تعزیہ


فیصل آباد کی مشہور چیزوں میں آٹھ بازار بھی شامل ہیں۔ ان میں سے ایک جھنگ بازار بھی ہے جس میں ہمارا آبائی گھر تھا۔ جہاں ہم اس دنیائے فانی کو رونق بخشنے کے لیے تشریف لائے تھے۔  بچپن کی ایک بہت ہی مدہم سی یاد کچھ یوں ہے کہ ہمارا گھر جو کہ دوسری منزل پر تھا کہ نچلی منزل دکانوں پر مشتمل تھی، اس میں کافی ساری اجنبی خواتین اور بچے بھرے ہوئے ہیں اور وہ بازار سے گزرتے ہوئے ایک ہجوم کو دیکھ رہے ہیں جن میں کچھ مسجدوں کے ماڈل اور ایسی ہی کچھ اورچیزیں بھی شامل ہیں۔  اور ان میں شامل لوگ کچھ نعرے وغیرہ بھی لگارہے ہیں اور کچھ عجیب سی دھمک نما آوازیں بھی آرہی ہیں۔ ہماری دادی سب گھروالوں اور خاص طور پر بچوں کو منع کرتی ہیں کہ نیچے بالکل نہیں دیکھنا اور کمرے کے اندر  ہی بیٹھے رہنا ہے۔  اس واقعہ کو ہم تعزئیے کے نام سے یاد کرتے تھے  اور ہمیں بڑے ہونے تک اس بات کی جستجو ہی رہی کہ اس میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ ہمیں دیکھنے سے منع کیا جاتا تھا۔
ہم  سکول جانے کی عمر تک پہنچے تو اس گھر سے منتقل ہوکے گلشن کالونی پہنچ گئے۔  وہاں کچھ ایسا چکر تو نہیں تھا لیکن جیسے جیسے ہم تعلیم کے مدارج طے کرتے گئے ، تعزئیے کا تہوار خطرناک سے خطرناک ہوتا چلا گیا۔ پہلے پہل دس محرّم کو نڑوالا چوک سے آگے جانے کی پابندی لگی۔ پھر یہ پابندی جناح کالونی کے گیٹ تک پہنچی۔ اور آخر کار زرعی یونیورسٹی کے گیٹ تک پہنچ گئی۔ وہ تعزئیے جسے لوگ دور دور سے دیکھنے آتے تھے اب ان کا مہینہ شروع ہونے پر فوجی گاڑیوں کا مارچ ہونا شروع ہوگیا جس پر فوجی جوان ہولناک قسم کی مشین گنیں تانے کھڑے ہوتے تھے۔انہی دنوں دیواروں پر وال چاکنگ ہونی شروع ہوگئی جس میں شیعہ حضرات کو یہ بتایا جاتا تھا کہ بھائی جان، آپ کافر ہیں۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ میرا دوست شانی اور نیر عباس عرف پستول شاہ بیٹھے بٹھائے کافر کیسے ہوگئے؟ انہی دنوں ہمارے گلشن کالونی سے بھی ساتویں محرّم کو جلوس برآمد ہونا شروع ہوگیا جو مختلف گلیوں سے گزرتا ہوا ایک مومن سب انسپکٹر صاحب کے گھر جاکے ختم ہوتا تھا۔ انہی دنوں ہمیں پتہ چلا کہ ان جلوسوں کے لائسنس ہوتے ہیں۔ یہ بات ہمیں بڑی عجیب لگی کہ جلوس کا لائسنس؟ یہ ضرور کوئی خطرناک چیز ہوگی۔
کالج جانے تک محرّم  کے آتے ہی ایک خوف کا ماحول چھانا شروع ہوگیا ۔ ڈبل سواری پر پابندی انہی دنوں پہلی دفعہ بھگتی۔  آہستہ آہستہ نو اور دس محرّم بالکل ایسے دن ہوگئے جن میں زندگی بالکل رک جاتی تھی۔ پورا ملک ایسا ہوجاتا تھا جیسے کوئی بھوت پھرگیا ہو۔  ان سنجی گلیوں میں مرزے یار دے دھنادھن کرتے پھرتے تھے۔  مذہبی بحث شاید وہ واحد بحث ہے جس میں ہماری دلچسپی کبھی نہ ہوسکی۔ ہمیں کسی کے ماتم کرنے، کسی کے ختم دلوانے اور کسی کے ٹخنوں سے اونچی شلوار سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ مسئلہ تو تب کھڑا ہوا جب اپنے عقیدے کی رسومات کی ادائیگی کے لیے ایک اٹھارہ کروڑ کا پورا ملک دس دن کے لیے مفلوج ہونا شروع ہوگیا۔ ہمارے ایک یار جانی نے آج اسی مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جلوسوں پر تمہیں کیوں اتنی تکلیف ہے؟ کیا لانگ مارچ نہیں ہوتے؟ اس پر تو تمہیں کوئی اعتراض نہیں۔ اس وقت تو ہم چپ ہوگئے کہ ۔۔۔خیال خاطر احباب چاہیے ہردم۔۔۔۔ پر سیاسی ریلی اور ان مذہبی رسومات کی ٹھیکیداری میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لانگ مارچ نامی شعبدے کسی ایک شہر سے شروع ہوکے چند ہزار بندوں کے ساتھ چلتے ہوئے دوسرے شہر تک جاکے ختم ہوجاتے ہیں اس سے باقی ملک کو کوئی اثر نہیں ہوتا جبکہ ہمارے شیعہ احباب چاہے ہزار بندہ مروالیں، جلوس نکلوانا ان کے مذہب کا اولین فرض بن گیا ہے۔ اب اگر اس پر ذرا غور کیا جائے تو یہ مذہبی رسومات سے زیادہ ایک بہت بڑی تجارتی سرگرمی ہے جس کا سارا اجارہ، مخصوص لوگوں کے پاس ہے۔ جن میں بہت سے لوگوں کے چھپے ہوئے مفادات بھی ہیں۔سانوں کیہ۔ جم جم کمائیاں کرو تے اپنے اپنے بے وقوفاں دی چھِل لاو۔ پر خدا کے لیے کوئی جگہ مخصوص کرلیجئے، ، وہاں دس دن تک جلوس نکالیے، گھوڑ دوڑ کرائیے، ماتم کیجئے، جو آپ کا دل کرے،کیجئے۔ پر پورے ملک کو مفلوج کرنا بند کردیجیے۔ قیمتی جانوں کی حفاظت بھی وہاں آسانی سے ہوسکے گی اور باقی ملک بھی سکون کا سانس لے سکے گا۔
غصہ نہ کرنا، غور کرلینا بس۔