نوٹ کرلیں۔


پانچ پیکٹ سویّاں


املی کا کھٹّا- ایک جگ


سٹرپ سلز کے دو پتّے


خشک دودھ ایک کپ


گُڑ ایک پاؤ


نمک حسب توفیق


دار چینی، لونگ وغیرہ مٹّھی بھر


سرسوں کا تیل دو پکانے کے چمچ


پپیتا۔ ایک پلیٹ


کیمرے والا موبائیل ایک عدد


ڈیسک ٹاپ یا لیپ ٹاپ ہمراہ انٹر نیٹ کنکشن


پتیلی میں سرسوں کا تیل ڈال کر درمیانی آنچ پر گرم کریں اور اس میں سویّاں ڈال کر اچھی طرح فرائی کرلیں۔ جب ان کا رنگ ہلکا اوبامی ہوجائے تو املی کا کھٹّا ڈال کر آنچ ہلکی کردیں اور تین سے پونے پانچ منٹ تک پکنے دیں۔ خشک دودھ، سٹرپ سلز کا آدھے سے زیادہ پتّا، گُڑ، نمک، دارچینی لونگ وغیرہ ڈال کر کچھ بھی کرنے سے پہلے موبائیل سے اس کی دو تین تصویریں کھینچیں اور فیس بک پر اپ لوڈ کردیں۔ ایک کیپشن بھی دے دیں کہ "کھٹ مٹھا شیر خُرما تیار ہورہا ہے، جس نے کھانا ہو آجائے"۔ ظاہر ہے، کوئی نہیں آئے گا، لیکن آپ کی مہمان نوازی پلس ککنگ کی دھاک بیٹھ جائے گی۔ یہ خیال رکھیں کہ اس ساری سماجی سرگرمی کے دوران چولہا بند ہو، ورنہ فیڈ اور نوٹیفیکشنز پھرولتے، آدھا گھنٹہ لگ جائے گا اور آپ کی ڈش کا تورا بورا بن جائے گا۔ اس سماجی سرگرمی سے فارغ ہونے کے بعد دوبارہ اپنی ڈش کا رخ کریں اور ہلکی آنچ پرتب تک پکائیں جب سارے اجزاء 'یک جان' نہ ہوجائیں۔جب آپ کی چھٹی حس کہے کہ شِیر خُرما تیار ہے تو اسے فورا فریج میں رکھ دیں۔ جب اچھی طرح ٹھنڈا ہوکر جم جائے تو کٹے ہوئے پپیتے اور بچی ہوئی سڑپ سلز کی گولیوں کے ساتھ گارنش کرکے "مہمانوں" کی خدمت میں پیش کریں۔


رمضان کے آخری ایّام میں مولانا حضرات کا رقّت انگیز دعائیں مانگ مانگ کر گلا بیٹھ چکا ہوتا ہے جبکہ مقتدی حضرات و خواتین، سارا مہینہ تلی ہوئی اشیاء اور ٹھنڈے یخ مشروبات کے استعمال کے بعد گلے کی جملہ بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان سب کے لیے یہ شِیر خُرما خصوصی طور پر مفید ہے۔ نیز دیگر "روحانی و رومانی" فوائد الگ ہیں۔


اگر آپ مندرجہ ذیل شعر کے حقیقی معنی سے ابھی تک آشنا نہیں ہیں تو وہ بھی آپ پر ظاہر و باہر ہوسکنے کا پورا امکان ہے۔ شعر کچھ یوں ہے کہ۔۔۔


عید کا موقع ہے، آج تو گلے "مَل" لے ظالم


رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے


ہیں جی!۔

توند اور تقوی

ایسا نہ سمجھیے کہ توند سے ہماری کوئی ذاتی دشمنی یا رنجش ہے، نظریاتی اختلافات، البتہ ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ایسے اختلافات صحت مند معاشرے کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ یہاں ایک بات ملحوظ خاطر رہے کہ توند اور دہرے جسم (یعنی موٹاپا) میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے۔ دہرے جسم والی خاصیت زیادہ تر نسلی ہوتی ہے، میں چند ایسے احباب کو جانتا ہوں کہ بے چارے، چاہے سارا سال ابلی سبزیاں کھاتے رہیں لیکن ان کے جسم پر یہ سبزیاں بھی قورمے، بریانی جیسا اثر کرتی ہیں ۔ لہذا یہ ایک جینیاتی مسئلہ ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سائنس پر کسی کا اجارہ نہیں ہے اور ہم بھی سائنس سے کھلواڑ کرنے میں آزاد ہیں۔ دوسرے طرف توند والے احباب نے یہ مٹکہ بطور خاص خود بنایا ہوتا ہے۔ جس کی وجوہات خاصی زیادہ ہیں اور ان میں سےاکثر ناگفتنی اور باقی دل دکھانے والی ہیں لہذا ہم ان خصوصیات سے صرف نظر کرتے ہیں۔


دہرے جسم والے افراد المعروف موٹوں کے بارے ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایسے افراد شدید قسم کے خوشگوار لوگ ہوتے ہیں اور صرف اس وقت طیش میں آتے ہیں جب انہیں موٹا کہا جائے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، خود کردہ را علاجے نیست، کے مصداق توند پال اصحاب نہایت چڑچڑے اور زود رنج ہوتے ہیں اور صرف اسی وقت ہنستے ہیں جب کسی کو چونا لگانے میں کامیاب ہوجائیں۔


یہاں تک پہنچنے کے بعد ہمیں یاد آیا کہ ہم نے تو، توند اور تقوی کے باہمی تعلق پر لکھنا تھا لیکن اس کے بجائے یہاں موازنہء انیس و دبیر کی طرز پر موازنہء موٹے و توندیل شروع ہوگیا ہے۔ ادب میں ایسے مظہر کے لیے ضرور کوئی نہ کوئی اصطلاح ہوگی جو آپ کی خوش قسمتی کی وجہ سے اس وقت ہمیں یاد نہیں آرہی۔ بہرحال مشاہدات کا ذکر ہورہا تھا تو ایک مشاہدہ یہ بھی ہے کہ جیسے جیسے توند کا حجم اور وزن بڑھتا ہے ویسے ویسے ہی معیاری انسانی صفات کم ہوتی جاتی ہیں۔ جسے مولوی لوگ تقوی کا نام دیتے ہیں۔ ہماری سمجھ میں تو یہ آیا ہے کہ پیٹ کو آخری حد تک خوراک سے بھرنے کے بعد ذہن میں جو خیالات آتے ہیں ان کی اکثریت سفلے پن پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ ایک حصہ خوراک، ایک حصہ پانی اور ایک حصہ خالی رکھو۔ پر جی "اندھا اعتقاد" رکھنے والے ہی ان پر عمل کرتے ہیں۔ عقل کے ترازو پر ناپنے سے تو پھر توندیں ہی نکلتی ہیں۔


ہماری سمجھ میں تو یہی آیا ہے کہ توند اور تقوی بالعکس متناسب ہوتے ہیں۔ ایک کے بڑھنے پر دوسرا گھٹنا شروع کردیتا ہے۔ لہذا فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے کہ دل یا شکم؟

وارداتِ انہدامِ قلبی

کل ہمارے دل کو ایسا دھچکا لگا، جس کی توقع ہم بالکل نہیں کررہے تھے۔ ایک بہت اہم ہستی نے ہمیں کہا کہ تم اب کچھ زیادہ ہی سنجیدہ نہیں لکھنے لگے؟ اگرچہ کچھ احباب اشارتا اس بات کی طرف ہمیں پچھلے کچھ عرصے سےمتوجہ کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں لیکن اپنی روایتی لاپرواہی اور چول وادی کی وجہ سے ہم نے یہ پندونصائح، دو،کانوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بغیر کسی رکاوٹ کے گزرنے دئیے اور ان پر غور کرنے کی مطلق کوشش نہیں کی۔ کل کی اس 'ہارٹ بریک' واردات کے بعد ہم نے اپنی پچھلی کچھ تحاریر کا طائرانہ جائزہ لیا اور خود کو اس بات سے متفق پایا کہ خلق خدا کچھ اتنا غلط بھی نہیں کہتی۔


قسمیہ بیان کیاجاتا ہے کہ کچھ بھی لکھنے سے پہلے ہمارا ارادہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ اگر کسی ایک دوست کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی تو سمجھیے کہ بیڑا پار ہوا لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ہماری کوشش تو شوّال کا استقبال کرنے کی ہوتی ہے لیکن لکھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ محرّم شروع ہوگئے ہیں۔


ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہم خود کو بزعم خود بڑا تیس مار خاں قسم کا ادیب و مصنّف و دانشور سمجھنے لگے ہیں حالانکہ کیا پّدی اور کیا پدّی کا شوربہ۔ دوسرا، ہمارے ذہن میں یہ خنّاس بھی سما گیا ہے کہ اس قوم کی اصلاح کرنا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے اور ہم خدائی فوجدار قسم کے پاٹے خاں بن چکے ہیں لہذا بات بے بات ہم اپنا اخلاقی لتّر نکال کر قوم کی تشریف لال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک خیرخواہ نے بہت عرصہ پہلے ہمیں متنبّہ کیا تھا کہ شادی شدہ خواتین اور فلسفے سے ہمیشہ دور رہنے کی کوشش کرنا۔ استاد محترم قبلہ ابن انشاء کے کینسر کی وجہ بھی ایک شادی شدہ خاتون ہی تھیں جو ساری زندگی ان کا جذباتی استحصال کرتی رہیں، حوالے کے لیے ملاحظہ ہو ان کی وہ نظم جس میں وہ یہ دہائی دیتے پائے جاتے ہیں کہ یہ ساری جھوٹی باتیں ہیں جو لوگوں نے پھیلائی ہیں لہذا ان کا نام نہ لیا جائے کیونکہ مابدولت سودائی نہیں ہیں۔ اس سکینڈل بارے ہمیں حمید اخترسے پتہ چلا تھا۔ انہوں نے اس خاتون کی عیّاریوں اور ہمارے گرو کی بے اختیاریوں کا ذکر بھی کیا تھا۔ ہماری شدید خوش قسمتی ہے کہ خواتین سے دور رہنے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کہ وہ خود ہی ہم سے بارہ کوس دور رہتی ہیں، البتّہ فلسفے والی بات نے ہمیں برباد کیا ہے۔ ہمارے چند بلاگی و فیس بکی احباب، جن کا نام لینا ہم مناسب تو سمجھتے ہیں لیکن ان کی مفت میں مشہوری کرنا ہماری کمینگی سے مطابقت نہیں رکھتا، اکثر ہمیں آن لائن پاکر فلسفے کے 'کھُنڈے' استرے سے ہمارے دماغ پر جمی ہوئی کائی کھرچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس حرکت سے وہ تو اپنا اپھّارہ ختم کرلیتے ہیں لیکن ان کی اس انٹلکچوئل دراندازی سے ہمیں جو فلسفیانہ بدہضمی ہوجاتی ہے، وہ ماضی قریب کی تحاریر میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔


ہماری برداشت کی داد دی جانی چاہیے کہ آج نہ تو ہم نے زیرو میٹر وزیر خارجہ پر کچھ لکھا اور نہ ہی صدر مملکت کی دو مسلمان مملکتوں، جو ہمیشہ اپنا اپنا اسلامی برانڈ برآمد کرنے کے چکروں میں رہتی ہیں، کے درمیان مفاہمتی کوششوں کو موضوع سخن بنایا۔ حالانکہ اس موضوع پر ہمارے دل میں جو مُغلّضات کا طوفان برپا ہوا تھا اس نے خود ہمیں ہی شرمندہ کردیا تھا کہ ۔۔۔ یارب! ایسی چنگاری بھی اپنی خاکستر میں تھی۔۔۔ چونکہ بقول نورجہاں، میرا دل چنّاں، کچ دا کھڈونا (اے 'محبوب' میرا دل کانچ کا کھلوناہے)۔۔۔ اور اس کھڈونے کو کل جو ٹھیس لگی ہے، اس نے ہمیں ان تمام موضوعات پر لکھنے سے باز رکھا جو ہمیں کھڑوس پنے کے اور قریب کردیتے۔


