دوراہا

پروگرا م میں خوش آمدید۔ ہمارے آج کے مہمان مقبول کالم نویس، ڈرامہ نگار، شاعر اور دانشور جناب حسین ایثا ر ہیں۔ جن کے تعارف کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کا نام حسین ایثار ہے!۔
جی ۔۔ایثار صاحب۔ کچھ اپنے بارے بتائیے۔
میں۔۔۔(سگریٹ کا طویل کش لے کر خلاؤں میں گھورتے ہوئے ایک لمبا وقفہ ) میرا تعلق لائل پور سے ہے۔  انتہائی پیارا، دلآویز، حسیں، دلنشیں، دلدار ، جان من شہر تھا۔ اب تو اس شہر کےنام سے جغرافیہ تک سب بدل گیا ہے۔ ڈھیٹ، بے حیا، غلیظ،  منافق، واہیات، بے ہودہ، بدتمیز  (منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے) ہوچکا ہے اب یہ شہر۔ ۔۔ میں تو ۔۔۔
۔۔۔بات کاٹتے ہوئے۔۔ یہ بتائیے  آپ کے والد کیا کرتے تھے؟
ہاںںںںں،،، میرے والد۔۔۔ وہ  ایک باشعور، باتمدن، مہذب، تعلیم یافتہ، شعور یافتہ، اپنے وقت سے بہت آگے کی سوچ رکھنے والے انسان تھے۔ اس کی ایک مثال میں عرض کرتا ہوں۔ نوجوانی میں مجھے عشق ہوگیا۔ یہ کوئی اچنبھے والی بات نہیں۔ لیکن میرے معاملے میں تو یہ ایک معجزہ تھا۔ اس وقت میری شکل آج کے مقابلے میں زیادہ منحوس تھی، مجھے تو چنگڑیاں لفٹ نہیں کراتی تھیں چہ جائیکہ ایک پراپر پڑھی لکھی  لڑکی مجھ سے اظہار محبت کرے۔ لہذا میں تو بالکل ریشہ خطمی اور انٹاغفیل وغیرہ ہوگیا۔ اباجی کو پتہ چلا تو انہوں نے میری وہ گدڑ کُٹ لگائی کہ کیا پُلیسے لگاتے ہوں گے۔ لیکن میں ، جیسا سب کو پتہ ہے، مستقل مزاج انسان ہوں۔ میں اپنے موقف پر قائم رہا جس پر ابا جی نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ وہ ایک الگ کہانی ہے بہرحال۔ محبت میں ناکامی اور گھرسے بے دخل ہونے کے بعد میں لاہور بھاگ گیا اور کافی عرصے بعد جب لائل پور واپس گیا تو اپنی محبت کو ایک نظر دیکھنے کی کسک دل میں تھی۔ ایک دن موقع مل گیا لیکن اس کو دیکھتے ہی مجھے اپنے اباجی کی دور اندیشی کا اندازہ ہوا، وہ نازک اندام حسینہ ، جس کی زلف گرہ گیر کا میں اسیر ہوا تھا، ایک نصرت فتح علی ٹائپ خاتون کی صورت  میں ڈھل چکی تھی ۔ بوٹے کے کباب، گھنٹہ گھر کی آئس کریم اور لگاتار نوماہی زچگیوں نے  اسے، موتیے کی کلی سے گوبھی کا پھول بنا دیا تھا۔ اللہ، اباجی کو غریق رحمت کرے، وہ درست کہا کرتے تھے کہ "اوئے ڈنگرا ، تیری مَت کھوتے توں وی لنگھی اے"۔
آپ کو اردو صحافت کا پہلا سپر سٹار کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ مایوسی کے تاجر ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
آج جو کچھ بھی میں ہوں، اس کی وجہ جدوجہد، محنت، مستقل مزاجی، لگن، علم سے محبت، جہالت سے نفرت ہے۔ میں مایوسی نہیں پھیلاتا اور جو گھٹیا اور شُہدے لوگ یہ سمجھتے ہیں ان کی عقلوں میں فتور ہے یا وہ بے غیرت ہیں۔ میں معاشرے کا آئینہ ہوں،  اس میں وہی کچھ نظر آئے گا جو معاشرے میں ہورہا ہے۔
ایثار صاحب، ایک طرف تو آپ مغربی معاشرے کی اخلاقی اقدار کے گرویدہ ہیں  اور انسانیت کی فلاح کے لیے ان کے کام اور کارنامے گنواتے آپ کو دوسرا سانس نہیں آتا  جبکہ اسی  تہذیب نے انسانیت کے خلاف جو جرائم کیے اور کررہی ہے ، آپ اس کے دفاع میں ،،جس کی لاٹھی اس کی بھینس،، کی دلیل دیتے ہیں۔ کیا یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے متضاد نہیں؟
