گھونسہ


یہ سیلف میڈ علامہ ہیں۔ یہ چھوٹے سے تھے تو ان کے ابّا مسلم آبادی کی کوششوں میں اتنے مصروف رہے کہ ان کی تعلیم و تربیّت پر توجہ نہ دے سکے۔ یہ سیلف ایجوکیٹڈ اور سیلف ٹرینڈ بندے ہیں۔ یہ دس سال کے تھے تو انہوں نے نام کے ساتھ مولانا لگانا شروع کیا۔ بارہ سال کی عمر میں پپّو، چودہ سال کی عمر میں فخر پتّوکِی اور سولہ سال کی عمرمیں یہ بحرالعلوم بن چکے تھے۔  سترہ سال کی عمر میں انہیں خواب آنے شروع ہوئے ۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ شاید یہ خواب "وہ" والے ہوں جب صبح  صبح اٹھ کے سب سے پہلا کام نہانے کا کرنا پڑتا ہے تو آپ کی سوچ نہایت غلط ہے۔ اس عمر میں انہیں بشارت والے خواب آنے لگے۔ یہاں بشارت سے مراد گڈ نیوز  ہے،  بشارت لالہ ، بنّوں والے نہیں۔  یہ بَلا کے سپیکر ہیں۔ غسل جنابت پر اڑتالیس اڑتالیس گھنٹے سپیچ دے سکتے ہیں۔ ایک دفعہ انہوں نے ختنوں کی اہمیت پر تقریر کرتے ہوئے ان کی اتنی فضیلت بیان کی کہ ان کے  فالوورز دوبارہ ختنے کرانے پر تیار ہوگئے۔ ان کی زبان میں جادو ہے، اسی لیے ان کے بچپن کے دوست انہیں سامری جادوگر کہہ کر چھیڑتے تھے۔  جبکہ ایک دو بے تکلف دوست تو انہیں چِٹّی چُوئی بھی کہتے تھے۔ علامہ صاحب کی اعلی ظرفی ملاحظہ کریں ، ان کے کردار کی بلندی کی داد دیں ان کی برداشت اور حوصلہ کو اپریشئیٹ کریں کہ  دوبارہ ساری زندگی انہوں نے ایسے چِیپ چیپس  کو منہ نہیں لگایا۔
یہ بیس سال کی عمر میں پتّوکِی سے مائگریٹ کرکے لاہور تشریف لے آئے۔ آپ ان کی ڈویلپمنٹ کو دیکھ لیں۔  پتّوکِی سے لاہور تک کا سفر انہوں نے اتنی جلدی طے کیا کہ اتنی جلدی تو ٹانگہ داتا دربار سے موچی گیٹ  تک نہیں پہنچ سکتا۔لاہور میں آپ کے جوہر ایسے کھلے کہ اب تک بند نہیں ہوئے۔ کشمیری کھانوں سے فرشتوں تک آپ نے ہر لاہوری چیز خوب "ہنڈائی"۔  اسی عرصہ میں بشارتی خوابوں کا بھی زور رہا۔  حاسدین اگرچہ ان خوابوں کو  فرائڈ فش، مٹن کڑاہی، چکن تکہ، ملائی بوٹی، ہریسہ، پھجے کے پاوے اور نرالا کے گاجر کے حلوے کے سائڈ افیکٹ قرار دیتے ہیں۔  جب کہ کچھ بدزبان تو کسی شربت وغیرہ کا نام بھی لیتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