ہم اگر شاعر ہوتے(جو الحمد للہ نہیں ہیں) تو کبھی ن م راشد کی طرح اپنے خواب سرعام بیان نہ کرسکتے کیونکہ ایسے رنگین و سنگین خواب اگر ریکارڈ کیے جاسکتے تو ہم ان کی فروخت سے کم ازکم سٹیو جابز سے تو زیادہ امیر اور تندرست ہوتے! یہ خواب فروشی بھی تقریبا بے ضرر ہی ہوتی کیونکہ ہم کسی کو سبز باغ کے خواب دکھانے کی بجائے اپنے خوابوں سے انٹرٹین کرتے۔ حالیہ یبوست زدگی کا اثر ہمارے خوابوں پر بھی پڑا ہے اور ہم اپنی زندگی کی اکلوتی عیّاشی سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ کہاں وہ دور تھا کہ ہمارے خواب، پہاڑی وادیوں، جھرنوں، سبزہ زاروں، ساحلوں، بادبانی کشتیوں اور رومانی دوگانوں پر مشتمل ہوتے تھے۔ بچپن اور نوجوانی کے 'کرش' ہمارے خوابوں میں جلوہ افروز ہوکر ہمیں وہ سب کچھ کہتے تھے، جس کا الٹ وہ ہمیں حقیقی زندگی میں کہتے رہے تھے۔ ان میں کچھ مناظر "سختی سے بالغوں کے لیے" والے زمرے میں بھی آتے تھے، جوکہ ظاہر ہے، ریکارڈنگ کی صورت میں مناسب حد تک قطع و برید کے بعد ہی فروخت کے لیے پیش کیے جاتے۔ البتہ 'ڈریمرز کٹ' کے نام پر بغیر کٹ کے بھی یہ خواب دستیاب ہوتے لیکن ان کی قیمت 'تھوڑی' سی زیادہ ہوتی۔ اصل سانحہ یہ ہے کہ یہ سارے منصوبے اور خواب چکناچور ہوگئے ہیں اورہمارے یہ سنگین و رنگین و دلنشین خواب ، خواب ہوئے اور آج کل کے تازہ ترین خواب، انتظار حسین کے افسانوں کی طرح ہوگئے ہیں کہ جن کی سمجھ چاہے نہ آئے لیکن ڈر ضرور لگتا ہے۔


کل کی وارداتِ انہدامِ قلبی کے بعد ہم نے یہ ارادہ باندھ لیا ہے کہ آئندہ فلسفے، اخبار اور ماش کی دال سے بالکل اجتناب کریں گے۔ فلسفیانہ مسائل وہی مردان باصفا سلجھا سکتے ہیں جو بقول شاعر۔۔۔ انہی کا کام ہے جن کے حوصلے ہیں 'ابن' زیاد۔۔۔۔ اوریہ کام ہمارے بس کا نہیں ہے لہذا آج سے معمول کی نشریات وقتی خلل اور دماغی خرابی کے بعد دوبارہ شروع سمجھی جائیں۔

لالی پاپ

ترقی کرنی چاہیے جی اور ضرور کرنی چاہیے۔ محنت کرنی چاہیے، پیسہ کمانا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر قیمت پر؟


جوماجھا ساجا گرمیوں کے پندرہ دن یورپ گزار آتا ہے وہ ہمارےکان کھانے شروع کردیتا ہے کہ تم لوگ کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ یہاں سیاحوں کے لیے کوئی 'سہولت' میسر نہیں، کوئی 'تفریح' کا بندوبست نہیں، کوئی 'منورنجن' نہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ترقی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے ملک میں سیاحت کے فروغ کے نام پر قحبہ خانوں کا کلچر عام کریں؟ جو کہ الا ماشاءاللہ حضرت علامہ مولانا پیجا دہلوی پہلے کافی عام کرچکے ہیں لیکن ان شوقیہ فنکاروں کی سوکالڈ ترقی پھر بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ کیا آپ اپنی معیشت بہتر کرنے کے لیے اپنے گھر کے کمروں کو بہترین ڈیکوریٹ کرکے اور تمام سہولیات میسر کرکے 'اچھا' وقت گزارنے والوں کو کرایہ پر دینا پسند کریں گے؟


دبئی کی مثال بہت دی جاتی ہے کہ اس نے کیسے کم وقت میں ترقی کی ہے اور وہاں ہر 'قسم' کی آزادی ہے اور کسی قسم کی 'روک ٹوک' نہیں ہے۔ اگر صاف گوئی کا مظاہرہ کیا جائے تو دبئی ایک بہت بڑے چکلے کے علاوہ کچھ بھی کہلانے کا حقدار نہیں ہے۔ اس کی ساری ترقی بلبلہ ثابت ہوئی اور وہ ایک جھٹکے کی مار نہیں سہہ پائی۔ اب پھر اس کا انحصار اسی 'قدیمی پیشے' پر ہے جس نے اسے دنیا میں اتنی 'مشہوری' عطا کی تھی۔


ترکی کی بہت بلّے بلّے ہورہی ہے کہ کیسے وہاں نماز پڑھنے والے نماز پڑھتے ہیں اور نائٹ کلب جانے والے نائٹ کلب جاتے ہیں اور کوئی ایک دوسرے کو تنگ نہیں کرتا۔ تو جی میرا سوال یہ ہے کہ اگریہی سب کچھ یہاں پاکستان میں بھی کرنا تھا تو یہ ملک 'امب' لینے کے لیے بنایا تھا؟ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس ملک کے بنانے کا مقصد معاشی تھا نہ کہ دو قومی نظریہ تو اپنی چلتی معیشتیں اور نوابیاں چھوڑ کے یہاں لٹ پٹ کے آنے والے تو کائنات کے احمق ترین باشندے ہی ہوسکتے ہیں۔ اور سائڈ نوٹ یہ کہ دو قومی نظریہ تو اب یورپ اور امریکہ کی 'اعلی سیکولر اقدار' والی قومیں بھی تسلیم کرتی ہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کے لیے اپنی پوری قوت بروئے کار لا کر نئے ملک بنانے سے بھی نہیں چوکتیں، ریفرنس کے لیےمشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان ملاحظہ ہو۔


یہ ہماری اجتماعی بدقسمتی ہے کہ ہم نے ملک تو بدل لیا لیکن صدیوں سے قابض حکمران طبقے کو نہ بدل سکے جو کبھی مذہب اور کبھی روشن خیالی کے نام پر ہماری تشریف لال کرتا رہا ہے اور مسلسل کررہا ہے۔ یہ لوگ نہ تو عوام کو تعلیم دے سکے نہ انصاف، نہ تربیت کرسکے اور نہ ترقی دے سکے۔ لالی پاپ، البتہ بہت دیئے۔ زبان کے لالی پاپ، نسل کے لالی پاپ، برتری کے لالی پاپ، مذہب کے لالی پاپ،جمہوریت کے لالی پاپ، روشن خیالی کے لالی پاپ، نفرت کے لالی پاپ، اور ہم سب کو مجبور کیا کہ ان لالی پاپس کے چُوپے لگاتے جاؤ اور موجیں کرتے جاؤ اور اسی طرح جہنم رسید ہوتے جاؤ۔


ترقی کرنی ہے تو تعلیم دینی پڑے گی، تربیت کرنی پڑے گی نہ کہ سیاحت کے نام پر قحبہ گری کو 'گراس روٹ' لیول پر فروغ دینے کی کوششیں۔ ترکی اور دبئی کی مثالیں دینے والوں کو تھائی لینڈ کی سیاحتی بنیاد والی معیشت کے نتائج و مضمرات پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے کہ اس سیاحتی ترقی نے وہاں کیسا سماجی ‘انقلاب’ برپا کیا ہے!۔

بُلبُل اور بی سی جیلانی!۔

آج کل تو فیشن ہے کہ این جی اوز پر تبرا کیا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ یہ حرامخور ہیں، گوروں کو بے وقوف بنا کے موجیں کرتے ہیں اور ڈالر، یورو وغیرہ پیٹتے ہیں۔ جبکہ جتنی محنت، مشقت اور اپنا آپ مار کے ہم روزی کماتے ہیں شاید ہی کوئی ایسا کرتا ہو۔ مثلا آج 'سفارت خانے' میں جو گٹ ٹو گیدرہوئی، اس میں شرکت کرنے کے لیے اپنا آپ جیسے مارنا پڑا، یہ وہی جانتا ہے جسے "بلبلوں اور مالیوں" کے ساتھ لگ بھگ تین گھنٹے گزارنے پڑے ہوں۔

چند روز قبل، شہنشاہ عالی مقام نے اپنی تقریر میں ان لوگوں کے حقوق کی حفاظت کا عندیہ دیا تھا، جن کی 'ترجیحات' مختلف ہوتی ہیں۔ یہ تقریب اسی تقریر کا فالو اپ تھی۔ اس تقریب کا دعوت نامہ جب سے موصول ہوا تھا، اسی وقت سے میں اس الجھن میں تھا کہ جانا چاہیے یا نہیں لیکن نہ جانا تو آپشن تھا ہی نہیں۔۔۔۔۔ نوکر کیہ تے نخرہ کیہ۔

تقریب میں شرکت کے لیے ایک مخصوس ڈریس کوڈ بھی تھا۔ جس میں پنک رنگ آپ کے ملبوسات کا کسی نہ کسی شکل میں حصہ ہونا لازمی تھا۔ مجھے مجبورا پنک قمیص پہننی پڑی۔ وہ تو شکر ہے کہ یہ تقریب سختی سے میڈیا نان فرینڈلی تھی لہذا کسی قسم کی تصویر یا فٹیج شائع یا آن ائیر نہیں جاسکی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ آج مجھے انسانی حقوقیا ہونے پر شرم سی آنے لگی تھی۔ اس سے مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ میں اتنا بھی بی سی نہیں ہوں۔

عمدہ مشروبات، بہترین باربی کیو، ایلٹن جان کے دھیمی آواز میں بجنے والوں گانوں اور عمدہ ماحول کے باوجود مجھے ایسا محسوس ہوتا رہا جیسے میں کسی بغیر سلنسر کے رکشے میں بیٹھا ہوں اور یہ رکشہ کسی کچے اور اونچے نیچے رستے پر "رواں دواں" ہے۔ ایلٹن جان کے گانے کی جگہ جارج مائیکل کا گانا بجنے پر یوں محسوس ہوتا رہا جیسے رکشے نے اچانک بریک لگا کر دوبارہ پوری رفتار سے دوڑنا شروع کردیاہو۔

تقریب کے مہمان خصوصی ایک مشہور فیشن ماڈل تھے جبکہ صدارت ایک سیاسی شخصیت نے کی۔ میری رائے میں تو بلاول بھٹو زرداری اس تقریب کے لیے بہترین مہمان خصوصی ثابت ہوتے جبکہ صدارت کے فرائض فرزانہ راجہ بخوبی انجام دے سکتی تھیں۔ لیکن وہ کیا فارسی کہاوت ہے کہ ۔۔ رموز مملکت خویش خسرواں دانند۔۔۔ ویسے بھی ان "حقوق" اور فارس کا گہرا اور تاریخی تعلق ہے۔

اس تین ساڑھے تین گھنٹے کی کُتے کھانی کا ایک فائدہ ہوا۔ تعلیمی اداروں میں "بلبل اور مالی ازم" پھیلانے کا پروجیکٹ مجھے مل گیا۔ مجھے آہستہ آہستہ پتہ چلتا جارہا ہے کہ میرے حاسدین میرے نام کے مخفف سے جو لفظ بناتے ہیں وہ کوئی اتنا غلط بھی نہیں ہے۔

پیچیدگیاں و گھمن گھیریاں

چند دن پہلے ایک مقبول اردو روزنامے کے ناٹ سو مقبول کالم نویس نے اپنی فیس بک وال پر ایک نوٹ شئیرا تھا۔ یہ کالم نویس، افسانہ نویسی کی بجائے کالم نویسی ہی کرتے ہیں اور سو میں سے ننانوے دفعہ معقول بات لکھتے ہیں، ایک آدھ دفعہ تو بندہ چول مار ہی جاتا ہے ناں جی، بندہ جو ہوا۔ بہرحال اس نوٹ میں انہوں نے فوج کی حمایت میں دلائل کی ایک لمبی فہرست دی۔ جن میں ایک دلیل یہ بھی تھی کہ افغانستان میں جاری مزاحمت کی پشتیبان ہماری فوج ہے، اسی وجہ سے امریکہ ہم سے ناراض ہے اور فوجی قیادت امریکہ نواز بالکل نہیں ہے بلکہ وہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ کررہی ہے۔ اس پر میں نے ان سے ایک سوال پوچھا تھاکہ یہاں پاکستان سے ان کی مراد کیا ہے۔ جس کا جواب دینا انہوں نے مناسب نہیں سمجھا، حالانکہ فیس بک پر وہ اکثر سوالات کے جوابات کافی تفصیل سے دینے کے عادی ہیں۔

