مکافات کا دریا

کافی پرانی بات ہے۔ کہو تو اب اپنا قصہ نہیں لگتا، کسی اور کی کہانی لگتی ہے۔ یہ وقت کا جادو ہے۔ میں چھوٹا سا تھا۔ اتنا چھوٹا کہ پہلی دفعہ کسی بچے کو گود میں لینے کی اجازت ملی تھی۔یہ میری چھوٹی بہن تھی۔ سردیوں کے دن تھے اور خوب دھند۔ میں نظر بچا کر باہر گلی میں نکل آیا اوراس دھند میں چھُٹکی کو اٹھائے گلی میں گھومتا رہا اور خود کو بڑا  اور معتبر سمجھتا رہا۔
ابوجی کا بچوں کے ساتھ برتاؤ بہت سپیشل ہوتا تھا، اب بھی ہے۔  انہیں کبھی اونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا۔ کبھی کسی بچے کو "تُو"یا "اوئے"  سے مخاطب کرتے نہیں سنا۔ ہمیشہ "تسی" یا نام لے کر پکارتے تھے۔ چھوٹی کے ساتھ لیکن ان کا لگاؤ کچھ الگ ہی تھا۔اس کو خصوصی پروٹوکول دیتے تھے۔ رویّوں پر تو شاید اختیار ہوتا ہے محبت پر نہیں ہوتا۔
چھوٹی شاید ایک ڈیڑھ سال کی تھی کہ  بیمار ہوئی۔ ایک ٹانگ پر پولیو کا شدید اثر ہوا۔ سارے شہر کے اسپتال اور ڈاکٹر چھان مارے۔ لیکن سب کا یہی کہنا تھا کہ ٹانگ ناکارہ ہوگئی ہے۔ چلنا مشکل ہوگا۔ مناسب وسائل رکھنے والا خاندان جتنی دوڑ بھاگ کرسکتا ہے اس سے زیادہ کوشش کی۔ کوئی امید نظر نہیں آئی۔
نڑوالا چوک سے جناح کالونی کی طرف آئیں تو دائیں ہاتھ پر لاؤڈ سپیکرز، ایمپلی فائر وغیرہ کی مارکیٹ ہوا کرتی تھی ۔جہاں سے اکثر "ہیلو ہیلو۔۔ مائیکرو فون ٹیسٹنگ۔۔ہیلو ہیلو" کی آوازیں آیا کرتی تھیں۔  انہی کے درمیان حکیم طفیل کا مطب تھا، اب بھی ہے۔ حکیم صاحب تو انتقال کرچکے ، اب ان کے صاحبزادے مطب سنبھالتے ہیں۔ ابوجی کی حکیم طفیل سے پرانی یاد اللہ تھی۔ نزلہ زکام ، ہلکے پھلکے بخار کے لیے دوا انہی سے لی جاتی تھی۔ مختلف اقسام کے شربت، مربےّ، مزے دار میٹھے خمیرے۔ بچوں کو اسی لیے حکیم کی دوائی پسند تھی۔ نہ انجکشن کا ڈر نہ کڑوے شربت۔ چورن جیسا سفوف اور بزوری یا بنفشے کا مزے دار شربت اور میٹھے خمیرے۔۔ ہاں کبھی کبھار کڑوے جوشاندے بھی پینے پڑتے تھے لیکن اتنی سی قربانی  دی جاسکتی ہے تو   ہنسی خوشی دوا کھا لیتے تھے۔ قصہ مختصر۔۔۔۔ ابو نے حکیم صاحب سے ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ایک تیل بنانا پڑے گا لیکن اس میں بہت محنت ہے اور اس کے اجزاءبہت مشکل ہے کہ مل سکیں۔ ابو کے اصرار پر انہوں نے اجزاء اور اس کی تیاری کا طریقہ لکھ دیا۔
ابو بتاتے ہیں کہ ساری چیزیں اکھٹی کرنے میں انہیں تقریبا تین مہینے لگے۔ تیل بنانے کا عمل چھٹی والے دن انجام پایا۔ ایسی ناگوار اور تیز بُو تھی کہ ساتھ والی گلی تک اس کا اثر جاتا تھا۔ شفا منجانب اللہ ہوتی ہے۔ خاک سے بھی مل جاتی ہے۔ تقریبا ایک سال تک اس تیل کی مالش کی گئی۔ متاثرہ ٹانگ جو حرکت نہیں کرتی تھی اب اس پر وزن ڈالنا ممکن ہوگیا۔ آہستہ آہستہ چھوٹی نے ٹانگ گھسیٹ کے لنگڑا کے چلنا بھی شروع کردیا۔ ڈاکٹر اورنگ زیب جو ہمارے ہمسائے تھے، وہ بھی اس بحالی   پر حیران تھے۔ وقت گزرتا گیا۔ چھوٹی چل تو سکتی تھی لیکن دوسرے بچوں کی طرح دوڑنا بھاگنا اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ شاید اسی لئے اس کی طبیعت میں تلخی، گرم مزاجی اور چڑچڑا پن آتا گیا۔