یہ لاہور میں آکے علاّمہ بھی ہوگئے۔  آپ ان کی ہمت دیکھیں، یہ علم کو اپنی لونڈی بنالیتے ہیں اور اس سے وہی سلوک کرتے ہیں جو عرب اپنی لونڈیوں سے کیا کرتے تھے۔  یہ ایک کالج میں لیکچرر بھی رہے۔ اگرچہ ان کے علم کے ساتھ برتاو کو دیکھتے ہوئے انہیں پروفیسری پر پروموٹ کرنا چاہیے تھا لیکن یہاں پر بھی حاسدین کی وجہ سے یہ پروفیسر نہ بن سکے۔ اس کی کسر انہوں نے خود اپنے نام کے ساتھ پروفیسر لگا کر پوری کردی۔ یہ بُلّھڑ یونیورسٹی سے بھی آگے نکل گئے ۔ یہ  دوسروں کو ڈگریاں دینے کی بجائے اپنے آپ کو ہی ڈگریاں ایوارڈ کرنےلگے۔  آپ دیکھیں  کہ ایسی ایگزامپل ، ہیومن ہسٹری میں تلاش کرنے پر بھی نہیں مل سکتی۔ یہ ٹُرولی ایک گریٹ ریلیجئیس، سپرچوئیل ، ایجوکیشنل اینڈ ریکریئشنل لیڈر ہیں۔  ان کے وژن کا اندازہ لگانا  مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ، جیسے ڈان کو پکڑنا ناممکن ہے۔
یہ چندہ جمع کرنے میں ایکسپرٹ ہیں۔ کچھ لوگ   کہتے ہیں کہ چندا قابو کرنے میں بھی بہت ماہر ہیں لیکن یہ سنی سنائی باتیں ہیں جو ہر کامیاب بندے کے خلاف کی ہی جاتی ہیں۔ لوگ چندے جمع کرکے ایک آدھ مسجد مدرسہ بنالیتے ہیں، یہ ایک پوری ایمپائر کھڑی کرچکے ہیں اور ابھی بھی غریبوں کے زیور اور جائیدادیں بکوا کے اس پیسے سے "ماس پکنک " مناتے ہیں۔   یہ اپنے علم ، تجربے ، ریسرچ پر سانپ بن کر نہیں بیٹھتے بلکہ مناسب نرخوں پر کسی کو بھی اپنی سروسز پروائڈ کرنے پر ہر لحظہ ہر آن ، تیار رہتے ہیں۔ آپ ان سے امریکہ کے خلاف جلوس نکلوالیں، آپ ان سے عزازیل کی حمایت میں ریلی برپا کروالیں، آپ مناسب قیمت لگائیں تو  یہ اپنے خلاف بھی دس گھنٹے تقریر کرسکتے ہیں۔ یہ خود کو فرعون، یزید، نمرود، کمینہ، رذیل قرار دے سکتے ہیں۔  آپ اندازہ لگائیں، کیا پاکستان کے کسی لیڈر میں اتنی ہمت ہے؟ یہ اس دور کے سقراط ہیں، فرق صرف اتناہے کہ یہ زہر کی بجائے کالے چُوچے کی یخنی زہر مار کرتے ہیں۔
  ہر گریٹ پرسنیلٹی کی طرح انہوں نے بھی ینگ ایج میں بہت نام کمالیاتھا۔ آپ ان کی ریسرچ کو دیکھ لیں ۔آپ ان کی رائٹ کی ہوئی بُکس کی تعداد پر نظر ماریں۔ آپ حیران رہ جائیں گے، آپ کے تراہ نکل جائیں گے۔ آپ سراسیمہ ہوجائیں گے۔ آپ کے ہاتھوں کے کوّے اڑ جائیں گے۔ یہ ایک ایسے آتھر ہیں جو اب تک دس ہزار بُکس لکھ چکے ہیں۔ یہ ڈاکٹر بھی ہیں۔ کمپوڈر بھی۔ انجینئر بھی ہیں اور اور اوور سئیر بھی۔ یہ پریچر بھی ہیں اور پھٹیچر بھی۔  یہ ریفارمر بھی ہیں اور پرفارمر بھی۔ طارق جمیل بھی ہیں اور نادیہ جمیل بھی۔  ایسی کلرفل پرسنیلٹی صرف چارلی چپلن اور ہٹلر کو مکس کرکے ہی تیار کی جاسکتی تھی جو کہ ہماری خوش قسمتی سے ہمیں مفت میں ہی میسر آگئی ہے۔ اس پر ہم خدا کے جتنے بھی تھینک فل ہوں ،  کم ہے۔ گاڈ بلیس علاّمہ صاب۔