سُودِی


 اس دنیا میں میرا سب سے پہلا دوست وہی  ہے۔
نام تو اس کا مقصود احمد ہے لیکن سوائے اپنےابّا کے، میں نےکبھی کسی کو یہ نام پکارتے نہیں سنا۔ وہ سب کے لیے سُودِی ہے۔  وہ  بیک وقت میرا تایا زاد  اور خالہ زاد ہے۔ شاید یہ اس دہرے رشتے کا اثر ہو پر یہ تو اس کے باقی بھائیوں کے ساتھ بھی ہے لیکن ان سے کبھی ایسی انسیت اور دوستی کا احساس نہیں ہوا۔ بہت سارے بہن بھائیوں میں اس کا نمبر کہیں درمیان میں ہے۔ زیادہ بچوں میں سوائے بڑے اور چھوٹے کے باقی سب شامل واجا ہوتے ہیں۔ وہ نہ ماں کے لاڈلے نہ باپ کے  نور نظر۔ نہ دادی کے پیارے اور نہ نانی کے۔ اکثر باپ ، سب سے بڑے کے واری صدقے ہوتے رہتے ہیں اور ماں ، سب سے چھوٹے کے اور بیچ کے بے چارے،  گواچی گاں کی طرح پل ول جاتے ہیں۔
سُودِ ی کی والدہ او ر ہماری تائی  اور خالہ میں بیک وقت ہٹلر اور ہلاکو کی ارواح مقدّسہ اکٹھی ہیں۔  مجھے پہلی دفعہ ان کو غصّے میں دیکھ کے پتہ چلا تھا کہ غصّہ حرام کیوں  ہے۔ ہمارے تایا جنت مکانی، سب سے بڑے تھے اور اسی وجہ سے ہماری دادی کے اتنے لاڈلے تھے کہ ہر روز صبح اپنے ویسپا سکوٹر پر غلام محمد آباد سے جھنگ بازار ماں کے ساتھ ناشتہ کرنے آتے تھے۔  بچپن میں جب ہمیں اللہ میاں سے ڈرایا جاتا تھا تو ننھے ذہن میں ہمیشہ تایا جی کا چہرہ ابھر تا تھا کہ ضرور اللہ میاں بھی ایسے ہی غصیلے اور رعب دار ہوں گے اور گندے بچّوں کو خوب ڈانٹتے ہوں گے۔ اسی عمر میں ہم یہ سوچا کرتے تھے کہ بڑی امی  یعنی ہماری دادی، تایا جی سے ڈرتی کیوں نہیں ہیں؟ حالانکہ وہ اتنے ڈراونے ہیں۔ وہ تو ہمیں بڑے ہونے پر پتہ چلا کہ وہ ان کی اماں تھیں۔  اور ماوں سے تو بڑے بڑے پھنّے خاں ڈر جاتے ہیں، تایا جی مرحوم کیا شے تھے۔
تو ذکر سُودِی کا ہورہا تھا۔ مجھے اور اسے ایک ہی سکول میں داخل کرایا گیا اور ذہنی ہم آہنگی کے باعث ہم دونوں کو ہی وہ سکول پسند نہیں آیا۔ پہلے ہی دن ہم دونوں کھڑکی سے کُود کے بھاگ گئے اور چھٹی تک سکول کے باہر چھپے رہے۔ وہ تو ہماری بڑی بہن جو تیسری یا چوتھی میں پڑھتی تھیں ، چھٹی کے وقت ہمیں گھیر گھار کر لے آئیں اور ہمارے پہلے ہی دن سکول سے پُھٹنے کا ماجرا بیان کیا۔ عام خیال یہی تھا کہ چونکہ پہلا دن تھا شاید اسی لیے بچے گھبرا گئے ہیں۔ اگلے دن ہمیں ایک کافی تنو مند مس سے چپیڑیں بھی کھانی پڑیں اور ہم جوکہ خاندان کے سب سے لاڈلے سپوت گنے جاتے تھے یہ سلوک برداشت نہ کرتے ہوئے پھر نظر بچاکر سُودِی سمیت فرار ہوگئے۔  لگاتار تین دن یہ حرکت کرنے پراباّجی سمجھ گئے کہ یہ یہاں نہیں پڑھیں گے تو اس کے بعد ہمیں ایک اور سکول میں داخل کرایا گیا۔ نئے سکول میں ہم جم گئے اور پانچویں تک دل لگا کر پڑھا۔ اس کے بعد ہمارے سکول بدل گئے۔ اور خاندانی تعلقات میں بھی بدلاو آگیا۔ لیکن ہم ملتے رہے۔ میٹرک کرنے کے بعد ہم  ایک ہی کالج میں گئے۔ تعلقات بحال ہوچکے تھے۔ لہذا اس سے پھر وہی بچپن والی دوستی بصورت دگر شروع ہوگئی جو ختم تو نہیں ہوئی تھی لیکن مدھم پڑ چکی تھی۔
کالج میں آکے میں نے دیکھا کہ سُودِی کچھ بدلتا جارہا ہے۔  بے چین رہنا ،  ہر وقت کسی نہ کسی سرگرمی میں خود کو الجھائے رکھنا، راتوں کو دیر تک گھومنا ، گھر جانے سے ہر ممکن حد تک بچنا۔  اس وقت تو سمجھ نہیں آئی  کہ ایسا کیوں تھا لیکن اب پتہ چلتا  کہ اس کی وجہ وہی تھی جو ہم نے اپنا تایا اور تائی کا ذکر کرتے ہوئے بیانی ہے۔ سُودِی نے سگریٹ نوشی بھی  شروع  کردی تھی ۔ لڑائی جھگڑوں میں آگے رہتا تھا، وہ دور بھی طلباء سیاست کے حوالے سے بہت ہنگامہ خیز تھا۔  ہر جماعت کے اپنے ٹیرر اسکواڈ تھے  اور سُودِی جماعتیوں کا" ون آف دی بیسٹ سولجر "بن چکا تھا۔ اپنی منحنی سی جسامت کے باوجود اس میں پتہ نہیں کونسا جن تھا کہ بڑے بڑے سُورمے اس سے ڈرتے تھے۔  
