جولائی میں دھلائی

دسمبر میں اٹھنے والے درد  بارے ہم نے کچھ عرصہ پہلے  روشنی ڈالی تھی۔ جس میں ان تکالیف کا کما حقہ جائزہ لیا گیا تھا جو دسمبر میں دردیلی شاعری اور رومانٹک ناسٹلجیا  کا باعث بنتی ہیں۔ یہ وجوہات اگر بالکل درست نہ بھی ہوں تو پھربھی  کسی نہ کسی درجے پر ان کو حق بجانب سمجھا جاسکتا ہے۔   دسمبر تو تک بات قابل برداشت تھی لیکن ہم نے کچھ ایسی شاعری بھی دیکھی جس میں جولائی کو بھی اسی درجے میں گھسانے کی کوشش کی گئی تھی جو دسمبر کے ساتھ مخصوص ہے۔ برصغیر پاک وہند میں جولائی نام کا مہینہ ایسا ہے کہ محبوب تو ایک طرف رہا ، جسم پر موجود کپڑوں سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ جولائی میں اگر کسی چیز سے رومانس لڑایا جاسکتا ہے تو وہ صرف شکنجوی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ فحش حد تک مالدار ہوں اور پورا گھر سینٹرلی ائیرکنڈیشنڈ ہو اور بجلی کے لیے واپڈا کی محتاجی نہ ہو۔ لیکن ایسے ماحول میں یقین کریں کہ مڈل کلاسیوں والی محبت کا خیال بھولے سے بھی نہیں آتا۔ بلکہ جو خیالات آتے ہیں وہ بیان کرنے کی صورت میں یہ تحریر "پلے بوائے" میں چھپنے کے لائق ہوسکتی ہے۔
ہم شعراء کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ وہ جو کہنا چاہیں بلکہ جو آمد ہو اس کا اظہار کرنا ان کا حق ہے۔ لیکن شعراء کرام کو بھی  رب دا واسطہ ہے کہ جولائی جیسے مہینے کو رومانس سے جوڑ کے جو ظلم وہ کررہے ہیں اس کا خمیازہ آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ اس پر کہا جاسکتا ہے کہ  "اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی" پر  ذرا سوچیں تو سہی کہ جولائی کی حبس زدہ رات کو آپ چھپ چھپا کے محبوب سے ملنے نہر کے بنَے پر جاتے ہیں ۔ پسینہ دھاروں بلکہ تیز دھاروں کی شکل میں جسم کے ہر حصے سے نکل کر ہر جگہ پھیل رہا ہے۔  ایسی حالت میں محبوب سے جو زیادہ سے زیادہ رومانٹک گفتگو ممکن  ہے وہ یہی ہوسکتی ہے کہ ۔۔۔ ذرا اپنی چُنّی نال چل تے مار۔۔۔۔ یا پھر محبوب کو سوئمنگ آتی ہو تو نہر کے بنّے کے بجائے ملاقات نہر میں ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ اس کے لیے پھر آپ کو ایک جوڑا کپڑے اضافی لے کے آنے پڑیں گے۔  لیکن اس میں خطرہ یہ ہے کہ اگرآپ  نہر میں ڈیٹ مارتے پھڑے گئے تو آپ کی پھولی ہوئی لاش چھ سات کلومیٹر کے بعد کسی پل کے نیچے پھنسی ہوئی ملے گی۔۔ ہم نیک و بد حضور سمجھائے دیتے ہیں۔۔۔
جولائی میں رومانس ، فیصل آباد یا ملتان کی گرمی میں  اوورکوٹ پہن کے دوپہر کے وقت چہل قدمی کے مصداق ہے اور اس کے جو نتائج و عواقب ہوسکتے ہیں وہ کسی بھی متوسط ذہانت والے سے پوشیدہ نہیں ہیں۔  آپ کا بھیجہ الٹ سکتا ہے۔ لوگ آپ کو روڑے مارسکتے ہیں۔ آپ عامر لیاقت کو واقعی مذہبی سکالر تسلیم کرسکتے ہیں۔ مبشرلقمان میں آپ کو سقراط بولتا نظر آسکتا ہے۔  ذاکر نائیک کا خطاب سن کے آپ پر وجد طاری ہوسکتا ہے ۔  شاہد آفریدی کو اصلی والا کرکٹر سمجھ سکتےہیں۔  عمران خان کو سیاستدان سمجھ سکتے ہیں۔   شیخ رشید کا ٹاک شو سن سکتے ہیں۔  زید حامد کا خطاب  ہنسے بغیر دیکھ سکتے ہیں اور ایسی ہی بے شمار چوّلیں جو الا ماشاءاللہ آپ بھی بخوبی جانتےہوں گے۔
جولائی کو رومانٹسائز کرنےکا  نقصان یہ ہے کہ نوجوان نسل رومانس سے ہی متنفر ہوجائے گی اور اس کا نتیجہ تو آپ سمجھتے ہی ہیں کہ کیا ہوسکتا ہے۔ بنی نوع انسان کا مستقبل خطرے میں پڑجائے گا۔ لو گ رومانس کرنے کی بجائے لُڈّو کھیلنے کو ترجیح دینے لگیں گے اور لُڈّو میں تو آپ کو پتہ ہی ہےکہ  زیادہ سے زیادہ "چھکاّ" ہی مل سکتا ہے۔ بہرکیف، جولائی میں نوجوان نسل کو رومانس کی جانب ورغلانے سے بہتر ہے کہ ان کو کچھ ایسے کاموں کی اُشکل دی جائے جو جولائی سے مطابقت رکھتے ہوں۔
مثلا ہدوانے سمیت نہر میں نہانا، اور جب ہدوانے اور باقی اعضاء یخ ٹھنڈے ہوجائیں تو کنارے پر بیٹھ کر ہدوانا نوش جاں کرنا۔  برف والے پھٹّے کے قریب  بلکہ اس کے نیچے بیٹھ کر تاش کھیلنا۔   فل اے سی والے سینمے میں فلم دیکھنا ۔۔ علی ہذا القیاس۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
Comments
9 Comments

