پاگل پن کی سرحد

سکول سے آزادی ایک ایسا خواب تھا جو ہم نے نرسری سے ہی دیکھنا شروع کردیا تھا۔ اس خواب کی تعبیر بہرحال دسویں پاس کرنے کے بعد ہوئی۔ کالج  کی سہانی اور دلفریب کہانیاں سن سن کے ہمیں یوں لگنے لگا تھا کہ جیسے ہماری زندگی کا مقصد ہی کالج جانا ہے اور ہمیشہ وہیں رہناہے۔ ہمیشہ رہنا والا کام ہم تو نہیں کرسکے لیکن کچھ ایسے کرداروں سے ضرور ملے جو اس پر بڑی ثابت قدمی سے قائم تھے۔  گورنمنٹ کالج دھوبی گھاٹ، جو اب ایک یونیورسٹی بن چکا ہے، فیصل آباد کا سب سے اچھا کالج مانا جاتا تھا۔ تو ایک سہانے دن ہم کنگھی پٹی کرکےداخلہ فارم لینے کالج پہنچ گئے۔ قطار میں لگ کے فارم لیتے ہوئے ہمیں تقریبا ایک گھنٹہ لگ گیا۔  فارم لینے کے بعد ہم کالج سے نکل ہی رہے تھے کہ اچانک ایک شور سا ہوا اور اس کے بعد ٹھائیں ٹھائیں کی آوازیں آنے لگیں۔ ہم نے سوچا کہ شب برات تو ابھی کافی دور ہے اور صبح صبح کوئی برات بھی نہیں آسکتی  اور  وہ بھی کالج میں،  تو یہ پٹاخوں کی آوازیں کہاں سے آرہی ہیں؟ بہرحال باقی خلقت کے ساتھ ہم بھی بھاگ کھڑے ہوئے  اور کالج کے باہر کھڑے ہجوم میں شامل ہوگئے کہ اصل ماجرے کا پتہ چل سکے۔ لیکن ہجوم سے اصل بات کا پتہ کبھی نہیں لگتا، ہر کسی کے پاس اپنی کہانی اور اس کے حق میں دلیلیں ہوتی ہیں، ہم بور ہو کر  وہاں سے چمپت ہوگئے۔
ہمارا داخلہ ہوگیا اور ہم باقاعدہ کالجیٹ بن گئے۔ اس پہلے دن کی اصل کہانی بعد میں پتہ چلی۔ اس دن حافظ شعیب عامر کو ٹانگ میں سات گولیاں ماری گئیں۔ جی ہاں ۔۔ سات۔ حافظ صاحب ہمارے کالجیٹ ہونے سے پہلے جمعیت کے ناظم تھے۔ کسی اختلاف پر جمعیت سے الگ ہو کے ایم ایس ایف میں شامل ہوگئے ۔ یہ اسی کا شاخسانہ تھا۔ اس اختلاف کی کہانی بھی سننے لائق ہے، لیکن وہ پھر کبھی سہی۔  یہ نوے کی دہائی کا آغاز تھا۔ تعلیمی ادارے ، قبائلی علاقوں کا نقشہ پیش کرتے تھے۔ ہم نے اس دور میں اپنی گناہگار آنکھوں سے ایسےایسے ہتھیار دیکھے جو سوائے ہالی ووڈ کی ایکشن فلموں کے دوبارہ کہیں نظر نہیں آئے۔ حافظ صاحب کی ایم ایس ایف میں ہجرت کے بعد کالج میں ایم ایس ایف کا راج مکمل ہوگیا اور جمعیت کا تقریبا صفایا ہوگیا۔ کیسے عظیم طالب علم رہنما تھے۔ ۔۔ صدیق بسرا،   امین گجر،  ٹیپو،  جمال عبدالناصر سینڈو، ۔۔ کینٹین کے سامنے  گراسی پلاٹ پر یہ سب عظیم رہنما تشریف فرما ہوتے تھے۔ میز پر سجے انواع و اقسام کے ہتھیار اور بوتلیں۔ ٹیپو اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے تھوڑی دیر بعد اپنی بار ہ بور اٹھا کے ایک ہوائی فائر داغ دیتے تھے۔ جس سے کالج کی بور اور پرسکون فضا میں ایک زندگی کی لہر دوڑ جاتی تھی، لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ۔۔۔ یہ سب دن دہاڑے اور سر عام ہوتا تھا۔ یہ سب طالب علم رہنما کبھی حصول علم کے لیے کسی کلاس میں نہیں دیکھے گئے اور نہ ہی کسی کی جرات ہوتی تھی کہ ان سے استفسار کرسکے کہ بھیا، یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے؟
یہ سب عظیم طالب علم رہنما اپنے اپنے علاقے کے "جگّے " گنے جاتے تھے۔   سید طاہر علی شاہ جو اس وقت ایم پی اے تھے اور کالج کے بالکل ساتھ ہی ان کی رہائش گاہ تھی، ان کی سرپرستی میں ایم ایس ایف کا کالج پر ایسا قبضہ تھا جیسے کسی دور میں کراچی پر بھائی لوگوں کا تھا۔  جمعیت والے کالج میں برائے نام تھے اور جو تھے وہ بھی خالص غیر عسکری، نظریاتی قسم کے بھوندو،  جیسے کہ ہم۔ جو اس دور میں بھی فرسٹ ائیر میں ہوتے ہوئے ، جمعیت کا بلِاّ اپنے سینے پر سجائے احمقانہ شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کالج جایا کرتے تھے ۔  