پاگل پن کی سرحد

سکول سے آزادی ایک ایسا خواب تھا جو ہم نے نرسری سے ہی دیکھنا شروع کردیا تھا۔ اس خواب کی تعبیر بہرحال دسویں پاس کرنے کے بعد ہوئی۔ کالج  کی سہانی اور دلفریب کہانیاں سن سن کے ہمیں یوں لگنے لگا تھا کہ جیسے ہماری زندگی کا مقصد ہی کالج جانا ہے اور ہمیشہ وہیں رہناہے۔ ہمیشہ رہنا والا کام ہم تو نہیں کرسکے لیکن کچھ ایسے کرداروں سے ضرور ملے جو اس پر بڑی ثابت قدمی سے قائم تھے۔  گورنمنٹ کالج دھوبی گھاٹ، جو اب ایک یونیورسٹی بن چکا ہے، فیصل آباد کا سب سے اچھا کالج مانا جاتا تھا۔ تو ایک سہانے دن ہم کنگھی پٹی کرکےداخلہ فارم لینے کالج پہنچ گئے۔ قطار میں لگ کے فارم لیتے ہوئے ہمیں تقریبا ایک گھنٹہ لگ گیا۔  فارم لینے کے بعد ہم کالج سے نکل ہی رہے تھے کہ اچانک ایک شور سا ہوا اور اس کے بعد ٹھائیں ٹھائیں کی آوازیں آنے لگیں۔ ہم نے سوچا کہ شب برات تو ابھی کافی دور ہے اور صبح صبح کوئی برات بھی نہیں آسکتی  اور  وہ بھی کالج میں،  تو یہ پٹاخوں کی آوازیں کہاں سے آرہی ہیں؟ بہرحال باقی خلقت کے ساتھ ہم بھی بھاگ کھڑے ہوئے  اور کالج کے باہر کھڑے ہجوم میں شامل ہوگئے کہ اصل ماجرے کا پتہ چل سکے۔ لیکن ہجوم سے اصل بات کا پتہ کبھی نہیں لگتا، ہر کسی کے پاس اپنی کہانی اور اس کے حق میں دلیلیں ہوتی ہیں، ہم بور ہو کر  وہاں سے چمپت ہوگئے۔
ہمارا داخلہ ہوگیا اور ہم باقاعدہ کالجیٹ بن گئے۔ اس پہلے دن کی اصل کہانی بعد میں پتہ چلی۔ اس دن حافظ شعیب عامر کو ٹانگ میں سات گولیاں ماری گئیں۔ جی ہاں ۔۔ سات۔ حافظ صاحب ہمارے کالجیٹ ہونے سے پہلے جمعیت کے ناظم تھے۔ کسی اختلاف پر جمعیت سے الگ ہو کے ایم ایس ایف میں شامل ہوگئے ۔ یہ اسی کا شاخسانہ تھا۔ اس اختلاف کی کہانی بھی سننے لائق ہے، لیکن وہ پھر کبھی سہی۔  یہ نوے کی دہائی کا آغاز تھا۔ تعلیمی ادارے ، قبائلی علاقوں کا نقشہ پیش کرتے تھے۔ ہم نے اس دور میں اپنی گناہگار آنکھوں سے ایسےایسے ہتھیار دیکھے جو سوائے ہالی ووڈ کی ایکشن فلموں کے دوبارہ کہیں نظر نہیں آئے۔ حافظ صاحب کی ایم ایس ایف میں ہجرت کے بعد کالج میں ایم ایس ایف کا راج مکمل ہوگیا اور جمعیت کا تقریبا صفایا ہوگیا۔ کیسے عظیم طالب علم رہنما تھے۔ ۔۔ صدیق بسرا،   امین گجر،  ٹیپو،  جمال عبدالناصر سینڈو، ۔۔ کینٹین کے سامنے  گراسی پلاٹ پر یہ سب عظیم رہنما تشریف فرما ہوتے تھے۔ میز پر سجے انواع و اقسام کے ہتھیار اور بوتلیں۔ ٹیپو اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے تھوڑی دیر بعد اپنی بار ہ بور اٹھا کے ایک ہوائی فائر داغ دیتے تھے۔ جس سے کالج کی بور اور پرسکون فضا میں ایک زندگی کی لہر دوڑ جاتی تھی، لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ۔۔۔ یہ سب دن دہاڑے اور سر عام ہوتا تھا۔ یہ سب طالب علم رہنما کبھی حصول علم کے لیے کسی کلاس میں نہیں دیکھے گئے اور نہ ہی کسی کی جرات ہوتی تھی کہ ان سے استفسار کرسکے کہ بھیا، یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے؟
یہ سب عظیم طالب علم رہنما اپنے اپنے علاقے کے "جگّے " گنے جاتے تھے۔   سید طاہر علی شاہ جو اس وقت ایم پی اے تھے اور کالج کے بالکل ساتھ ہی ان کی رہائش گاہ تھی، ان کی سرپرستی میں ایم ایس ایف کا کالج پر ایسا قبضہ تھا جیسے کسی دور میں کراچی پر بھائی لوگوں کا تھا۔  جمعیت والے کالج میں برائے نام تھے اور جو تھے وہ بھی خالص غیر عسکری، نظریاتی قسم کے بھوندو،  جیسے کہ ہم۔ جو اس دور میں بھی فرسٹ ائیر میں ہوتے ہوئے ، جمعیت کا بلِاّ اپنے سینے پر سجائے احمقانہ شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کالج جایا کرتے تھے ۔  یہ بندوبست زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا۔ جڑانوالہ کالج سے مائیگریٹ کرکے جمعیت کے ایک سپہ سالار کو یہاں لایا گیا۔ یوسف چٹھہ، اٹھارہ انیس سال کی عمر، مضبوط جسم ،  دلیر،  اور سونے پر سہاگہ جٹکا دماغ۔ اس سپہ سالا ر نے وہ کارنامے انجام دئیے جو ہمارے فوج کا کوئی سپہ سالا ر آج تک سرانجام نہیں دے سکا۔  زرعی یونیورسٹی سے افرادی کمک اور چنیوٹ بازار کے مرکز سے مادی مدد  کے بل بوتے پر ایم ایس ایف کو کالج سے مار بھگایا گیا۔ جتنی آسانی سے ہم نے یہ بیان کیا ہے ، یہ سب کام اتنی آسانی سے نہیں ہوا۔ مورچہ بند ہوکے دو دو دن جنگ ہوتی رہی جس میں سوائے راکٹ لانچر اور ہینڈ گرینیڈ کے ہر ہتھیار استعمال ہوا۔ بہت سے لوگ زخمی ہوئے  جن میں یہ خاکسار بھی شامل تھا، بہت دن کالج بند رہا اور ہمارا ایک ہم جماعت گلشن کالونی کے گلستان روڈ پر امین گجّر کی چلائی ہوئی گولی کا نشانہ بھی بنا۔ اس کا قصور صرف جمعیت کا حامی ہونا تھا۔ حامی بھی صرف نظریاتی۔ بہت پڑھاکو قسم کا لائق بچہ۔ اس کی موت کو جماعتیوں نے کیسے کیش کرایا وہ بھی ہمیں یاد ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے چھ سات بسیں بھر کے آئیں حافظ ادریس نے اس کی نمازہ جنازہ پڑھائی۔ اور اس سڑک کا نام بھی نعیم شہید روڈ رکھنے کا مطالبہ کیا۔
امین گجّر اس سے دو سال بعد کوکیانوالہ کی ویران سڑک پر قتل ہوا۔ اسے مارنے والے جماعتیے نہیں تھے،  ات خدا دا ویر کے مصداق ، اس کے بہت سے ویری تھے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ مرنے سے پیشتر وہ پانی پانی پکارتار ہا لیکن کوئی ڈر کے مارے اس کے قریب نہیں جاتا تھا۔  اس قتل کے ملزمان میں جو لوگ نامزد تھے، ان میں ایم ایس ایف کی ساری قیادت شامل تھی۔ رمضان کے دن تھے، گلبرگ تھانے کی چھت پر شام کو کلف لگے کاٹن کے سوٹ، رے بان کی عینک اور اجرک لپیٹے ، صدیق بسرا کو  آتے جاتے سب دیکھتے تھے ۔ یہ ملزمان اکثر شام کو موٹر سائیکل پر باہر گھومتے بھی دیکھے جاسکتے تھے، لیکن شریف خواتین کی طرح، چاہے دو بج جائیں، تین بج جائیں، سوتے تھانے میں آکے ہی تھے۔
ہمارا جمعیت سے تعلق ایف ایس سی تک ہی رہا۔ کاروباری خاندان سے ہونے کے باعث ہم پرچے کروانا اور پیشیاں بھگتنا افورڈ نہیں کرسکتے تھے اور ان دوسالوں میں ہم نے ہاتھ پیر بچا کے ہر طرح کی سرگرمی میں سرگرم حصہ لیا ۔ خوش قسمتی سے کبھی سرکاری کاغذوں میں نام نہیں چڑھا۔ مزید خوش قسمتی سے ہمیں عقل آگئی۔ یہ سمجھ میں آیا کہ کفر و اسلام کی جنگ نہیں بلکہ مفادات کی جنگ ہے۔ کردار کا فرق البتہ ہے ۔ ہم جن جماعتیوں کو جانتے تھے، ان میں سوائے جنگجو ہونے کے کوئی خرابی نہیں تھی، اور جنگجو ہونا بھی اس معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔ کیونکہ ہم نے قوم کے لاشعور میں ۔۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔۔ کا محاورہ نقش کردیا ہے۔ جماعتیے شرابی نہیں تھے، زانی نہیں تھے، ڈکیتیاں نہیں کرتے تھے، جگّا ٹیکس نہیں لیتے تھے۔ ہاں، ٹانگیں توڑ دیتے تھے۔  بڑی واضح ہدایات ہوتی تھیں کہ گولی ہمیشہ ٹانگ پر مارنی ہے، بندہ نہیں مارنا۔غلط یا درست، ایک نظریہ کے لیے یہ سب ہوتا تھا۔ جبکہ دوسری طرف صرف طاقت اور اس کے نتیجے میں ملنے والے فائدے مدّنظر ہوتے تھے۔ 
پاکستان اب میرے لیے ایک اجنبی جگہ ہے۔ جو کچھ بھی یہاں ہوتا ہے یا ہورہا ہے میں اس سے کسی بھی طرح خود کو ریلیٹ نہیں کرسکتا۔ کُتّے، شہید اور عابد شیرعلی ، رہنما کہلاتے ہیں۔  جمعیت نے چند دن پہلے لاہور میں جو کچھ کیا ، وہ ہمارے قومی کردار کی ایک کلاسک مثال ہے۔ ہم پاگل پن کی سرحد عبور کرچکے ہیں۔

