صوبے اُنا لوووو

مدت مدید کی بات ہے جب ہم کافی چھوٹے تھےتو ہمارے محلے میں منجی پیڑھی بُننے والے آیا کرتے تھے۔ یہ حضرات اکثر و بیشتر پٹھان ہوتے تھے اور ایک مخصوص لَے اور لہجے میں آواز لگایا کرتے تھے کہ منجی پیڑھی ٹھُکا لووووو، منجی اُنا لوووو۔ اب منجی آؤٹ آف فیشن سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس میں نئی نسل کے تجربات برداشت کرنے کی صلاحیت ذراکم ہے۔ آپ میں سے ذرا قدیم احباب نے منجی بُنی جاتی ضرور دیکھی ہوگی۔ اس کے نچلی طرف ایک ڈنڈا دیا جاتا تھا اور کاریگر اسی ڈنڈے کے زور پر منجی بُنا کرتا تھا۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ سارے کاری گر اب صوبے بُننے کے کام میں لگ گئے ہیں۔ ملک کو ڈنڈا دے کر اس کے زور پر صوبے بُننے کی کوشش زور و شور سے جاری ہے۔ حاشا و کلا، ہم اس عمل کے مخالف نہیں ہیں اور نہ ہی ہمیں کاریگروں کے فن اور ان کی نیّت پر شک ہے۔ ان صوبے بُننے والوں کاریگروں میں ایک سے ایک ماہر فن اور باریک کام کا فنکار ہے۔ ہزارے کے لاکھوں عوام کا قائد بابا حیدر زمان ہو، جن کے بارے ہمیں یقین کی حد تک پہنچتا ہوا شک ہے کہ ان کا شجرہ نسب کہیں نہ کہیں امان اللہ سے ضرور جاملتا ہے۔ یا ملتان شریف کے مرشد پاک ہوں، جو وزیر اعظم ہوکے بھی دہائیاں دیتے پھرتے ہیں کہ ساہڈے کُوں اپنا صوبہ چاہیدا اے۔ محمد علی درانی ہوں، جنہیں یکایک احساس ہوا ہے کہ بہاولپور صوبہ نہ بنا تو ان کی پیدائش کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ اور لاسٹ بٹ ناٹ لیسٹ، ہمارے کراچی کے احباب ہیں جنہیں یکایک احساس ہوا ہے کہ کراچی کے سارے مسائل کا حل کراچی کا صوبہ بُن دینا ہے اور اگر اس میں حیدر آباد بھی شامل ہو تو پاکستان کے سارے مسائل بھی حل ہونے کی واثق امید ہے۔
ان حضرات کے فرمودات نے ہمارے دماغ کے وہ حصے بھی روشن کردئیے ہیں جو ہماری نااہلی کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کا شکار تھے اور ہمیں اب ہر چیز صاف اور واضح سمجھ میں آنا شروع ہوگئی ہے۔ اگرچہ کچھ احباب اس بُننے کے عمل کے جزوی مخالف ہیں۔ یعنی وہ پنجاب اور کے پی، کے تو زیادہ سے زیادہ صوبے بُننے کے قائل ہیں۔ لیکن جب کوئی ناہنجار سندھ کے مزید صوبے بُننے کی بات کرتا ہے تو بجا طور پر انہیں دھرتی ماتا وغیرہ کی تقسیم کے ہولناک خواب آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ جن کے رد کے طور پر وہ آزادی، حریّت وغیرہ کی باتیں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ لوگ بھی انتہائی شدید درجے کے عقلمند ہیں اور ہم ان کی راست فکری کے سخت قائل ہوچکے ہیں۔
اب جبکہ یہ صوبے بُنے ہی جارہے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ اس گرم تندور میں ہم بھی اپنی روٹیاں لگالیں۔ ہماری تجویز ہے کہ صوبے بُننے کا عمل پہلے زبان کی بنیاد پر کیا جائے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ پاکستان میں کم ازکم بیس تیس زبانیں تو بولی ہی جاتی ہوں گی۔ ہم سہولت کے لیے پچیس فرض کرلیتے ہیں۔ لہذا پچیس صوبے تو یہ ہوگئے۔ اس کے بعد ذات کی بنیاد پر صوبے بُنے جائیں۔ جاٹوں کا صوبہ، ارائیوں کا صوبہ، شیخوں کا صوبہ، اور آف کورس جُلاہوں کا صوبہ، وغیرہ وغیرہ۔ یہ کوئی  تین سو کے قریب صوبے ہوں گے کم و بیش۔ اگلے قدم کے طور پر مختلف پیشوں کے صوبے، ڈاکٹروں کا صوبہ، انجینیروں کا صوبہ، نائیوں کا صوبہ (گورنر رحمان ملک)، قصائیوں کا صوبہ وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی کوئی کُل ملا کے پچاس کے قریب ہوجائیں گے۔ کراچی میں بھی کم ازکم چالیس صوبے بُننے چاہییں، دہلویوں کا صوبہ، بہاریوں کا صوبہ، الہ آبادیوں کا صوبہ، رام پوریوں کا صوبہ، سہارنپوریوں کا صوبہ علی ہذا القیاس۔ جب ملک، صوبوں سے مکمل طور پر بُنا جائے گا تو عملی طور پر ہر محلہ ایک صوبہ بن جائے گا۔ اور یہی عمل اختیارات اور جمہوریت کوگراس روٹ لیول تک پہنچائے گا اور پاکستان روشنی کی رفتار سے ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا آفاق کی وسعتوں میں گم ہوجائے گا۔ 
Comments
9 Comments

9 تبصرے:

علی نے فرمایا ہے۔۔۔

بڑی عمدہ تجویز دی آپ نے۔ یوں تو اردو بلاگستان بھی صوبہ بن سکتا ہے ۔ کیا خیال ہے؟

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

مختصر بات کہ پاکستان میں مل ملا کہ تقریباً 6000 صوبے بن سکتے ہیں۔مثال کراچی میں موجود ایک علاقے سے لیتے ہیں جو خیابان جامی کے ساتھ ہے اور کنٹونمنٹ کا علاقہ ہے۔اس میں کالونیوں کے کے نام یہ ہیں پنجاب کالونی ، دھلی کالونی نمبر 1 ، چانڈیو ویلیج ، گبول کالونی ، مدنی آباد دھلی کالونی نمببر2 یہ ملا کہ چھ صوبے بن جاتے ہیں اس کے علاوہ کراچی میں علاقوں کا حساب نہیں ہے لاتعداد علاقے ہیں تو تقریباً ایک یا دو ہزار تو صرف کراچی سے ہی بنتے ہیں۔ویسے بلاگستان نام کا صوبہ بھی بنانا چاہیئے۔

یاسر خوامخواہ جاپانی نے فرمایا ہے۔۔۔

منجی بنتے وقت جو ترلے پاسے ڈنڈا گھسیڑا جاتا ہے۔
اصل کمال تو یہ ڈنڈا دینے والے کا ہو تا ہے ،کہ منجی بھی بُن جاتی ہے اور لمبے لیٹنے والے کو پیر دبانے کیلئے کمی کمین بھی مل جاتے ہیں۔۔
اور کمی کمین بھی خوش ہو جاتے ہیں۔
اَسی منجی تے بیٹھیں آں۔

Waseem Rana نے فرمایا ہے۔۔۔

او تہاڈی خیر، صوبوں کا ذکر کر کے آپ بھی شہیدوں میں شمار ہو گے۔
ویسے تحریر مزے کی تھی، یعنی آغاز بہت عمدہ کیا،زبردست۔۔

dr Raja Iftikhar Khan نے فرمایا ہے۔۔۔

میرے خیال سے نہیں البتہ کچھ احباب کے خیال میں یہ تحریر فرسٹریشن کا شکار ہو کر لکھی گئی ہے۔ اس طرح کی باتیں کرکے دل ہولا کرلینا اچھی بات ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہر دوجا بلاگر اس بات کوپکڑ کر روتا دکھائی دیتا ہے بشمول میرے، جبکہ حکومت اور جملہ سیاہ ست دان اس بات کی قطعی طور پر ٹینشن نہیں لے رہے ہیں، میرے خیال سے تو سارے بلاگر یک دم ایویں ہی ہیں، باتیں بنانا اور صوبے بُنوانا کوئی ان سے سیکھنے۔

DuFFeR - ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

پہلے قوم کو اچھی طرح تُن لیں
پھر صوبے بھی بُن بھی دیں گے

افتخار اجمل بھوپال نے فرمایا ہے۔۔۔

جس مُلک میں صدر صاحب کہیں کہ وہ اپنی بیوی کے قاتلوں کو جانتے ہیں اور چار سال تک قاتلوں کا کسی کو پتہ نہ چلے وہان دل پشوری کرنے کیلئے جو چاہے کہہ لیں ۔ میرا ایک ساتھی کہا کرتا تھا "کہنے میں کیا حرج ہے ؟"۔
مجھے تو آپ نے نوجوانی اور لڑکپن یاد کرا دیا "منجھی پیھڑی ٹھُکا لو ۔ پانڈے قلعی کرا لو"۔ حقیقت تو یہ ہے کہ منجھی پر سونے کا مزا ہی کچھ اور تھا ۔ کسی کو شیاٹیکا کا درد نہیں ہوا کرتا تھا

ابوعبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

اچھی راہ دکھائی ہے آپ نے اگر اس پر عمل کیا جائے تو سب اچھا ہو سکتا ہے :ڈ

عادل بھیا نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر بھیا طنزیہ تحریر کے پیچھے آپکی سوچ سے اتفاق کرتا ہوں۔ بالکل یہی بات میں بھی محسوس کرتا ہوں۔ رات و رات سب کو احساس ہوگیا کہ ہماری زندگیوں کا مقصد، ہمارے حقوق کی فراہمی کا واحد ذریعہ نئے صوبوں کا بننا ہے۔

تبصرہ کیجیے