یہ بندوبست زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا۔ جڑانوالہ کالج سے مائیگریٹ کرکے جمعیت کے ایک سپہ سالار کو یہاں لایا گیا۔ یوسف چٹھہ، اٹھارہ انیس سال کی عمر، مضبوط جسم ،  دلیر،  اور سونے پر سہاگہ جٹکا دماغ۔ اس سپہ سالا ر نے وہ کارنامے انجام دئیے جو ہمارے فوج کا کوئی سپہ سالا ر آج تک سرانجام نہیں دے سکا۔  زرعی یونیورسٹی سے افرادی کمک اور چنیوٹ بازار کے مرکز سے مادی مدد  کے بل بوتے پر ایم ایس ایف کو کالج سے مار بھگایا گیا۔ جتنی آسانی سے ہم نے یہ بیان کیا ہے ، یہ سب کام اتنی آسانی سے نہیں ہوا۔ مورچہ بند ہوکے دو دو دن جنگ ہوتی رہی جس میں سوائے راکٹ لانچر اور ہینڈ گرینیڈ کے ہر ہتھیار استعمال ہوا۔ بہت سے لوگ زخمی ہوئے  جن میں یہ خاکسار بھی شامل تھا، بہت دن کالج بند رہا اور ہمارا ایک ہم جماعت گلشن کالونی کے گلستان روڈ پر امین گجّر کی چلائی ہوئی گولی کا نشانہ بھی بنا۔ اس کا قصور صرف جمعیت کا حامی ہونا تھا۔ حامی بھی صرف نظریاتی۔ بہت پڑھاکو قسم کا لائق بچہ۔ اس کی موت کو جماعتیوں نے کیسے کیش کرایا وہ بھی ہمیں یاد ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے چھ سات بسیں بھر کے آئیں حافظ ادریس نے اس کی نمازہ جنازہ پڑھائی۔ اور اس سڑک کا نام بھی نعیم شہید روڈ رکھنے کا مطالبہ کیا۔
امین گجّر اس سے دو سال بعد کوکیانوالہ کی ویران سڑک پر قتل ہوا۔ اسے مارنے والے جماعتیے نہیں تھے،  ات خدا دا ویر کے مصداق ، اس کے بہت سے ویری تھے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ مرنے سے پیشتر وہ پانی پانی پکارتار ہا لیکن کوئی ڈر کے مارے اس کے قریب نہیں جاتا تھا۔  اس قتل کے ملزمان میں جو لوگ نامزد تھے، ان میں ایم ایس ایف کی ساری قیادت شامل تھی۔ رمضان کے دن تھے، گلبرگ تھانے کی چھت پر شام کو کلف لگے کاٹن کے سوٹ، رے بان کی عینک اور اجرک لپیٹے ، صدیق بسرا کو  آتے جاتے سب دیکھتے تھے ۔ یہ ملزمان اکثر شام کو موٹر سائیکل پر باہر گھومتے بھی دیکھے جاسکتے تھے، لیکن شریف خواتین کی طرح، چاہے دو بج جائیں، تین بج جائیں، سوتے تھانے میں آکے ہی تھے۔
ہمارا جمعیت سے تعلق ایف ایس سی تک ہی رہا۔ کاروباری خاندان سے ہونے کے باعث ہم پرچے کروانا اور پیشیاں بھگتنا افورڈ نہیں کرسکتے تھے اور ان دوسالوں میں ہم نے ہاتھ پیر بچا کے ہر طرح کی سرگرمی میں سرگرم حصہ لیا ۔ خوش قسمتی سے کبھی سرکاری کاغذوں میں نام نہیں چڑھا۔ مزید خوش قسمتی سے ہمیں عقل آگئی۔ یہ سمجھ میں آیا کہ کفر و اسلام کی جنگ نہیں بلکہ مفادات کی جنگ ہے۔ کردار کا فرق البتہ ہے ۔ ہم جن جماعتیوں کو جانتے تھے، ان میں سوائے جنگجو ہونے کے کوئی خرابی نہیں تھی، اور جنگجو ہونا بھی اس معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔ کیونکہ ہم نے قوم کے لاشعور میں ۔۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔۔ کا محاورہ نقش کردیا ہے۔ جماعتیے شرابی نہیں تھے، زانی نہیں تھے، ڈکیتیاں نہیں کرتے تھے، جگّا ٹیکس نہیں لیتے تھے۔ ہاں، ٹانگیں توڑ دیتے تھے۔  بڑی واضح ہدایات ہوتی تھیں کہ گولی ہمیشہ ٹانگ پر مارنی ہے، بندہ نہیں مارنا۔غلط یا درست، ایک نظریہ کے لیے یہ سب ہوتا تھا۔ جبکہ دوسری طرف صرف طاقت اور اس کے نتیجے میں ملنے والے فائدے مدّنظر ہوتے تھے۔ 
پاکستان اب میرے لیے ایک اجنبی جگہ ہے۔ جو کچھ بھی یہاں ہوتا ہے یا ہورہا ہے میں اس سے کسی بھی طرح خود کو ریلیٹ نہیں کرسکتا۔ کُتّے، شہید اور عابد شیرعلی ، رہنما کہلاتے ہیں۔  جمعیت نے چند دن پہلے لاہور میں جو کچھ کیا ، وہ ہمارے قومی کردار کی ایک کلاسک مثال ہے۔ ہم پاگل پن کی سرحد عبور کرچکے ہیں۔