جڑواں میناروں کی تباہی کے بعد جب امریکی ، افغانستان میں تشریف لائے تو ان دنوں سابق سرخے، حال انسانی حقوقیے اسی طرح خوش تھے جیسے سوویت یونین کے افغانستان میں آنے پر انہوں نے بغلیں بجائی تھیں کہ بس اب سرخ سویرا آیا کہ آیا جبکہ سرخ سویرا تقریبا دس سال بعد واپس وہیں گھس گیا تھاجہاں سے نکلا تھا، امریکیوں کے آنے پر سابقہ کامریڈز نے اس خطے میں جمہوریت، انسانی حقوق (این جی او مارکہ)، مساوات اور اگر احباب معاف کرسکیں تو سیکولر ازم کی نوید سنائی تھی۔ ساتھ میں یہ چتاؤنی بھی دیتے پائے گئے تھے کہ وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایاکرتے تھے، یہ افغانی، امریکیوں کے بل بوتے پر روسیوں سے لڑے تھے، اب چونکہ امریکی خود تشریف لے آئے ہیں، تواب ان جاہلوں کا بیڑہ غرق ہی سمجھو۔ امریکیوں کو اس خطے میں تقریبا دس سال ہونے کو آئے ہیں اوراب وہ بھی وہیں گھسنے کی تیاری کررہے ہیں جہاں سے نکلے تھے اور مور اوور، افغانستان میں فتح سے امریکی اتنے ہی دور ہیں جتنے ہمارے کچھ ساتھی کامن سینس سے!۔

یہاں ذہن میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ اگر افغان مزاحمت کی پشتیبانی پاکستانی فوج کرتی رہی ہے اور کررہی ہے تو پاکستانی طالبان، فوج کے خلاف کیوں ہیں؟ کیا ان پاکستانی طالبان کو امریکی مدد حاصل ہے جیسے افغان طالبان کو پاکستانی مدد حاصل ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی سپر پاور اور بقول صحافی و سیاسی بزرجمہروں کے 'ہم ان سے نہیں لڑسکتے' قسم کی طاقت کو دس سال تک دھوکے میں رکھا جائے؟ اگر یہ ممکن ہے تو امریکیوں سے بڑا گدھا اس روئے زمین پر دوسرا کون ہوسکتا ہے؟ اگر پاکستانی فوج افغان طالبان کی پشت پناہی نہیں کررہی، تو اس مزاحمت کے پیچھے کس کی مدد اور پیسہ کام کررہا ہے؟ اور اگر پاکستانی طالبان کو امریکی مدد حاصل نہیں تو ان کو پیسہ اور مدد کہاں سے مل رہی ہے؟ اور اگر پاکستانی طالبان کو امریکی مدد حاصل ہے تو ان کے کندھے پر بندوق رکھ کے مذہب اور اس کی اقدار کو نشانہ بنانے والے اور پاکستانی طالبان ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے نہیں سمجھے جائیں گے؟

اس سارے کنفیوژن سے نکلنے کا ایک آسان حل تو یہ ہے کہ انہیں سازشی نظرئیے قرار دے دیا جائے لیکن یہ سازشی نظرئیے بھی نہایت کمینے نظرئیے ہوتے ہیں اور اس سے بھی بڑی ذلالت ان میں یہ ہوتی ہے کہ یہ اکثر سچ ثابت ہوجاتے ہیں!۔

پھر قاعدہ

بہت دن الٹی سیدھی ہانکنے کے بعد ہمیں محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ اب چونکہ چل چلاؤ کا وقت آن لگا ہے تو کچھ ایسا کام کرجانا چاہیے کہ ہمارا نام تاریخ (کیلنڈر والی نہیں) میں چمپئی الفاظ سے لکھا جائے اور مؤرخین، ہمیں ایک ایسے عظیم ادیب اور مصنف کے طور پر یاد کریں جس نے اردو کا مستقبل ہمیشہ کے لیے بدل کے رکھ دیا ہو۔ بناء بریں ہماری نظر اس موئے قاعدے کی طرف ہی گئی ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ بہرحال اس دفعہ ہم اپنے تئیں سر دھڑ کی بازی لگا کر اسے ختم کرنے کی کوشش کریں گے مبادا اس سے پہلے کہیں ہم خود ہی کڑیں نہ ہوجائیں۔۔ ہیں جی!۔


ض۔۔۔۔ ضرار۔ یہ ایک ٹینک ہے۔ پانی والا یا تیل والا ٹینک نہیں بلکہ گولہ بارود برسانے والا ٹینک۔ اسے ہماری "مُسلا" افواج نے بنفس نفیس اپنی ورکشاپ میں بنایا ہے۔ تاکہ بوقت جنگ دشمن افواج کے دانت کھٹے اور ان کی جیپیں، ٹرک ودیگر آلات حرب و ضرب تباہ و برباد کیے جاسکیں۔ مستقل دشمن سے جنگ کا چونکہ کوئی امکان نہیں، لہذا اسے آزمانے کے لیے ہم نے ایسے جزوقتی "دشمن" ڈھونڈ لیے ہیں، جن کے پیسوں سے یہ ٹینک بنایا گیا تھا۔ان ناہنجاروں کی کمر توڑنے میں یہ ٹینک بہت کار آمد ثابت ہورہے ہیں۔ ایک محاورے میں اس صورتحال کی عکاسی ایسے کی گئی ہے کہ "میریاں جُتّیاں، میرا اِی سر" ۔


ط۔۔۔۔طوطا۔ اس کا نک نیم میاں مِٹھّو ہوتا ہے اور یہ چُوری کھاتا ہے۔ جبکہ طوطا چشم چَوری کھاتے ہیں۔ اشفاق احمد یہ اصرار کرتے کرتے اللہ کو پیارے ہوگئے کہ طوطا ، ت سے ہوتا ہے۔ لیکن کسی نے ان کی بات سن کر نہیں دی۔ تھوڑا غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ توتا چشم، زیادہ طوطا چشم محسوس نہیں ہوتا!۔


ظ۔۔۔۔ ظُلمی۔ یہ لفظ پرانے فلمی گانوں میں کثرت سے استعمال کیا جاتا تھا۔ مثلا، ظلمی نہ موڑ موری بیّاں ، پڑوں تورے پیّاں ۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور اصل میں خاتون ان الفاظ کے برعکس ظُلمی کو اکسارہی ہوتی تھی کہ میری بّیاں پکڑ کے مروڑ کمبخت، مٹی کا مادھو بن کے نہ کھڑا رہ۔ اس ساری صورتحال کو وکی لیکس کے تناظر میں بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔


ع۔۔۔۔ عریانی و فحاشی۔ ملک عزیز میں اس کے مظاہر جابجا بکھرے نظر آتے ہیں۔ جناتی سائز کے سائن بورڈز، جہاں کوئی خاتون چارگرہ کپڑے میں پھنسی ہوئی آپ کومختلف اشیاء، جو سوڈا واٹر سے لے کر موبائیل پیکجز تک کچھ بھی ہوسکتا ہے، خریدنے کے لیے ورغلانے کی جان توڑ کوشش کرتی نظر آرہی ہوتی ہے۔ ان اشتہارات کو دیکھ کر آپ یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ اشتہار سوڈا واٹر کا ہے یا خالص دودھ کا!۔ احباب اس بات پر شدید اعتراض کرسکتے ہیں کہ اس مظہر یعنی عریانی و فحاشی کی باقی علامات جو وطن عزیز میں جگہ جگہ نظر آتی ہیں، ان پر ہماری نظر کیوں نہیں پڑی؟ اس پر ہمارا جواب ایک طویل چپ ہے!۔


غ۔۔۔۔ غرارہ۔ یہ زیادہ تر ساٹھ کی دہائی کی فلموں اور فاطمہ ثریا بجیا کے ڈراموں میں پایا جاتا ہے۔ اس غبارہ نما لباس کی خاص بات، اس کی عیب پوشی کی صلاحیت ہے۔ اس لباس میں شمیم آراء اور صائمہ یکساں طور پر لحیم شحیم نظر آسکتی ہیں۔ شنید ہے کہ جب یہ لباس عام پہناوا تھا تو گھروں میں جھاڑو پونچھا لگانے کی ضرورت کم ہی پیش آیا کرتی تھی۔ کیونکہ اس کام کے لیے یہ لباس پہن کر گھومنا پھرنا ہی کافی ہوتا تھا۔ ایک غرارہ وہ بھی ہوتا ہے جو گلا خراب ہونےکی صورت میں نیم گرم پانی میں نمک ملا کے کیا جاتا ہے۔ یہاں آکے ہمارا سارا علم جواب دے جاتا ہے کہ ان دونوں غراروں میں قدر مشترک کیا ہے؟


ف۔۔۔فیصل آباد۔ یہ شہر سے زیادہ ایک حالت ہے اوراکثر و بیشتر اس شہر کے باشندوں پر ہی طاری ہوتی ہے بلکہ طاری ہی رہتی ہے۔ روایت ہے کہ ایک مشہور خطیب جمعے کے خطبے کے دوران حسب رواج و موسم حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ بیان کررہے تھے۔ اس قصہ میں جب کوئلے کا ذکر آیا تو وہ یوں گویا ہوئے کہ "واہ اوئے کولیا، تیریاں شاناں، او جے پَخ گیا تے نورانی، تے جے بُجھ گیا تےےےےےےے۔۔۔۔۔۔ مفتی جعفر حسین"۔۔۔۔(واہ اے کوئلے، تیری کیا شان ہے۔ اگر دھک جائے تو نورانی اور اگر بجھ جائے تو مفتی جعفر حسین)۔ اس مثال سے آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ فیصل آبادی حالت کیسی ہوتی ہے۔


ق۔۔۔ قانون۔ یہ گنّا بیلنے والی مشین کی طرح ہوتا ہے۔ جس میں عوام کا رَس نکالا جاتا ہے۔ اس مشین کو چلانے والے، قانون نافذ کرنے والے ادارے، کے نام سے جانے جاتے ہیں اور جیسا کہ انصاف کا تقاضہ ہے، یہ ادارے قانون سے بالاتر ہوتے ہیں۔ قانون کی مزید تشریح کیلئے آپ، منٹو کی "نیا قانون" بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔


ک۔۔۔ کُتّا۔ یہ ایک پالتو جانور ہوتا ہے۔ اقوام مغرب میں اسے افراد خانہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ وہاں بیوی رکھنا اتنا ضروری نہیں، جتنا کُتّارکھنا ضروری ہے۔ ہالی ووڈ فلموں کا ماچو ہیرو بھی اسی وقت غیض و غضب کی انتہا کو پہنچتا ہے جب ولن اس کے بیوی بچوں کو مارنے کے بعد اس کے کُتّے کو بھی مار دیتا ہے۔ صاحب لوگ اکثر کُتّے کو ان اقوام کی رحمدلی، جانوروں سے محبت اور تہذیب یافتہ ہونے کی دلیل کے طور پر بیان کرتے ہیں اور ہمیں شرمندہ کرتے ہیں کہ تم اب تک جاہل کے جاہل ہی رہے اور کُتّے کو اس کا اصل مقام نہ دے سکے۔ ان روز روز کے طعنوں سے تنگ آکر ہم نے بھی وہ کام کیا ہے کہ بقول شاعر۔۔ ۔جو کام ہوا ہم سے، رستم سے نہ ہوگا۔۔۔ سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے!۔


گ۔۔۔ کھَوتَا۔ ہمارے برادر خورد، اردو کا الف انار ب بکری والا قاعدہ پڑھتے ہوئے ہمیشہ گ سے کھَوتَا پڑھتے تھے۔ ان کے معصوم ذہن میں یہ بات نہیں سماتی تھی کہ عام زندگی میں جسے وہ کھوتا کہتے ہیں، کاغذ پر اس کی تصویر چھپی ہو تو اسے گدھا کہنا کیوں ضروری ہے؟ اپنی مِس سے تو شاید انہیں مار نہیں پڑی ہوگی کہ شدید گُگلُو قسم کے بچے تھے، لیکن ہمارے ہاتھوں وہ غریب سخت زدوکوب ہواکرتے تھے۔ آخر تنگ آکے انہوں نے زمینی حقائق سے سمجھوتہ کرلیا اور گ سے کھوتے کی بجائے گدھا ہی پڑھنے لگے!۔

اماں سردار بیگم


اس زمانے میں بچے نوکر نہیں پالتے تھے، مائیں پالتی تھیں۔ غریب مائیں، امیر مائیں، بھونڈی مائیں، پھوہڑ مائیں، اور اپاہج مائیں، پاکباز اور طوائف مائیں سبھی اپنے بچے خود پالتی تھیں۔ ان کے پاس بچے پالنے کا سستا اور آسان نسخہ تھا کہ وہ گھر سے باہر نہیں نکلتی تھیں۔ بچے اپنی ماں سے چالیس پینتالیس گز کے ریڈیس میں کہیں بھی جاتے، کہیں بھی ہوتے، کہیں کھیلتے ان کو اچھی طرح سے معلوم ہوتا تھا کہ مشکل وقت میں ان کی پکار پر اماں بجلی کی طرح جھپٹ کر مدد کے لیے آموجود ہوگی اور وہ اپنی مشکل اپنی ماں کے گلے میں ڈال کر گھر کے اندر کسی محفوظ کونے میں پہنچ جائیں گے۔ اس زمانے کی مائیں بچوں کو اپنی عقل و دانش سے یا نفسیاتی ذرائع سے یا ڈاکٹر سپوک کی کتابیں پڑھ کر نہیں پالتی تھیں بلکہ دوسرے جانوروں کی طرح صرف ممتا کے زور پر پالتی تھیں۔ بچے بھی کھلونوں، تصویروں، ماؤں کی گودیوں اور لمبی لمبی کمیونی کیشنوں کے بغیر پروان چڑھتے تھے اور ذہنی، جسمانی اور روحانی طور پر بڑے ہی سرسبز ہوتے تھے۔ ان کے پاس یقین کی ایک ہی دولت ہوتی تھی کہ ماں گھر پر موجود ہے وہ ہر جگہ سے ہماری آواز سن سکتی تھی۔ جس طرح پکے پکے خدا پرست کو پورا پورا یقین ہوتا ہے کہ خدا اس کے حلقے میں ہر وقت موجود ہے اور وہ جب اسے پکارے گا، رگ جان سے بھی قریب پائے گا اسی طرح بچے کو بھی اپنی پکار اور ماں کے جواب پر مکمل بھروسہ ہوتا تھا!۔