9 تبصرے:

علی نے فرمایا ہے۔۔۔

ہاہاہاہا
بجا فرمایا استاد جی
جولائی کی خرابی تو کوئی ہم سے پوچھے جو ایسٹونیا کو چھوڑ کر ملتان بھاگتے چلے آئے

جوانی پِٹّا نے فرمایا ہے۔۔۔

جس جولائی شاعری کے سبب اس تحریر کا نزول ہوا، وہ بھی مینشن کر دیں۔

Abrar Qureshi نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ شاعر کونسا تھا جس نے جولائی کو رومانسنے کی کوشش کی؟ بڑا کوئی تسا ہوا شاعر تھا اور یقیناً رومانس کے تقاضے ایسے ہی پورے کرتے ہونگے "محبوب کے پسینے سے آتی ہے بوئے حنا" یا "پسینہ جو تیرا ٹپکا ہے یہاں وہاں، روشن کردیا اس نے میرا جہاں" :پ ہمیشہ کی طرح اعلیٰ تے ودھیا

Dohra Hai نے فرمایا ہے۔۔۔

۔" برصغیر پاک وہند میں جولائی نام کا مہینہ ایسا ہے کہ محبوب تو ایک طرف رہا ، جسم پر موجود کپڑوں سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ جولائی میں اگر کسی چیز سے رومانس لڑایا جاسکتا ہے تو وہ صرف شکنجوی ہے"۔بہت اعلی اُستاد جی ۔

کائناتِ تخیل نے فرمایا ہے۔۔۔


جولائی میں دھلائی ایک گھریلو خاتون کے لیے بہت ہی رومانٹک عنوان ہے ۔
جس نے یکدم چونکنے پر مجبور کر دیا کہ کس نے یہ اندر
کی بات عیاں کر دی ۔ واقعی جولائی میں "کپڑوں کی" دھلائی سے بڑھ کر رومانس اور کوئی
نہیں ۔ نہ صرف میلے کپڑوں کی دھلائی بلکہ اپنی بھی خوب ترائی ۔ ہر موسم رومانس کا ہے بس دیکھنے والی آنکھ ہونی چاہیے۔

خالد حمید نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت خوب۔۔۔ جولائی میں تحریر سے ٹھنڈ پڑ گئی سرکار

وحید سلطان نے فرمایا ہے۔۔۔

اگر جولائی بھی دسمبر کی طرح بیہیو کرنا شروع ہوجائے تو دسمبر کی اپنی حیثیت کم ہوجاتی ہے۔
شائد جولائی کو رکھا ہی دسمبر کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے ہے۔
اور محبت والوں کیلئے تو جولائی دسمبر میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

جولائی کے مہینے میں رامانٹک شاعری یقینا جوید چودهری نے سویٹزرلینڈ میں بیٹه کے لکهی ہوگی...
بہت اعلی پوسٹ لکهی ہوئی ہے جناب...

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

عاطف سعید کی ایک نظم جولائِ کی شان میں پڑھی تھی، جہاں تک چودری صیب کا تعلق ہے، ان کو جو واحد شاعری آتی ہے وہ ۔۔۔لپّے آتی ہے دعا بن کے ملک ریاض میری۔۔ ہے

تبصرہ کیجیے