آپ عجیب گھٹیا، فضول، ازکار رفتہ ، واہیات سوچ کے مالک ہیں۔ آپ جیسے بوزنوں۔۔۔۔ (کمرشل بریک)
(بات کاٹتے ہوئے) زبان سنبھال کے بات کریں۔ جب تک آپ کے گارڈز اندر آئیں گے، میں آپ کا منہ نیلا اور تشریف لال کردوں گا۔ اپنی یہ چ ۔۔چالاکیاں میرے ساتھ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ مجھے تنخواہ چینل سے ملتی ہے نہ تو میں آپ کا جاہل عوام ہوں اور نہ آپ کی میڈیا فرم کا ملازم۔
(حسین ایثار ، گہرے گہرے سانس لینے لگتے ہیں،   رنگ سیاہ سے سیاہی مائل پیلا ہونے لگتا ہے۔ جیب سے ایک چپٹی سے بوتل نکال کر ، سامنے پڑے مگ میں ایک محلول انڈیلتے ہیں اور ایک ہی سانس میں چڑھا جاتے ہیں۔ بوتل سے تھوڑا سا محلول اور انڈیل کر ایک چھوٹا سا  سِپ لیتے ہیں۔ چہرے پر رونق واپس آجاتی ہے)۔ یار ، تُوں گُسہ ای کرگیاایں۔ تُوں تے اپنا جگرایں۔ چل دفع کر گُسہ ۔
(کمرشل بریک سے واپسی)
جی ، ناظرین، ہمارے ساتھ موجود ہیں، جناب حسین ایثار۔ آئیے ان سے گفتگو دوبارہ شروع کرتے ہیں۔ جی، ایثار صاحب۔ آپ اکثر اپنی تحاریر میں معاشرے میں پھیلی منافقت پر لکھتے ہیں۔ آپ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ آپ کے طعن و تشنیع کا شکار اکثر منتخب لوگ ہی بنتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کو آپ نے دائمی استثنی دیا ہوا ہے۔ جن میں لطافت حسین اور چودہری یونس الہی  و ہمنوا شامل ہیں۔ آپ کا کیا  کہتے ہیں اس بارے؟
لطافت حسین اور ان کی جماعت، اس ملک کے لیے امید کی آخری کرن ہیں۔ وہ ایسا لیڈر ہے جو عوام کو ایجوکیٹ کرتا ہے۔ کبھی آپ اس کے جلسے میں گئے ہوں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ کیسے وہ  ایک دو تین کہتا ہے اور کروڑوں کا مجمع بالکل خاموش ہوجاتا ہے؟
۔۔۔بات کاٹتے ہوئے۔۔۔ جناب۔ یہ لیڈر کی بجائے پی ٹی ماسٹر کی نشانی ہوتی ہے۔
آپ عجیب بات کرتے ہیں۔ نہایت بے۔۔(ایک دم کچھ یاد آجاتا ہے) نہیں میرے بھائی، اس نے ڈسپلن سکھایا ہے عوام کو۔ اصلی مڈل کلاس قیادت ہے۔ اس نے سڑک چھاپ لوگوں کو اسمبلی کے ممبر بنادیا ہے۔ اس ملک میں وہی انقلاب لائے گا۔ جہاں تک ان کے خلاف قتل و غارت ، بھتہ خوری، منظم جرائم ، اغواء برائے تاوان کے الزامات کا تعلق ہے تو یہ سب پراپیگنڈہ ہے جو جماعتیے، ایجنسیوں کے ایماء پر  کرتے ہیں۔ کیونکہ لطافت حسین اٹھانوے فیصد عوام کا حقیقی لیڈر ہے اور جاگیر دار اس سے خوفزدہ ہیں۔ ایم بی ایم (میرا بھائی موومنٹ) سے زیادہ پر امن، صلح جو، راست باز، با عمل، صالح، عوام دوست، مہذب جماعت  اس کائنات میں نہ تو پہلے کبھی بنی ہے اور نہ آئندہ کبھی بن سکتی ہے۔  جہاں تک سوا ل ہے چودہری یونس الہی کا تو وہ  نئی نسل کے ان سیاستدانوں میں شامل ہیں جن کی شرافت، شائستگی، ایمانداری ، نجابت  کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔  میں اللہ کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ ایسے اجلے دامن والا سیاستدان میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ (مگ اٹھا کر ایک لمبا سِپ لیتے ہیں)۔
آپ سیاستدانوں کی مالی لوٹ مار کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھاتے ہیں۔ لیکن آپ نے کئی ایکڑز پر مشتمل جو محل نما فارم ہاوس بنایا ہے اس کے بارے مختلف کہانیاں گردش میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ منی لانڈرنگ  کے طور پر آپ نے اس فارم ہاوس کی ملکیت میں بہت سے پاٹے خاں قسم کے سیاستدانوں اور صحافیوں کو بھی شریک کیا ہے جس کی وجہ سے کوئی اس پر سوال اٹھانے کی جرات نہیں کرسکتا۔ آپ کا کیا کہنا ہے اس پر۔
