الیکشن اور اللہ دتّہ


ہوش سنبھالنے پر جو پہلے الیکشن ہم نے دیکھے ، وہ کونسلری کے تھے۔مزے کا زمانہ تھاوہ بھی۔  دیواروں پر چسپاں امیدوا ر برائے کونسلر کے رنگ برنگے اشتہار،  فلمی اشتہار بنانے والے مصوروں کے موئے قلم سے رنگین دیواریں جن پر امیدوار کی وہ خصوصیات بیان کی گئی ہوتی تھیں جو شاید بے چارہ خود بھی کوشش کے باوجود دریافت نہ کرپاتا۔  ہمیں آج بھی زرعی یونیورسٹی کے مین گیٹ والی دیوار کا اشتہار یاد ہے۔ جس میں "نہ بکنے والا نہ جھکنے والا" کے  "نہ" پر کسی ناہنجار نے سفیدی پھیر دی تھی اور پولنگ کے دن تک وہ مصور ی کا شاہکار آتے جاتے لوگوں کو محظوظ کرتا رہا۔  کافی عرصے بعد اسی دیوار پر  ملن سوپ کے اشتہار کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا گیاتھا۔ بہرحال اس کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔  رات کو ہونے والی کارنر میٹنگز،  نعرے،  پر جوش تقاریر ، یہ سب ایک میلے جیسا لگتا تھا۔  اس الیکشن میں جیتنے والے ایک شیخ صاحب تھے کہ ہمارے علاقے میں شیخ صاحبان کی ایک تو ویسے اکثریت تھی اور جو بھی بندہ چار پیسے کمالیتا تھا وہ بھی شیخ ہوجاتا تھا تو یہ اکثریت دو تہائی تک جاپہنچتی تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ وہ کونسلر ، شاید شیخ اشرف ان کا نام تھا ،  الیکشن جیتنے کے بعدکبھی نظر نہیں آئے۔ کونسلری کے کام گلیاں سڑکیں اور گٹروں کی صفائی تک ہی محدود ہوتے ہیں ۔ اور شیخ صاحب تو صبح سویرے بارہ بجے اٹھ کے سوتر منڈی چلے  جاتے تھے  اور اہالیان حلقہ ان کے آنے کا انتظار کرتے رہتے تھے ، گھر پر جاکے ان کا دریافت کرنے پر پتہ چلتا تھا کہ شیخ صاحب، آدھ کلو چھوٹا گوشت اور دوسیر آم "چوپ" کے سو چکے  ہیں۔  
اگلے الیکشن آنے تک ہمارے حلقے کا حال ازمنہ قدیم کے کسی افریقی ملک کا منظر پیش کرنے لگا تھا۔ شیخ برادری کے بڑوں نے متفقہ طور پر پرانے کونسلر کی بجائے ایک نئے صاحب کو "ٹکٹ" جاری کیا۔ اور برادری کی بنیاد پر ایک دفعہ پھر وہ صاحب الیکشن جیت گئے۔  اگر آپ شیخ صاحبان سے واقف ہوں تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے کہ شیخ حضرات، گلی محلے کی سیاست والا میٹریل نہیں ہوتے۔ ایک ارسٹوکریٹک سا ٹچ ہوتا ہے جو انہیں سیوریج اور نالیاں پکی کرانے جیسے کاموں سے دور رکھتا ہے۔   آخرکار تیسرے انتخاب میں اہالیان حلقہ نے انہیں اس "غلیظ" کام سے دور رکھنے  کا فیصلہ کیا اور ملک اللہ دتّہ کی باری آئی۔
