بابے ریمتے کی کہانی، مولوی ذاکر کی زبانی


بابے ریمتے کی پنچائت کا انصاف پوری تحصیل میں مشہور ہوچکا تھا۔ آس پاس کے پِنڈوں سے لوگ بابے کے پاس شکایات لے کر آتے۔ بابا اپنی انصاف پروری اور دانش سے ان کے فیصلے کرتا اور مسکینوں کو ان کا حق دلاتا۔ ایک ایسے ہی ایک پھڈّے میں بابے نے سراج تیلی کی بیٹی کو سنگسار کرنے کا فیصلہ دیا جسے صادق باجوے کے منڈے نے اغواء کرکے دو مہینے ڈیرے پر قید رکھا تھا۔ بابے نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جوان جہان لڑکی جب گلیوں میں آزادانہ گھومے پھرے گی تو شیطان متقی جوانوں کو بہکائے گا۔ اس میں جوانوں کا کوئی قصور نہیں۔
بابے ریمتے کی بیٹھک میں ہر وقت لوگ کا ہجوم رہتا۔ بابے کا مشیرِ خاص فتّو میراثی تھا۔ جو آئے گئے ہر بندے کی خدمت میں جُتا رہتا اور جاتے ہوئے جو بھی اپنی مرضی سے کوئی نذرانہ دیتا تو اسے سنبھالنے کا کام بھی اس کے ہی سپرد تھا۔ چراغ جلے جب رش کم ہوتا تو بابے اور فتّو کے مابین پورے دن کی کاروائی اور یافت پر دو طرفہ مذاکرات ہوتےاور اگلے دن کے شیڈول پر بھی ڈسکس کیا جاتا۔ فتّو صدق دل سے یہ سمجھتا تھا کہ بابا ریمتا ایک لیجنڈ بن چکا ہے اور پورے پنڈ کے لوگ ہر مشکل میں اس کی طرف دیکھتے ہیں اور اس کا فیصلہ جی جان سے قبول کرتے ہیں۔ فتّو اکثر بابے کو مشورہ دیتا تھا کہ اب اسے چوہدری صاحب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر بات کرنی چاہیئے ۔ ان کے ساتھ منجی پر بیٹھنا چاہیئے نہ کہ زمین پر۔
بھادوں شروع ہوچکا تھا۔مچھروں کی بہتات تھی۔ بابے کو ساری رات نیند نہیں آئی۔ حبس اور گرمی جوبن پر تھی۔ بابا تڑکے نور پیر ویلے ہی اٹھ گیا تھا۔ ماسی پِینو کو اٹھا کے بابے نے لسّی مانگی تو ماسی نے بابے کو چھڈویں چپّل دے ماری اور چلاّئی۔۔"پھُڑکی پینیاں، جا لے جا میرے مگروں، دغاڑا لگناں"۔  بابے نے تحمّل سے ماسی کی بدزبانی برداشت کی اور بیٹھک میں چلا آیا۔ دن چڑھے تک بابا بیٹھک میں افسردہ بیٹھا رہا۔بابا سوچتا رہا کہ پِنڈ کے لوگ اس کی اتنی عزت کرتے ہیں، اس کے ہر فیصلے پر آمنّا و صدقنا کہتے ہیں اور ایک یہ پِینو اونتری ہے جو اس کی یومیہ بنیادوں پر بے عزتی کرتی ہے۔ بابے نے فتّو کے آنے سے پہلے فیصلہ کرلیا کہ آج وہ ایسا کام کرے گا کہ پِینو دوبارہ اس کے سامنے کبھی اونچی آواز میں بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکے گی۔ فتّومیراثی کےآتے ہی بابے نے اس کو ساتھ لیا اور چوہدری کے ڈیرے کی طرف چل پڑا۔ فتّو پوچھتا ہی رہا کہ کیا معاملہ ہے لیکن بابے کے چہرے پر گھمبیرتا طاری رہی۔
ڈیرے پر پہنچتے ہی بابے ریمتے نے کامے کو حکم دیا کہ چوہدری صاحب کی رنگلے پایوں والی منجی بوڑھ کے نیچے بچھا دے اور اس پر ریشمی غلاف والے تکیے رکھ دے اور بھاگ کے چوہدری کو بلا لائے۔ بابا منجی پر تکیے کے ساتھ ٹیک لگاکے بیٹھا گیا اور فتّو کو کہا کہ وہ نیچے زمین پر بیٹھ کے اس کی ٹانگیں دبائے۔ تھوڑی دیرہی  گزری تھی کہ  چوہدری صاحب، نِکّے چوہدری اور حواریوں کے ساتھ تشریف لے آئے۔ ڈیرے میں داخل ہوتے ہی انہیں بابے کی کڑک دار آواز سنائی دی،
"اوئے چوہدری! ادھر آکے زمین پر بیٹھ جا۔ آج تیرا یومِ حساب ہے۔ تو غریب مزارعوں کی خون پسینے کی کمائی لوٹتا ہے۔ تیرے بدکار پُتّر کی ہوس سے پِنڈ کی کوئی کُڑی محفوظ نہیں۔جب تیرا دل چاہتا ہے کسی کو بھی بے گار میں پکڑ کر لے جاتا ہے۔جو تیرے سامنے آواز اٹھاتا ہے اسے تیرے کن ٹُٹّے مار مار کے باندر بنا دیتے ہیں۔ تو پِنڈ کے لوگوں کو انسان نہیں سمجھتا۔ ان کی توہین کرتاہے۔ آج تیرے ان سب جرائم کا حساب ہوگا۔ میرے پنچائت کے فیصلوں کی پوری تحصیل میں دھوم ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ بابا ریمتا سب کے ساتھ انصاف کرتا ہے۔ آج بابا تیرے ساتھ بھی انصاف کرے گا۔
میں ، بابا ریمتا، حکم دیتا ہوں کہ چوہدری کی زمینیں قرق کرکےمزارعوں میں تقسیم کر دی جائیں۔ نِکّے چوہدری کے ہاتھ پیر باندھ کے اس کا منہ کالا کرکے ، گلے میں جوتوں کا ہار ڈال کے،کھوتے پر سوار کرکے پورے پِنڈ کا چکر لگوایا جائے۔چوہدری کی حویلی آج سے میرا ڈیرہ ہوگا۔ چوہدری کو زن بچے کے ساتھ پِنڈ سے نکال دیا جائے اور پوری تحصیل میں اس کو کسی بھی جگہ پناہ نہ دی جائے۔ نکالنے سے پہلے چوہدری پِنڈکے ہر بندے کے سامنے ہاتھ جوڑ کے معافی مانگے۔ "
فیصلہ سنانے کے بعد بابے ریمتے نے فخریہ نظروں سے فتّومیراثی کی طرف دیکھا۔ فتّومنہ پھاڑے بابے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بابا چپ ہوا تو فتّو نے اٹھ کے دامن جھاڑا، پلاسٹک کی پرانی چپّل پاؤں سے اتاری اور بابےریمتے کے سر پر برسانے لگا۔
قصّہ مختصر، آج بعد از نمازِ عصر بابے ریمتے کی نمازہ جنازہ پِنڈ کی مسجد میں ادا کی جائے گی۔


Comments
0 Comments

0 تبصرے:

تبصرہ کیجیے