 اب یہاں جو بھی ہو، کم ہے۔
Comments
21 Comments

21 تبصرے:

عمران اقبال نے فرمایا ہے۔۔۔

جیسے کسی دور میں کراچی پر بھائی لوگوں کا تھا۔۔۔۔
(تو کیا اب وہ دور ختم ہو گیا ہے۔۔۔؟؟؟)

جمعیت نے چند دن پہلے لاہور میں جو کچھ کیا ، وہ ہمارے قومی کردار کی ایک کلاسک مثال ہے۔ ہم پاگل پن کی سرحد عبور کرچکے ہیں۔
(پاگل پن ہی نہیں، کُت پنے اور کمینگی کی بھی سرحدیں عبور کی جا چکی ہیں۔۔۔ عرصہ ہی ہو گیا ہے۔۔۔)

خوش قسمتی سے ہمیں عقل آگئی۔
(واقعی۔۔۔؟؟؟ سچ بتائیں۔۔۔!!! تو پھر اب تک نورے کے پیچھے کیسے لگے ہوئے ہیں۔۔۔؟؟؟)

:D :D :D


Mudassir Iqbal نے فرمایا ہے۔۔۔

Excellent narration with the memory that always supports the story..Humour and Sarcasm at its best... Wish you Good Luck Jafar Sahab...

