خدائی کا سرٹیفکیٹ

دیکھیے، سرٹیفکیٹ جدید زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ پیدا ہوتے ہی میونسپل کمیٹی کا سرٹیفکیٹ لینا پڑتا ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ اب قانونی طور پر پیدا ہوچکے ہیں۔یہ نہ ہو تو آپ پیدا ہوکے بھی پیدا نہیں ہوتے کہیں عالم برزخ میں پڑے رہتے ہیں۔ یہی تعلیم کا قصہ ہے۔ پرائمری سے پی ایچ ڈی تک یہ مُوا سرٹیفکیٹ ہی ہے جو ثابت کرتا ہے کہ آپ پڑھے لکھے ہیں اگرچہ آج کل حامل سرٹیفکیٹ پوری  کوشش کرتے ہیں کہ انہیں پڑھا لکھا نہ سمجھا جائے۔ اس کے بغیر چاہے آپ جتنی مرضی قسمیں کھاتے رہیں کوئی یقین نہیں کرتا۔ ریاست بھی اپنے شہریوں کو سرٹیفکیٹ دیتی ہے کہ مسمی فلاں ابن فلاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شہری ہے اور اسے بھی وہ تمام حقوق (یا ان حقوق کی خلاف ورزیاں) حاصل ہیں جو ایک جدید ریاست کے شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں۔
مذہب کا معاملہ البتہ کچھ الگ تھا۔ اس کے لئے کسی سے کوئی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔ زبان سے کیا جانے والا اقرار کافی و شافی رہتا تھا۔  کسی کو اس پر شک نہیں ہوتا تھا  نہ کوئی کسی سے سرٹیفکیٹ مانگتا تھا۔ مذہبی پیشواؤں کو البتہ مشغلے کے طور پر دوسروں کے مذہب /مسلک میں مین میخ نکالنے  کی عادت تھی لیکن یہ سب سو کالڈ علمی طور پر ہوتا تھا۔ ہزاروں صفحات اس لٹریچر کے لکھے گئے کہ فلاں کا مذہب /مسلک /عقیدہ ناقص ہے جبکہ  ہمارا ایک دم چوبیس قیراط ہے اور حافظ کا اصلی ملتانی سوہن حلوہ ہے۔ یہ سرگرمیاں مذہبی کتابوں/رسائل اور کبھی کبھار مناظروں تک محدود رہتی تھیں۔ لہو گرم رکھنے کا بہانہ سمجھ لیں کہ علاّمہ صاحب نے بھی پلٹ کر جھپٹنے کی کافی  فضیلت بیان کر رکھی ہے۔ اگرچہ دبے  الفاظ میں "فی سبیل اللہ فساد" کا ذکر بھی کیا  ہے لیکن عموما اس سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔بزرگوں کی خطا پر گرفت کرنا ویسے  بھی گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔  کسی بھی مسلک کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے کسی کو کوئی ڈریا خوف نہیں ہوتا تھا کہ کوئی اس سے سرٹیفکیٹ طلب کرے گا کہ۔۔۔ او  بھیّا کدھر منہ اٹھا کے گھسے آتے ہو؟ تمہارے پاس ہمارا جاری کردہ سرٹیفکیٹ بھی ہے یا نہیں؟
ہر شہر کی چند مساجد میں ایسے شعلہ بیان خطیب ہوا کرتے تھے جن کا ہر جمعہ کاشو ہاؤس فل ہوتا تھا۔ شعلہ بیان خطیبوں کو مذہبی انڈسٹری کے سپر سٹار سمجھ لیں۔ جو بھی بول دیں، سپر ہٹ ہوجاتا ہے۔ عبداللہ حسین کا "اداس نسلیں" شاید چند ہزار لوگوں نے پڑھا ہوجبکہ مظہر کلیم ایم اے کے ولولہ انگیز ناول بلا مبالغہ کروڑوں لوگ پڑھ چکے ہوں گے۔  سلمان خان کی ایک فلم کو اتنے لوگ دیکھتے ہیں جتنے شاید نصیرالدین شاہ کی تمام فلموں کے ناظرین ملا کے بھی نہیں بنتے ہوں گے۔ خیر۔۔۔  لوگ دور دور سے آتے۔ سوا  ڈیڑھ گھنٹے کی انٹرٹینمنٹ سے لطف اندوز ہوتے اور دوبارہ اپنی معمول کی زندگی میں مگن ہوجاتے۔ اچھے وقت تھے کہ شعلہ بیان خطیب بھی ایسے شعلے دہکاتے تھے جن پر باربی کیو ہوسکے نہ کہ گھر جلائے جا ئیں۔ فیصل آباد میں مولانا ضیاءالقاسمی غلام محمد آباد کی گول مسجد میں جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ پنجابی میں خطاب کرتے اور لوگوں کو ہنساتے تھے،رلاتے بھی تھے۔ ان سے منسوب ہے کہ جمعے کے خطبہ میں حضرت موسی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کوئلے کا ذکر آیا تو فرمانے لگے،
"واہ اوئے کولیا تیریاں شاناں، جے پَخ گیا تے نورانی ۔۔۔ جے بُجھ گیا تےےےے۔۔ مفتی جعفر حسین"۔
صاف بات یہ ہے کہ ہمیں مذہبی اور ریاستی معاملات کی پیچیدگیوں کا کوئی زیادہ ادراک نہیں ہے۔ نہ ہی ان کو جاننے میں دلچسپی ہے لیکن کچھ تو ایسا ضرور ہوا ہے کہ ایسا روادار معاشرہ جس کے مذہبی پیشوا بھی جگتیں کیا کرتے تھے وہ اس حال کو پہنچ گیا کہ ایک لفظ بھی آپ کا حال مشال جیسا کرسکتا ہے۔   اب آپ کو باقاعدہ ایک مذہبی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے۔جس پر واضح الفاظ میں آپ کے ایمان کی گواہی اور تصدیقی مہر ثبت ہو  کہ حامل ہذا سرٹیفکیٹ قادری سُنّی ٹن ٹن ٹناٹن ہے۔  اس کے بغیر آپ کی ساری قسمیں رائیگاں ہیں۔ کوئی بھی ہجوم کسی بھی بازار، درس گاہ میں آپ کو جہنم رسید کرسکتا ہے اور اس کام کو جنت کی یقین دھانی سمجھ سکتا ہے۔ ایمان پر شک کی ایک چنگاری آپ کے جسم کے پٹرول پر پھینکی جاسکتی ہے اور آپ بھک سے اڑ سکتے ہیں۔  جن بزرگوں کے ہاتھ پر برصغیر کے لوگوں نے اسلام قبول کیا وہ بھی آج ہوتے تو شاید انہی لوگوں کی اولادیں ان کو کافر قرار دے کے قتل کردیتیں۔
زاہد حامد، رانا ثناءاللہ وغیرہ  جانے کس بھول میں ہیں یہاں تو خدا کو بھی سوادِ اعظم کی منظور شدہ فرنچائز  سے خدائی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑے  گا۔
Comments
1 Comments

1 تبصرے:

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

چھا گئے استاذی

تبصرہ کیجیے