___________________________________________________________



کھانے کے بعد ان اوقات میں بڑی آپا اور آفتاب بھائی فلسفے کی پیچیدہ گتھیاں سلجھا رہے ہوتے تو کبھی کبھی اماں بھی اس میں دخل دے دیا کرتیں۔ جب بھائی جان بنی نوع انسان کی زبوں حالی اور ہندوستان کے پائمال و پریشان مسلمانوں کی بے بسی اور بے آبروئی کا نقشہ کھینچتے تو سب کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ اس سلسلے میں جب بے حس امیر مسلمانوں اور بدکردار مسلم رؤسا کا ذکر چلتا تو ہماری آنسوؤں سے لبریز آنکھوں میں خون اتر آتا۔ اماں ہلکے سے خوف، ذرا سی ہچکچاہٹ کے ساتھ دبی ہوئی آواز میں کہتیں، "ہمیں اپنے غریب بہن بھائیوں کی حالت زار دیکھ کر اور ان کی بے سروسامانی اور بے آبروئی پر ترس کھا کر ان کی مدد نہیں کرنی چاہیے بلکہ اللہ رسول کے حکم کی وجہ سے ان کی دستگیری کرنی چاہیے۔ ترس کھانے اور آنسو بہانے کے مقابلے میں اللہ کے رسول کا حکم زیادہ زور آور اور زیادہ ڈاڈھا ہے۔ ہم کوحکم ماننا ہے، ترس نہیں کھانا"۔


____________________________________________________________



میں نے کہا، "میں علم پھیلانا چاہتا ہوں اور لوگوں کو عقل سکھانا چاہتا ہوں۔ میں کتابیں لکھوں گا۔ تصنیف و تالیف کروں گا"۔ "اور یہ جو اتنی ساری کتابیں پہلے لکھی رکھی ہیں۔۔۔۔ !" اماں نے پوچھا "ان کا کیا بنے گا؟ ان کو کون پڑھے گا؟" مجھے اپنی اماں کی سادہ لوحی پر ہنسی آگئی اور میں یہ سن کر دنگ رہ گیا کہ میری اماں کو تصنیف و تالیف کے عمل سے بھی واقفیت نہیں ہے۔ میں نے ہنس کر کہا، "میری پیاری اماں! اب تک چھپی ہوئی کتابیں لوگوں کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں۔ میرے حساب سے اوسط درجے کی تحریریں ہیں اس لئے میں خود نئی کتابیں لکھ کر زمانے کے سامنے پیش کروں گا اور ان کے علم میں اضافہ کروں گا۔" اماں کو میری یہ بات ٹھیک سے سمجھ آگئی۔ اس نے اپنا چہرہ میری طرف کئے بغیر نئی روٹی بیلتے ہوئے پوچھا، "تو اپنی کتابوں میں کیا پیش کرے گا؟"۔ میں نے تڑپ کر کہا، "میں سچ لکھوں گا ماں اور سچ کا پرچار کروں گا۔ لوگ سچ کہنے سے ڈرتے ہیں اور سچ سننے سے گھبراتے ہیں۔ میں انہیں سچ سناؤں گا اور سچ کی تلقین کروں گا۔" میری ماں فکرمند سی ہوگئی۔ اس نے بڑی دردمندی سے مجھے غور سے دیکھا اور کوئلوں پر پڑی ہوئی روٹی کی پروا نہ کرتے ہوئے کہا، "اگر تو نے سچ بولنا ہی ہے تو اپنے بارے میں بولنا، دوسرے لوگوں کی بابت سچ بول کر عذاب میں نہ ڈال دینا۔ ایسا فعل جھوٹ سے بھی برا ہوتا ہے"۔ مجھے اپنی ماں کی سادہ لوحی پر بہت ہنسی بھی آئی لیکن اس کے احترام کی وجہ سے میں ہنسا نہیں، آرام سے بیٹھ کر کھانا کھاتا رہا اور اس کے روٹی پکانے کی آواز سنتا رہا۔ میری ماں بے چاری یا تو کھانا پکا سکتی تھی یا گھر کے دوسرے کام کرسکتی تھی، اس میں باریک باتوں کی سمجھ مطلق نہیں تھی!۔


اشفاق احمد کی کہانی ”اماں سردار بیگم” سے اقتباسات

عبدالشکور، آنکھیں کھول

آپ عبدالشکور کو دیکھ لیں۔ یہ فیصل آباد میں پیدا ہوا۔ یہ اپنے آبائی گھر واقع منڈی کوارٹر میں رہتا ہے۔ یہ بچپن سے ہی پڑھاکو تھا۔ اس نے پرائمری ، مڈل اور میٹرک کے امتحان ہائی تھرڈ ڈویژن میں پاس کیے۔ یہ اعلی تعلیم کے لیے ملت 'یونیورسٹی' غلام محمد آباد (گلاما باد) میں داخل ہوگیا۔ ایف اے امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد، عبدالشکور، حاجی ثناءاللہ کی کپڑے کی دکان پر منشی لگ گیا۔ حاجی صاحب کے دیکھا دیکھی اس نے داڑھی بھی رکھ لی اور تبلیغی اجتماعات میں بھی جانا شروع کردیا۔


عبدالشکور کی زندگی ناکامی کی اعلی مثال ہے۔ یہ سائیکل پر گھومتا ہے۔ اس کی شادی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ اس کی شلوار ٹخنوں سے اونچی ہوتی ہے۔ لوگ اسے مولوی مولوی کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جب بھی خود کش بمباروں کی فیصل آباد میں داخلے کی اطلاع آتی ہے، پولیس اسے پکڑ کر لے جاتی ہے اور ہفتے دس دن تک حوالات میں بند رکھتی ہے۔ حاجی ثناءاللہ بھی ان دنوں کی تنخواہ کاٹ لیتے ہیں۔ یہ جب بھی لاہور جاتا ہے، بس میں چیکنگ کرنے والی پولیس پارٹی سب سے پہلے اسے کہتی ہے کہ 'اوئے مولبی، چل باہر آ"۔ عبدالشکور کی زندگی، شرمندگی کی شرمناک مثال ہے۔ عبدالشکور کا امیج دنیا کی نظروں میں نہایت خراب ہے۔ لوگ اسے دہشت گرد، بنیاد پرست، مولوی، تقلیدیا اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے ہیں۔


اگر عبدالشکور، شلوار ٹخنوں سے نیچی کرلے، کلین شیو ہوجائے۔ منڈی کوارٹر کے مشٹنڈوں کے ساتھ گھومنا پھرنا شروع کردے۔ چرس نہ سہی، سگریٹ ہی پینا شروع کردے۔ 'بروکری' چاہے نہ کرے، لیکن 'خریداری' ہی شروع کردے۔ اور سب سے بڑھ کر اگر وہ 'منگ پتہ' کھیلنا شروع کردے۔ اس کا اچھا کھلاڑی بن جائے۔ تو اس کا امیج اور تاثر ڈرامائی طور پر بدل جائے گا۔ لوگ اسے زندہ دل، خوش باش اور اعلی انسان سمجھنے لگیں گے۔ پولیس اسے تنگ کرنا چھوڑ دے گی۔ خاندان میں اس کی عزت بڑھ جائے گی۔ یہ حاجی ثناءاللہ کی دکان پر کام کرنے کی بجائے اس جیسی کئی دکانیں خود کھولنے کی قابل ہوجائے گا۔


آپ وارث پورے چلے جائیں، افغان آباد، اشرف قصائی کے اڈے پر چلے جائیں، یا کسی بھی ڈیرے کا چکر لگالیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگ منگ پتے کے اچھے کھلاڑی کی کتنی عزت کرتے ہیں۔ عبدالشکور کو اپنا تاثر بدلنے کے لیے کم ازکم یہ کام ضرور کرنا پڑے گا، ورنہ دنیا اسے قدامت پرست اور جاہل قرار دے کر مسترد کردے گی۔ اس کا مستقبل جو پہلے ہی لوڈ شیڈنگ کا مارا ہے، بالکل ہی تاریک ہوجائے گا۔


فیصلہ ترا، ترے ہاتھوں میں ہے ۔۔۔۔۔عبدالشکور!۔

باقی فنڈا

محبت کے دورے یوں تو اوائل عمری سے ہی پڑنے شروع ہوجاتے ہیں لیکن کچھ حضرات و خواتین کو یہ دورے درمیانی عمر کے آغاز میں شروع ہوتے ہیں اور ان دوروں کی نوعیت، شدید قسم کی ہوتی ہے۔ اکثر حضرات کو یہ دورے زیادہ سے زیادہ دو بچوں اور کم سے کم ایک بچے کا اباجان بننے کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ ایک دن نیند سے بیدار ہونے پر انہیں اچانک محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ جو عورت ان کے بچے یا بچوں کی اماں جان ہے، اس سے تو ان کی 'ذہنی ہم آہنگی' ہی نہیں ہے اور اس کے ساتھ تو زندگی کزارنا بڑا ظلم ہے اور یہ ظلم ان پر مسلسل ہورہا ہے۔ لہذا یہ حضرات، اپنی کام کی جگہ جو آفس سے لے کر ہسپتال اور تعلیمی اداروں سے لے کر ثقافتی اداروں تک کہیں بھی ہوسکتی ہے، خوبصورت، قبول صورت یا کم صورت کولیگ کے سامنے اپنی مظلومیت کی داستان، بانداز علامہ راشد الخیری، سنانا شروع کردیتے ہیں۔ جس میں بتایا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ تو بڑا ہاتھ ہوگیا ہے اوران کی بیوی کم ازکم ایریل شیرون جتنی ظالم تو ہے ہی اگر زیادہ نہیں۔


حالانکہ یہی حضرات شادی کے پہلے تین مہینے اپنی زوجہ کو یہ یقین دلاتے پائےجاتے ہیں کہ 'جانم! اگرتم نہ ملتیں، تو میرا کیا ہوتا؟' اوراسےمحمد رفیع کے گانے عطاءاللہ عیسی خیلوی کی آواز میں سنا کے مرنے کی حد تک بور کرتے رہے ہوتے ہیں۔ اس اچانک کایا پلٹ کی وجوہات نا گفتنی ہیں۔ جن کے ڈانڈے کمینگی سے شروع ہو کر رذالت سے جا ملتے ہیں۔


اس داستان ظلم ہائے زوجہ کے سامعین کی اکثریت بھی اس جال میں پھنس جاتی ہے اور اس سو کالڈ مظلوم کی کہانی پر آٹھ آٹھ آنسو بہاتی ہے۔ اور یہ سمجھتی ہے کہ اتنا اچھا انسان کیسے ایک ظالم عورت کے ہاتھوں برباد ہورہا ہے۔ اس سے آگے تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اس کہانی کا رخ کدھر کو مڑتا ہے۔


ایسا نہیں ہے کہ اس حمام میں صرف حضرات ہی دھمال ڈالتےہیں۔ خواتین بھی اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اگر تین چار بچوں کے بعد اماں جان، ونیزہ احمد کی بجائے دردانہ بٹ لگنے لگتی ہیں تو ابا محترم بھی سلمان خان کی بجائے قادرخان ہوجاتے ہیں اور اپنی زوجہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ تب پھران خواتین کو اپنے زمانہ 'طفولیت' کے کزن، کلاس فیلو یا محلے دار یاد آنے لگتے ہیں۔ اور ان سے رابطہ کرنے کی خواہش پیدا ہونے لگتی ہے۔ ایس ایم ایس، ایمیل، فیس بک، ٹوئٹر، چیٹنگ یا سادہ فون کال ہی اس مقصد کو پورا کردیتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ انہیں چار، پانچ بچے تو مل گئے ہیں، محبت نہیں ملی۔ اس 'سوکالڈ' محبت میں پھر وہ کتنا خجل ہوتی ہیں، یہ ایک الگ کہانی ہے۔