خلیل احمد نے فرمایا ہے۔۔۔

ابھی نظریات کی تو کوئی بات ہی نہیں صرف اپنی پگ اونچی رکھنے کا پاگل پن ہے کالجز میں

مہتاب نے فرمایا ہے۔۔۔

جماعتیے شرابی نہیں تھے، زانی نہیں تھے، ڈکیتیاں نہیں کرتے تھے، جگّا ٹیکس نہیں لیتے تھے۔ ہاں، ٹانگیں توڑ دیتے تھے۔
بھائی اب تو شراب کی خالی بوتل بھی برامد کر لی ہے پنجاب پولیس نے، اب کیا کہیں گے

Ali Warsi نے فرمایا ہے۔۔۔

ابّاتو کہتے هیں کہ ان کا زمانہ بہت بہتر تها. آپ کا بلاگ پڑه کے ابّا کے سارے جهوٹوں کے پول کهل گئے

یاسر خوامخواہ جاپانی نے فرمایا ہے۔۔۔

اور جنگجو ہونا بھی اس معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔ کیونکہ ہم نے قوم کے لاشعور میں ۔۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔۔ کا محاورہ نقش کردیا ہے۔
اور اس معاشرے کے نکلے ہوئے تہذیب یافتہ معاشرے میں بھی آپس میں حالت جنگ میں ہی رہتے ہیں۔

WAIK نے فرمایا ہے۔۔۔

پہلے گولی کلچر کی سرپرستی تھی تعلیمی اداروں میں اب گالی کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔۔۔۔
What the Hell
What the FK
etc .. etc ...

MAniFani نے فرمایا ہے۔۔۔

اختلافی نوٹ اک پاسے"" باقی عمدہ لکھا اور نقشے کی لکیریں بھی خوب کھینچی ہیں۔ ودیا استاد

ali نے فرمایا ہے۔۔۔

ملتان کے بوسن روڈ کالج میں میں بھی ایسا ہونا قبول فرمائیے تاہم اب کالج میں سکون ہے اور غنڈہ گردی بہاالدین زکریا یونیورسٹی میں منتقل ہو گئی ہے۔

Rai Azlan نے فرمایا ہے۔۔۔

تبصرہ لکھنے کو جو کچھ ہے وہ اگر یہاں لکھ دیا تو اپنے بلاگ واسطے کچھ نہ بچے گا مرشد اجازت دیں تو وہیں لکھ دوں

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

Nice post bhai

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

استاد بہت عمدہ لکھا ... ہماری دلی ہمدردیاں جمعیت کے ساتھ ہیں اس لیئے کمنٹس نہیں کریں گے

Dohra Hai نے فرمایا ہے۔۔۔

اُستاد نے اپنے خوبصورت الفاط میں حقیقت بیان کی ہے ۔ باِلکُل اِسی انداز میں ہمیں چلایا جارہا اور ہم ۔۔۔۔ اُستاد کا معاشرے پر اِنتہائی منفی اثترات ڈالتا ہوا یہ فِقرہ ہم پاگل پن کی سرحد عبور کر چُکے ہیں ۔ دِل نہیں مانتا ،دِل نہین چاہتا مگریہ حقیقت کا جھُٹلانا بھی اب مُمکِن نہیں رہا۔ ہمارے سرکاری تعلیمی اِداروں میں عِلم کے نام پر تریبیت کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں اور ہماری پرائویٹ یونیورسٹیز نئی نسل کو تعلیم کا زیور پہنانے کی بجائے ڈگریاں بیچ کر اپنی تجوریوں میں سُنیاروں دُکانیں بھرنے میں مصروف ہیں۔ اِنسان اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے مگر اِدھر ہماری غلطیاں کُچھ سانس لیں تو ہم سیکھنے کی بھی باری آئے

sam نے فرمایا ہے۔۔۔

Behtren likhari hn ye, bht umda tareqe se apne khayalat ko pesh krte hn, readers ko blog me bandhne ka gur ata hy..baki mjy koi idea ni k colleges me is kadar ghunda gardi hy ...ye lamh a fikriya hy