غلیظ ذہنیت والے لوگ اس کے علاوہ اور سوچ بھی کیا سکتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے میری آمدنی اتنی ہے کہ ان گھٹیا لوگوں کی گندی سوچ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی۔ میرے ہفتہ وار کالم کا چیک ہی اگر آپ دیکھ لیں تو آپ کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔ جبکہ۔۔۔
۔۔۔ بات کاٹتے ہوئے۔۔۔ پیسہ کمانا اہم نہیں ہے، کیسے کمایا جائے وہ اہم ہے۔ ورنہ  پیسے تو سنی لیون اور نرگس بھی بہت کماتی ہیں ایثار صاحب۔ اور میرے ہوش ٹھکانے پرہی رہتے ہیں کیونکہ میں کافی پیتا ہوں۔
نہیں نہیں۔۔ میرا مطلب  یہ نہیں تھا۔ بہرحال میں ایسے ایک تو کیا سو فارم ہاوس بنا سکتا ہوں۔ یہ میرا پیسہ ہے ، جو میرا دل چاہے وہ میں کروں گا۔ یہ مامے لگتے ہیں اس فارم ہاوس کے؟
یعنی آپ کو تو یہ حق ہے کہ کسی کے بارے میں کچھ بھی لکھ دیں لیکن کوئی آپ سے اگر یہ سوال کردے کہ یہ اتنا لمبا کُرتا کہاں سے آیا تو آپ اس کا جواب دینے کے مکلف نہیں۔ فئیر انف۔ آگے چلتے ہیں۔ آپ کی میڈیا فرم بارے کہا جاتا ہے کہ پچھلے دور حکومت میں اخبارات اور چینلز پر جو تشہیری مہمات  "پڑھا لکھا پنیاب" کے نام سے چلائی گئیں، اس میں آپ کا حصہ بہت زیادہ تھا۔ اگرچہ آپ اکنامکس کے ڈگری ہولڈر ہیں لیکن یہ ایڈورٹائزنگ کے بزنس میں کیسے آگئے؟ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ سب چودہری یونس الہی کی مہربانیاں تھیں؟
یہ سب حاسد، کمینے، تُھڑدلے، نیچ  لوگ ہیں۔ ساری زندگی اچھے لباس اور اچھے کھانے کو ترسنے والے ۔ میں نے زندگی میں جو کچھ بھی کیا وہ اپنے بل بوتے پر کیا۔ یہ سب میری محنت کا کرشمہ ہے ۔ میرا ٹیلنٹ، صلاحیت، ہنر ان حاسدوں سے ہزار گنا زیادہ ہے۔ میرا حق ہے کہ میں رنگ برنگی قمیصیں پہنوں اور رولیکس کی گھڑی باندھوں۔ یہ کسی کے باپ کا پیسہ نہیں ہے ۔ میری کمائی ہے۔ جو میرا۔۔
۔۔۔بات کاٹتے  ہوئے۔۔۔ جناب، اگر تشہیری مہم والی بات درست ہے تو یہ پیسہ واقعی عوام کے باپ کا پیسہ ہے۔ ان کے ٹیکس کا پیسہ ہے۔ اس پر آپ عیاشی کیسے کرسکتے ہیں؟ آپ میں اور ان سیاستدانوں میں کیا فرق رہ گیا جن کے خلاف لکھ لکھ کے آپ نے بیس سال سے ہمارے کان کھالئے ہیں۔
وہ سارے پراجیکٹ میری فرم کو میرٹ پر ملے تھے۔ میں لعنت بھیجتا ہوں الزام لگانے والوں پر اور جلنے والے کا منہ کالا ہی  ہوتا ہے۔ گندے نالی کے کیڑے ہیں یہ سب ۔ گندگی پر بیٹھنے والی مکھیاں۔ آوارہ کُتوں کی طرح ہر شریف اور نجیب آدمی پر بھونکنا ان کی عادت ہے۔  میں ان کو غلاظت سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اگر ان میں ہمت ہے تو میرے خلاف عدالت میں چلے جائیں۔ ان کا باپ بھی کچھ ثابت نہیں کرسکتا۔ کام ہی اتنا پکّا ہے۔ ان کی۔۔۔
ناظرین ، پروگرام کا وقت ختم ہوا چاہتا ہے۔ اگرچہ ہماری بڑی خواہش تھی کہ حسین  ایثار کے ساتھ کچھ وقت اور گزارتے لیکن ہماری بدقسمتی اور ان کی خوش قسمتی کہ وقت ختم ہوگیا ہے۔ اپنا خیال رکھیے گا اور چوراہے سے سیدھے گزرجائیے گا، دائیں بائیں دیکھے بغیر۔ 
Comments
26 Comments