دل تو میرا بہت کررہا ہے کہ یہاں میں ایک اخلاقی سبق قسم کی چیزآپ کے سامنے پیش کروں تاکہ ان تمام 'بگڑے' ہوئے حضرات بمعہ خواتین کو کان ہوں اور وہ 'راہ راست' پر آجائیں۔ پر جی سانوں کیہ۔۔۔


جنہاں کھادیاں گاجراں ٹڈھ انہاں دے پیڑ

میرے سوالوں کا جواب دو۔۔۔ دو ناں

الطاف انکل عرف قائد تحریک مزید عرف قائد انقلاب عرف شدید موٹے نے عوامی ریفرنڈم میں سترہ سوال پوچھے ہیں۔ ہم ان سوالوں کے جوابات کے ساتھ حاضر ہیں۔ ان سوالات میں موٹے انکل نے کچھ ایسی ہینکی پینکی بھی کی ہے جو ہم سکول کے دور میں مطالعہ پاکستان کے پرچے میں کیا کرتے تھے۔ مثلا ایک دفعہ ہم نے قائد اعظم کے چودہ نکات کو تئیس نکتوں تک پھیلا دیا تھا۔ ایسا ہی کچھ ان سترہ سوالات میں بھی کیا گیا ہے۔ اس ریفرنڈم میں الطاف انکل کی تحریک کے فاؤنڈنگ فادر عرف مرد مومن مرد حق کے ریفرنڈم کی جھلک بھی نظر آتی ہے کہ اگر آپ اسلامی نظام چاہتے ہیں تو میں اگلے پانچ سال کے لیے صدر ہوں۔۔۔ہیں جی؟

پہلا اور دوسرا سوال اصل میں ایک ہی ہے، جو ہماری چودہ نکات والی تکنیک سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے کہ فلاں فلاں فلاں ملک میں دہشت گردی کے بعد وہاں کی عوام نے اتحاد وغیرہ کا مظاہرہ کیا تھا جبکہ ہم لڑ وغیرہ رہے ہیں اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کررہے ہیں، جبکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

اصل میں تو یہ سوال ہے ہی نہیں، موٹے انکل کا معمول کا سیاسی پوائنٹ سکورنگ والا بیان ہے۔ جسے وہ ہر واقعہ، سانحے، حادثے پر مقام، نام وغیرہ بدل کے استعمال لیتے ہیں۔ لہذا ہم اس سیاسی بیان پر تو کوئی جواب دے نہیں سکتے۔ صرف شاباش دے سکتے ہیں۔۔۔۔ در شاباش۔۔

تیسرا اور چوتھا سوال بھی ایک بیان ہی ہے جس میں دہشت گردی کے شکار ممالک کے حکمرانوں کے بارے پوچھا گیا ہے کہ کیا انہوں نے ایسے واقعات کے فورا بعد غیر ملکی دورے کئے؟ یا اگر دوروں پر تھے تو منسوخ کرکے واپس آگئے؟

پتہ نہیں جی۔ ہمیں تو یہ پتہ ہے کہ آپ تقریبا بیس سالوں سے غیرملکی دورے پر ہیں۔ جس دن آپ یہاں سے گئے تھے اس دن پیدا ہونے والے بچے آج ماسٹرز کررہے ہیں۔ جبکہ آپ۔۔ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔۔ بنے ہوئے، وہیں ٹکے ہوئے ہیں۔ اور ہمیں انقلاب کی اشکل دیتے جارہے ہیں۔ خود کھا کھا کے غبارے کی طرح پھول گئے ہیں جبکہ آپ کی انقلابی عوام بھوک سے خود کشیاں کررہی ہے۔ اس کا جواب کون دے گا؟

اگلے سوال میں انہی ممالک کا حوالہ دے کر فوج سے جاری رومانس پر مہر تصدیق ثبت کی گئی ہے کہ کیا انہوں نے فوج کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا تھا؟

اس معاملے پر ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ کم ازکم ایک فریق تو ایسا ہے جو کہہ سکتا ہے کہ آپ نے آج تک انہیں لمبا گیڑا نہیں کرایا۔ ایک دفعہ کوشش کی تھی تو ابھی تک ٹکور کررہے ہیں۔ اس کے بعد ماشاءاللہ آپ کا ٹریک ریکارڈ قابل رشک ہے۔ ہمیں تو یہ بھی شک ہورہا ہے کہ بعد از انقلاب، آپ جنرل یحیی خان کو نشان حیدر دینے کی سفارش بھی کریں گے۔ وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے۔۔۔ آہو۔۔

اگلا سوال پھر وہی اٹھانوے فیصد اور دوفیصد کا رنڈی رونا ہے اور فوج سے دست بستہ گذارش ہے کہ انہیں اٹھانوے فیصد کا نمائندہ جانتے ہوئے، دوفیصد کا سربراہ بنادے۔

چند دن پہلے سہ بارہ دو فیصدیوں کے ساتھ وزارتوں کا حلف اٹھا کے ایسا سوال کرنا، موٹے انکل کا ہی حوصلہ ہے۔ لگے رہو موٹا بھائی

یہاں تک آکے میری بس ہوگئی ہے۔ اگلے سارے سوال بھی وہی کروڑوں دفعہ کے دہرائے ہوئے ٹیلیفونک، ٹیلی ویژنک اور اخباری بل شٹ بیانات ہیں۔ جن کو سن سن کے کان پک گئے ہیں بلکہ اب تو رسنے بھی لگے ہیں۔

ہوئے کیوں نہ غرق دریا

دو مئی کو ریڈار بند نہیں تھے۔ پاک فضائیہ


پاک فضائیہ کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو مئی کو ریڈاد بند نہیں تھے بلکہ ہماری آنکھیں بند تھیں۔ کیونکہ 'دوستوں' کی لغزشوں سے چشم پوشی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ویسے بھی آج کل آئی پی ایل جاری ہے تو ریڈار بند کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس موقع پر انہوں نے ریڈار سے براہ راست آئی پی ایل میچ کی جھلکیاں رپورٹرز کو دکھائیں۔


پاکستان کی طرف اٹھنے والی میلی آنکھ نکال دیں گے۔ فردوس عاشق اعوان


وزیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی طرف اٹھنے والی میلی آنکھ نکال دیں گی۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکی چونکہ روزانہ منرل واٹر سے منہ دھوتے ہیں لہذا ان کی آنکھیں بالکل صاف ہوتی ہیں تو ان کو نکالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں آنکھیں نکالنے کا تیس سالہ تجربہ ہے۔ میڈیکل کالج میں بھی انہوں نے چار ڈاکٹرز اور تین پروفیسرز کو کانا کیا تھا۔ آپ اگلے روز پریس کانفرنس سے خطاب کررہی تھیں۔


چھوٹی موٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ رحمن ملک


وزیر داخلہ رحمن ملک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایبٹ آباد کے واقعہ جیسی چھوٹی موٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ قائد عوام نے بھی مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہونے پر کہا تھاکہ خدا کا شکر ہے، پاکستان بچا لیا گیا۔ لہذا بھٹو ازم کا تقاضہ ہے کہ ایسی چھوٹی موٹی باتوں پر پریشان نہ ہواجائے۔ ویسے بھی پریشان تو انہیں ہوناچاہیے جنہیں یہاں مستقل رہنا ہے!۔۔


نواز شریف پرسوں سے ایبٹ آباد واقعے پر غور کریں گے۔


مسلم لیگ ن کے ترجمان نے کہا ہے کہ نواز شریف پرسوں سے شروع ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس میں ایبٹ آباد واقعہ پر غور کریں گے اور یہ غور اگلے تین سال جاری رہے گا۔ اس کے بعد پالیسی بیان جاری کیا جائے گا۔


بلا اجازت امریکی آپریشن بری بات ہے۔ پرویز مشرف


مسلم لیگ (۔۔۔۔) کے قائد پرویز مشرف نے کہا ہے کہ امریکیوں کا بلااجازت آپریشن کرنا بری بات ہے۔ اچھے بچے ایسے نہیں کرتے۔ جبکہ ہمارے دور حکومت میں تو ہم ایسے آپریشن کی ذمہ داری خود لےلیا کرتے تھے۔ تاکہ ہمارے دوست شرمندہ نہ ہوں۔ جبکہ موجودہ حکومت میں اتنی اخلاقی جرات ہی موجود نہیں جو ہمارا خاصہ ہے۔ آپ لندن میں طبلے کی کلاس سے فارغ ہونے کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔

بی سی جیلانی اور سرداراں تائی

آج کا دن بہت سی اچھی خبریں لایا۔ میڈم نفیسہ کے فون نے صبح جلد بیدار کردیاتھا۔ انہوں نے خوشخبری سنائی کہ سرداراں تائی کیس کے مردے میں دوبارہ جان پڑگئی ہے۔ 'سفارتخانے' والوں نے آج سہ پہر بریفنگ کے لیے بلایا ہے۔ مزید تفصیلات بارے دریافت کرنے پر میڈم نے فورا اپنے آفس پہنچنے کو کہا۔ بیگم رات پتہ نہیں کس وقت آئی تھیں، لہذا دھت سورہی تھیں۔ میں تیار ہوا، کافی پی اور میڈم نفیسہ کی طرف جانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔

میڈم کے آفس میں رپورٹرز کا جھمگٹا لگا ہوا تھا۔ چینلز والے اپنے مائیک ان کے منہ میں گھسیڑنے کی لگاتار کوشش کررہے تھے۔ میڈم، حقوق نسواں پر دھواں دھار تقریر کررہی تھیں جو لائیو ٹیلی کاسٹ ہورہی تھی۔ انہوں نے مولویوں، سپریم کورٹ، مردوں، اسلام، غرض سب کو حسب توفیق کھری کھری سنائیں۔ میں چپکا ہوکے ایک کونے میں کھڑاہو گیا۔ آدھ پون گھنٹے کے بعد جب سب رپورٹرز سموسے، پیسٹریاں، پیٹیز اڑانے کے بعد انٹا غفیل ہوئے پڑے تھے تو میڈم نے مجھے اشارے سے ریسٹ روم میں آنے کو کہا۔

ریسٹ روم کا دروازہ اندر سے بند کرکے میڈم نے ایک گہری سانس لی اور آرام کرسی پر نیم دراز ہوتےہوئے مجھ سے کہا کہ الماری سے بوتل اور گلاس نکالوں۔ میں نے دو گلاس بنائے اور میڈم کی کرسی کے سامنے دھری کاؤچ پر بیٹھ گیا۔

۔۔"جیلانی، ہماری ایک دفعہ پھر لاٹری لگ گئی ہے"۔ میڈم نے اپنی بھینگی آنکھوں کو نشیلی بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔ "بہت عرصے سے ڈرائی سپل چل رہا تھا۔ لگتا ہے خدا نے ہماری سن لی ہے۔ سفارتخانے والے بھی بڑے اتاؤلے ہورہے ہیں۔ کل سے یاددھانی کے دس فون آچکے ہیں۔ جیلانی ۔۔۔۔ وی ول میک آ فارچون آؤٹ آف اٹ۔۔۔"۔ میڈم نے ایک سسکاری لی اور آنکھیں موند لیں۔

خوشی کے مارے میری تو بھوک ہی اڑگئی تھی۔ لنچ بھی ہلکا پھلکا کیا۔ یعنی دو بگ میک پلس لارج فرائز۔ تین بجے ہم سفارتخانے جانے کے لیے نکلے۔ اب تو "سفارتخانے" جانا ایسا لگتا ہے جیسےہم محاذ جنگ پر جارہے ہوں۔ جگہ جگہ مورچے اور ان سے جھانکتی بندوقوں کی نالیاں۔ سکیورٹی کے نام پر آدھا گھنٹہ پہلے کتوں نے اور پھر بندوں نے ہمیں سونگھ کر کلیر کیا۔ کانفرنس روم میں شہر کی تمام نیک نام این جی اوز کے نمائندے موجود تھے۔ عالی پناہ نے بریفنگ کا آغاز کرتے ہوئے سرداراں تائی کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا اور اس امر پر گہری خوشی اور مسرت کا اظہار کیا کہ خداوند کی مہربانی سے ایسا فیصلہ آیا ہے جس پر ہم اپنا لُچ بآسانی تل سکتے ہیں۔

