لاؤ تو اعمال نامہ "اپنا"۔۔


یہ کچھ پیچیدہ سی سادہ بات ہے۔ متوسط طبقے کے شہری، پنجابی، پاکستانی،سُنی مسلمان ہونے کے ساتھ بائی ڈیفالٹ کچھ سافٹ وئیر انسٹال ہوتے ہیں۔ ان میں  سے پہلا یہود و ہنود، امریکہ، شیعہ، احمدی، سیاستدانوں سے نفرت اور دوسرا  اسلام، پاکستان، مشرقی روایات اور پاک فوج سے محبت ہے۔ آپ سے کیا پردہ، فدوی بھی عنفوان شباب سے ذرا پہلے جماعتیا ہوا کرتا تھا۔ مزے کی بات یہ کہ فدوی  اس عالمگیر سچائی کے استثنی کی مثال ہے کہ بندہ جماعت سے نکل جاتاہے،جماعت بندے سے نہیں نکلتی۔ فدوی جماعت سے بھی نکل گیا اور جماعت بھی فدوی سے نکل گئی لہذا اصولا تو فدوی کی جگہ اب میوزیم آف نیچرل ہسٹری ہونی چاہیئے کہ یہ انسانی تاریخ کی شاید پہلی اور آخری مثال ہے۔ بہرکیف یہاں سے بات کو موڑ کے اصل مدعا کی جانب آتے ہیں۔
پردیس میں ایک عمر گزار کے یہ سمجھ آئی کہ زندگی اور دنیا کی رنگارنگی ہی  اس کی اصل ہے۔ دیکھیے، میں ایک مذہبی انسان ہوں اور میرا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر خدا سب کو ایک جیسا اور ایک جیسی سوچ اور عقیدے کا مالک بنانا چاہتا تو اس کے لئے یہ مشکل نہیں تھا اور نہ ہے۔ تو یہ اتنے رنگ برنگے لوگ اور عقیدے اور مذاہب اور زبانیں کس لئے ہیں؟ میری رائے میں یہ سب اس کے ڈیزائن کا حصہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی خدا کی بنائی دنیا میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو سرے سے خدا کو ہی نہیں مانتے تو خدا ان کی آکسیجن بند نہیں کرتا۔ ان پربھی سورج ویسے ہی چمکتا ہے۔ ان کے دن میں بھی 24 گھنٹے ہیں۔ وہ بھی دولت کماتے ہیں۔ زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان کو بھی بیماری سے شفا ملتی ہے۔
خدا ان سے یہ نہیں کہتا کہ چونکہ تم مجھے جاننا تو دور کی بات، مانتے بھی نہیں اس لئے اپنی دنیا میں رہنے کا حق میں تم کو نہیں دوں گا اور تم سب کو فنا کردوں گا۔ جی نہیں؛ خدا ایسا نہیں کرتا۔ خدا نے انسان کو بنایا ۔ اسی نے انسان کو انسان ہونے کے حقوق دئیے تو کوئی انسان کسی سے یہ حق نہیں چھین سکتا کیونکہ یہ خدائی ڈومین ہے۔ حیات بعد از موت کا تصور بھی میری رائے میں اس کی تصدیق کرتا ہے کہ تب خدا سب کو لائن حاضر کرکے پوچھے گا کہ ہاں، اب بولو کہ تم دنیا میں کیا گل کھلا کے آئے ہو۔ حساب دو۔ نکتہ یہ ہے کہ عقیدوں اور اعمال کا حساب  خدا لے گا۔ میں آپ ایک دوسرے سے یہ حساب لینے کے مجاز نہیں۔
کسی انسان سے اعمال و عقائد کا حساب مانگنے سے پہلے  خدائی کا دعوی یاد سے کرلینا چاہیئے۔

Comments
1 Comments

1 تبصرے:

عمیر نے فرمایا ہے۔۔۔

ویری ویل پٹ۔۔۔
مجھے ایسا لگا کہ میں اپنا حال دل پڑھ رہا ہوں!

تبصرہ کیجیے