26 تبصرے:

ضیاء الحسن خان نے فرمایا ہے۔۔۔

استاد .... تو پھر تو ہی ہے .... لاجواب ہے یہ تو

ضیاء الحسن خان نے فرمایا ہے۔۔۔

وڑ جائے اللہ کرے تیرا اور ہر وہ بلاگ جس پر ماڈریشن لگی ہوئی ہو ... اسی بات پر ایثار صیب دی پین ....

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

لاجواب تحرير هے يار…اعلىٰ قسم كى پيروڈى اور اس په اضافه يه كه حقيقت كے قريب بهى هے

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

اسی طرح لکھتے رہیں اس سے آپ کو اپنے بارے میں اور آپ کے پرستاروں کو آپ کے بارے زیادہ سے زیادہ جان کاری ملتی ہے۔

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

gumnam

بہترین
ہم جیسے غافِل، مَجْہُول، سُسْت، خوابِیدَہ، کَسْل مَنْد، کُنْد، کام چور، نِکھَٹُّو، ڈھِیلے، آلْکَسی، مَعَطَّل، آرام پَسَنْد،کاہل، سست، نکمے ،نالائق، جاہل، اَناڑی، گَنْوار، اُجَڈ،اوراَحْمَق افراد ان صاحب کا کالم پڑھ کر صرف کوفت ہی میں مبتلا ہورہے تھے،
اب امید ہے کی آییندہ ان کا کالم پڑھتے ہوئےیہ کیفیت نہیں ہوگی-

میڈیا میں مختلف لوگوں کے پاس مختلف اساینٹمنٹ ہیں- مختلف سیاسی جماعتیں اپنے بندے بھرتی کراتی ہیں-

اپنے ممدوح کے ساتھ ذرا شر غلمان کو یاد کیجیے ساتھ ہی ڈاکٹر خارش اور آپ کے کالم نگار کم بلاگر طہارھو حق صاحب کو بھی، ان تمام لوگوں کا اساییٹمنٹ یہ ہے کہ "ایک سیاستدان'" کے علاوہ دیگر تمام سیاستدانوں کی واٹ لگای جاے تاکہ اس کے قد میں اضافہ ہو سکے، جس کے صرف پیٹ میں اضافہ ہو رہا ہے

یاسر خوامخواہ جاپانی نے فرمایا ہے۔۔۔

لاجواب۔۔۔

jimi نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت اعلی۔۔۔۔

ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

آلا ، فٹ ، ایک دم نمبر ون
اس سالے کو ٹیگ کر کے لنک پیسٹ دوں؟
پر یار گالیاں دینے کا آنلائن فن اسی بندے کو آتا ھے یہ تو ماننا پڑے گا :D
میں نے تو اس سے بہت کمینگیاں سیکھیں ھیں قسمے
:D

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

استاد اگر جلد بازی نہ کرتے اور افطار کے بعد نظر ثانی کے ساتھ شائع کرتے تو بہت اچھا رہتا ۔ ا ب یوں لگتا ہے جیسے انتیائی جلدی میں لکھی گئی یہ تحریر۔