 اب یہاں جو بھی ہو، کم ہے۔

تُوڑِی سائیں

جناح کالونی کو فیصل آباد میں وہی اہمیت حاصل ہے جو طالبان میں مُلا عمر کو ہے۔ اس اہمیت کی دو وجوہات ہیں۔ شیخ صاحبان کی کثیر تعداد اور ہوزری مارکیٹ۔ ہمارے ایک دوست تو جناح کالونی کا نام بگاڑ کے ایک کبیرہ گناہ کا نام لے کر آگے کالونی لگایا کرتے تھے اور اس کی وجوہات میں شیخ حضرات کی "ہم نصابی" سرگرمیوں کی تفصیلات بیان کیا کرتے تھے۔ ہمارے یہ دوست کافی واہیات تھے!۔
ہم نے اپنے پہلے سکول میں داخلے اور وہاں سے فرار کی داستان ایک دفعہ بیان کی تھی تو جب خاندانی اکابرین کو یقین ہوگیا کہ ہم اس سکول میں بٹنے والے علم سے اپنا حصہ حاصل کرنے پر تیار نہیں ہیں تو ہمیں ایک اور سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ یہ سکول کامل فاؤنڈیشن تھا (اب بھی ہے)۔ ہم روزانہ گرےنیکر، سفید اور نیلے چیک والی شرٹ، چمکتے ہوئے بوٹ، سفید 
جرابیں پہن کر ، بستہ گلے میں ڈال کر ، باؤ بن کر سکول جانا شروع ہوگئے۔ 
سکول سے چھٹی کے بعد ہم پیدل ہی اپنی دکان تک مارچ کرتے ہوئے پہنچ جاتے تھے کہ فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ اور وہاں ابّا کا انتظار کرتے تھے جو کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں کہیں نہ کہیں گئے ہوتے تھے۔ اس زمانے میں جرابیں اور بنیانیں، استری کرنے کے لیے دیسی ساختہ استریاں استعمال ہوا کرتی تھیں جو کافی وزنی ہوتی تھیں اور یہ کام کرنے والے پریس مین کہلاتے تھے۔ اس وقت شاید چار یا پانچ پریس مین ہماری دکان پر کام کرتے تھے۔ ان میں سے ایک تُوڑِی سائیں بھی تھے۔
نام تو ان کا عبداللطیف تھا لیکن پنجابی روایات کے عین مطابق یہ نام شاید ان کے نکاح کے وقت یا تو نکاح خواں نے لیا ہوگا یا ہمارے ابّا ان کو اس نام سے پکارتے تھے۔ باقی سب لوگوں کے لیے وہ "طیفا" بلکہ "طیفے اوئے " تھے۔ دھان پان، گھنگریالے بال، باریک لیکن لمبی مونچھیں جن کو وہ ہمیشہ بل دینے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔  سمن آباد میں کہیں رہتے تھے۔ اور سائیکل پر جب صبح دکان پر پہنچتے تو ان کی دھج دیکھنے والی ہوتی تھی۔ لمبی لڑیں چھوڑ کر باندھا ہوا لاچہ، بوسکی کا کرتہ، منہ میں پان اور ایمبیسی فلٹر کی ڈبّی ہاتھ میں۔
یہ تو ہمیں علم نہیں کہ ان کا نام تُوڑِی سائیں کس نے اور کیسے اور کیوں رکھا۔ لیکن ان کے قریبی دوست انہیں اسی نام سے پکارتے تھے۔ ہر مرد کو زندگی میں کسی نہ کسی بازی کی علّت ضرور ہوتی ہے۔ انہیں کبوتر بازی کی تھی۔ کبوتروں کی اقسام، ہر قسم کی امتیازی اور غیر امتیازی خصوصیات، کونسی خوراک کس نسل کو کھلائیں تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا، اور ایسی ہی بہت سی جزئیات۔ چاچا باریا (عبدالباری) جو طیفے کے ساتھ ہی کام کرتا تھا، اکثر چھیڑتے ہوئے کہتا تھا کہ۔۔ تُوڑی سائیں نیں اک دفعہ کبوتر اڑایا۔۔۔ دو سال ہوگئے ہالے تیکر واپس نی آیا۔۔ ایڈی لمبی پرواز اے اوہدی۔۔۔ کبوتر، تُوڑی سائیں کی وہ واحد دکھتی رگ تھی جہاں ان کی ساری خوش مزاجی ہوا ہوجاتی تھی۔ اپنے کبوتروں کے خلاف وہ کسی قسم کی کوئی بات سننے کے روادار نہیں تھے۔ 
کبوتروں کے سالانہ ٹورنامنٹ سے پہلے ان کی خوراک میں بادام پستے تک شامل کردئیے جاتے تھے۔ جیسے پرانے نواب حضرات قوت مردمی کے لیے حکیموں سے کشتے بنواتے تھے، ایسے ہی ان خوش قسمت کبوتروں کے لیے کشتے تیار کیے جاتےتھے۔ کیا زبردست زمانہ تھا کہ مزدور بھی سابقہ صدر مملکت والے شوق پورے کرسکتا تھا۔۔ بہر کیف ایک دفعہ ہمارے ابّا کے علم میں یہ بات آئی تو وہ بڑے رسان سے ، جیسی ان کی عادت ہے، طیفے کو کہنے لگے کہ، عبداللطیف، یہ پان سگریٹ چھوڑ کے ایسی خوراک تو خود کھانے لگے تو تیری صحت گامے پہلوان جیسی ہوجائے۔
تو ذکر ہمارے سکول سے شروع ہوا تھا۔ روزانہ جب ہم بستہ گلے میں لٹکائے، خراماں خراماں چلتے، دکان پر پہنچتے تو جو آواز سب سے پہلے ہمیں سنائی دیتی وہ طیفے کی ہوتی تھی۔۔ او ساڈا لنڈے دا باؤ آگیا۔۔ اگرچہ یہ بات ہمیں اتنی اچھی نہیں لگتی تھی بلکہ بالکل اچھی نہیں لگتی تھی لیکن ساری زندگی ہماری کوئی چھیڑ نہ پڑنے کی بڑی وجہ ہی یہ ہے، دوسروں سے پہلے ہم خود اپنا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں۔ طیفے نے جتنی دیر ہمارے ابّا کے پاس کام کیا، وہ ہمیں اسی نام سے پکارتے تھے۔
وقت گزر جاتاہے۔ یہی اس کی اچھائی اور برائی ہے۔ طیفے سے ہماری آخری ملاقات ایک دو سال پہلے ہوئی تھی۔ اپنے ایک دوست کے ساتھ جناح کالونی کا ایک ناسٹیلجک چکر لگارہے تھے کہ ایک دکان کے باہر طیفے کو پریس مشین کے سامنے کھڑے دیکھا، گاڑی رکوائی، ان کے پاس جا کر سلام کیا۔ بہت سا وقت گزر چکا تھا۔  لکھنو کے بانکوں جیسی چھب رکھنے والا طیفا اب ایک کمزور سا بوڑھا تھا۔ چند ثانیوں بعد ایک دم شناسائی کی چمک طیفے کی آنکھوں میں ابھری۔ او باؤ جی تسی۔۔۔ گرمجوشی سے گلے ملتے ہوئے اس نے آہستہ سے میرے کان میں کہا۔۔
لنڈے دا باؤ۔