انہی دنوں گلی میں کچھ نئے لوگ آئے۔ نکڑ والے مکان کے اوپر ی پورشن میں آنے والے کرائے دار کا نام شیخ طاہر تھا۔ لحیم شحیم، گورے چٹّے۔ سوتر منڈی میں بروکری کا کام کرتے تھے۔ طبیعت میں گرم مزاجی اور بڑبولا پن تھا جسے پنجابی میں پونکا بھی کہتے ہیں۔ ان کی بیگم البتہ بالکل الٹ تھیں۔بہت نرم لہجے اور سبھاؤ والی مہذب اور پڑھی لکھی خاتون۔ کچھ ہی عرصے میں شیخ صاحب کا نام طاہر سے موٹا طاہر میں تبدیل ہوگیا۔ ہر خاص و عام ان کو اسی نام سے یاد کرنے لگا۔  قریبا ایک ہی سال میں انہوں نے اسی گلی میں بابے حاجی کے ساتھ والا مکان خرید لیا۔ ویسپے کو سوزوکی کیری ڈبے سے بدل لیا۔ ہماری گلی میں پہلا اے سی بھی انہی کے گھر لگا تھا۔ 
شیخ صاحب کی تلخ مزاجی اور بد گوئی کا شکار افراد کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ کئی دفعہ بات تلخ کلامی سے ہاتھا پائی تک بھی پہنچی۔ ان کی بدمزاجی کا شکار زیادہ تر وہ لوگ ہوتے جو پلٹ کر جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ مولوی صادق اور استاد خالد سے مار کھانے کے بعد وہ اس ضمن میں کافی احتیاط برتا کرتے تھے۔
متوسط طبقے کے محلّوں میں بچوں کے کھیلنے کی جگہ گلی ہی ہوتی ہے۔ بچّے کھیلتے ہیں۔ لڑتے ہیں۔ پھر سب کچھ بھلا کے کھیلنے لگتے ہیں۔ دل میں مَیل نہیں رکھتے۔شیخ صاحب کی بیٹی بھی چھوٹی کی ہم عمر تھی۔ ایک دن کھیلتے ہوئے شاید لڑائی ہوگئی۔ وہ روتی ہوئی گھر چلی گئی۔  اس کے بعد شیخ صاحب جب بھی چھوٹی کو گلی میں دیکھتے تو اسے "لنگڑی" کے نام سے پکارتے۔ وہ گھر آکے خوب چلاّ چلاّ کے روتی کہ وہ مجھے لنگڑی کہتے ہیں۔ امی جی کبھی پیار سے اور کبھی ڈانٹ کر اسے چپ کرادیتیں۔ یہ معمول طول پکڑ گیا تو امی نے محفل میلاد میں آئی شیخ صاحب کی بیگم سے اس کا ذکر کیا۔ وہ بہت شرمندہ ہوئیں اور یقین دلایا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ لیکن شیخ صاحب اپنی طرز کے واحد انسان تھے۔ چھوٹی کو لنگڑی کہنا کبھی نہیں بھولتے تھے۔ وہ بھی رو پیٹ کے چپ ہوجاتی تھی۔
وقت گزرتا گیا۔ چھوٹی سکول جانے لگی۔ میں بھی سکول کے آخری درجات میں پہنچ گیا۔ خون گرم تھا۔ ایک دو دفعہ شیخ صاحب سے گلی میں کرکٹ کھیلنے پر تلخ کلامی بھی ہوئی۔ ایک کی تین سنیں تو شیخ صاحب مجھ سے کترانے لگے۔ میں کچھ ہتھ چھُٹ بھی مشہور تھا تو شاید یہ وجہ بھی تھی۔ بہرحال انہی دنوں شیخ صاحب ایک اور بیٹے کے باپ بنے۔ بہت خوبصورت، گول مٹول ، گورا چٹّا بچّہ۔ کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ وہ پیارا بچہ بالکل حرکت نہیں کرسکتا۔ شاید سر کو تھوڑی بہت حرکت دے سکتا تھا۔ سن اور بول بھی نہیں سکتا تھا۔ امی بتاتی ہیں کہ شیخ صاحب کی بیگم ہمارے گھر آئیں اور ہاتھ جوڑ کے کہہ رہی تھیں کہ ہمیں معاف کردیں۔ یہ بیان کرتے ہوئے امی جی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
پس ڈوبنے والوں کو خبر تک نہیں ہوتی
بہتا ہے بہت سُست مکافات کا دریا
Comments
3 Comments

3 تبصرے:

AQIB نے فرمایا ہے۔۔۔

اللہ اکبر

Javed Siddique نے فرمایا ہے۔۔۔

ذرا الگ پر بہت خوب

shan نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت اعلیٰ

تبصرہ کیجیے