ایک نیم خواندہ، سیمنٹ کی ایجنسی کے مالک، عام لوگوں میں پولیس ٹاوٹ کی شہرت۔ لہجہ جانگلی۔ کرخت، درشت۔ ہر الیکشن میں حصہ لینے والے لیکن کبھی تیسرے نمبر سے آگے نہ بڑھ سکنے والے، ملک اللہ دتّہ۔ کہاں شیخ صاحبان کی میٹھی پیاری باتیں  اور سوفسٹی کیشن اور کہاں ملک صاحب کا جٹکا انداز۔ لیکن تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق لوگوں نے یہ جوا ءبھی کھیل ہی لیا اور وہ یہ جواء جیت بھی گئے۔ ملک صاحب نے اپنے حلقے کے ایسی خدمت کی کہ آج اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود میں ان کو یاد کرنے پر مجبور ہوں۔ صبح جب ہم سکول کالج جانے  کےلیے نکلتے تھے تو وہ اپنے ویسپا سکوٹر پر گلیوں کا چکر لگار ہے ہوتے تھے۔ کوئی بھی شخص ان کو روک کے کوئی بھی مسئلہ بتا سکتا تھا اور اگر فوری طور پر حل ہونے والا ہو تو وہ اسے سکوٹر کی پسنجر سیٹ پر بٹھا کر اسی وقت حل کرنے چل پڑتے تھے۔  سارے علاقے کی سڑکیں اور گلیاں تعمیر ہوئیں، سیوریج اور صفائی کے مسائل حل ہوئے۔ گلی محلے کی حد تک معمولی قضیے اور جھگڑے بھی ان کے ڈیرے پر ہی حل ہوجاتے تھے اور کسی کو کبھی کسی جانبداری کی شکایت نہیں ہوئی۔  ہم اس وقت یہ سوچ کر حیران ہوتے تھے کہ سابقہ کونسلرز کے پاس بھی اتنے ہی فنڈز تھے تو انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ ملک صاحب اپنی وفات تک کونسلری کا الیکشن جیتتے رہے اور ان کے جنازے پر تقریبا سارا علاقہ اکٹھا تھا۔
تسلسل کسی بھی چیز یا کام میں بہت اہم بلکہ بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔  دو میعادوں تک اہل محلہ نے مشکلیں برداشت کرکے یہ سبق سیکھا کہ برادری کو ووٹ دینے سے سڑکیں یا گلیاں نہیں بن سکتیں، بند گٹر نہیں کھل سکتے، صفائی کا نظام درست نہیں ہوسکتا۔  یہ سب کام صرف اپنےووٹ کا درست استعمال کرنے سے ہوسکتے ہیں۔ نفیس لباس، مہنگی خوشبوئیں اور لچھے دار تقریریں بھی یہ کام نہیں کرسکتیں۔    جمہوریت اور انتخابات کی یہی خوبصورتی ہے کہ ہم اپنی غلطی کو درست کرسکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ تسلسل جاری رہے۔ فوجی بوٹوں کی حکمرانی نہ ہم سے پوچھ کے آتی ہے اور نہ جاتے وقت اطلاع کرتی ہے کہ ۔۔ خوش رہو  اہل وطن، ہم تو سفر کرتے ہیں۔ ۔۔۔  سو خرابیوں اور خامیوں کے باوجود آگے جانے کا رستہ یہی ہے۔ ووٹ ڈالیے۔ چاہے تیر کو، شیر کویا بلّے کو  یا جس کو بھی دل چاہے اور یہ سوچ کے ڈالیے کہ کس نے پچھلے پانچ سال آپ کے ساتھ کیا کِیا ہے۔
ہمارے محلے کے شیخ صاحبا ن نے بھی آخر کار درست فیصلہ کرلیا تھا۔ کیوں نہ اس دفعہ ہم سب مل کے درست فیصلہ کرلیں۔
Comments
7 Comments

