فیصلہ

"قتل ہونا چاہنا واں۔ ایہہ جُڑیا پِنڈا وکھو وکھ ویکھنا چاہنا واں"۔ (مولا جٹ)
عظیم مصنّف ناصر ادیب نے کلاسک فلم "مولاجٹ" کے کردار نوری نت سے جب یہ جملہ کہلوایا تو وہ انسانی نفسیات کی دس ہزار سالہ تاریخ کا نچوڑ  تھا۔   تاریخ کا بنظر غائر مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر جرم کے پیچھے ایک نوری نت  ہوتا ہے جس کا مقصد پیسہ، مال منال اور موج میلہ نہیں بلکہ صرف تھرل اور ایڈونچر ہے۔ یہاں نوری نت، مولاجٹ کے سوال "توں چاہنا کِی ایں؟" کا جواب اس آفاقی سچائی سے دیتا ہے کہ میں اپنے اس ثابت جسم کے ٹکڑے ٹکڑے دیکھنا چاہتاہوں کہ اس کے بعد کیسا محسوس ہوتا ہے۔
جب سے انسان نے معاشرتی زندگی شروع کی اور مختلف ادارے اور نظام وضع کیے۔ تب سے عدالتی نظام کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے جو دو فریقین کے مابین ثالثی/انصاف/عدل کا داعی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج تک ناصر ادیب کے اس خیال کو سب نے نظر انداز کیا ؟ بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ نظام عدل نے انسانی نفسیات کے اس پہلو کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا اور ہزاروں سال سے بے گناہوں کو سزا اور گنہگاروں کو باعزت بَری کرتا رہا ہے۔
"شعلے" میں گبّر سنگھ جب سانبھا سے پوچھتا ہے، "کتنے آدمی تھے؟" ۔ تو وہ استفسار نہیں کررہا ہوتا بلکہ فرد جرم عائد کرتا ہے۔ یہ فوری انصاف کی عمدہ مثال ہے۔ صد حیف کہ ہمارا قانون اور نظام اس کو انڈروس نہیں کرتا۔ سرخ فیتے، وکیل، شہادتیں، ثبوت، گواہ۔۔ اس طولانی عمل میں انصاف کا خون ہوجاتا ہے۔ جب کسی معزّز اور معتبر اور ایمان دار شخص نے کہہ دیا کہ فلاں آدمی قاتل/چور/ڈاکو ہے تو اس کی پُچھ پرتیت، تفتیش کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ کیا یہ لوگ ناصر ادیب، سلیم خان اور جاوید اختر جیسےادیبوں کی اجتماعی دانش کا انکار کررہے ہیں؟
 انصاف کسی قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ قوانین ہمیشہ مجرموں کو تحفظ فراہم کرنے کا حیلہ ہوتے ہیں۔  عدل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانا پڑے تو وہ عین فرض ہوگا۔ جدید مہذب مغربی دنیا کے ادب میں اس کی مثالیں جا بجا موجود ہیں۔ بیٹ مین،سپرمین، آئرن مین،سپائڈر مین، ڈئیر ڈیول،جیسیکا جونز، لیوک کیج، تھور، آئرن فسٹ الغرض بے شمار مثالیں ہیں۔ وقت آچکا ہے کہ انصاف کے لیے قانون کی کتابوں میں جھانکنے کی بجائے کامکس، کیبل، انٹرنیٹ اور ٹورنٹس  سے رابطہ استوار کیا جائے۔
بوٹسواناکے عظیم شاعر یولامولو فاکاشونامونا کی ایک نظم  کے ساتھ اختتام کرتا ہوں:-
دھیرے دھیرے پیار
کو بڑھا نا ہے
حد سے گزر جانا ہے
راز جو حد سے باہر میں تھا
اس کو میں پکڑنہیں سکتا
تم میرے ٹائے چڑھ گئے
تو
تم کو میں رغڑ نہیں سکتا
دنیا کیسی دنیا ہے
دل توڑ کے ہنستی ہے
ہنسنے والے ایک دن
تجھے جب رونا پڑے گا
پیار کیا تو نبھانا پڑے گا
بن کے دلہن
ڈولی میں جانا پڑے گا
موت سے کس کو
رستگاری ہے
آج تم کل اس کی باری ہے
وہ جب آنکھ اٹھا کے
کہتا ہے کہ
پپو کانٹ ڈانس سالا
تو کلیجے میں
اک تیر  ترازو ہوتا ہے
ہرسچے جج کا
اک عسکری بازو ہوتا ہے