چنگیزی قورمہ

عرصہ دراز سے ہم نے کوئی کھانے کی ترکیب نہیں لکھی، آخری ترکیب، ازمنہ قدیم میں کبھی لکھی تھی، جب دوست، دوست ہی تھے، دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے۔۔ والے دوست نہیں بنے تھے۔۔
ترکیب، چونکہ بڑی عید کے پر شکم موقع پر پیش کی جارہی ہے تو اس کے لیے کچھ خاص تردُّد نہیں کرنا پڑے گا۔ اجزاء درج ذیل ہیں۔
گائے کی اوجھڑی (بغیر صاف کی ہوئی) ایک عدد
چکّی دنبے کے کپورے۔۔ سترہ عدد
کٹّے کی زبان، چھ عدد
نمک، آدھا چائے کا چمچ
چینی، دو کلو
دار چینی، بالکل نہیں
ہلدی، (کھانے کے بعد پھانکنے کے لیے)
مرچ، جتنی آسانی سے لگ جائے
کیسٹر آئل، دو لٹر
گرائپ واٹر، تین بوتلیں
اوجھڑی، کپورے اور زبانیں (یہ احتیاط کریں کہ زبانیں زیادہ دراز نہ ہوں) کیسٹر آئل میں ڈال کر ہلکی آنچ پر نہ رکھیں۔ بلکہ اتنی تیز آنچ ہو کہ ۔۔ ان چیزوں سے ۔۔ پُج گئی میں پُج گئی ہووو۔۔ کی آوازیں آنے لگیں، جب جلنے کی بو آنے لگے تو گرائپ واٹر کی بوتلیں اڑا اڑا دھممم کرکے انڈیل دیں۔ اب آنچ ہلکی کریں اور دو گھنٹے تک ٹویٹنگ کریں۔ جس میں بچیوں کو جدید طریقے سے "ہراس" کرنے کے نئے طریقے ایجادتے ہوئے، انجائے کریں۔
دو گھنٹے بعد ڈھکن اٹھا کے اس میں باقی مصالحہ جات شامل کردیں۔ چینی ابھی شامل نہ کریں، بلکہ دوسرے چولہے پر اس کا شیرہ تیار کریں۔ جتنی دیر میں شیرہ تیار ہوگا، مصالحہ جات اور باقی اجزاء، رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی۔۔ کے مصداق یک جان وغیرہ ہوچکے ہوں گے۔ شیرہ، اس پتیلے میں ڈال کے، عمران خان کا تازہ ترین حسب حال والا پروگرام لگالیں اور آنچ اتنی ہو کہ ۔۔ نہ تو جیے نہ مرے۔۔ پروگرام ختم ہوتے ہی آپ کی یہ شپیشل مردانہ و زنانہ طاقت والی ڈش تیار ہے۔ 
بٹ نہ ہونے کی صورت میں کھانے سے پہلے ایک احتیاط ضرور کریں کہ یا تو اپنے محلے کے ڈاکٹر کو بھی مدعو کرلیں یا ایمبولینس کا نمبراپنی پہنچ میں رکھیں۔ 
باقی سب خیریت ہے 

ست ماہی انقلاب

سوشل میڈیا سے ہماری جان پہچان کو کافی مدت ہوچکی ہے۔ بلاگنگ سے شروع ہونے والا یہ سفر فیس بک سے ہوتا ہوا ٹوئٹر تک پہنچ چکا ہے۔ سیاست اور مذہب دو ایسے موضوع ہیں جن پر بولنا اور حتمی رائے دینا ہم سب کا فیورٹ ٹائم پاس ہے۔ ابّاجی چاہے جوا ءکراتے ہوں لیکن فقہ اور سیاست کے مسائل پر ہماری در فنطنیاں سننے کے لائق ہوتی ہیں۔ ٹیکس چور وں کی اولاد ، پارسائی کے نقاب چڑھائے ، عام عوام کی تشریف پر ایسے چھتّر رسید کرتی ہے کہ ان کی چانگڑیں ادھ اسمان تک جاتی ہیں۔ یہ سارے مظاہر تو سوشل میڈیا پر عام تھے ۔ لیکن دو سا ل قبل ایک ایسا دُم دار ستارہ اس افق پر ابھرا کہ اس نے تمام دوسرے ستاروں کی روشنیاں ماند کردیں۔ یہ تھے ، نئے انقلابیے، جن کے باوا آدم جنرل پاشا اور شو بوائے ، حضرت عمران خاں مدظلہ العالی تھے۔ جو پچھلے ہزاروں سال سے پاکستان میں انصاف لانے کے لیے کھجل ہوتے پھررہے تھے۔ اس جدوجہد میں ان کے بال اور بیوی دونوں ان کے ہاتھ سے نکل گئےتھے۔ لیکن بھلا ہو ۔۔ کہ حق مہر میں ان کو اتنا کچھ مل گیا کہ بال نقل بمطابق اصل اور پہاڑ پر ایک چھوٹی سی کُٹیا ، جھونگے میں مل گئی۔ جس کے سبزہ زار پر انکی نماز پڑھتے ہوئے ، تصاویر ، اکثر فیس بک کے، گریٹ خاں، خاں دی گریٹ، خان اعظم، جیسے ناموں والے پیجز پر اکثر اپ لوڈی جاتی ہیں اور نونہالان انقلاب کے دل کو بہلاتی ہیں۔
ہمارا قطعی کوئی پروگرام ان انقلابیوں یا ان کے کرتبوں پر لکھنے کا نہیں تھا، نہ ہی ہمیں سیاست سے کوئی ڈائی ہارڈ قسم کی دلچسپی ہے۔ لیکن آفرین ہے ان برگر بچوں پر کہ انہوں نے ہم جیسے نمانے کو بھی مجبور کردیا ہے کہ وہ برگر کا برگر اور پیپسی کی پیپسی کی کردے۔ آگے بڑھنے سے پہلے تین چار اصول ذہن نشین کرلیجیے۔ پہلا یہ کہ ہر شخص کی ذاتی زندگی اس کی اپنی ہوتی ہے، وہ اس میں جو مرضی کرے کسی کو اس پر اعتراض کا حق نہیں ۔ یہ اصول صرف خاں اعظم پر لاگو ہوتا ہے۔ دوسری بات کہ جب کوئی توبہ کرلے تو اس کے ماضی بارے بات کرنا گناہ کبیرہ ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ یہ اصول بھی صرف حضرت صاحب پر ہی لاگو ہوتا ہے۔ تیسرا اصول ، جو بھی کسی بھی پیرائے میں خاں صاحب یا پارٹی پالیسی(?) بارے مخالفانہ رائے کا اظہار کرے، وہ لفافہ، بکا ہوا، بے ایمان، ضمیر فروش، غدار، یہودیوں کا ایجنٹ، اب اس یہودیوں کے ایجنٹ والی کہانی بھی خوب ہے، پر وہ پھر کبھی سہی، وغیرہ وغیرہ ہوگا۔ اس کی ولدیت مشکوک ہوگی ۔ وہ انتہائی گھٹیا اور بدتہذیب وغیرہ ہوگا۔ علی ہذا القیاس۔ لوگوں کو یہ سب القابات دینے والے اسی نوزائیدہ انقلاب کے نونہال ہوتے ہیں۔
ہم نے انتخابات کے عرصے یا اس سے پہلے بھی ان باتوں کا کبھی ذکر نہیں کیا اور ہمیشہ خاں صاحب اور اس ست ماہی پارٹی بارے حسن ظن سے کام لیا۔ ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ جنہیں یہ برگر بچے سمجھنے سے قاصر ہیں، وہ البتہ الگ بات ہے۔ ایسی چھیڑ چھاڑ تو ہم اپنے معشوقوں سے بھی کرتے رہتے ہیں اور روایتی عاشقوں کی طرح جوتے کھانا ہمارا شیوہ نہیں۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، تو ہم یہ کہہ رہے تھے کہ اب چونکہ گرد بیٹھ چکی ہے۔ پارٹی گود سے اتر کر زمین پر "رڑنے " کی کوشش میں ہے تو اب اس کا مارجن آف ایرر اتنا زیادہ نہیں رہا۔ ہمیں احساس ہے کہ بت پرستی ہمارے جینز میں شامل ہے۔ ہم کسی کو انسان سمجھنے کے قائل نہیں۔ فرشتے اور شیطان کے درمیان کسی بھی سٹاپ پر ہم نہیں رک سکتے۔ عمران خان کی بہادری اور ان کی حماقت بارے ہمیں کبھی کوئی شک نہیں رہا۔ ان کی حماقت بھی بے مثل ہے اور ان کا چولیں مارنا بھی ۔ جب بھی وقت قیام آتا ہے ، خاں جی ، دھڑام سے سجدے میں گرجاتے ہیں اور جب سجدے کا وقت آتا ہے تو ایک امیدوار قومی اسمبلی کی ڈگری یاسند کی صفائیاں دینے میں اتنے مشغول ہوجاتے ہیں کہ لوگ باقاعدہ ان کا توا لگانا شروع کردیتے ہیں۔ لیکن حماقت کی حدوں کو چھوتی ہوئی ان کی بہادری کو کبھی اس کی پروا نہیں ہوئی۔ میں اپنے ایک دوست سے جو ایک انصافی ہیں، اکثر کہا کرتا ہوں کہ خاں صاحب، معشوق صفت ہیں جبکہ رہنما، عاشق صفت ہونا چاہیے۔ اس عمر میں بھی ان کے ٹشن دیکھ کے ایسا لگتاہے جیسے کسی ہالی ووڈ فلم کی شوٹنگ پر پہنچے ہوں، کمرے کے اندر بھی کالے شیشوں والی عینک ایسے لگا کے بیٹھے ہوتے ہیں جیسے "حافژ" صاحب ہوں۔ اس سے ہمیں وہ فوٹو یاد آگئی جس میں عائلہ پابی انتہائی پیار سے انہیں پانی کی بوتل پیش کررہی ہیں اور خاں جی کالے شیشوں کی عینک لگائے بُلیوں میں نمّا نمّا ہنس رہے ہیں۔ جیسے گونگی۔۔۔ چلیں چھوڑیں۔۔۔
تو اس حافژ صاحب والی فوٹو سے ہمیں ایک لطیفہ یاد آگیا کہ گاوں میں ایک ایسے ہی حافژصاب چوہدریوں کے گھر مٹھائی لے کے پہنچ گئے، چوہدرائن نے اندر بلا کے انہیں بٹھایا اور کہا کہ میں ذرا نہالوں ، آپ انتظار کرلیں ، چوہدرائن بڑے اطمینان سے نلکا گیڑ کے نہاتی رہی کہ حافژ جی کو کونسا نظر آتا ہے۔ نہانے سے فارغ ہونے کے بعد چوہدرائن نے حافژ جی سے پوچھا کہ یہ مٹھائی کس خوشی میں ہے تو حافژ نے نماّ نمّا ہنستے ہوئے کہا کہ ۔۔ میری بینائی واپس آگئی ہے۔۔۔ ہیں جی۔۔
سوشل میڈیا کے یہ پارسا مجاہد، آپ کی ماں بہن ایک کرتے ہوئے ایک لمحہ بھی نہیں لگاتے۔ کسی کی لطیف بات کا جواب بھی ایسے دیتے ہیں جیسے وہ ارائیں اور جاٹ والے لطیفے میں ہوا تھا کہ۔۔ رلیا نئیں تے۔۔۔ ان کو ہر مخالف کو اس حرف تہجی پر چڑھانے کا شوق ہوتا ہے جو ہمارے عزیز من ،مولبی صاحب کا انتخابی نشان ہے۔ اور ہر دوسرے کی نسبت دوسرے نسوانی عضو سے جوڑتے ہیں جوکہ اصل میں سب ہی ہوتے ہیں الاّ یہ کہ آپ بڑے آپریشن سے پیدا ہوئے ہوں۔۔ اف یو نوء وٹ آئی مین۔۔۔
رائے کا اختلاف ، کسی بھی معاشرے کی بڑھوتری کے لیے ماں کے دودھ کی حیثیت رکھتا ہےا ور ڈبّے کا دودھ پینے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔ اردو میڈیم کھوتی سکولوں میں پڑھنے والے آپ کو ایسی ایسی ذات کی گالی دے سکتے ہیں کہ آپ کے آباو اجداد نے کبھی خواب میں بھی نہ سنی ہوں۔ لہذا اس میدان میں مت کھیلئے۔ تمیز کے دائرے میں آجائیے۔ نہ ہی سیاست دوسال پہلے ایجاد ہوئی تھی اور نہ ہی آپ کے پہلی دفعہ ووٹ دینے سے اس دنیا کو الیکشن نام کی چیز کا پتہ چلا ہے۔ یہ سب چیزیں آپ کی جینز سے بھی پرانی ہیں۔ اختلاف رائے کو برداشت کریں، مذاق سے لطف اندوز ہوں اور اگر اسی سطح پر اس کا جواب دینے کی اہلیت آپ میں نہیں ہے تو اپنی تھوتھنی بند رکھنے میں ہی عافیت ہے۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔۔۔

