متوازی تاریخ

انیس سو چھہتر  کے آخری دنوں میں جب وزیر اعظم بھٹو نے انتخابات کا اعلان کیا تو یہ اپوزیشن کے لئے سرپرائز تھا۔ قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے ۔ متحدہ اپوزیشن نے دھاندلی کے الزامات لگائے اور صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ ایک پُرتشدد تحریک چلی۔ بالآخر حکومت اور اپوزیشن نے مذاکرات کے ذریعے معاملہ طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ 2 جولائی 1977 کو سمجھوتہ ہوگیا اور  وزیر اعظم بھٹو نے اکتوبر 1977میں دوبارہ انتخابات کا اعلان کردیا۔ ان کے ساتھ پریس کانفرنس میں مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ، عبدالولی خان، پروفیسر غفور، غوث بخش بزنجو، شاہ احمد نورانی اور اصغر خان بھی موجود تھے۔ انتخابات کے لئے نگران حکومتوں کا بھی اعلان کیا گیا۔ اپوزیشن اور حکومت کو ان میں برابر نمائندگی دی گئی تھی۔
انتخابات پرامن اور شفاف طریق سے ہوئے۔ مرکز میں پی پی پی نے سادہ اکثریت حاصل کی جبکہ بلوچستان اور سرحد میں متحدہ اپوزیشن نے اکثریت حاصل کرکے حکومتیں تشکیل دیں۔ سندھ اور پنجاب میں بھی پی پی پی کامیاب ہوئی۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ پی پی پی کے امیدواروں کی اکثریت متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔  یہ بھٹو کا دوبارہ سے پارٹی کے بنیادی منشور کی طرف رجوع تھا۔ اس سے ان کی سیٹیں تو کم ہوئیں لیکن عام آدمی کا بھٹو پر دوبارہ سے اعتماد بحال ہوا۔  معراج محمد خان سندھ  اور حنیف رامے پنجاب کے وزیر اعلی بنے۔
نومبر 1978 میں بھٹو نے زرعی اصلاحات  کا اعلان کیا۔ اس میں انہیں نیپ، جے یو آئی، تحریک استقلال کی حمایت حاصل تھی۔ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (قیوم) اور مسلم لیگ (دولتانہ) نے اس کی کھل کر مخالفت کی۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن ختم کرکے سب کے لئے عام معافی کا اعلان کیا گیا۔ صوبائی خودمختاری کے لئے آئینی ترمیم کی گئی ۔ خارجہ، دفاع، مواصلات اور خزانہ کے علاوہ تمام اختیارات صوبوں کو منتقل کردئیے گئے۔ فاٹا کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس کو صوبہ سرحد میں ضم کردیا گیا ۔ ستمبر 78 میں بلدیاتی انتخابات بھی ہوئے جن کا نتیجہ کم و بیش عام انتخابات جیسا ہی تھا۔
دسمبر 79میں سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے اس جارحیت کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سوویت فوجیں افغانستان سے نکل جائیں اور افغانی عوام کی خواہشات کے مطابق ان کو حکومت بنانے کا موقع دیا جائے۔ اپوزیشن لیڈر اصغر خان نے حکومتی موقف کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ انہوں نے پیشکش کی کہ بحران کے خاتمے کے لئے وہ اور ولی خان ماسکو اور کابل کا دورہ کرنے کو تیار ہیں۔ وزیر اعظم بھٹو نے اس بحران کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔صدر ریگن نے انتخابات جیتنے کے بعد وزیر اعظم بھٹو کو واشنگٹن کے دورے کی دعوت دی۔ پاکستان کو پیشکش کی گئی کہ اگر وہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں تو انہیں بھرپورفوجی اور معاشی امداد دی جائے گی۔وزیر اعظم نے اس قضیے میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا البتہ انہوں نے معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں ہر قسم کی مدد کی یقین دھانی کرائی۔