انہوں نے فردا فردا سب کو ٹاسک سونپے۔ میڈم اور میں چونکہ یک جان دو قالب سمجھے جاتے ہیں۔ لہذا ہم دونوں کے سپرد ایک ہی ٹاسک کیا گیا۔ جس میں اس فیصلے کی آڑ لے کر مستقل اہداف پر گولہ باری جاری رکھنا شامل تھا ۔ میرے ذمے پرنٹ میڈیا آیا اور میڈم کے حصے الیکٹرانک۔ عالی پناہ نے گائیڈ لائن دیتے ہوئے فرمایا کہ جیسے چائلڈ لیبر صرف وہ ہوتی ہے، جہاں پندرہ سولہ سال کے بچے کسی فٹ بال بنانے والی فیکٹری میں کام کریں اور اچھے پیسے کمائیں۔ جو سات آٹھ سالہ بچے ہمارے گھروں میں چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں اور روٹی کپڑے کے علاوہ کبھی کبھار دو تین سو روپے ترس کھا کے انہیں دئیے جاتے ہیں، وہ چائلڈ لیبر میں نہیں آتے، بلکہ ان کا شمار صلہ رحمی اور انسانیت کے احترام وغیرہ میں ہوتا ہے۔ اسی طرح سزائے موت اگر قاتل کو ملے تو غیر انسانی اور وحشیانہ سزا ہے اور اگر سرداراں تائی کیس میں ملوث ملزمان کو نہ ملے تو یہ ناانصافی اور انصاف کا قتل سمجھا جائے گا۔

بریفنگ کے اختتام پر سب کو حفط مراتب اور خدمات کے لحاظ سے گرانٹس کے چیک دئیے گئے۔ عالی پناہ کے سیکرٹری نے مجھے بلجیم میں ہونے والی کانفرنس کا دعوت نامہ اور ریٹرن ٹکٹ بھی دئیے۔ یہ کانفرنس، اسلامی معاشرے میں عورت کا کردار اور مردوں کی بے کرداری کے موضوع پر ہورہی ہے۔

بریفنگ سے واپسی پر شام ڈھل چکی تھی۔ میں نے گاڑی کلب کی طرف موڑلی۔ آخر اتنے اچھے دن کے اختتام پر جشن تو ہونا ہی چاہیے تھا۔

محبت کا فنڈا

اپنے فیض صاحب نے فرمایا تھا کہ ؂ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔۔۔۔ لیکن ان کی اس گذارش پر لوگوں نے کوئی دھیان نہیں دیا بالکل ویسے ہی جیسے ان کے انقلاب کو یار لوگ گویوں کے حوالے کرکے مطمئن ہوگئے تھے۔بچپن سے پچپن بلکہ اب توستر پچھترتک بھی ہر دوسرا بندہ اس مرض کا شکار ہے۔ اگلے وقتوں میں یہ بیماری، دوسرے امراض مخصوصہ کے ساتھ صرف جوانی سے مخصوص سمجھی جاتی تھی، یا کم ازکم بیان ایسا ہی کیا جاتا تھا۔ لیکن اب یہ حال ہے کہ بغیر نیکر کے گھومنے والے صاحبزادے بھی محبت محبت کی گردان کرتے ہیں اور محبوب نہ ملنے پر زندگی برباد ہونے کی چتاونی دیتے پائے جاتے ہیں۔


ہماری ناقص سمجھ میں تو یہ آیا ہے کہ ہم نے محبت اور ضرورت کو گڈ مڈ کردیا ہے۔ جسے آج کل محبت کے نام سے پروموٹ کیا جارہا ہے اور اس کا باجا، پرانے زمانے کی باراتوں میں بجنے والے بینڈ باجے کی طرح بجایا جاتا ہے، وہ ضرورت ہی ہے۔ جیسے کھانا ضرورت ہے، پینا ضرورت ہے، سونا ضرورت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اب جو حضرات و خواتین، محبت میں ملاپ نہ ہونے پر زندہ نہ رہنے کے ارادے ظاہر کرتے ہیں، بقول خاور، انہوں نے شجر ممنوعہ کا پھل نہیں چکھا ہوتا اور اس فرسٹریشن یا ضرورت پوری نہ ہونے پر وہ مایوسی کے عالم میں ایسی درفنطنیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔ اور ویسے بھی "محبت"کی شادی میں محبت، ولیمے کے تنبو اکھڑنے تک ہی رہتی ہے۔


اس سارے ڈفانگ میں شاعروں کا کردار کسی بی جمالو سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے جدائی، فراق، وفا، جفا، نا رسائی وغیرہ کے ایسے ایسے مضمون باندھے ہیں اور انہیں ایسے گلوری فائی کیا ہے کہ ہر دوسرا ضرورت کا مارا، خود کو محبت کی کلاسیکی مثال سمجھ کر آہیں بھرتا اور تارے گنتا پھرتا ہے۔ جبکہ بات بڑی سادہ اور سیدھی ہے جو ہمیں پرائمری میں ہی سمجھا دی گئی تھی کہ انگور کھٹے ہیں۔ ایسے تمام حضرات جو "محبت" میں ناکامی یا "سادہ" لفظوں میں نارسائی کے ڈسے ہوئے ہیں ۔ ان کو ہمارا مفت مشورہ ہے کہ جتنی جلد ہوسکے، ضرورت پوری کرنے کا بست وبند کرلیں۔ ہمارا ووٹ قانونی اور شرعی طریقے کے حق میں ہی ہے۔ انشاءاللہ ولیمے کا کھانا لگنے سے پہلے ہی ان کے مرض "محبت"کا شافی و کافی علاج ہوجائے گا۔


آج تک محبت کا لفظ اتنی دفعہ لکھا نہیں گیا ہوگا ، جتنی اس کی تعریفیں یا ڈیفی نیشنز کی گئی ہیں۔ ان میں ایک ہماری تعریف بھی ہے جس کے مطابق ۔۔"اصلی تے سُچی محبت وہ ہوتی ہے، جو ضرورت پوری ہونے کے بعد ہو"۔ اب اس کی تشریح آپ خود کرتے رہیں!۔۔

ظلمی قورمہ

ایک دوست کی پرزور اور کھڑکی توڑ فرمائش پر آج ایک اور ترکیب حاضر خدمت ہے۔ اگرچہ ہم نے اپنے دسترخوان کو بند کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا کہ اپنے تئیں ہم ایک عظیم ادیب اور مصنف ہوچکے ہیں لہذا ایسی تحریروں کو ہم اپنے شایان شان نہیں سمجھتے تھے، خیر چھوڑئیے، یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے، جو ہم نے اپنی شان میں بیان کیا ہے۔


یہ ترکیب، آریاؤں سے ایک تاریخی انتقام کی حیثیت بھی رکھتی ہے کیونکہ دروغ بر گردن راوی، انہی حضرات نے ہم دراوڑوں کو پلاؤ، قورمے کی علتیں لگائی تھیں۔ جبکہ عیش کوش والے بابر نے ہم پر یہ پھبتی کسی تھی کہ یہ عجیب لوگ ہیں، جو اناج کے ساتھ اناج کھاتے ہیں۔ کیونکہ اعلی حضرت نے کسی کو دال کے ساتھ روٹی کھاتے دیکھ لیا تھا۔ اس واقعے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عام لوگوں کی قسمت میں ہمیشہ دال روٹی ہی ہوتی ہے۔ چاہے جتنے مرضی انقلاب آجائیں۔۔۔ ہیں جی۔


ترکیب کے اجزاء نوٹ کرلیں۔


کھیرے (تین پاؤ، دو چھٹانک)۔


کدو (ساڑھے تین کلو)۔


مولی (ایک کلو)۔۔


کریلے نیم چڑھے (دو کلو)۔


مونگ کی دال (حسب ذائقہ)۔


پانی (حسب ضرورت)۔


یہ قورمہ، بہت آسانی سے تیار ہوجاتا ہے۔ روایتی قورمے کی طرح اسے پکانے کے لیے راکٹ سائنس سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ بڑے سارے پتیلے کو پانی سے بھرلیں اور چولہے پر چڑھادیں۔ سارے اجزاء بھی پتیلے میں ڈال دیں۔ ایک ابال آنے پر آنچ ہلکی کردیں اور ساری رات اسی آنچ پر پکنے دیں۔ نمک مرچ اور کسی بھی قسم کا مصالحہ ڈالنے کی جرات نہ کریں۔ صبح دم پتیلے کا ڈھکن اٹھائیں گے تو ایسی خوشبو استقبال کرے گی کہ ۔۔۔ آہو۔


یہ ڈش متنوع خصوصیات کی حامل ہے۔ لیچڑ مہمانوں سے چول سسرالیوں تک سب کو کفایت کرتی ہے۔ اگر کہیں سے کوئی خالص آرین پیس مل جائے تو اسے بھی یہ کھانے پر مجبور کرکے اس کے آباؤ اجداد کے ظلم و ستم کا بدلہ کسی حد تک لیا جاسکتا ہے۔


وہ خواتین، جو بھینسوں کو شرماتی ہیں اور سلمنگ سنٹرز والوں کے وارے نیارے کرواتی ہیں، ان کے شوہروں کے لیے بھی یہ تیر بہدف نسخہ ہے۔ اس ڈش کو ایک دفعہ کھانے کے بعد کم ازکم چھ دن تک کچھ اور کھانے کی حاجت یا خواہش نہیں رہتی۔ تو ڈبل فائدہ ہوسکتا ہے۔ ایک تو خاتون دوبارہ بھینس سے بکری کی صورت میں آجائیں گی اور سلمنگ سینٹرز پر برباد کیا جانے والا پیسہ، بھی بچنے کا واضح امکان ہے۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔۔۔

حق گوئی و بے باکی

آپ گھمًن صاحب کو دیکھ لیں۔ کل رات انہوں نے مجھے کال کیا۔ گھمًن صاحب کی آواز بھرًائی ہوئی تھی۔ انہوں نے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو میرے دوست ہیں۔ آپ کو میرے خلاف پروپیگنڈے کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا۔ اور اس دوستی کا لحاظ رکھنا چاہیے تھا۔


میں نے ایک گہرا سانس لیا۔ فون دائیں کان سے ہٹا کر بائیں کان پر رکھا اور کھنکھار کرگلا صاف کیا اور یوں گویا ہواکہ یہ ٹھیک ہے، آپ میرے دوست ہیں۔ آپ نے ہر موقعہ پر میرا ساتھ دیاہے۔ مجھے وہ دن بھی نہیں بھولا جب آپ نے میرے بڑے بیٹے کے ختنوں پر بہترین مجرے اور سائیڈ پروگرام کا اہتمام کیاتھا۔ ہر ہفتے آپ کی طرف سے بکرے کی سالم ران، مرغ، پلا مچھلی کی فراہمی بھی کبھی بند نہیں ہوئی۔ یہ سب احسان اپنی جگہ، لیکن گھمًن صاحب، ہم سب کی دوستیاں، یاریاں، تعلق یہ سارے پیٹ کے دم سے ہیں۔ اگر پیٹ میں ہی کچھ نہیں جائے گا تو کہاں کی دوستی اور کہاں کا تعلق؟ گھوڑا، گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟ یہاں پہنچ کر میں نے ذرا دم لیا۔ پانی کا گلاس اٹھا کر دو گھونٹ لیے اور دوبارہ یوں گویا ہوا۔


اس واقعہ کے بعد آپ نے پہلے کی طرح مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ نہ کوئی سیبوں کی پیٹی، نہ کیلوں کا لونگر، نہ دیسی گھی کے ٹین اور نہ بکرے کی رانیں۔ آپ نے بالکل مجھے بھلادیا۔ حتی کہ پچھلے مہینے آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب بھی کوئی نئی گاڑی پکڑی گئی، وہ سپردداری پر مجھے دیں گے۔ میں نے یاددھانی کے کتنے فون کیے لیکن ہمیشہ یہی سننے کو ملا کہ صاحب مصروف ہیں۔ گھمًن صاحب، آخر کب تک یہ میں یہ یک طرفہ ٹریفک چلاتا رہوں گا۔ میرے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ جو ایک عدد بیوی نے پیدا کئے ہیں۔ جن کی ضروریات پوری کرنا مجھ پر فرض ہے۔ اگر میں پھوکے تعلق ہی نبھاتا رہا تو آپ خود ہی بتائیے، کہ بیوی کو کیا منہ دکھاوں گا؟ یہاں تک پہنچتے پہنچتے میری سانس پھول چکی تھی۔ غصے سے میرا رنگ آتشی گلابی ہوچکا تھا۔ میں نے پانی کا ایک گھونٹ پیا، دس تک الٹی گنتی گنی جو چار پر جا کر بھول گیا لہذا دوبارہ گنی۔


گھمًن صاحب نے میری بات کاٹی اور کہنے لگے کہ آپ کے سارے گلے بجا ہیں۔ میں آپ سے معذرت خواہ ہوں۔ اس واقعے میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ تاجے حوالدار کو لاکھ دفعہ سمجھایا ہے کہ چھوٹے موٹے ریڑھی والوں سے مفت بری نہ کیا کر۔ لیکن وہ سمجھتا ہی نہیں۔ اور میرا نام لے کر ان کی گنڈیریاں چوپ جاتا ہے اور گول گپے کھا جاتا ہے۔ اور نام میرا بدنام ہوتا ہے۔ آپ تو مجھے جانتے ہی ہیں کہ میں کبھی چھوٹا ہاتھ نہیں مارتا۔ آج تک اللہ کے فضل سے کبھی دس ہزار سے کم رقم نہیں پکڑی۔ لہذا اس واقعے میں، میں بالکل بے قصور ہوں۔ جو بھی ہوا، میری لاعلمی میں ہوا اور میں اس کی شدید مذمت کرتا ہوں۔