جیدے کا قصور

آپ شاہ زیب خانزادے کو دیکھ لیں۔ یہ شارٹ ہیں۔ یہ تھرڈ گریڈ اینکر ہیں۔ یہ کالمسٹ بھی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کرسی پر بیٹھیں تو ا ن کے پیر زمین پر نہیں لگتے۔ ان کی ٹائیاں چیپ اور سوٹ لنڈے کے ہوتے ہیں۔ یہ  خود کو بہت بولڈ شو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ پروگرام ختم ہونے پر شرکاء کے پیروں کو ہاتھ لگا کے معافی مانگتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ سر، میرے بریڈ اینڈ بٹر کا مسئلہ ہے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ہیں۔ کوئی آفینسو کوئسچن ہوگیا ہو تو فار گاڈ سیک ، پارڈ ن کردیں۔  یہ ان کا کیریکٹر ہے۔ یہ ان کی ایتھکس ہیں۔
آپ مجھے دیکھ لیں۔ میں چھ فٹ سے زائد ٹال ہوں۔ میں ایک ہینڈسم اور گڈ لکنگ سٹڈ ہوں۔  آپ یہ دیکھیں ، میں پاکستان کا سب سے فیمس اور سیل ایبل کالمسٹ ہوں۔ میرے کالمز میں ایتھکس، ریلیجن ، صوفی ازم، میٹا فزکس، ماڈرن سائنس،  ریسرچ، وزڈم، انٹرٹینمٹ، سارکیزم، اموشنز، لٹریچر، شو بز ، ہر چیز ہوتی ہے۔ آپ ٹاک شوز کو دیکھ لیں۔ آپ ان کے اینکرز کا موازنہ کرلیں۔ آپ ان کے پروگرامز کی پاپولیریٹی کا گیلپ پول کرالیں۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے ۔ آپ کے ہوش اڑجائیں گے۔ آپ کے ہاتھوں کے طوطے اڑنے کی بجائے دھمال ڈالنے لگیں گے۔ آپ کا یہ جینئس کالمسٹ ہی پاکستان کے سب سے مقبول ٹاک شو کا اینکر ہے۔ میری سنائی ہوئی انسپریشنل سٹوریز  پر ہالی ووڈ میں فلمیں بن رہی ہیں۔ کروڑوں لوگ میرے دئیے ہوئے لیسنز پر عمل کرکے اپنی لائف چینج کرچکے ہیں۔ ان کی زندگیاں پیشنس، ٹالرینس اور گڈ بی ہیوئیر کا نمونہ بن چکی ہیں۔ یہ سب انہوں نے کہاں سے سیکھا؟ آپ غور کریں۔ آپ جان جائیں گے ۔ آپ کو لگ پتہ جائے گا۔ یہ سب میرے کالمز اور شوز اور میری کرزمیٹک پرسنیلٹی کی وجہ سے ہوا۔ میں ایک جینئس ہوں۔ میں نے ایک پوری قوم کی اخلاقی حالت سدھاری ۔ آپ چاہیں تو وکی پیڈیا پر چلےجائیں۔ آپ وہاں میرے نام کی سرچ کرلیں۔ آپ دیکھیں گے، گوروں نے بھی میری سروسز کو کیسے اکنالج کیا ہے۔  میں ایک لیونگ لیجنڈ ہوں۔
 میں اگر پرنس چارلس ہوں تو شاہ زیب خانزادہ ایک ٹیکسی ڈرائیور۔
اب آپ دیکھیں۔ آپ فیصلہ کریں۔ ایک ناٹا میرے سٹوڈیو پر قبضہ کرلے۔ وہ مجھ سے بحث کرے۔ وہ مجھ سے تلخ کلامی کرے۔ وہ مجھے کہے کہ یہ تیرے باپ کا سٹوڈیو نہیں ہے۔ یہ سب باتیں میں گھر جا کے امی کو بھی بتاسکتا تھا۔ میں نے یہ نہیں کیا۔ میں نے برداشت کا مظاہرہ کیا۔ میں نے اپنے غصہ پر قابو پالیا۔ میں نے کرسی اٹھائی اور اس کی طرف اچھالی کہ چلو کیچ کیچ کھیلتے ہیں۔ وہ رمیز راجہ نکلا۔ اس نے کیچ ڈراپ کردیا۔ اس میں میرا کیا قصور ہے؟۔ کرسی اس کے بازو سے لگی اور نیچے گر گئی۔ آپ   اس کا نان پروفیشنل ایٹی ٹیوڈ دیکھیں۔ جو کرسی کیچ نہیں کرسکتا وہ سکوپ کیسے کیچ کرے گا؟ اتنی کوسٹلی کرسی نیچے گرنے سے ٹوٹ گئی۔ یہ کس کا نقصان ہے؟ یہ اس ملک کے غریب عوام کا نقصان ہے۔ یہ ان کے خون پسینے کی کمائی اجاڑنے والی بات ہے۔ آپ میری رحمدلی ملاحظہ کریں۔ میں پھر بھی اپنی تھرٹی تھری ہنڈریڈ تھاوزنڈ والی کار کی طرف بھاگا کہ وہاں سے فرسٹ ایڈ کٹ لاسکوں۔ میں سنی پلاسٹ اس کے بازو پر لگاسکوں۔ وہ ڈرگیا۔ اس نے شور مچا دیا۔ اس نے کہا۔ ۔۔جیدا بندوق لین گیا جے۔۔۔ آپ غور کریں۔ میں نے آج تک کبھی کڑلی نہیں ماری۔ میں نے چوہے سے کبھی متھا نہیں لگایا۔ اپنی برات والے دن سیبے والے بمب چلنے سے تین دفعہ میرے کپڑے خراب ہوئے۔ میں کیسے گن چلا سکتا ہوں؟  شب برات پر انار چلتا دیکھ کر میں بے ہوش ہوجاتا تھا۔ ایک دفعہ میری بیوی نے چپکے سے آکے مجھے کہا۔۔ بھاووو۔۔۔ اسی دن مجھے شوگر ہوگئی۔