اتنا مزہ نہیں آیا جتنا آنا چاہئے تھا۔ کیونکہ حسین ایثار صاحب پہ کم ہی پڑھنے کو ملتا ہے۔

امید ہے آئندہ نظر ثانی کے بعد شائع کر کے اپنی تحریروں سے شائقین کو مایوس نہ ہونے دیں گے

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

لاجواب
اس بیہودہ آدمی کی بیہودگی، دورنگی کا اچھا نقشہ کھینچا ہے۔ ان لوگوں کا رب انکا نفس اور دین صرف پیسہ ہے۔ میں اس شخص کو جب بھی دیندار طبقہ کے متعلق بات کرتا دیکھتا، سنتا ہوں تو مجھے آیت کا ایک حصہ یاد آجاتا ہے عَضُّواْ عَلَيْكُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ پھر ان سے اگلے دو لفظ ہی زبان پر آتے ہیں قُلْ مُوتُواْ بِغَيْظِكُمْ ۔

دل مضطرب نے فرمایا ہے۔۔۔

بیچارہ حسن نثار آپکا پوسٹ مارٹم دیکھ کر تو مجھے اس سے ہمدردی ہو ری کے وہ آپکے ہتھے چڑھ گیا :P :D

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

اور ہاں جہاں تک تحریر کے معیار کی بات ہے تو معذرت کے ساتھ آپ نے پہلی بار اپنے لکھنے کی صلاحیت کے ساتھ بالاتکار کیا ہے۔

بلاامتیاز نے فرمایا ہے۔۔۔

اعلی یار بہت عمدہ ،
بڑی گہری نظر رکھی ہوئی تو نے اتنے غلیظ ادمی پہ ،
تیری نظر کی برداشت کو سلام ۔۔
آج چوہدری تو خوشی سے بھنگڑے ڈال رہا ہو گا کہ اس کی واری چھوٹ گئی

Rai Azlan نے فرمایا ہے۔۔۔

Chaa gaye ho ustad... hun se itna bhi sabar na huabk ghar ja kar aram se urdu rasmul khat main comment karen.
Ab mosoof ko parhty wakt apny ap se hakarat ka ahsaas zara kam he hoga qasmy :D

Behna Ji نے فرمایا ہے۔۔۔

السلام علیکم
ہاں جی بندہ تو یہ ایسا ہی ہے جیسا آپ نے نقشہ کھینچا-جہالت،بد اخلاقی اور تکبر تو اس بندے میں نک و نک بھرا ہوا ہے اور ابل ابل کر باہر آ رہا ہوتا ہے جب ڈھکن ہٹائیں تو

ام عروبہ

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

واہ استاذ مزا آگیا -
سعید

خالد حمید نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت ہی بہترین۔۔۔

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

gumnnam

حسن نثار کا ایک اور کارنامہ
"یورپ میں عریانی ستر ہے"

http://quraniscience.com/please-read-a-great-answer-to-hasan-nisar-by-oria-maqbool-jaan/

عدنان مسعود نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت خوب محترم، صنف پیروڈی کے استاد تمہی ہو جعفر

ڈاکٹر جواد احمد خان نے فرمایا ہے۔۔۔

حسن نثار کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ اندھوں کے شہر میں آئینے بیچتا ہے۔
اندھے بھی خاص الخاص اندھے۔۔۔۔۔ جنہیں روشنیوں سے نفرت ، آئینوں سے نفرت، حق بات سے نفرت۔۔۔۔۔۔ محبت صرف اس بات سے کہ انکے اندھے پن کی تعریف کی جائے ۔۔۔۔۔ آئینہ دکھانے کی کوشش نا کی جائے۔