گھمًن صاحب کی آواز میں مجھے سچائی محسوس ہوئی۔ مجھے ایسا لگا کہ یہ سارا وقوعہ ان کی لاعلمی میں پیش آیاہے اور وہ بالکل بے قصور ہیں۔ اس لیے ان کے خلاف جو بھی پروپیگنڈہ کیا جارہاہے، بالکل غلط اور بے بنیاد ہے!۔

سی ٹی ۔ بی ٹی

سی ٹی: پائین، اب کیا حال ہے آپ کا؟

بی ٹی: شباژ ساب، بہت برا حال ہے۔ دو دن سے ڈاخٹر نے کھانا بند کیا ہوا ہے۔ میں نے اس کو کہا بھی کہ یار میں ٹھیٹرکررہا ہوں، بمار شمار نہیں ہوں، پر شباژ ساب،یہ گورے بڑے سخت ہیں ۔ ڈبل روٹی،آنڈے ہی دیتے جارہے ہیں۔ میں نے ککے بالوں والی نرس کو بھی کہا کہ اگر ہریسہ کھانے کو نہیں دینا تو ٹیکے میں بھر کے ہی لگادے۔ اس پر وہ ہنسنے لگی، جس پر میرا بھی ہاسا نکل گیا جو کہ آپ کو ملوم ہے کہ ہر نازک موقعے پر نکل جاتا ہے۔ ہیں جی۔۔

سی ٹی: پائین، آپ کو سمجھایا بھی تھا کہ پانچ چھ دن کی بات ہے۔ ذرا احتیاط کرلیں۔ ایک تو آپ کو بات کی سمجھ اس وقت آتی ہے، جب سمجھ آنا نہ آنا برابرہوتا ہے۔ حالات بڑے نازک ہورہے ہیں۔ مجھے تو خطرہ ہے اس دفعہ دوتہائی کی بجائے ، عوام نے ہمیں دس فٹ کا ڈنڈا، دوتہائی تک دےدینا ہے۔

بی ٹی: اوہوہوہوہو۔۔۔ ہیں۔۔۔ شباژ ساب، واقعی؟

سی ٹی: نہیں تو پائین آپ کا خیال ہے، میں بوچر ماررہا ہوں ؟ آپ ایک دو دن دلیہ کھائیں تاکہ آپ کے چہرے پر تھوڑی سی نحوست آئے، کیونکہ پرسوں آپ کا ہسپتال سے ایک لائیو انٹرویو چلوانا ہے اور فوٹو سیشن بھی کروانا ہے۔

بی ٹی: اچھاجی۔ پر اس کے بعد میں نے فل ٹشن پروگرام روٹی کھانی ہے۔ میں نے کہہ دیا ہے بس۔ مجھے کوئی نہیں پتہ پُتہ۔۔ ڈاخٹرسے میں نےپوچھا کہ لسی پی لوں تو اس نے کہا کہ بیئر پی لو۔نشہ ہی کرنا ہے۔۔۔ لو دسّو بھلا۔ یہ انگریز بھی جگتیں کرنے لگے ہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ ڈاخٹر یوٹیوب پر امان اللہ کے ڈراموں کے کلپ دیکھتا رہتا ہے۔ میں نے پیجے کو کہا کہ انگلش میں اس کو تین چار جگتیں لگا تاکہ اس کے ہوش ٹھکانے آئیں۔

سی ٹی: پائین ، خدا کا خوف کریں ، ادھر میری تشریف بنیرے کے ساتھ لگی ہوئی ہے اور آپ کو جگتوں اور لسیوں کے سوا کچھ نہیں سوجھ رہا۔ بس ایک دو دن کی بات ہے ۔ ایک فل ٹیٹ ہسپتالی فوٹو سیشن ہوجائے۔ اس کے بعد جو دل میں آئے، کھائیں۔ جیدے، فانے، کیدو وغیرہ سب کو لفافے اور بریفنگیں دے آیا ہوں۔ ادھر تصویریں چھپنی ہیں ادھر نیر سلطانہ ٹائپ جذباتی کالم چھپ جانے ہیں۔ بس اسی رولے گولے میں ریمنڈ پائین کا رولا ، گول ہوجانا ہے۔

بی ٹی: واہ جی واہ شباژ ساب۔آپ کا کیا ڈماک چلتا ہے۔ آہاہاہاہا۔۔۔لیں یہ سیب کھائیں۔

سی ٹی: پیجا کہہ رہا تھا کہ ایم ٹی کا فون آیا تھا۔ طبیعت پوچھنے کے لیے؟ کیا بات ہوئی؟

بی ٹی: یار، ایک تو شباژ ساب، اس کی سمجھ ہی نہیں لگتی۔ اتنی اونچی آواز میں بول رہا تھا کہ مجھے ٹیلیفون کی بجائے اس کی آواز روشندان سے آرہی تھی۔ میں نے اس کو کہا بھی کہ طیفا جی ابھی تو دو بجے ہیں دن کے، فون پر اونچا بولنے کا ٹیم ابھی کافی دور ہے۔ پر یار وہ کسی کی سنتا ہی نہیں ۔ پتہ نہیں کیا کیا بولی جارہا تھا۔ رویا بھی تھا بیچ میں۔ شاید اس کے ڈاخٹر نے اس کا شربت بند کردیا ہے۔ میں بھی ہاں ہاں کرتارہا۔ بعد میں ککے بالوں والی نرس نے میرے کانوں میں گرم تیل ڈالا تو فیر ذرا کانوں کو سکون ہوا۔۔ہیں جی۔۔۔

ایمان، لوٹا اور بلاگ

چچا نے”وفاداری بشرط استواری“ کی شرط کو ایمان کے اصل ہونے کی بنیاد بتایا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ استواری ختم ہوجائے تو وفاداری کی شرط بھی ساقط ہوجاتی ہے۔پس ثابت ہوا ، ہمارا ایمان ابھی تک ثابت و سالم ہے ۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ دوسال کی استواری اب ختم ہوچکی ہے لہذا ہم بھی وفاداری بدلتے ہوئے پرانا ٹھکانہ چھوڑ نئے ٹھیّے پر آبیٹھے ہیں۔ عبدالقدوس میاں کے بازار میں ہمیں جگہ مفت ملی تھی تو ہم نے اپنی ”ہٹّی“ وہاں کھول لی تھی۔ اب چونکہ عملہ تہہ بازاری نے اس ہٹّی کو ناجائز تجاوز (بھلا تجاوز کبھی جائز بھی ہوا کرتا ہے؟) قرار دیا ہے تو ہم بھی اپنا منجی بسترہ اٹھا کر وہاں سے کوچ کرآئے ہیں۔ وہ تو ہمارے چند مہربانوں کی لگاتار و مسلسل نصیحتوں نے کام کردکھایا اور ہم نے اپنا بلاگی اندوختہ وقتا فوقتا محفوظ کرنا شروع کردیا ورنہ آج ہم بھی اس بازار کے متاثرین کی اکثریت کی طرح ہاتھ مل رہے ہوتے۔

وہاں سے یہاں منتقل ہونے پر شاید چند مہربان ہم پر لوٹا ہونے کی پھبتی بھی کسیں، کستے رہیں، کیونکہ منجی اور پھبتی وقتا فوقتا کستے رہنا چاہیے ورنہ ڈھیلی ہو کر دونوں نہایت پھسپھسی ہوجاتی ہیں۔

اس جگہ پر منتقلی میں سب سے زیادہ کوشش اور محنت ہمارے قابل صد احترام (ھی ھی ھی) دوست جناب ڈاکٹر عمر احمد بنگش کی ہے۔ جنہوں نے اس جگہ کو ہمارے لیے سنوارا اور اس قابل بنایا کہ آج ہم آپ سے مخاطب ہورہے ہیں۔ جس کے لیے ہم ان کے بالکل بھی شکر گزار نہیں ہیں کیونکہ یہ تو ان کا فرض تھا۔ ہمیں امید واثق ہے کہ ہمارے دوست مستقبل میں اس قسم کی حرکت کرنے سے پہلے ایک دفعہ ضرور سوچیں گے !۔

آخر میں ہم اردوسیارہ کی انتظامیہ سے دردمندانہ اور پرسوز اپیل نما التجا / درخواست کرتے ہیں کہ ۔۔۔ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔۔۔۔ یعنی ہمارا بلاگی پتہ اپ ڈیٹ کردیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔

جدید محاورے

قارئین کو یاد ہوگا یا شاید نہ یاد ہو کہ ہم نے محاورات بارے ارشاد کیا تھا کہ ان میں دور جدید کے تقاضوں کے مد نظر ترمیمات کی جائیں گی۔ حسب وعدہ اس سلسلے کی پہلی قسط حاضر خدمت ہے۔ اگرچہ صدر پاکستان کے ارشاد کی روشنی میں ”وعیدے “ پورے کرنا چنداں ضروری نہیں لیکن ہم ادھار دینے کے وعدے کے علاوہ ہر قسم کے وعدے پورے کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

ہمارے آئندہ ارادوں میں وچکارلی صرف و نحو، ریاضی، طبیعیات، کیمیاء وغیرہ پر طبع آزمائی کرکے قارئین کی قوت برداشت بڑھانا شامل ہے۔

مان نہ مان، تو منافق تے بے ایمان

وہ کریں تو ڈانس، ہم کریں تو مجرا

بلاگ، بکواس کی ماں ہے

جہاں جا، وہاں ٹھاہ

پرائے پھڈّے میں بارہ سنگھاپھٹّڑ

جاہل کیا جانے تُننے کا سواد

بلاگ لکھتے ہی پَولے پڑنا

جس کی ٹی ٹی اس کا موبائل

ایک ٹھرکی پورے بلاگ کو گندا کردیتا ہے

تجھ کو اپنی کیا پڑی پرائی نبیڑ تو

کاپی کر بلاگ پہ ڈال

یعنی کہ میں

میں جب مشرقی یورپ اور انٹارکٹیکا کے سفر سے واپس آیا تو سفرنامہ لکھنے کا سودا میرے سر میں سمایا۔ میں نے ستّر صفحات کا مختصر سا سفر نامہ لکھا اور ٹائم کو بھیج دیا۔ میری تحریر وہ پہلی اور آخری اردو تحریر تھی جو اس میں چھپی۔ پہلی چار سو اقساط تو انہوں نے بنا کسی قطع و برید کے چھاپ دیں جبکہ آخری تین سو سینتالیس اقساط میں انہوں نے علمی خیانت کا ثبوت دیتے ہوئے بنا کسی اطلاع کے بدترین قسم کی قطع و بریدکی۔
مثلا میں نے اپنا سارا سفر اپنے ذاتی جیٹ میں کیاتھا، جو کھیت، ندی، سڑک الغرض ہرجگہ سے ٹیک آف بھی کرسکتا ہے اور اتر بھی سکتا ہے۔ لیکن ٹائم کے ادارتی عملے نے لکھ دیا کہ میں نے معمولی سے ہیلی کاپٹر میں یہ سارا سفر کیا۔ اس وقت میں نے سوچا کہ میرے سفر نامے کے قارئین کیا سوچتے ہوں گےاور میرا تاثر ان کے ذہن میں کیسا بنا ہوگا؟ اس کے علاوہ بھی بہت سی زبان و بیان کی اغلاط تھیں جو کہ شروع کی اقساط میں نہ تھیں۔ اس سے کوئی بھی یہ تاثر بھی لے سکتا ہے کہ میں نے شروع کی اقساط کسی اور سے لکھوائی ہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر میں نے اپنے اگلے سفرنامے کو کسی بھی جریدے میں نہ چھپوانے کا تہیہ کیا۔ یہ سفر چوہڑ کانے، اگوکی، سکھیکی، کانا کاچھا وغیرہ کے تھے۔ انہی دنوں میرے ایک جاننے والے نے اس سفرنامے کے مسودے کو دیکھا اور کہا کہ اگر آپ اس کو کہیں اور چھپوانا نہیں چاہتے تو اپنا بلاگ بنالیں۔ تب تک مجھے اردو بلاگنگ کا پتہ نہیں تھا۔ ان کے اس مشورے پر میں نے اردو بلاگنگ کے کی ورڈ سے گوگل پر سرچ کیا تو پتہ چلا کہ اردو میں بھی بلاگنگ ہورہی ہے۔ لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ نہایت غیر معیاری، ناقص، گھٹیا ہے اور اردو بلاگرز میں اکثریت وچکارلے بازو کے نظریات سے تعلق رکھتےہیں۔
تب میں نے سوچا کہ میں یہاں مثبت اور انقلابی تبدیلی لاسکتاہوں۔ بس یہی سوچ کر میں نے بلاگنگ شروع کی۔