آپ  سمجھ چکے ہوں گے۔ آپ اچھی طرح جان چکے ہوں گے۔ شاہ زیب خانزادے سے میں نے کوئی زیادتی نہیں کی۔ میں نے اسے معاف کردیا۔ میں نے صبر کیا۔ میں نے برداشت سے کام لیا۔ میں نے تو اس کے ساتھ اسی وقت کھیلنا بھی شروع کردیا ۔ اب اگر کسی کو کیچ کرنا نہ آتا ہو تو یہ بھی جیدے کا قصور  ہے؟

زوجہ، کاکروچ اور چھپکلی

آپ عورتوں کو دیکھ لیں۔ یہ ضروری ہوتی ہیں۔ یہ اگر نکاح میں نہ ہوں تو ہر وقت اچھی لگتی ہیں۔ یہ نکاح میں آجائیں تو ہفتے میں ایک دو دن  ہی اچھی لگتی ہیں۔  ان کی باتیں ماننی پڑتی ہیں۔ ورنہ یہ آپ کی "بات" نہیں مانتیں۔ جس سے المیے جنم لیتے ہیں۔ لہذا میں جب بھی اپنی بیوی کی بات کو اگنور کرنے کا سوچتا ہوں۔ اس کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالنے کا ارادہ کرتا ہوں۔ میرے سامنے ویک اینڈ نائٹ آجاتی ہے۔ میں ڈر جاتا ہوں۔ میری گھگھّی بندھ جاتی ہے۔ میں اچھا بچہ بن کے فورا ایسے فاسد خیالات سے جان چھڑ ا لیتا ہوں۔ اور جیسا مجھے کرنے کا حکم دیا جاتا ہے  بعینہ ویسا کرنےکی کوشش کرتا ہوں۔
یہ پرسوں کی بات ہے۔ ناشتے کی میز پر ہماری زوجہ نے ہمیں حکم دیا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر اگر کاکروچ اور چھپکلیوں کے مسئلے کا حل نہ نکلا تو تو سوچ لو کہ اس ہفتے میں دو  چھٹیاں ہیں۔ خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میری شوگر لو ہوگئی۔ میں نے پلیٹ سے ایک سلائس اٹھایا اس پر مکھن لگایا۔ اس کی ایک بائٹ لی۔ چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور مسکرا کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور کہا۔ کہ آپ فکر نہ کریں ، ڈونٹ وری۔ آئی ول سارٹ دس آوٹ۔ میں آفس پہنچا میں نے اپنی ساری ریسرچ ٹیم کو اس مسئلے کے حل پر لگا دیا۔ میں نے سارے کام چھوڑدئیے۔ یہ کام تو پھر بھی ہوسکتے ہیں لیکن دو  چھٹیاں ضائع ہوگئیں تو گگومنڈی کے حکیم صاحب کی دوائی ضائع چلی جائے گی۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں رہے گا۔ دنیا اندھیر ہوجائے گی اور من بے کل ۔  ہم سارا دن کام کرتے رہے۔ ہم نے رات بارہ بجے تک اس پرابلم کو سولو کرنے کی کوشش جاری رکھی اور بالآخر ایسے حل ڈھونڈ نکالے جو کاکروچ اور چھپکلیوں کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کردیں گے۔
آپ کاکروچز کو دیکھ لیں۔ یہ بہت سخت جان ہوتے ہیں۔ یہ بہت سارے ہوتے ہیں۔ ان کے رہن سہن کی تھورو سٹڈی کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں ڈیموکریسی ہوتی ہے۔ یہ اپنا لیڈر، الیکشن کے ذریعے چنتے ہیں۔ اگر ہم ان کے الیکشن کمیشن پر ڈاوٹ پیدا کردیں اگر ہم ان کو باور کرادیں کہ الیکشن میں رگنگ ہوئی ہے۔ جو کاکروچ پارٹی ہاری ہے وہ اصل میں جیت رہی تھی اور اسے بے ایمانی اور رگنگ سے ہرایا گیا ہے  تو اس سے کاکروچز میں انارکی پیدا ہوگی۔ وہ ایک دوسرے سے لڑیں گے۔ ایک دوسرے کو ماریں گے۔ ایک پارٹی کے کاکروچ مارے جائیں گے تو دوسری پارٹی ریوینج لے گی اور اس طرح چین ری ایکشن شروع ہوجائےگا۔ اس طرح آہستہ آہستہ سارے کاکروچز ایک دوسرے کو ماردیں گے اور آپ کا گھر کاکروچ فری ہوجائے گا۔ آپ کی بیوی آپ سے ہیپی ہوجائے گی۔ آپ کی ویک اینڈ نائٹ سہانی ہوجائے گی۔ آپ زندگی کو انجائے کرسکیں گے۔ آپ اتوار کی صبح فریش اٹھیں گے۔
چھپکلیوں کا مسئلہ زیادہ کرانک ہے۔ یہ ڈیموکریسی پر یقین نہیں رکھتیں۔ یہ جنگل کے قانون پر یقین رکھتی ہیں۔ یہ اپنا شکار خو د ہنٹ کرتی ہیں۔ اور اکیلا رہنا پسند کرتی ہیں۔ ہم نے بہت  غور و فکر کیا۔ اس غور و فکرمیں تین لارج سائز پیزے اور ڈیو کی چھ دو لیٹر والی بوتلیں لگ گئیں۔ سگریٹ کے دو ڈنڈے بھی اس غور و فکر میں خرچ ہوئے۔ بالآخر ہم ان کی کمزوری ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے۔ ہمارِی سٹڈی نے شو کیا کہ چھپکلے بہت جیلس اور شکی  ہوتے ہیں۔ یہ اپنی گر ل فرینڈ چھپکلی پر ہر وقت  کڑی نظر رکھتے ہیں۔ اگر ان کے دل میں شک پیدا کردیا جائے کہ دوسرے کمرے والا چھپکلا ، آپکی چھپکلی پر بری نظر رکھتا ہے۔ یہ اس کو پٹانا چاہتا ہے، یہ اس کو ڈیٹ پر لے جانا چاہتا ہے۔ تو وہ چھپکلا غصے میں آجائے گا وہ اینگری ینگ چھپکلا بن جائے گا ۔ وہ دوسرے کمرے والے چھپکلے کو دھوکے سے مار دے گا۔ اس پر ڈیسیزڈ چھپکلے کی گرل فرینڈ اس کا انتقام لینے کے لیے باتھ روم والے چھپکلے سے سیٹ ہوجائے گی اور وہ بیڈ روم والے چھپکلے کو ماردے گا۔ یہ بھی چین ری ایکشن ہوگا اور چند ہی دونوں میں چھپکلیوں سے بھی چھٹکارا مل جائے گا۔ آپ کی لائف ، بیوٹی فل اور وائف کوآپریٹو ہوجائے گی۔  آپ کی ویک اینڈ نائٹس گلیمرس  اور ڈیلیشئس ہوجائیں گی۔
ہر مسئلے کا حل بہت آسان ہوتا ہے۔ جیسے ہم نے کاکروچز اور چھپکلیوں کا مسئلہ حل کیا ہے۔ عنقریب ہم دنیا کے باقی مسئلے بھی ایسے حل کرکے تاریخ میں اپنا نام گلابی حروف سے لکھوالیں گے۔



ٹویٹی انتخاب

دل سے اترجانے والے چاہے سونے کے بن جائیں، دوبارہ من موہنے نہیں بن سکتے
============================================================
کسی نے کہا تھا آپ تب مشہور ہوتے ہیں جب ایسے لوگ آپ سے نفرت کرنے لگیں جن کو آپ جانتے تک نہیں۔
=============================================================
دشمنوں کی تین اقسام ہوتی ہیں
دشمن
جانی دشمن
رشتے دار
=============================================================
کسی کو کمتر جاننا  دراصل اپنی کمتری کے احساس کو چھپانا ہوتا ہے
=============================================================
کرکے پچھتانا ، نہ کرکے پچھتانے سے بہتر ہے
=============================================================
نانا پاٹیکر، زید حامد کے ماموں ہیں۔
=============================================================
مذہب کے نام پر دنیا کمانے والے بدترین مخلوق ہیں۔
=============================================================
جو بندہ شدید غصے میں دھیمے لہجے میں بولنا شروع کردے، اس سے ڈرنا چاہیے۔
=============================================================
گالی اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ دلیل ختم ہوچکی ہے
=============================================================
سیاست، ماش کی دال اور چغلی سے پرہیز کرنا چاہیے
=============================================================
سیمسن اینڈ ڈیلائیلا
عمران اور عائلہ
=============================================================
وقت کا پہیہ الٹا نہیں چلایا جاسکتا، چلانے کی کوشش مایوسی اور پاگل پن پیدا کرتی ہے
=============================================================
ضمنی انتخاب، دوسرے ہنی مون کی طرح ہوتے ہیں۔
=============================================================
دشمن کے بغیر زندگی بے رنگ ہے
=============================================================
سونے سے پہلے اور اٹھنے کے بعد جس کا خیال آئے، وہ جانی دشمن ہو تاہے یا جان سے پیارا۔
=============================================================
پرانے دور اچھے تھے، چیزیں سستی تھیں، بندے مہنگے تھے
=============================================================
کبھی ایسی فرصت ملے کہ چاروں طرف کتابیں ہوں اور میں ۔۔۔ اور وہ۔
=============================================================
محبت رسوا کیا کرتی ہے، لاوارث نہیں۔ ماخوذ
=============================================================
کہہ دینا، من ہلکا کردیتا ہے
=============================================================
خوبصورت بڑھاپا، مطمئن باطن کی نشانی ہے
=============================================================
کامیاب بے وقوفی،  بہادری کہلاتی ہے۔
=============================================================
کامیاب بغاوت کو انقلاب کہتے ہیں۔
=============================================================
بندے سب پیارے ہوتے ہیں، کرتوتیں قابل نفرت ہوتی ہیں۔
=============================================================
شک اور پاگل پن میں دھاگے بھر کا فرق ہوتاہے
=============================================================
آسان پیسہ اور میل شاونزم – دنیا میں عذاب جہنم کی ریسیپی
=============================================================
محبت، دنیا سے بے نیاز کردیتی ہے
=============================================================
مانگنے والا کبھی بہادر نہیں ہوسکتا
=============================================================
مرد کا پیٹ اور کمان سے نکلا تیر کبھی واپس نہیں آتا

