کِی دم دا بھروسہ

ان سے پہلی ملاقات ہی خوشگوار نہیں تھی۔
پردیسی ہوئے ہمیں زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اور طبیعت کی تُنک مزاجی اور زُود رنجی ابھی قائم تھی۔ ہمارے کولیگ چھٹی پر پاکستان تشریف لے گئے تھے اور دو بندوں کا کام ہمارے نازک کندھوں پر تھا۔ یہ انہی دنوں کا قصّہ ہے۔۔۔۔
ہم حسب عادت ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے، کام میں مشغول تھے کہ ایک درمیانہ قامت و عمر کے صاحب ہمارے دفتر میں وارد ہوئے۔ درمیانہ جُثّہ، گورا چٹّا رنگ، چھوٹے چھوٹے سخت بال، چہرے پر درشت تاثّر۔۔۔ آتے ہی بزبان عربی بہ لہجہ مصری گویا ہوئے، "وہ پاکستانی کہاں ہے؟"۔ اس وقت تک عربی سمجھ تو آتی تھی لیکن بولنے میں روانی نہیں تھی تو ہم نے انگریزی میں جواب دیا کہ وہ حضرت تو پاکستان تشریف لے گئے ہیں۔ تِس پر موصوف گویا ہوئے کہ ہمارا کام کون کرے گا؟۔ ہم نے ان کی طرف بغور دیکھا اور پھر اپنے سامنے پڑے میک کو غور سے دیکھا اور دوبارہ انکی طرف دیکھا۔ انہیں ہماری اس حرکت کا مفہوم سمجھ آیا تو چہرے کی درشتی میں مزید اضافہ ہوگیا اور مخصوص مصری انداز میں بڑبڑاتے ہوئے دفتر سے نکل گئے۔
کمپنی کے مندوب جو اتفاق سے مصری ہی تھے، ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد تشریف لائے اور استفسار کیا کہ وہ جو صاحب آئے تھے ان سے کیا بات ہوئی۔۔ ہم نے حرف بحرف دہرا دی۔ انہوں نے ہمیں یرکانے کی پوری کوشش کی کہ یہ صاحب فلاں سیمنٹ فیکٹری کے چیف اکاؤنٹنٹ وغیرہ ہیں جس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ہماری کمپنی کے مالک بھی شامل ہیں اور یہ "ارباب" کے خاص آدمی ہیں۔ یہ تم سے بہت ناراض ہیں کہ تم نے ان کا "احترام" نہیں کیا۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ ہم دل میں گھبرائے تو لیکن پکّا سا منہ بنا کے ان کی بات سنی ان سنی کرنے کا تاثر دیتے رہے۔
بات یہ کھلی کہ ہر سال اس سیمنٹ فیکٹری کی سالانہ رپورٹ ہماری کمپنی چھاپتی تھی اور وہ اسی سلسلے میں تشریف لائے تھے لیکن ہمارے روئیے اور ان کا واجب احترام نہ کرنے سے ان کو شدید طیش آیا اور وہ واپس تشریف لے گئے۔
اللہ غریق رحمت کرے، ہمارے مینجر، جو فلسطینی اردنی تھے۔ ان تک بات پہنچی تو وہ اپنے مخصوص دبنگ انداز میں بولے۔۔ شُووو۔۔ خلّی ولّی ہذا نفر۔۔ مافی فکر۔۔ (کیا؟؟ مٹی ڈالو اس بندے پر۔۔ اور فکر نہ کرو)۔۔۔ ہم نے فورا ان پر مٹّی ڈالی اور بے فکر ہو کے اپنی مزدوری میں مشغول ہوگئے۔ بہرکیف، اگلے دن انہوں نے اپنے کسی ماتحت کو ساری تفصیلات دے کر بھیجا اور خود تشریف نہیں لائے۔۔۔۔
ان کی کمپنی کا سارا چھپائی کاکام یہیں ہوتا تھا چونکہ ارباب ادھر بھی تھے اور ادھر بھی۔۔ لہذا ان کا ہمارے دفتر میں کبھی کبھار کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔۔۔۔ ہمارے کولیگ سے وہ بڑی گرمجوشی سے باقاعدہ عربی چمُیوں والے انداز سے گلے ملتے لیکن سالہا سال گزر گئے انہوں نے کبھی ہمیں سلام تک نہیں کیا۔ اگر کبھی کولیگ دفتر میں نہ ہوتے تو دروازے سے واپس ہوجاتے اور ریسپشن سے ان کے بارے استفسار کرتے کہ کہاں ہیں اور کب تک آئیں گے۔۔۔ ان کے چہرے سے ہی پتہ چلتا تھا کہ وہ ہمیں کس حد تک ناپسند کرتے ہیں۔ ہمیں ان کے اس مسلسل روئیے کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ ہم ایک معمولی سے کِی بورڈ مزدور۔۔ جس کی مہینے کی آمدنی شاید ان کی ایک دن کی آمدنی سے بھی کم۔۔۔ مجھ سے یقینا اعلی تعلیم یافتہ اور سماجی طور پر بھی مجھ سے کہیں برتر۔۔ شیوخ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا۔۔ جبکہ ہم سے تو نائی بھی بال کاٹنے کے ایڈوانس پیسے لیتے تھے۔ خیر۔۔ جیسا کہ ہماری کھال کافی سخت ہے تو ہم نے ان کے اس روئیے کو بھی معمول سمجھ لیا اور جیسے وہ ہمیں گوبھی سمجھتے تھے ہم بھی انہیں میز سمجھنے لگے۔
یہ قریبا اڑہائی سال پہلے کی بات ہے۔ کمپنی کے ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ وہی صاحب بہت بیمار ہیں اور ہسپتال میں ہیں۔ ہم نے تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ انہیں کینسر ہوگیا ہے اور طبیعت بہت خراب ہے۔ ہم نے ان سے کہا کہ جب بھی آپ کا ہسپتال جانا ہو تو مجھے بھی ساتھ لے لیجیے گا۔۔۔ اس بات سے قریبا ایک ڈیڑھ مہینہ پہلے وہ ہمارے دفتر آئے اور بالکل ہشاش بشاش اور تندرست تھے۔ ہم نے دل میں سوچا کہ خان بھائی، مبالغہ کررہے ہوں گے، طبیعت ایک دم اتنی خراب کیسے ہوسکتی ہے۔۔۔
اس سے ایک آدھ دن بعد خان بھائی نے ہمارے دفتر کا دروازہ تھوڑا سا کھول کر گردن گھسائی اور گویا ہوئے، "جاپر بھائی، ام اسپتال جائےگا، تم جائےگا؟"۔ ہم آمنّا و صدقنّا کہتے ہوئے ان کے ساتھ چل دئیے۔
ہسپتال کی مخصوص بُو، خاموشی اور اس خاموشی میں تیرتی امید اور مایوسی۔۔ ہم جب ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو گورے چٹّے صحت مند چہرے والے صاحب ایک مخصوص مشینی سی کرسی پر بیٹھے تھے۔۔ ان کا رنگ ایسا زرد تھا کہ زندگی میں کبھی کسی انسان کا رنگ ایسا نہیں دیکھا۔ پیٹ پُھولا ہوا تھا۔ ہمیں دیکھ کر ان کی آنکھوں میں حیرانی بھر آئی۔۔۔۔ پھر ایک شناسائی کی چمک۔۔۔ دونوں ہاتھ پھیلا کر بولے۔۔ "شّوف ۔۔ یا گعفر۔۔۔" (دیکھو۔۔ یہ کیا ہوگیا میرے ساتھ) ان کی آنکھیں بھر آئی تھیں ۔۔ "سوی دُعا حبیبی"۔۔۔ (میرے دوست، دُعا کرنا میرے لیے) ہمارے حلق میں جیسے دُھواں بھر گیا ۔۔۔ ان کا کندھا تھپتھپایا۔۔۔ روایتی سی باتیں کیں کہ انشاءاللہ کچھ نہیں ہوگا۔۔ سب ٹھیک ہوجائےگا۔۔۔ ان کو بھی اور ہمیں بھی علم تھا کہ یہ جھوٹ ہے۔۔۔۔ واپسی کے لیے مُڑے۔۔ تو بولے۔۔ شُکرا یا گعفر۔۔۔۔
پندرہ بیس دن بعد خبر ملی کہ وہیں چلے گئے ہیں جہاں سب کو جانا ہے۔

Comments
11 Comments

11 تبصرے:

انصار نے فرمایا ہے۔۔۔

پہلی دفعہ آپکا بلاگ پڑها. انتہائی متاثر کن ہے.. الله زور قلم اور زیادہ کرے.

کاشف نے فرمایا ہے۔۔۔

حبیبی۔ آپ بہت اچھا بولتے اور لکھتے ہیں۔
میرے لیے اتنی دماغی یکسوئی سے تحریر میں رنگ بھرنا ناممکن ھے۔
براوو۔

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

إنا لله وإنا إليه راجعون

شکریہ جعفر بھائی، اللہ آپکو اجر دے۔
یہ پوسٹ میرے لئے بہت اہم ہے۔
اب ایک ایسے ہی شخص کے ساتھ معاملہ کرنے میں مجھے آسانی ہو گی۔
بہت اچھا لکھتے ہیں، لکھتے رہیے۔

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

واہ دل خوش کیتا

اللہ آپکو ہمیشہ اسی طرح صلہ رحمی کرنے اور انسانیت پر قائم رکھے ۔ ۔ ۔ آمین

قصہ پارینہ نے فرمایا ہے۔۔۔

الله مغفرت فرمائے - آمین

ہمممممم

بت ٹوٹ چکا ہے واقعی

اصلی زندگی سے ایسے واقعات سامنے لائیں گے تو ہی پتا چلے گا نا کہ " بت ٹوٹ چکا ہے " :)

جیتے رہو

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت خوب زندگی کی ایک بہت تلخ سچائی بیان کی ہے آپ نے وقتاور حالات واقعی بڑے بڑوں کو بدل دیتے ہیں

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت خوب زندگی کی ایک بہت تلخ سچائی بیان کی ہے آپ نے وقتاور حالات واقعی بڑے بڑوں کو بدل دیتے ہیں

علی نے فرمایا ہے۔۔۔

مرنے والے نہیں مرتے پیچھے بچ جانے والے مر جاتے ہیں۔

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

سمجھ نہیں آ رہا، کیا کہوں.

عادی نے فرمایا ہے۔۔۔

واہ بہت

Sufyan Ahmad Sufi نے فرمایا ہے۔۔۔

موت کی یاد دلا دی

تبصرہ کیجیے