7 تبصرے:

علی نے فرمایا ہے۔۔۔

ہم سب مل کر؟؟؟
کیسی باتاں کر رہے ہیں استاد جی
مل صرف ایک پسند ہے ہماری قوم کو وہ ہے صنعتی مل

Dohra Hai نے فرمایا ہے۔۔۔

ستاد جی آج فارم میں ہیں بہت خوبصورت تحریر ہے یہ جناب کی پڑہ کی دِل خوش ہوگیا۔ جمہوری تسلسل کو جِس خوبصورتی سے اپ نے بیان کیا ہے اس سے بہتر اور آسان تشریح مُمکِن ہی نہیں ہے۔
میں بس جند گُزارشات کرنا چاہوں گا۔ آج کی دُنیا میں ہر کام کا ایک طے شُدہ طریقہ کار ہے ۔اور اُسی کو فالو کرنے سے ہی بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جمہوریت ریاستی امور چلانے کا سب سے بہتر نِظام تصور کیا جاتا ہے ۔ جِن اقوام نے اِس نظام کو اپنا بہت تجربات سے گُزرنے کے بعد اُس کے اصول و ضوابط طے کر کے اُسے بہترین شکل عطا کر دی ہے ۔ ہماری مزبہی کِتاب میں حُکم دیا گیا ہے کہ اِسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجا و مطلب جِس بھی نظام کو اپنایا جائے تو مُکمل حالت میں اپنانے سے ہی بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہی اصول جمہورت کے بارے میں ھی اپنانے کی ضرورت ہے۔ تجربات درکار نہیں ہہں وِژن اور نیک نیتی کی ضرورت ہے۔
آپ کرکٹ ہی کی مِثال لے لیں۔ کھیل پر مہارت کے لئے نیت پریکٹس کی جاتی ہے اور پھِر اُس نیت پریکٹس کے بعد بہترین کھِلاری اگلے لیول میں پہنچتے ہیں۔ اور پھِر ایک ٹیم تیار ہوتی ہے۔بہت سادہ سی بات ہے کہ گراس روٹ لیول پر کام کی ضرورت ہے۔ اور اس پر کام کئے بغیر نہ ہی ہمیں جمہوریت کی سمجھ آئے گی اور نہ ہی اِس کےفوائد ہم جان پائیں گے۔ نہ جانے کیوں ہم لوگ یہ بات ماننے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ مشرف کا دیا ہوا لوکل باڈی سِسٹم ایک بہت بڑا قدم تھا جمہوری طرِز حکومت کو سمجھنے میں۔ پرویز اِلہی لاکھ بُرا سہی مگر اُس نے یہ سِسٹم چلا کر بھی دِکھایا۔ اور مل بیٹھ کر لوٹنے کے طریقے دریافت کئے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عوامی شعور بھی بڑی تیزی سے بیدار ہونے لگا۔ پہلے چار سال کے بعد دوسرے چار سال بھی گُزرے لوگوں میں بہتر فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہونےلگی۔ (میں اِس دور کے کچھ ذاتی تجربات پھِر کبھی بیان کروں گا شائد پوسٹ کی صورت میں) مگر افسوس صد افسوس پھِر سے کمشنری نظام ہم پر مُسلط کر دیا ہے۔ کھوتی کھو میں گئی اور عوام گو میں۔ ایک بات جِس پر میں خاص طور پر زور دینا چاہتا ہوں۔ کہ ہماری سیاسی پارٹیاں دلیرانہ فیصلوں سے ڈرتی ہیں ۔ طاقت چند ہاتھوں میں محدود رکھنے میں ہی اپنی بقا جانتی ہیں۔ لیڈر شِپ کا کام عوام کی راہنمائی ہوتا ہے مگر ہماری بدقِسمتی ہے کہ لیڈر شِپ اپنا کام بہتر نہیں کرتی رہی۔ جِس کا نتیجہ آج بھی یہ ہے کہ ہم محض بطور تماشائی تو کھیل میں موجود ہیں مگر اِس کھیل کا حِصہ نہیں ہیں۔ ہم کِسی کو سیاست کا لارا جانتےہیں تو کِسی کو وِو رِچرڈز ہمارا کام بس اِنہی کی بیٹنگ سے محظوظ ہونا رہا گیا ہے۔ اِنہی کی تصوریریں ہم اپنےکمروں میں لگا کر جمہوریت سے اپنی محبت کا اِظہار کرتے ہیں اور مگر خود سے اِس کھیل کا حِصہ بننے بارےمیں سوچتے ہی نہیں۔ یہ المیہ ہے ہماری جمہوریت کا بہت بڑا المیہ۔

MAniFani نے فرمایا ہے۔۔۔

پتے کی بات کہی پیارے لالا، کوئی شک نہیں برادری ازم زہر قاتل ہے معاشرے کی ترقی اور سماجی بہبود لئے ( یہ اصلی والی سماجی بہبود ہے نا کہ محکمہ بہبود والی(

محمد سلیم نے فرمایا ہے۔۔۔

استاد محترم: پبلک اویئرنیس کا اس سے بہتر پیغام شاید ہی کوئی دے سکے۔ آپ کی تحریر (ان اللہ لا یغییروا بقوم - - - - ) کی جٹاکی تفسیر لگی۔

Rai Azlan نے فرمایا ہے۔۔۔

خدا گواہ ہے کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا....
حالیہ چند ہفتوں میں الیکشن کے حوالے سے جتنا مواد پڑھنے کو ملا اس میں سے یہ وال بہترین ترین بلکہ ایک اور ترین تھا. تسلسل براۓ نظام اور ووٹ کی اہمیت جس سادہ اور خوبصورت انداز میں بیان کی... زبردست

علمدار نے فرمایا ہے۔۔۔

حالات کے تناظر میں عمدہ تحریر بلکہ بہترین پیغام ہے۔

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

افسوس ان پر جو موروثی سیاست کو قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوئے پٹھان بازی لے گئے کپتان کا ساتھ دے گئے اور ہم پھر دغا دے گئے افسوس پنجابیو!!!

تبصرہ کیجیے