میں جو اک برباد ہوں، آباد رکھتا ہے مجھے

عیدمیلاد النبی کی ایک بہت پرانی سی یاد ہے جس میں ایک چھوٹا سا بچہ یہی کوئی چھ سات برس کا، عربی لباس پہنے، اپنے ابّا کی انگلی تھامے کسی مذہبی محفل میں شریک ہے ۔ اس نامانوس اور نئے لباس کیوجہ سے  خوشی اور محفل کی طوالت کی وجہ سے بوریت کا ملاجلا احساس بھی اس کے چہرے سے عیاں ہے۔  محفل کے اختتام پر ابّا کے ساتھ واپسی کے سفر میں وہ سجے سجائے ٹرک، جن پر مساجد کے ماڈلز بنے ہوئے ہیں، اونٹ گاڑیاں، بسیں  اور ان پر انسانوں کے ہجوم کو حیرانی سے دیکھتا ہے۔ اسی حیرانی میں سے بہت سے سوال برآمد ہوتے ہیں جو وہ بار بار اپنے ابّا سے پوچھتا ہے۔ ان میں سے کچھ جوابات تو اس کی سمجھ میں آتے ہیں اور کچھ باوجود کوشش کے وہ سمجھ نہیں پاتا۔
یہ بچّہ، مابدولت ہیں۔
ہوش سنبھالنے پر اس تہوار کی غایت بھی پتہ چلی۔ عید میلاد النبی کے جلوس کے ساتھ جانے کی لیکن کبھی اجازت نہ مل سکی۔ اگرچہ ہمارا یار سُودی ہمیں ہر دفعہ ترغیب دلاتا کہ " چل تے سہی، بڑا مزا آندا ای، گٹ آلے جاواں گے ٹرک تے، نہر اچ ناہواں گے،  حلیم، کلچے، حلوہ، چاول ۔۔۔ فل عیاشیاں باوے"۔لیکن  ہمارے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ امّاں کی نظر سے دور رہنے کا طویل ترین وقفہ جو ہمیں میسر تھا ، وہ پندرہ منٹ سے زیادہ کبھی نہیں بڑھ سکا۔ ہر پندرہ منٹ کے بعد انہیں یہ بتانا ضروری ہو تا تھا کہ پچھلے پندرہ منٹ میں کہا ں تھا اور کیوں تھا۔ اور چونکہ میلادالنبی کی چھٹی کی وجہ سے ابّا بھی گھر پر ہوتے تھے تو ان کی موجودگی میں تو ایسا کوئی ایڈونچر کرنا  ممکنات میں سے نہیں تھا۔  ہمارے ابّا کا کہنا تھا کہ ان جلوسوںمیں لفنگے لونڈے لپاڑے جاتے ہیں جن کا مقصد ہلّڑ بازی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ اور اس متبرک دن کے لحاظ سے یہ حرکات انہیں سخت ناپسند تھیں اور وہ اپنے سخت غصے کا اظہار یہ کہہ کرکرتے تھے کہ "گدھے ہیں یہ سب"۔ شدید ترین غصّے کے علاوہ یہ لفظ وہ کبھی نہیں بولتے تھے۔ لہذا ان جلوسوں میں جانا تو دور کی بات ، اپنی گلی کی نکڑ پر کھڑے ہو کر ان سجے ہوئے ٹرکوں کو دیکھنا بھی کافی مشکل ہوتا تھا۔
ہمیں یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ کسی مذہبی محفل میں شریک ہونے کا ہمیں کبھی کوئی اشتیاق نہیں رہا۔ نہ ہی کبھی کوئی رقّت وغیرہ طاری ہوئی۔ اور ہمیں بڑی حیرانی ہوتی تھی جب ٹی وی پر کبھی اعظم چشتی کی پنجابی نعت چلتی تھی تو ابّا سر نیچے کرکے سنتے رہتے تھے اور ختم ہونے پر اپنے  رومال سے منہ صاف کرکے  ہی سر اوپر اٹھاتے تھے۔  میلا د شریف محفل میں جب بھی سلام پڑھنا شروع کیا جاتا تھا تو اپنی امّاں کی ہچکیوں کی آواز سن کر ہم خود بھی کسی کونے کھدرے میں چھپ کر رونا شروع کردیتے تھے۔
ماں کو روتے دیکھنا بہت مشکل ہوتا ہے جی۔
استاد خالد کا تذکرہ ہم دو تین دفعہ کرچکے ہیں ۔ استاد کی ایک خا ص ادا جو اب ہمیں یاد آتی ہے کہ اس وقت تو کبھی ایسی باتوں پر غور ہی نہیں کیا تھا ۔ استاد محلے کی مسجد یا کسی بھی جگہ ہونے والی محفل نعت میں بن بلائے پہنچ جاتے تھے۔ عام طور پر استادکا حلیہ ابتر ہوتا تھا  کپڑے میلے کچیلے، شیوبڑھی  ہوئی ، بال بکھرے ہوئے ۔ یہ ان کے کام کی وجہ سے بھی تھا۔ سارا دن لوہے سے ہاتھ پنجہ کرکے بندہ باؤ بن کے تو نہیں رہ سکتا۔ لیکن جب بھی کسی محفل میں جانا ہوتا تو استاد بہترین سفید کپڑے پہن کے ، شیو کرکے، سر پر رومال باندھ کے جاتے تھے۔  استاد کی آواز ایسی تھی کہ بلا شبہ ایسی نعت پڑھتے ہوئے کم ہی لوگوں کو سنا ہے ۔  نعت پڑھتے ہوئے استاد کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو جاری ہوجاتے ۔  روپوں  کا ڈھیر ان کے سامنے اکٹھا ہوجاتا تھا پر استاد نے کبھی ان پیسوں کی طرف آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھا۔ یہ ہمیں ذاتی طور پر علم ہے۔ استاد نعت پڑھتے اور خاموشی سے نکل آتے ۔ مذہبی محافل کے اختتام پر جو خوردونوش کا بندوبست ہوتا ہے، اور جس کے لیے سامعین کی اکثریت آخر تک بیٹھی رہتی ہے، استاد نے وہاں سے کبھی پانی کا گلاس تک نہیں پیا ۔
اب آکے یہ باتیں سمجھ میں آئی  ہیں۔ یہ عشق کا معاملہ ہے۔ محبت کا۔ اس ہستیﷺسے محبت کا جو رب کی محبوب ہے۔  کچھ عرصہ قبل نماز جمعہ کے لیے مسجد میں بیٹھے ، اذان سنتے ہوئے ، جب موذن،  اشہد ان محمد الرسول اللہ،  تک پہنچا تو خدا معلوم اندر کا کونسا قفل کھلا کہ بندہ بے حال ہوگیا، تب پتہ چلا کہ ابّا سر جھکاکے نعت کیوں سنتے  تھے، امّاں کی ہچکیاں کیوں بندھ جاتی تھیں، استاد خالد جو جمعہ کی نماز کے علاوہ کبھی مسجد میں نظر نہیں آتا تھا، وہ نعت پڑھتے ہوئے  کیوں زارو قطار رونے لگتا تھا۔
مذہب سے ہمارا لگاؤ کوئی بہت جانثار قسم کا نہیں ہے۔ نہ ہی ہم کوئی مفتی  یا علامہ ہیں۔ لیکن کبھی کبھار سوچتے ہیں کہ کیا مذہب کی ہر علامت کو کاروبار بنا لینا  جائز ہے؟ کیا  عام آدمی کے مذہبی جذبات کو فروخت کرنا جائز ہے؟  استاد خالد جیسے نعت پڑھنے والے  اور ڈولبی سراونڈ ساونڈ اور پورے ٹشن کے ساتھ کمرشل نعت خوانی  میں کوئی فرق نہیں؟ کیا اس  محبت کی علامت کو دنیا کمانے کے لیے استعمال کرنا جائز ہے؟ 
Comments
14 Comments

14 تبصرے:

فضل دین نے فرمایا ہے۔۔۔

زبردست۔۔۔ لیکن آج کل کمرشل نعت خوانی اور کچھ بے جا بدعات کی شمولیت قابلِ فکر ہے

یاسر خوامخواہ جاپانی نے فرمایا ہے۔۔۔

ہر شے میں دکھاوا ہے۔
اور اس وقت ماحول کے رحجان کے مطابق ہر بندہ دکھاوے کا مسلمان بننا ہی پسند کرتا ہے۔

Farhan نے فرمایا ہے۔۔۔

کیا بات ہے سر جی! تحریر میں کچھ تہ تھا کہ پڑھتے ہوئے آنکھیں نم ہو گئیں۔۔۔
شاندار کاوش

ناصر نے فرمایا ہے۔۔۔

قفل جو کھل گیا ہے اسے بند نہ ہونے دیجیے گا

MAniFani نے فرمایا ہے۔۔۔

اللہ کرے قفل کبھی نہ لگے۔ لالا اکھیاں ڈبڈبا گئی ہیں۔
پروفیسر عنائت علی کا ایک شعر نذر ہے۔

تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا

Rai Azlan نے فرمایا ہے۔۔۔

آپ کی خوشقسمتی پے رشک آ رہا ہے کہ قفل کھلا تو صحیح ورنہ ہم بھی ہیں توبہ کے ارادے اور معافی کی امید پر لگے ہیں انے وا وقت ضائع کرنے۔

Waseem Rana نے فرمایا ہے۔۔۔

جب موذن، اشہد ان محمد الرسول اللہ، تک پہنچا تو خدا معلوم اندر کا کونسا قفل کھلا کہ بندہ بے حال ہوگیا۔زبردست جی۔

غلام عباس مرزا نے فرمایا ہے۔۔۔

محبت رسول رب کی بہت بڑی عطا اور انعام ہے۔ لیکن
نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے
شکار مُردہ سزاوار شاہباز نہیں
(اقبال)

محمد سلیم نے فرمایا ہے۔۔۔

رُلا دیا ہے ناں پھر

افتخار راجہ نے فرمایا ہے۔۔۔

اللہ رحم کرے جی، ہم لوگوں نے ہر طرف ڈرامہ ہی بنایا ہوا، جانے کیا بنے گا ہمارا، البتہ اس تحریر پر آپ مبارک باد کے مستحق ہیں

AQIB نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت عمدہ, بہت اچھے وقت پے بہت مناسب تحریر.

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

آنسو نکلوا دئیے آپ نے.اپنا بچپن اور یاد آ گیا اور کچھ اسی قسم کا حال رہا ادهر بهی.
بہت اعلیٰ

محمد سلیم نے فرمایا ہے۔۔۔

ایک مختلف انداز کی تحریر جسے پڑھنے کیلئے ضبط کا سہارا لینا پڑا

منصور مکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

ایک خوبصورت تحریر
اللہ تعالیٰ رحم کا معاملہ کردئے ،اور ہماے دل میں ہمیشہ کیلئے اپنے محبوب کی محبت بٹھائے رکھے۔

تبصرہ کیجیے