جولائی میں دھلائی

دسمبر میں اٹھنے والے درد  بارے ہم نے کچھ عرصہ پہلے  روشنی ڈالی تھی۔ جس میں ان تکالیف کا کما حقہ جائزہ لیا گیا تھا جو دسمبر میں دردیلی شاعری اور رومانٹک ناسٹلجیا  کا باعث بنتی ہیں۔ یہ وجوہات اگر بالکل درست نہ بھی ہوں تو پھربھی  کسی نہ کسی درجے پر ان کو حق بجانب سمجھا جاسکتا ہے۔   دسمبر تو تک بات قابل برداشت تھی لیکن ہم نے کچھ ایسی شاعری بھی دیکھی جس میں جولائی کو بھی اسی درجے میں گھسانے کی کوشش کی گئی تھی جو دسمبر کے ساتھ مخصوص ہے۔ برصغیر پاک وہند میں جولائی نام کا مہینہ ایسا ہے کہ محبوب تو ایک طرف رہا ، جسم پر موجود کپڑوں سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ جولائی میں اگر کسی چیز سے رومانس لڑایا جاسکتا ہے تو وہ صرف شکنجوی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ فحش حد تک مالدار ہوں اور پورا گھر سینٹرلی ائیرکنڈیشنڈ ہو اور بجلی کے لیے واپڈا کی محتاجی نہ ہو۔ لیکن ایسے ماحول میں یقین کریں کہ مڈل کلاسیوں والی محبت کا خیال بھولے سے بھی نہیں آتا۔ بلکہ جو خیالات آتے ہیں وہ بیان کرنے کی صورت میں یہ تحریر "پلے بوائے" میں چھپنے کے لائق ہوسکتی ہے۔
ہم شعراء کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ وہ جو کہنا چاہیں بلکہ جو آمد ہو اس کا اظہار کرنا ان کا حق ہے۔ لیکن شعراء کرام کو بھی  رب دا واسطہ ہے کہ جولائی جیسے مہینے کو رومانس سے جوڑ کے جو ظلم وہ کررہے ہیں اس کا خمیازہ آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ اس پر کہا جاسکتا ہے کہ  "اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی" پر  ذرا سوچیں تو سہی کہ جولائی کی حبس زدہ رات کو آپ چھپ چھپا کے محبوب سے ملنے نہر کے بنَے پر جاتے ہیں ۔ پسینہ دھاروں بلکہ تیز دھاروں کی شکل میں جسم کے ہر حصے سے نکل کر ہر جگہ پھیل رہا ہے۔  ایسی حالت میں محبوب سے جو زیادہ سے زیادہ رومانٹک گفتگو ممکن  ہے وہ یہی ہوسکتی ہے کہ ۔۔۔ ذرا اپنی چُنّی نال چل تے مار۔۔۔۔ یا پھر محبوب کو سوئمنگ آتی ہو تو نہر کے بنّے کے بجائے ملاقات نہر میں ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ اس کے لیے پھر آپ کو ایک جوڑا کپڑے اضافی لے کے آنے پڑیں گے۔  لیکن اس میں خطرہ یہ ہے کہ اگرآپ  نہر میں ڈیٹ مارتے پھڑے گئے تو آپ کی پھولی ہوئی لاش چھ سات کلومیٹر کے بعد کسی پل کے نیچے پھنسی ہوئی ملے گی۔۔ ہم نیک و بد حضور سمجھائے دیتے ہیں۔۔۔
جولائی میں رومانس ، فیصل آباد یا ملتان کی گرمی میں  اوورکوٹ پہن کے دوپہر کے وقت چہل قدمی کے مصداق ہے اور اس کے جو نتائج و عواقب ہوسکتے ہیں وہ کسی بھی متوسط ذہانت والے سے پوشیدہ نہیں ہیں۔  آپ کا بھیجہ الٹ سکتا ہے۔ لوگ آپ کو روڑے مارسکتے ہیں۔ آپ عامر لیاقت کو واقعی مذہبی سکالر تسلیم کرسکتے ہیں۔ مبشرلقمان میں آپ کو سقراط بولتا نظر آسکتا ہے۔  ذاکر نائیک کا خطاب سن کے آپ پر وجد طاری ہوسکتا ہے ۔  شاہد آفریدی کو اصلی والا کرکٹر سمجھ سکتےہیں۔  عمران خان کو سیاستدان سمجھ سکتے ہیں۔   شیخ رشید کا ٹاک شو سن سکتے ہیں۔  زید حامد کا خطاب  ہنسے بغیر دیکھ سکتے ہیں اور ایسی ہی بے شمار چوّلیں جو الا ماشاءاللہ آپ بھی بخوبی جانتےہوں گے۔
جولائی کو رومانٹسائز کرنےکا  نقصان یہ ہے کہ نوجوان نسل رومانس سے ہی متنفر ہوجائے گی اور اس کا نتیجہ تو آپ سمجھتے ہی ہیں کہ کیا ہوسکتا ہے۔ بنی نوع انسان کا مستقبل خطرے میں پڑجائے گا۔ لو گ رومانس کرنے کی بجائے لُڈّو کھیلنے کو ترجیح دینے لگیں گے اور لُڈّو میں تو آپ کو پتہ ہی ہےکہ  زیادہ سے زیادہ "چھکاّ" ہی مل سکتا ہے۔ بہرکیف، جولائی میں نوجوان نسل کو رومانس کی جانب ورغلانے سے بہتر ہے کہ ان کو کچھ ایسے کاموں کی اُشکل دی جائے جو جولائی سے مطابقت رکھتے ہوں۔
مثلا ہدوانے سمیت نہر میں نہانا، اور جب ہدوانے اور باقی اعضاء یخ ٹھنڈے ہوجائیں تو کنارے پر بیٹھ کر ہدوانا نوش جاں کرنا۔  برف والے پھٹّے کے قریب  بلکہ اس کے نیچے بیٹھ کر تاش کھیلنا۔   فل اے سی والے سینمے میں فلم دیکھنا ۔۔ علی ہذا القیاس۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔

بابوں کا المیہ

آپ مجید نظامی کود یکھ لیں۔ یہ ایک عظیم جرنلسٹ ہیں۔ یہ بہت بہادر اور آؤٹ سپوکن پرسنیلٹی ہیں۔ یہ کبھی کسی سے نہیں ڈرے۔ یہ اس وقت سے جرنلزم میں ہیں جب  دنیا تک بلیک اینڈ وائٹ ہوتی تھی۔  یہ ہمیشہ جابر اور صابر ہر قسم کے سلطان کے سامنے کلمہءحق کہتے آئے ہیں۔   یہ نظریہ ء پاکستان اور پاکستان کے اکلوتے  ماموں ہیں اور دونوں سے بیوہ بہنوں کی اولاد جیسا سلوک کرتے ہیں۔ ان سب  خوبیوں کے باوجود جب سے یہ بابے ہوئے ہیں۔ یہ سڑیل ہوگئے ہیں۔ یہ چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ جلی کٹی سنانے لگتے ہیں۔  یہ جب جوان تھے تو خوش مزاج ہوتے تھے۔ یہ گندے لطیفے بھی انجائے کرتے تھے۔ یہ جگتیں بھی کرلیتے تھے۔  لیکن بابے پن کی دہلیز تک پہنچتے ہی ان کی ساری خوبیاں جون کی دھوپ میں رکھے ہوئے میٹریس کے کھٹملوں کی طرح ختم ہوتی گئیں۔ یہ کیوں ہوا؟ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ یہ جاننے کے لیے آپ کو ایک کہانی سننی پڑے گی۔
عبدالمنان ایک دکاندا ر تھا۔ یہ کپڑے کی دکان کر تا تھا۔ یہ ایک متوسط درجے کا خوشحال انسان تھا۔ اس کی شادی اوائل جوانی میں ہی  ہوگئی تھی۔ یہ چونکہ فکر معاش سے آزاد تھا لہذا ہرسال ایک برانڈ نیو بچہ اس دنیا میں لانا اس نے اپنا شرعی، اخلاقی، قومی اور خاندانی فریضہ سمجھ لیا تھا۔  عبدالمنان کی زندگی  ایک خوشگوار معمول کے مطابق گزرتی رہی۔ یہ اپنے بچوں اور بیوی سے بڑی محبت کرتاتھا۔ یہ ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا۔ یہ ایک خوش مزاج اور جولی طبیعت کا انسان تھا۔ یہ کبھی غصے میں نہیں آتا تھا۔ اس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی  جو اس کی فطرت بھی تھی اور دکانداری مجبور ی بھی۔ کیونکہ غصیلے دکاندار کے تو آئی فون بھی نہیں بکتے۔ وقت گزرتا گیا۔ عبدالمنان کے بچے بڑے ہوگئے یہ نویں دسویں کلاس تک پہنچ گئے۔ یہ چونکہ کم عمری میں ہی شادی کرچکا تھا لہذا اس کی عمر ابھی  کھیلنے کھانے کی تھی۔ یہ وہ اہم مقام تھا جہاں سے عبدالمنان کی زندگی نے  ٹریجک ٹرن  لیا۔
یہ جب بھی اپنی بیوی کے پاس بیٹھتا ، یہ جب بھی اس سے کوئی رومانوی چھیڑ چھاڑ کرتا ۔ اس کی زوجہ اسے ڈانٹ دیتی۔یہ اسے شٹ اپ کہہ دیتی ۔  یہ اسے کہتی " حیاکرو، بچے وڈّے ہوگئے نیں، تہانوں اپنے ای شوق چڑھے  رہندے نیں"۔  عبدالمنان کی زندگی کے معمولات درہم برہم ہوگئے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر  ہائپر ہونے  لگا۔ اس کا بلڈ پریشر ہائی رہنے لگا۔ اس کے بچّے اس  سے ڈرنے لگے۔  اس کی دکانداری پر بھی اثر پڑنے لگا۔ یہ گاہکوں سے الجھنے لگا۔ یہ معمولی باتوں پر تو تکار کرنے لگا۔ لوگ حیران تھے کہ عبدالمنان  جو ایک خو ش مزاج اور جولی انسان تھا، اس کی یہ حالت کیونکر اور کیسے ہوئی۔
یہی وہ المیہ ہے جو پاکستانی بابوں کو ڈیسنٹ بابے کی بجائے چاچا کرمو ٹائم پیس جیسے بابوں میں بدل دیتا ہے۔ یہ جیسے ہی ادھیڑ عمری کی منزل پار کرتے ہیں۔ ان کی زوجہ، بیوی سے مزار کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس کے پاس سے اگربتیوں کی خوشبو اور قوالیوں کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔  اس کے پاس بیٹھنا تو درکنا ر اس کی طرف پشت کرنا بھی بے ادبی شمار ہوتا ہے۔ یہ وہی بیوی ہوتی ہے جوشادی کے پہلے سال  خاوند کے گھر آنے پر مور نی کی طرح پیلیں پارہی ہوتی تھی۔  اب یہ خانقاہ کا مجاور بن جاتی ہے ۔یہ بابے کی زندگی میں ایک ایسی  کسک بھردیتی ہے جس کی وجہ سے بابا، کپتّا، سڑیل اور ٹھرکی ہوجاتا ہے۔
آپ کسی  محلّے میں چلے جائیں ۔ آپ گلیوں میں تھڑوں پر بیٹھے بابوں کو چیک کرلیں۔ یہ سب زندگی سے بے زار بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ ہر بچے کو جھڑکتے ہیں اور ہر بچّی کو تاڑتے ہیں۔  یہ بابے بے قصور ہیں۔ ان کی مائیوں نے ان کا یہ حال کیا ہے۔  آپ دبئی چلے جائیں، آپ بنکاک چلے جائیں۔ آپ ملائشیا چلے جائیں۔ آپ حیران رہ جائیں گے ۔ آپ دیکھیں گے کہ گورے مائیاں بابے کیسے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سیریں کرتے ہیں۔ یہ  سر عام اظہار محبت بھی کرتے ہیں۔یہ ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈالے  عاشقی ٹُو جیسے سین بناتے ہیں۔  جبکہ پاکستانی بابوں کو یہ موقع تنہائی میں بھی نہیں ملتا۔ ان کی آخر ی عمر اعتکاف میں ہی گزرجاتی ہے۔
جب تک ہم بابوں کے مسائل کو سمجھیں گے نہیں۔ جب تک ہم ان کو حل کرنے کے  لیے  ان کی مائیوں کو کنونس نہیں کریں گے۔ بجٹ کا خسارہ ہویا  لوڈشیڈنگ۔ ڈرون حملے ہوں یا  کیبل پر انڈین چینلز۔ امن و امان کا مسئلہ ہو یا پرویز خٹک کی صحت۔ عائلہ ملک  کی دوسری شادی ہو یا شہباز شریف کی چوتھی (یاشاید پانچویں، چھٹی  یا ساتویں ( شادی ۔  پاکستان کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ بابے اپنے اپنے پروفیشن میں ماہر ہوتے ہیں لیکن ان کی مائیوں کی بے اعتنائی انہیں ہر چیز سے متنفر کرکے سڑیل اور کوڑا کردیتی ہے۔  یہ کچھ بھی نہیں کرسکتے  یہ صرف تھڑوں پر بیٹھ کر سڑ سکتے ہیں ۔

میاں نواز شریف کی حکومت جب تک یہ کام نہیں کرے گی ۔ یہ پاکستان کو نہیں بچاسکے گی۔ پاکستان کو بچانے کے لیے بابوں کو خوش کرنا ضروری ہے۔  ورنہ 
  ؎ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