انہی دنوںکا قصہ ہے ۔ ایف ایس سی کے امتحان ہورہے تھے۔  پیر کوانگلش بی کا پرچہ تھا اور سُودِی اتوار والے دن گیارہ بجے میری طرف آیا۔ اور اپنے مخصوص انداز میں عینک کے اوپر سے جھانک کر بولا، "جعفر حسینا ، چل ،فلم ویکھن چلیے"۔  میں نے اس کو بہتیرا سمجھایا کہ یار کل پرچہ ہے۔ تو وہ کہنے لگا کہ اوئے تینوں کاہدی فکر؟ فکر تے مینوں ہونی چاہیدی اے۔ جنہیں کتاب کھول کے وی نئیں ویکھی۔ بہرحال اس دن ہم نے اے بی سی سینما میں "ریمبو" کی 'اوور دی ٹاپ" دیکھی۔ "ریمبو" اس کا پسندیدہ ترین اداکار تھا۔ اگرچہ بعد میں اس کی جگہ سلطان راہی نے لے لی تھی۔
  مجھے چونکہ سگریٹ  نوشی سے سخت "محبت "ہے تو اس کا  اورمیرا ساری زندگی جو جھگڑا رہا ، وہ فلم دیکھنے کے دوران سگریٹ پینے کا ہی ہوتا تھا۔  اس کے علاوہ مجھے یاد نہیں کہ کبھی زندگی میں ہمارا معمولی سا بھی اٹ کھڑکّا ہوا ہو۔ جو یقینا عجیب بات ہے کہ مجھے برداشت کرنا آسان کام نہیں ۔
ایف ایس سی کے بعد میں نے کالج بدل لیا۔ سُودِی سے ملاقاتیں کم ہونے لگیں۔ انہی دنوں اس کے بارے کچھ عجیب خبریں بھی سننے میں آنے لگیں۔  پھر پتہ چلا کہ اس نے نشہ کرنا شروع کردیا ہے۔  تین تین مہینے کے لیے گھر سے غائب رہنے لگا ہے۔ کبھی کسی کیس میں اندر اور کبھی کسی جھگڑے میں پھٹّڑ۔ پھر بھی جب کبھی اس سے ملاقات ہوتی تھی تو وہ وہی معصوم، بھلامانس اور بے ضرر سُودِی ہی لگتا تھا۔ مجھے اس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی تھی۔ مجھے تو یہ بھی لگتا تھا کہ یہ نشہ کرنے والی باتیں بھی ایویں افواہیں ہی ہیں۔ کیونکہ اس کی حسِ ظرافت ویسے ہی برقرار تھی اور کسی بھی علّت کا شکار بندے کی سب سے پہلے حس ظرافت ہی مرتی ہے،  چاہے وہ نشہ ہو یا محبّت۔
جیسے ہر بدترین اندیشہ سچ اور امید جھوٹ ثابت ہوتی ہے ویسے ہی ایک دن پتہ چلا کہ وہ منشیات کے بحالی مرکز میں داخل ہے۔  اس سے آگے کی کہانی ، کم ازکم میر ے لیے بڑی تکلیف دہ ہے۔ جیسے ہماری جیلوں سے بندہ پکا مجرم بن کے نکلتا ہے ،  ویسے ہی ان بحالی مراکز سے پکا نشئی۔ سُودِی سے ملاقاتیں  نہ ہونے کے برابر رہ گئیں۔ اس سے آخری ملاقات  ہوئے طویل مدّت گزر گئی۔ میں  بیرون ملک آگیا۔ کبھی کبھار اڑتی اڑتی خبر سننے کو مل جاتی کہ آج کل وہ اندر ہے یا باہر۔ ہرسال پاکستان جانے کے باوجود میں اتنی ہمّت کبھی پیدا نہ کرسکا  کہ اپنے بچپن کے یار سے مل سکوں ۔ سُودِی کی جو حالت سننے کو ملتی تھی میں اس حالت میں اس کو دیکھنا برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ میرے تصّور میں وہی خوش مزاج، معصوم ، ہنستا کھیلتا اور سب کو ہنساتا  سُودِ ی تھا۔ اور میں اس تصّور کو برباد نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ خودغرضی ہے۔ پر کبھی کبھار خود غرضی کے بغیر زندگی عذاب بن جایا کرتی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے گھر بات کرتے ہوئے خبر ملی کہ سُودِی مرگیا ہے۔
میں نے دل میں سوچا،  مر تو وہ  بہت پہلے گیا تھا ، دفنایا اب  ہے۔