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

Great

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

ضیاءالحسن: اور تو مولبی :ڈ
اخلاق: او جا یار۔ لوکی پخے وے۔ :ڈ
خورشید آزاد: اچھاجی۔ آپ کے مشورے کا تو مجھے شدید انتظار رہتا ہے :ڈ
گمنام: واہ واہ۔ :ڈ
یاسر: شکریہ
جیمی: بلاگ پر خوش آمدید جناب۔ اور پسندیدگی کا شکریہ
ڈفر: حسن نثار تیرا سالا ہے :ڈ ۔۔۔ آخخخخ
منیر عباسی: کیونکہ آپ کو خبرداری پہنچ گئی تھی لہذا آپ کو جلد بازی میں لکھی لگ رہی ہے : ڈ
بنیاد پرست: فکری بونا ہے
محمد عبداللہ: بلاگ آمد پر خوش آمدید۔ اور پسندیدگی کا شکریہ اگر پسند آئی ہے تحریر تو
خورشید آزاد: جمہوریت کو مدنظر رکھا جائے تو آپ کی اس رائے کو لوگوں نے مسترد کردیا ہے :ڈ
بلاامتیاز: ہاہاہاہا۔ مجھے ہی جگتیں شروع کردیں تونے کمینے آدمی۔
رائے ازلان: ھاھاھا۔ واقعی درست ہے۔ ہماری اتنی چھترول کری ہے اس نے کہ ہمیں خود بھی یقین ہوتا جارہا ہے کہ ہم سب ویسے ہی ہیں جیسے وہ کہتا ہے
ام عروبہ: جی ہاں۔ درست کہا آپ نے
سعید: مزا آیا؟ کڈو پیسے :ڈ
خالد حمید: بہت بہت شکریہ
گمنام: مرعوبیت ختم ہے اس پر۔
عدنان مسعود: ذرہ نوازی ہے جناب کی۔ شکریہ۔
ڈاکٹر جواد: سر جی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟ :ڈ
گمنام: شکریہ

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

گمنام


ڈاکٹر جواد احمد خان نے فرمایا ہے۔۔۔

حسن نثار کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ اندھوں کے شہر میں آئینے بیچتا ہے۔
اندھے بھی خاص الخاص اندھے۔۔۔۔۔ جنہیں روشنیوں سے نفرت ، آئینوں سے نفرت، حق بات سے نفرت۔۔۔۔۔۔ محبت صرف اس بات سے کہ انکے اندھے پن کی تعریف کی جائے ۔۔۔۔۔ آئینہ دکھانے کی کوشش نا کی جائے
گمنام

ڈاکٹر صاحب آپ کے ہیرو نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اس پر تو آپ کی طرف ایک ٹریٹ ڈیو ہو گی

http://www.ahwaal.com/index.php?option=com_content&view=article&id=21706%3A2012-09-10-05-25-50&catid=40%3Aahamkhabrain&Itemid=46&lang=ur

معروف کالم نگار حسن نثار نشے میں دھت گالیاں دینے پر تشدد کا نشانہ بن گئے۔ تفصیلات کے مطابق حال ہی میں جیو کو چھوڑ کر ملک ریاض کے میڈیا گروپ دنیا نیوز کو جوائن کرنے والے حسن نثار گذشتہ روز پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین زکیٰ اشرف کی جانب سے دی گئی پارٹی میں شریک تھے۔ اور نشے میں دھت ہونے کے باعث آزادانہ گالیاں دے رہے تھے۔ اسی دوران انہوں نے خلفائے راشدین سے موجودہ سیاستدانوں کا موازنہ شروع کردیا۔ مباحثہ کے دوران انہوں نے نوائے وقت کے ایڈیٹر چیف مجید نظامی کو بھی برا بھلا کہا۔ جس پر وہاں موجود نوائے وقت کے چیف رپورٹر فرخ سعید خواجہ نے انہیں ایسا کرنے سے روکا۔ حسن نثار نے اس پر طیش میں آکر ہاتھ میں پکڑا گلاس خواجہ فرخ کو دے مارا۔ جواب میں خواجہ فرخ نے ہاتھ میں موجود گرم قہوے کی پیالی حسن نثار پر انڈیل دی۔ اور حسن نثار کو زمین پر گرا کر لاتیں اور مکے مارنا شروع کردیئے۔ وہاں موجود شرکاء کچھ دیر تک محظوظ ہوتے رہے۔ تاہم بعد میں دونوں کے درمیان بیچ بچاؤ کرایا اور حسن نثار کو زبردستی ان کی گاڑی میں بٹھاکر وہاں سے روانہ کردیا۔ حسن نثار اس دوران بھی متواتر گالیاں دیتے رہے۔

آپ کے جواب کا انتظار رہے گا

Mian Waqas نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت اعلی- انٹزویو بالکل اصلی لگتا ہے

gdfh نے فرمایا ہے۔۔۔

link posted here is not working

MAniFani نے فرمایا ہے۔۔۔

ایک دم خوب است

تبصرہ کیجیے