مزید قاعدہ

ہمیں احساس ہے کہ یہ قاعدہ اسی طرح آرہا ہے، جیسے اچھے دن آتے ہیں۔۔۔ یعنی ہولے ہولے، جبکہ ایکدم اور یکایک تو حادثہ ہی ہوتا ہے۔ حادثے سے یاد آیا کہ یہ خوشگوار بھی ہوتے ہیں، جیسے نظروں (نظریوں کا نہیں) کا تصادم، دلوں کا ٹکراؤ وغیرہ وغیرہ۔۔ بہرحال حادثے ہمارا موضوع نہیں ہیں۔ ہمارا موضوع ہے وچکارلا قاعدہ، تو چلیے مزید قاعدہ پڑھتے ہیں۔

ر ۔۔۔ رشتہ دار: یہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے کوئی دل جلا ہم سے پہلے ہی کہہ گیا ہے کہ ۔۔۔ ہوئے تم ”دوست“ جس کے، اس کا دشمن آسماں کیوں ہو۔۔ انہیں آپ اپنی ہر خوشی کے موقع پر بسورتے اور دکھ کے موقع پر کھلکھلاتے دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے بارے جو بات سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے کہ جیتے جی یہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتے! ایک بات یہ بھی ذہن میں رہے کہ اگر آپ کے رشتے دار ہیں تو آپ بھی کسی کے رشتے دار ہیں۔

ڑ۔۔۔ یہ لفظ صرف اور صرف اندرون لاہور بسنے والے باشندوں کی سہولت کے لیے اردو میں شامل کیا گیا تھا وگرنہ اس کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اندرون بھاٹی، جہانگیر بدر، جہانگیڑ بدڑ ہوجاتا ہے، کرارے، کڑاڑے ہوجاتا ہے، لڑائی، لرائی ہوجاتی ہے۔۔۔ علی ہذا القیاس۔۔۔

ز۔۔۔ زُہد: پرانے وقتوں میں لوگ اس سے باطنی صفائی کا کام لیا کرتے تھے اور اس پر عمل کرنےو الے کو زاہد کہتے تھے۔ آج کل کے زاہد، جدید زُہد سے دوسروں کی دھلائی کا کام لیتے ہیں۔

ژ۔۔۔ یہ لفظ صرف ہمیں شرمندہ کرنے کے لیے حروف تہجی میں داخل کیا گیا ہے۔ کچی کے قاعدے میں ژ سے ژالہ باری پڑھا تھا۔ قسم لے لیں جو آج تک ژ سے شروع ہونے والا کوئی دوسرا لفظ سنا یا پڑھا ہو، کانسپریسی پکوڑوں سے لگاؤ ہمیں یہ بات سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ دور قدیم میں ہی ہمارا کوئی حاسد پیدا ہوچکا تھا جو کسی کالے یا نیلے جادو کے زور سے یہ معلوم کرچکا تھا کہ ہم اوائل شباب میں اردو کا ایک وچکارلا قاعدہ لکھیں گے، لہذا اس نے بوجہ حسد و دشمنی یہ حرف تہجی، اردو حروف تہجی میں شامل کروادیا۔ تاکہ ہم پورے بلاگستان کے سامنے شرمندہ ہوں اور اس کا دل اس زمانی بُعد کے باوجود ٹھنڈا ہو۔ لیکن شاید اس کا طلسمی آئینہ اسے یہ بات بتانا یا دکھانا بھول گیا تھا کہ۔۔۔۔ ہم نہایت ڈھیٹ ہیں۔۔۔ ہیں جی۔۔۔۔ اور حاسد دیرینہ کے لیے ہمارا پیغام ہے کہ ۔۔۔ ہور چُوپو۔۔۔

س۔۔۔ سیب: زمانہ قدیم کے حکماء و اطباء کہا کرتے تھے کہ ایک سیب روزانہ کھانے سے بیماریاں دور رہتی ہیں۔ آج کل ریڑھی والے سے سیب کے دام پوچھے جائیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس نے ایک کیلو کے دام بتائے ہیں یا ریڑھی پر پڑے سارے سیبوں کے۔ مزید استفسار پر ریڑھی والا، آپ کو ایسی نظروں سے دیکھتا ہے، جیسے مل اونر کی بیٹی کا رشتہ مانگنے والے کلرک کو مل اونر دیکھتا ہے۔

ش ۔۔۔ شاعر: ان حضرات کا پول انہی کے ایک بھائی بند نے ایسے کھولا ہے کہ ۔۔ پاپوش میں لگادی، کرن آفتاب کی ۔۔۔ جو بات کی، خدا کی قسم لاجواب کی۔ شاعری، فنون لطیفہ کی اماں جان کہی جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے خیال میں تو شاعری، سائنس اور اس میں بھی ریاضی اور فزکس کی مشترکہ شاخ ہے۔ جس میں وزن پورا کرتے کرتے بندے کا وزن کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ شاعر حضرات کو رکشہ ، رشتہ اور ملازمت بڑی تگ ودو کے بعد ملتے ہیں۔ جن کو پھر بھی نہ ملیں، وہ مزید شاعر ہوجاتے ہیں۔

ص۔۔۔ صراحی: خواتین کے رسالوں میں صراحی دار گردنوں کا اتنا ذکر ہوتا ہے کہ یہ کہانیاں، کمہاروں کی لکھی لگتی ہیں۔ صراحی کی گردن تک تو بات قابل فہم ہے لیکن ہم یہ سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہے کہ اس کے نچلے حصے سے مصنف حضرات کی کیا دشمنی ہے کہ اس سے کسی کو تشبیہ نہیں دیتے؟ جبکہ حضرات و خواتین کی اکثریت تیس کے بعد صراحی جیسی ہی نظر آنے لگتی ہے۔ صراحی زیادہ تر مغل آرٹ کے فن پاروں میں نظر آتی ہے، جہاں سٹارپلس کے ڈراموں کی ساڑھیوں سے بنے ہوئے لباس پہنے ایک عجیب الخلقت شخص، صراحی سامنے رکھے، عورت نما چیزوں کو گھورتا پایا جاتا ہے۔

کرارے

میری رائے میں تو فلموں کی صرف دو اقسام ہوتی ہیں۔ اچھی اور بری! باقی صرف تفصیل ہوتی ہے کہ لڑائی مارکٹائی، پیار محبت، سنسنی وغیرہ وغیرہ کس تناسب سے شامل ہیں۔ فلموں کی ایک تیسری اور نادر قسم ہوتی ہے، کراری فلم۔ جیسے لڈو پیٹھیاں والے، گول گپے، تیز مصالحے والے آلو چھولے، املی وغیرہ، جس سے سوائے چٹخارے کے کچھ حاصل ہونے کی امید نہیں ہوتی۔ جس فلم بارے، آپ اب پڑھیں گے، وہ اسی نادر قسم سے تعلق رکھتی ہے۔

گائے رچی کے بارے، پہلے پہل میں صرف اتنا جانتا تھا کہ اس نے میڈونا سے شادی کرنے کا ”کارنامہ“ انجام دیا ہے۔ اس حرکت سے میرے ذہن میں اس کا کوئی اچھاتاثر نہیں بنا تھا۔ لیکن اتفاق سے ایک دن کسی چینل پر ‘سنیچ’ کے کچھ مناظر دیکھے اور فلم میکنگ کا یہ انداز، مجھے نیا، اچھوتا اور مزے دار لگا۔اس پر میں نے اس کی تازہ ترین (اس وقت کے حساب سے) فلم بارے پڑھا تو مجھے روک این رولا کاپتہ چلا۔

فلم کی ہدایتکاری اور مصنفی کی ذمہ داریاں انہی حضرت نے انجام دی ہیں۔ کہانی کا تانا بانا لندن کی رئیل اسٹیٹ مافیا کے گرد بنا گیا ہے اور اپنی سابقہ فلموں کی طرح اس فلم میں بھی گائے رچی کے تمام کردار، جرم کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ مافیا ڈان سے لے کر معمولی اچکوں تک ہر قسم اور نسل کا جرائم پیشہ کردار آپ کو نظر آئے گا۔ فلم کا آغاز پیچیدہ اور ذرا سست ہے۔ لیکن پلاٹ کے مرکزی نکات اور کرداروں کے تعارف کے بعد جب فلم رفتار پکڑتی ہے تو دیکھنے والے کو بہا کے لے جاتی ہے۔

گائے رچی، اس فلم میں آپ کو ایسے کرداروں اور ماحول سے متعارف کرواتے ہیں، جو ہالی ووڈ کی فلموں کے عادی ناظرین کے لیے ایک انوکھا پن لئے ہوئے ہے۔ برطانوی پس منظر کی وجہ فلم میں ایک انفرادیت ہے (یا صرف مجھے محسوس ہوئی)۔ اس فلم کی ایک اور خاص بات یہ کہ اس کا چھوٹے سے چھوٹا کردار بھی بھرتی کا نہیں ہے، بلکہ کہانی کو آگے لے کے جانے والا اور اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ مکالمے مزے دار بلکہ لذیذ ہیں اور سونے پر سہاگہ برطانوی تلفظ۔ میری رائے میں اس فلم کا سکرپٹ ان چند فلم سکرپٹس میں شامل ہے جنہیں مکمل ترین کہا جاسکتا ہے۔

فلم کی بیشتر کاسٹ برطانوی اداکاروں پر مشتمل ہے، جن میں جیرارڈ بٹلر ، مارک سٹرونگ، ادریس البا، ٹام ہارڈی ، ٹام ولکونسن ، ٹوبی کیبل وغیرہ شامل ہیں۔ اداکاری اعلی معیار کی ہے۔ خاص طور پر مارک سٹرونگ بطور ”آرچی“ اور جیرارڈ بٹلر بطور ”ون ٹو“ کے زبردست ہیں۔ منشیات کے عادی راک سٹار جونی کوئیڈ کے کردار میں ٹوبی کیبل نے بھی زبردست پرفارمنس دی ہے۔

آخری بات یہ کہ یہ جائزہ جتنا پھسپھسا ہے، فلم اتنی ہی مزے دار ہے۔ لہذا آپ کا جب بھی فلم دیکھنے کا پروگرام بنے تو سب سے پہلے اسے ہی بھگتائیے گا، اس جائزے کو پڑھنے کی بوریت دور ہوجائے گی۔

خالہ امبالو

گیند ایک دفعہ پھر خالہ کے صحن میں جاگری تھی۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو خالہ نے اندر سے آواز دی۔ "کون اے"؟۔ "گیند آئی ہے آپ کے صحن میں"۔۔۔ میں نے جواب دیا۔ درّانہ وار باہر آتی ہوئی خالہ نے اپنا لاؤڈ سپیکر کھولا اور گلی والوں کی تفنّن طبع کےلئے فری چینل نشر کرنا شروع کردیا۔ "ہائے ہائے گیند سیدھی ہانڈی میں گری ہے جاکے، کوئی ان شیطانوں کو روکتا بھی نہیں کہ گلی میں نہ کھیلو، میں بے چاری غریب کہاں سے پکاؤں گی دوبارہ ہانڈی۔۔۔ ہائے میں لٹ گئی، برباد ہوگئی، ان کا بیڑہ غرق ہو، غریبوں کا جینا دوبھر کردیا۔۔۔ ہائےےےےے۔۔۔"۔

خالہ نے واویلے کے ساتھ بیَن کرنے بھی شروع کردیئےتھے۔ میں نے صورتحال سے بالکل بھی متاثر نہ ہوتے ہوئے ڈھیٹ پن سے کام لیا اور کہا کہ ''خالہ! ذرا دکھاؤ تو وہ ہانڈی جس میں گیند گری ہے۔۔۔۔"۔ اسی دوران گلی کے اکثر گھروں کے دروازوں کی چوکھٹیں آباد ہوچکی تھیں۔ خواتین گھر کے کام کاج چھوڑ چھاڑ، مفت کاتھیٹر دیکھنے، دروازوں میں جم چکی تھیں۔ استاد پونکے نے بھی ڈیک بند کرکے سگریٹ سلگالیا تھا اور بنچ پر گلی کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا تھا اور بھنویں اچکا اچکا کر مجھے اکسانے اور ہلاشیری دینے کی کوشش کررہا تھا تاکہ یہ ڈرامہ جاری رہے اور اس کی شام اچھی گزر جائے۔

خالہ نے میری طرف قہر آلود نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، " ہانڈی کے بالکل پاس ہی گری ہے، اگر بیچ میں گر جاتی تو۔۔۔۔۔؟"

اس انٹی(آنٹی نہیں) کلائمکس پر گلی کی خواتین اور استاد پونکے کی مایوسی اور اداسی قابل دید تھی۔

ان کے چہرے دسمبر کی آخری تاریخیں لگ رہے تھے۔۔۔۔