بٹ ریفریجریشن سروس

بٹ صاحب کا اصل نام تو شاید طاہرتھا  یا طارق ۔۔۔ لیکن بٹ ، بٹ ہی ہوتا ہے چاہے وہ پاءطیفا ہو یا وکّی۔ بٹ صاحب طویل قامت تھے لیکن ان کی طوالت عمودی  کی بجائے  افقی تھی۔ سر کا درمیانی حصہ،  اقبال سٹیڈیم فیصل آباد کی اس پچ کی طرح  تھا جسے ڈینس للّی نے اپنی قبر کے لیے منتخب کیا تھا۔ ان کی رنگت  دیکھ کے دلدار پرویزبھٹی کا وہ بیان یا د آتا کہ اگر میں ویسٹ انڈیز میں ہوتا تولوگ  مجھے بٹ ساب کہتے۔  بٹ صاحب سے تعارف کی وجہ وہی ظہیر لائبریری اور وہاں روز کا آنا جانا اور ڈیرہ جمانا تھا۔ پانچویں جماعت سے اس وقت تک جب ہم جلاوطن نہیں ہوگئے شاید ہی کبھی اس معمول میں ناغہ ہوا ہو۔ بہرکیف،  بٹ صاحب کی فریج اور اے سی رئیپرنگ کی دکان عین ظہیر لائبریری کے سامنے واقع تھی اور ازکاررفتہ فریج ، واشنگ مشینیں وغیرہ کمپنی کی مشہوری کے لیےآدھی سڑک گھیرے ہوئے تھیں۔
بٹ صاحب کا پہلا تاثر جو یاد کا حصہ ہے وہ ظہیرالدین بابر ، پروپرائٹر  ظہیر لائبریری  کی وہ شیطانی مسکراہٹ تھی جس کے بعد انہوں نے ہمیں مخاطب کرکے کہا تھا کہ "میر جعفرا !  تینوں اک شغل وخائیے؟"۔ ظہیر صاحب  ہمیشہ ہمیں اسی نام سے پکارتے تھے اور آخر کار جب ہم کالج میں پہنچے تو ایک دن ان سے پوچھ ہی لیا،  "پائین، جیہڑی غدار ی میں تہاڈے نال کیتی اے،  اوہ کسے نوں دسنا ناں"۔  یہ سن کے ان کے جاٹ خون نے جوش تو مارا لیکن چونکہ بہت عرصہ جلُاہوں کی صحبت میں گزار چکے تھے اسی لیے خون جلد ہی ٹھنڈا پڑگیا  اور شادیوں پر انٹرٹین کرنےو الوں بھانڈ احباب کی طرح انہوں نے ہمیں اس جگت کی ایک "ٹھاپ" کی صورت میں داد  دی۔
بہرکیف ،   احباب اب تک یہ بخوبی جان چکے ہوں گے کہ شغل ویخ ویخ کے ہی آج ہمارا یہ حال  ہے کہ دوسروں کو اپنے بارے جگتیں بتاتے ہیں کہ یہ زیادہ فٹ ہوتی ہے اور  یہ کہتا تو بڑا لطف آتا،۔۔۔  تو ہم نے فورا شغل "ویخنے " کی  حامی بھرلی۔ انہوں نے پنجابی اشٹائل میں آواز لگائی ۔۔۔اوئے بٹ اوئےےےےے۔۔۔  بٹ صاحب نے ادھر ادھر دیکھا اور آواز کا منبع دریافت کرنے کے بعد چھوٹے کو ضروری ہدایات دیں ، لڑھکتے ہوئے سڑک پار کی اور ہمارے ساتھ والی کرسی پر آکے دھپ سےتشریف دے ماری۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پر بٹ صاحب ، مغلوں کے جدّ امجد کے ہم نام کی بہت عزت وغیرہ کرتے تھے۔ اور یہ وجوہات اتنی نامعلوم بھی نہیں تھیں۔ نام تو ان  کا مغلوں والا تھا لیکن وہ تھے اصیل جاٹ۔ سونے پر سہاگہ یا کریلا اور اس پر نیم چڑھا کے مصداق ان کے والد ریٹائرڈ حوالدار اور ان کے برادر بزرگ حاضر سروس سب انسپکٹر تھے۔  لہذا بٹ صاحب ان کی ناملائم گفتگو بھی دانت نکال کے برداشت کرلیتے تھے، یہ ساری باتیں بہرحال ہمیں بعد میں پتہ چلیں ۔
ظہیر نے چھُوٹتے ہی دُرفنطنی نما سوال کیا کہ۔۔۔ بٹ صاب ۔۔ ایہہ جیہڑی پوجا بھٹ اے، اے وی بٹ اے؟۔۔۔ بٹ صاحب کا مُشکی   رنگ مزید سانولا ہوا اور انہوں نے کرسی پر تقریبا پھُدکتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔ یار، ظہیر، میں تیری اینی عزت کرداں تے توں سانوں ذلیل ای کردا رہناں؟۔۔ ۔ ظہیر نے پکّا سا منہ بنا کے کہا کہ  یار، میں نے تو اپنے علم میں اضافے کے لیے پوچھا تھا، تُو غصہ کرگیا ہے۔ چل مٹّی پاء،  ۔۔۔ چائے پیے گا؟  کھانے پینے کا ذکر  آتے ہی بٹ صاحب کو پوجا بھٹ، بیستی اور دیگر امور یکایک بھول گئے اور انہوں نے مُنڈی ہلا کے  بارات کے دن والی شرمیلی دلہن کی طرح ہاں کردی۔
 تمہید طُولانی ہوتی جارہی ہے اور اصل قصّہ ابھی تک سنائے جانے کا انتظار کررہا ہے۔ گلشن کالونی میں ایک پارک نما چیز تھی جسے "تِن نُکری گراونڈ" کے عظیم نام سے پکارا جاتا تھا حالانکہ اس کا سرکاری نام تو شاید کسی شیخ صاحب کے نام پر تھا لیکن جیسے کمپنی باغ کو آج تک کوئی جناح باغ نہیں کہتا اسی طرح سب اسے تِن نُکری گراونڈ ہی کہا کرتے تھے اور اب تک کہتے ہیں۔ اس زمانے میں کبھی این جی اوز کا ذکر کسی لبرل نے بھی نہیں سنا تھا لیکن ہمارے کچھ دوستوں نے مل کر ایک "غیر سرکاری تنظیم" بنا رکھی تھی، جس کے زیر اہتمام  "ہیلتھ واک"، "پیس واک" یہ واک ، وہ واک وغیرہ کا اہتمام ہوا کرتا تھا۔ اس تنظیم کے روح رواں یا  ہیڈ گیڑے باز میاں کاشف نواز تھے۔ اب ان کا ذکر ایک علیحدہ  تحریر  بلکہ بہت سی تحاریر کا متقاضی ہے لہذا اس سے صرف نظر کرتے ہیں۔ میاں صاحب نے اس تِن نُکری گراونڈ میں ایک مباحثہ کا اہتمام کیا جس کے مہمانان خصوصی  سُوتر منڈی کے شیخ صاحبان تھے۔۔۔ ہمیں اب پورا یقین ہے کہ سارا "ناواں" بھی انہی خصوصی مہمانوں کا خرچ ہوا ہوگا۔ اس مباحثے کا عنوان  "عقلاں والے بھُکھے مردے، مُورکھ کھان جلیب" تھا۔ اب میاں صاحب کی اس ستم ظریفی کی داد کوئی اہل نظر و دل ہی دے سکتا ہے کہ شیخ صاحبا ن کو سٹیج پر بٹھا کر ، انہیں کے پیسے لگوا کر ، انہیں اس مباحثے کو سننےپر مجبور کیا جائے۔
یہ مباحثہ ہمارے یار غار نے جیتا  جوزمانہ  سکولیت سے ہی زید حامد جیسے مقرّر تھے اور بہت سی ٹرافیاں اور کپ اور پلیٹیں وغیرہ جیت چکے تھے۔ کلاس فیلو ہونے کے ناطے ان کی تقاریر کی ریہرسل سننے کی سزا اکثر بھگتنی پڑتی تھی اور وہ شور مچانے پر تقریر روک کر ہمیشہ یہ چتاونی دیا کرتے  ۔۔۔ جو قومیں تقاریر غور سے نہیں سنا کرتیں، وہ تباہ و برباد ہوجایا کرتی ہیں۔۔۔ مجھے تو اب یہ  لگتاہے کہ ٹاک شوز کا آئیڈیا بھی ہمارے انہی عزیز دوست کا ہے تاکہ ساری قوم بیٹھ کے تقریریں سنتی رہے اور تباہ نہ ہو۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔۔۔
اس سارے ڈفانگ کی سمعی و بصری عکس بندی کا اہتمام بھی  کیا گیا تھا، سادہ الفاظ میں جسے ویڈیو بنانا کہتے ہیں۔  اس کی بہت سی کاپیاں بنائی گئیں اور ان شیخ صاحبان کو دی گئیں جن کے خرچے پر یہ سب کیا گیا تھا۔ ایک کاپی ، ہیڈکوارٹر ہونے کے ناطے ظہیر لائبریری پر بھی پہنچی۔
یہیں سے بٹ صاحب کا المیہ شروع ہوتاہے !۔
ایک شام گپیں مارتے ہوئے  اور ایسے لطیفے سنتے سناتے ہوئے جنہیں بندہ  اپنے یاروں کے علاوہ کسی کو نہیں سنا سکتا، اچانک ہمارے ذہن میں ایک شیطانی خیال نے جنم لیا۔ ہم نے اس ابلیسی خیال کو ظہیر تک منتقل کیا اور اس نے فورا ہی منظوری دیتے ہوئے  آواز لگادی۔۔۔ اوئے بٹ اوئےئےئےئےئے۔۔۔  ہزار دفعہ یوں پکارے جانے کے باوجود بٹ صاب اس آواز پر ادھر ادھر دیکھنا ضروری سمجھتے تھے لہذا انہوں نے اپنی روٹین پوری کی اور پھر ظہیر کی طرف دیکھ کے سر ہلایا اور اپنا لُڑھکنا چالو کردیا۔
بٹ صا ب کے وہاں پہنچنے تک ہم سب پکّے منہ بنا کے بیٹھ چکے تھے۔ ظہیر نے آواز میں پُراسراریت  سمو کر بٹ صاب کو کہا کہ ایک ضروری بات کرنی ہے  اکیلے میں۔ چلو ، ذرا باہر۔ باہر دو تین منٹ بٹ صاب کے کان میں کھسر پھسر کرکے ظہیر اندر آیا اپنے کاونٹر کے دراز سے ویڈیوکیسٹ نکالی اسے اخبار میں لپیٹا اور نہایت رازداری سے بٹ صاب کو باہر جاکے تھمادی۔ بٹ صا ب نے چوکنّے ہو کے ادھر ادھر دیکھا،  اور عین سڑک پر سب کےسامنے اخبار میں لپٹی ہوئی کیسٹ  بڑے "خفیہ " انداز میں ڈب میں لگا لی۔
ظہیر الدین بابر ، پروپرائٹر ظہیر لائبریری راوی ہیں کہ بٹ صاب نے اگلے دن ان کی جو کُتّے خانی کی وہ ایک عظیم تاریخی حیثیت کی حامل تھی۔ بٹ صاب ، ظہیر کا جاٹ ہونا ، ان کے والد کا سابقہ اور بھائی کا موجودہ پُلس والا ہونا بالکل فراموش کرکے ، غلامابادی انداز کی جتنی گالیاں انہیں یاد تھیں ، وہ یکے بعد دیگرے اور بار بار انہیں دیتے جاتے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی دردناک آپ بیتی بھی سناتےجاتے کہ کتنے جتنوں سے سب کے سونے کا انتظار کیا  اور اتنی گرمی میں کمرے کا دروازہ بند کرکے جب میں نے وی سی آر آن کیا تو شرو ع میں ہی شناسا چہرے نظر آئے ، میں خوش ہوگیا کہ "پروگرام" جینوئن لگتا ہے، مُنڈوں نے اپنا موج میلہ ریکارڈ کیا ہے۔۔۔۔  آپ بیتی کا آخری حصّہ بقول راوی ، بٹ صاب نے رقّت آمیز آواز میں سنایا کہ میں نے تین گھنٹے کی ساری کیسٹ بنا فارورڈ کیے دیکھی کہ ۔۔۔۔۔ خورے۔۔۔ پر "کچھ " ہونا تھا نہ ہوا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ ہنس ہنس کے اس کی اتنی بری حالت ہوئی کہ بٹ صاب اپنا رنڈی رونا  بھول کے اس کی خیریت بارے فکر مند ہوگئے کہ کہیں بے چارا پاگل تو نہیں ہوگیا ۔
شنید ہے کہ یہ قصّہ آج بھی گلستان روڈ موجودہ بمبینو روڈ   کےباسی کسی لوک کہانی کی طرح یاد رکھے ہوئے ہیں ۔  اور اکثر بک بکواس کی محافل شبینہ میں فرمائش کرکے سُنتے  اور سناتے ہیں ۔
ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ اس دفعہ بھی "بٹ صاحب" کو جو کیسٹ دی گئی ہے
وہ پھر  "خالی"  نکلنی ہے!.