افغان پناہ گزینوں کے لئے سرحدی علاقوں میں کیمپس بنائے گئے۔ ان کی رجسٹریشن کی گئی اور آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگائی گئی۔ مفتی محمود اور ولی خان افغانستان کے متعلقہ فریقوں کے ساتھ رابطے میں رہے۔ اگست 1982 میں کابل حکومت اور افغان مزاحمت کاروں کے مابین پہلے باضابطہ مذاکرات کا آغاز ہوا۔  اکتوبر 82 میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ اس دفعہ پی پی پی کے مقابل متحدہ  اپوزیشن نہیں تھی۔ نیپ اور جے یو آئی نے اتحاد کرکے الیکشن لڑا۔ جبکہ اصغر خان کی تحریک استقلال نے سولو فلائٹ کی۔ جماعت اسلامی نے  مولانا مودودی کی وفات کے بعد سیاست اور انتخابات  میں حصہ لینے کی پالیسی سے رجوع کیا اور دعوتی کام کی طرف واپس چلی گئی۔
پنجاب کی حد تک پی پی پی اور تحریک استقلال میں کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ اصغر خان کا کرشمہ شہری علاقوں میں نظر آیا جبکہ دیہی علاقوں میں بھٹو کا جادو سر چڑھ کے بولا۔ پی پی پی بڑی مشکل سے سادہ اکثریت حاصل کرسکی۔ سندھ میں پی پی پی، جبکہ سرحد اور بلوچستان میں نیپ اور جے یو آئی کے اتحاد نے کامیابی حاصل کی۔نئی اسمبلی نے حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ شائع کرنے کی متفقہ قراردار منظور کی اور اس میں ذمہ دار ٹھہرائے گئے لوگوں پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی بھی سفارش کی۔ 16دسمبر 1983 کو سقوطِ ڈھاکہ کے مرکزی کرداروں کے خلاف مقدمے کا آغاز ہوا۔ اس سے ایک ماہ قبل افغانستان کے متحارب فریقین امن معاہدہ کرچکے تھے۔ جس کے تحت ایک نگران حکومت قائم کی گئی جس میں افغانستان کے تمام نسلی و لسانی گروپس کو نمائندگی دی گئی۔ اس حکومت کے تحت ڈیڑھ سال بعد عام انتخابات ہونے طے پائے۔ افغان پناہ گزینوں کی مرحلہ وار واپسی کا عمل بھی شروع ہوا۔ اگلے چھ ماہ میں تمام افغان پناہ گزین واپس جاچکے تھے۔
زرعی اصلاحات پر عملدرآمد میں بہت سی رکاوٹیں آئیں مگر  وزیر اعظم بھٹو نے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ جدیدکاشتکاری کے لئے زمین کے نئے مالکان کو تربیت دی گئی۔ بلاسود زرعی قرضے اور سستی بجلی فراہم کی گئی۔ مارچ 1984 میں چاروں صوبائی حکومتوں کی منظوری سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی۔اس کا سنگِ بنیاد عبدالولی خان نے رکھا۔
16 دسمبر 1985 کو پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا۔ وزیر اعظم بھٹو نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے  کہا کہ پاکستان کبھی کشمیر سے دستبردار نہیں ہوگا اور نہ ہی کشمیریوں کو بھولے گا۔ یہ تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہےجسے آج یا کل مکمل ہونا ہے۔ خطّے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے یو این اور عالمی طاقتوں کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ مذاکرات  کے پہلے دور کا آغاز 4 اپریل 1986 کو مری میں ہوا۔ ڈیڑھ سال کی بات چیت کے بعد پاکستان اور ہندوستان ابتدائی سمجھوتے پر رضامند ہوگئے جس کے تحت کشمیر کی سرحد کھول دی گئی اور دونوں اطراف کے کشمیریوں کو آنے جانے کی آزادی دے دی گئی۔ عام شہریوں کے لئے بھی ویزے کی پابندیاں نرم کرکے تقریبا ختم کردی گئیں۔ دو طرفہ تجارت کے فروغ کا بھی فیصلہ ہوا۔
اس تاریخ کو یہیں چھوڑتے ہیں اور 5 جولائی 1977 کو یاد کرتے ہیں!
Comments
3 Comments

3 تبصرے:

AQIB نے فرمایا ہے۔۔۔

ہمیشہ کی طرح بہت عمدہ۔

anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

خیالوں ہی خیالوں میں ایک تصویر اور آئیڈیل سچویشن تخلیق ہی ہوئی تھی کہ آپ نے 5 جولائی 1977 کا ذکر کر دیا

تبصرہ کیجیے