جیت کا سہرا

ناکامی، بن باپ کا بچہ اور کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں۔ یواے ای میں کھیلے جانے والے کرکٹ میچز کے دوران آپ نے سٹیڈیم میں ایک بڑی مونچھوں والا "دہوش" قسم کا بندہ دیکھا ہوگا جو چاچا کرکٹ کی طرح مشہور ہونے کے شدید جتن کرتا نظر آتا ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ بندہ ہمارا کافی پرانا جاننے والا ہے اور اکثر "خصوصیات" میں استاد پونکے کا ہمسر ہے۔ اسے یواےای میں تقریبا بیس برس سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے۔ ایک دفعہ اس نے ہمیں یہ بتایا تھا کہ شارجہ میں پاک بھارت میچ کے دوران اس نے فائن لیگ پر کھڑے وقار یونس کو ان سوئنگ کرنے کے گُر سکھائے تھے۔۔!
وقار یونس سے یاد آیا کہ پاکستان کی حالیہ کرکٹ فتوحات کا سہرا باندھنے کے لیے تقریبا دس سے بارہ دلہے تیار بیٹھے ہیں۔ ان میں اعجاز بٹ سے لے کر محمد الیاس اور جلال الدین سے لے کر آغا زاہد تک بہت سے جینئس شامل ہیں لیکن ان سب میں جو دلہا سب سے لش پش اور پَپّو ہے وہ اپنے نگران کوچ محسن حسن خان ہیں۔ پویلین میں انہیں بیٹھے دیکھ کر ستّر کی دہائی کے وہ ہیرو یاد آتے ہیں جو ستّر سال کی عمر میں بھی کالج بوائے کے کردار ادا کیا کرتے تھے اور ایکدم دروازہ کھول کر اپنی فلمی ماں سے، جو عمر میں ان سے بیس سال چھوٹی ہوتی تھی، چمٹ جاتے تھے اور کہتے تھے ، ماں! میں پاس ہوگیا۔ یادش بخیر، ہمارے نگران کوچ فلموں میں بھی جلوہ گر ہوئے تھے اور ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ ایسی پرفارمنس اگر وہ اُس وقت دیتے تو آج اوور ایکٹنگ میں شاہ رخ خان کے بھی ابّا مانے جاتے۔ ڈریسنگ روم کی بالکنی سے ان کی پرفارمنس کے شاندار مظاہرے دیکھ دیکھ کر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی "نشاۃ ثانیہ" کے لیے محسن خان سے بہتر رہنما اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
اس سہرے کے ایک امیدوار ہم خود بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ سعیداجمل ہماری گلی میں رہتا تھا اور ہم اکٹھے گلی میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ اور ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ ہمیں کبھی آؤٹ کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ۔ شاید اسی ناکامی نے اسے دوسرا ایجاد کرنے پر مجبور کیا تھا جس نے انگریزوں کی واٹ لگائی ہے لہذا، اس کامیابی کے اصل معمار، ہم ہی ہیں۔
اس پاکستانی ٹیم کی کارکردگی میں جو بہتری اور مستقل مزاجی آئی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ وقار یونس ہیں۔ اگر شاہد آفریدی، اپنے مخصوص چوّل پن سے باز رہتے اور خود کو ڈان بریڈ مین، شین وارن  اور عمران خان کا مرکّب سمجھنے کے خنّاس میں مبتلا نہ ہوتے تو وقار یونس اس وقت بھی کوچ ہوتے۔ قومی ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی نجی طور پر بھی اور اکثر آن ریکارڈ بھی اپنی کارکردگی میں بہتری کا کریڈٹ وقار یونس کو دیتے ہیں اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وقار نے کبھی یہ کریڈٹ خود لینے کی کوشش نہیں کی۔ میرے خیال میں وقار کو کوچنگ سے ہٹانا یا ہٹنے پر مجبور کرنا ایک انتہائی غلط فیصلہ تھا اور اگر محسن خان کو مستقل کوچ بنایا گیا تو یہ بدترین فیصلہ ہوگا۔
ہماری رائے میں، عدنان اکمل کو رینا رائے سمجھ کر چُمیاں لینے سے کوئی عظیم کوچ نہیں بن سکتا اور اگر یہ حضرت ٹیم کے ساتھ کچھ اور عرصہ گزار گئے تو پاکستانی ٹیم کا اگلا سکینڈل "جنسی طور پر ہراساں" کرنے بارے ہوگا۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں