چار لکیریں

انہوں نے ایک ادا سے دایا ں ہاتھ بالوں میں پھیرا۔ کاؤچ کی پشت سے ٹیک لگائی۔ کرتے کے کھیسے سے  طلائی پائپ نکال کر کافی ٹیبل پر رکھا۔ سائڈ ٹیبل کا دراز کھولا۔ چمکتی دھات کی ایک ڈبیا نکال کر کافی ٹیبل کے شفاف شیشے پر سفید رنگ کا سفوف انڈیلا۔  ان کے دوست نے فوراً اپنے بٹوے سے کریڈٹ کارڈ نکال کے ان کو دیا۔ انہوں نےکریڈٹ کارڈ سے سفوف کی ڈھیری کو نہایت مہارت سے چار لکیروں کی شکل  دی۔ ٹیبل سے پائپ اٹھا کر اس کا ایک سرا  ناک سے لگایا اور دوسرے سرے سے ان لکیروں کو سونگھنا شروع کردیا۔ چوتھی لکیر ختم ہوتے ہی انہوں نے کالا چشمہ اتار کر ٹیبل پر دھرا۔ سر جھٹکا۔ گہرا سانس لیا۔ پائپ کھیسے میں ڈالا اور میری طرف متوجہ ہوکر بولے۔۔۔ جی چوہدری صاحب۔۔ آپ کیا کہہ رہے تھے؟
یہ گریٹ پرسنیلٹی ہیں۔ زندگی میں انہوں نے جس کام کو بھی ہاتھ لگایا وہ سونا ہوگیا اور جس شخص کو ساتھ ملایا وہ مٹّی۔ یہ رول ماڈل  بھی ہیں۔ یہ واحد پرسنیلٹی ہیں جن سے مولوی بھی انسپائر ہوتے ہیں اور پلے بوائے بھی۔ انکی انرجی ، ان کی ڈیڈیکیشن ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ لوگ مرنے کے بعد لیجنڈ بنتے ہیں یہ لیونگ لیجنڈ ہیں۔ یہ جہاں چلے جائیں سینٹر آف اٹینشن ہوتے ہیں۔ میں اپنی ویب سائٹ کے لیے ایک موٹیویشنل مضمون لکھ رہا تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ ان سے ملاقات کرنی چاہیے۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ آپ کی اچیومنٹس کا راز کیا ہے۔ میں نے ان کے سیکرٹری سے وقت لیا۔ انہوں نے  مجھ سے پیسے لیے۔  میں وقت مقررہ پر ان کے گھر پہنچ گیا۔ میرے پاس گلوریا جینز کی بلیک کافی کا مگ اور شوگر فری ڈنکن ڈونٹس کا شاپر تھا۔  مجھے علم تھا کہ یہ کسی ملنے والے کو پانی بھی نہیں پوچھتے۔ میں مریض آدمی ہوں۔ میں کام کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ نہ کھاؤں تو میرا مُوڈ سُوِنگ ہوجاتا ہے۔ خانزادے کو کرسی مارنے کا واقعہ آپ کو یاد ہوگا۔  اس لیے احتیاطا ً میں نے کافی اور ڈونٹس ساتھ لے لیے۔ میرا مُوڈ سُوِنگ شوگر لو ہونے پر ہوتا ہے۔ ان کا مُوڈ ہر وقت سُوِنگ رہتا ہے۔ یہ غصے میں بہت گندی گالیاں نکالتے ہیں۔  مجھے گالیوں سے بہت ڈر لگتا ہے خاص کر جب کوئی مجھ سے تگڑا بندہ نکال رہا ہو۔ اینی ہاؤ۔۔۔
میں نے ان کو چار لکیریں سونگھتے دیکھا۔ میں حیران ہوگیا۔ میں نے ڈونٹ کافی میں ڈبویا۔ بائٹ لینے کی کوشش کی۔آدھا زمین پر گر گیا۔ میں نے جلدی سے اٹھا یا۔ کلمہ پڑھ کر اس پر پھُونک ماری اور کھا لیا۔ کافی کا سِپ لیا۔ مگ میز پر رکھا۔ چشمہ اتار کر ٹائی سے اس کے شیشے صاف کیے۔ چشمہ ناک کی پھننگ پر جمایا  ۔  اور ان سے گفتگو کا آغاز کردیا۔ میرا پہلا سوال ہی چار لکیروں بارے تھا۔ میں نے کہا۔ یہ نشہ ہے۔ یہ حرام ہے۔ یہ غیرقانونی ہے۔ یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس سے دماغ ماؤف اور جسم مفلوج ہوجاتا ہے۔ آپ یہ کیوں کرتے ہیں؟  یہ سن کر ان کے سیکرٹری نے انگلی ہونٹوں پر رکھ کر مجھے خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔  میں خاموش ہوگیا۔ ان کی آنکھیں مزید چُندھیا گئیں۔ ان کا چہرہ سُرخ ہوگیا۔انہوں نے  پیپسی کی ڈیڑھ لیٹر والی بوتل کھولی۔ ایک لمبا گھونٹ لیا۔ ڈھکن لگایا۔ میری جانب ایک نگاہِ غلط انداز سے دیکھا اور کہنے لگے۔۔۔

یہ چار لکیریں نہیں ہیں۔ یہ زندگی کا فلسفہ ہے۔ یہ طرزِ حیات ہے۔ پہلی لکیر انرجی کی ہے۔ میں اس عمر میں بھی  انتھک محنت کرتا ہوں۔ میں نوجوانوں سے زیادہ جوان ہوں۔ یہ سب انرجی اس پہلی لکیر کا کمال ہے۔ دوسری لکیر ذہانت کی ہے۔ یہ دماغ کی کارکردگی کو ناقابل یقین لیول تک بڑھا دیتی ہے۔ ایسی ایسی باتیں اور چالیں دماغ میں آتی ہیں جن کو یہ دنیا سمجھتی، سمجھ ہی نہیں سکتی۔ میں اس دنیا سے پچاس سال آگے کی سوچتا ہوں۔ یہ سارا کمال اس دوسری لکیر کا ہے۔ تیسری لکیر صحت کی ہے۔ صحت کے لیے ضروری ہے کہ بھوک لگے اور نیند آئے۔ میں دو دیسی مرغیاں ایک وقت میں کھا جاتا ہوں۔ عام آدمی دیسی مرغی کا لیگ پیس بھی کھا کر نہیں پَچا سکتا۔ میں دو مرغیاں دَبڑ جاتا ہوں۔ بنی نوع انسان کو آج تک یہ بات ہی سمجھ نہیں آئی کہ رات ہر کام کرنے کے لیے بہترین وقت ہے۔ لوگ سوئے ہوتے ہیں۔ گرمی بھی نہیں ہوتی۔ رش بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے میں رات کو جاگتا ہوں۔ اور نور پیر کے وقت گہری نیند سوجاتا ہوں۔ ایک بجے تک بھرپور نیند لے کے بیدار ہوتا ہوں۔ یہ سب تیسری لکیر کا کمال ہے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئے۔ میں نے بچا ہوا ڈونٹ کافی میں ڈبوئے بغیر منہ میں ڈالا۔ کافی کا گھونٹ لیا اور اسے نگل کر سوال کیا۔ 
 "اور چوتھی لکیر؟"
نہوں نے بے نیازی سے میری طرف دیکھا اور بولے،"وہ قوّت باہ کے لیے ہے۔"
یہ سن کر میں نے میز سے اپنا فون اٹھایا۔ان کے ہاتھ چُومے۔ چوتھی لکیر کا سفوف بطور تبرک لیا ۔ ہینڈ شیک کیا اور کمرے سے الٹے قدموں باہرنکل آیا۔