Lafanga نے فرمایا ہے۔۔۔

Tusi zara jaldi Govt College Chalay gaey. Hamaray zamanay main jatay tau mazay aa jatay.. Titliyoon k sath parhtay aap.. Jang nahi Muhabbat kartay :)

ڈاکٹر جواد احمد خان نے فرمایا ہے۔۔۔

بدقسمتی سے جہاد افغانستان کے چند ایسے اثرات اسلامی جمعیت طلبہ پر آئے کہ جو نہیں آنے چائیے تھے۔
آج جو تعلیمی اداروں میں مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے باریش طلبہ اپنے دین پر فخر کرتے اور دین کی دعوت دیتے جو آپ کو نظر آرہے ہیں وہ طالبان ، تبلیغی جماعت یا کسی اور کے اسٹینڈ کا نتیجہ نہیں بلکہ اسلامی جمعیت طلبہ کی الحاد اور مادہ پرستتی کے خلاف جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
جامعہ پنجاب میں جو ہوا اس میں جمعیت کس حد تک قصور وار تھی اس پر آپ روشنی ڈال دیتے تو تحریر سے انصاف پوجاتا۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

عمران: پہلے مکمل قبضہ تھا، اب دوسرے فریق بھی میدان میں ہیں۔ نورے سے ہمیں شدید و سخت محبت ہے ۔۔ اس لیے :ڈ
مدثر اقبال: بلاگ پر خوش آمدید جناب۔ پسندیدگی کا شکریہ۔ خوش رہیے۔
خلیل: اب ہمارا ایک ہی نظریہ ہے۔ روکڑا۔
مہتاب: پولیس نے استاد دامن کے حجرے سے ہینڈ گرینیڈ بھی برآمد کرلیے تھے
یاسر: ایسا ہی ہے۔ کوئی اور نہ ملے تو ہوا میں تلواریں چلاتے رہتے ہیں
علی زیدی: عام طلباء کے ساتھ ان کا رویہ واقعی بہت بہتر ہوتا تھا، اب کا نہیں پتہ۔
وایک: بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ۔ یہ گالی کا برگر کلچر تو اب ہر جگہ فروغ پارہا ہے
عمران اسلم: اختلافی نوٹ سے زیادہ دلچسپی ہے مجھے۔ ضرور لکھیے۔
علی: ملتان ، بوسن روڈ۔۔۔ اچھا جی۔۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

رائے ازلان: مصنف کی پوسٹ کا انتظار رہے گا
عظیم: شکریہ جناب
عبدالمنان: یہ تو آپ زیادتی کریں گے۔ اپنا نکتہ نظر ضرور لکھیں تاکہ درستگی کا موقع ملے۔
دہرا ح: آپ کو تقریر کرنے کا موقع ملنا چاہیے بس :ڈ۔
لفنگا: میں نے بھی کافی کہانیاں سنی ہیں کہ کیسے مخلوط تعلیم کے نام پر اساتذہ نے اپنے لچ تلے ہیں۔
ڈاکٹر جواد: آپ نے جن باتوں کی نشاندھی کی وہ درست ہیں۔ اصل وجوہات جو بھی ہوں، لیکن گھیراو جلاو کی حمایت کرنا بہت مشکل ہے میرے لیے۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

سام: اتنے سارے تعریفی الفاظ کے لیے بہت بہت شکریہ۔ اب کیا صورتحال ہے تعلیمی اداروں میں ، میں اس سے ناواقف ہوں، لیکن آپ کی بات درست ہے۔۔ ہم اپنا مستقبل داو پر لگا رہے ہیں۔ اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں۔

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

ہمیشہ کی طرح بہت اچھا لکھا ہے، لیکن یہ معاملہ اتنا گھمبیر ہو چکا ہے کہ ہم تو کچھ کمنٹ کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں،
لکھتے رہا کریں۔۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

گمنام: جی بہتر، لکھنے کے علاوہ کچھ آتا بھی نہیں ہے۔ آپ بھی نام لکھ دیا کریں تو پتہ چلے کہ ہمارے گمنام مہربان کون ہیں۔

تبصرہ کیجیے