بابے ریمتے کی ڈائری

کل چوہدری صاحب نے میوے والےتازہ گُڑ کے ساتھ تین دیسی مرغیاں بھیجیں۔ سخاوت میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ حاتم تائی بھی ان کے سامنے پانی بھرتا ہے۔ پچھلے بدھ کو پنچایت میں نِکّے چوہدری کا معاملہ زیر بحث تھا۔ جوان جہان بچہ ہے۔ فیکے ماچھی کی چھوری کو شہر گھمانے لے گیا تھا۔ ماچھیوں نے پورے گاؤں میں پِٹ سیاپا ڈال دیا کہ ہماری چھوری کو اغوا کرلیا ہے۔ یہ ساری طیفے لوہار کی شرارت تھی۔ جب سے اس نے چار پیسے کما لیے ہیں، چوہدریوں کے منہ کو آنے لگا ہے۔ چوہدراہٹ کا شوق ہوگیا ہے۔ اسی نے ماچھیوں کو بھڑکا کے گاؤں میں رولا ڈلوا دیا تھا۔ چوہدری صاحب نے منشی کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ اس معاملے کو دیکھو۔ میں نے فوری ایکشن لیتے ہوئے جھورے میراثی کو گبلے چوک میں پنچایت کا اعلان کرنے کے لیے کہہ دیا۔
نِکّے چوہدری نے اگلے دن ہی ماچھیوں کی چھوری کو واپس کر دیا تھا۔ چھنال پہلے تو ہنسی خوشی اس کے ساتھ چلی گئی لیکن واپس آنے کے بعد رونے پیٹنے کے ڈرامے کررہی تھی کہ مجھے زبردستی لے گیا تھا۔ مارا پیٹا اور میرے ساتھ بدی بھی کی ۔ بادی النظر میں یہ کوئی بڑی بات نہیں ۔ پہلی بات تو یہ کہ چھوری اپنی مرضی سے نِکّے چوہدری کے ساتھ گئی تھی اگر زبردستی بھی لے جایا گیا تو اس کا کیا گھِس گیا؟ شہر کی سیر مفت میں کرلی اور نئے جوڑے اور جھمکے بھی مل گئے۔ اس کا باپ تو ساری زندگی اس کو ایسی چیزیں نہیں دلوا سکتا۔ ایک تو غریبوں کا احساس کرنے والے سخی لوگوں کو دنیا جینے نہیں دیتی۔ چوہدری صاحب کی سخاوت اور دریا دلی کے قصے پورے علاقے میں مشہور ہیں۔ ایک دفعہ ڈیرے پر جاتے ہوئے جیپ کی ٹکر سے کمہاروں کے لڑکے کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو چوہدری صاحب نے اس کے باپ کو پورے پچاس روپے دئیے تھے کہ بچے کو دودھ وغیرہ پلا دے۔ اس کی ماں آج تک چوہدری صاحب کی درازیٔ عمر کی دعائیں کرتی ہے۔
ہاں تو پنچایت کا قصہ بیچ میں ہی رہ گیا۔ پنچایت بیٹھی تو فیکے ماچھی نے پِٹ سیاپا شروع کردیا کہ اس کی عزت لُٹ گئی۔ اس کو انصاف چاہیئے۔ چوہدری کے نِکّے کو سزا دو۔ اس نے گاؤں کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے۔ طیفے لوہار نے اس کو چپ کراتے ہوئے کہا کہ آج ماچھی کی چھوری خراب کی ہے کل ہمارے دھی بہن کی باری بھی آئے گی۔ ہم یہ بغیرتی نہیں چلنے دیں گے اور نِکّے چوہدری کو ایسی سزا دیں گے کہ اس کی نسلیں یاد رکھیں گی۔ طیفے لوہار کی بات پر ساری پنچایت میں کھپ پڑ گئی۔ سارے ماجھے ساجھے کمّی کمین چوہدری صاحب والا تبار کی شان میں گستاخیاں کرنے لگے۔ میں نے فورا گرجدار آواز میں سب کو خاموش ہونے کا حکم دیا۔ چوہدری صاحب کے کن ٹٹّے بھی اسی اثناء میں لاٹھیاں، ریفلیں لے کر گبلے چوک پہنچ چکے تھے۔ طیفے لوہارنے بیٹھنے سے انکار کردیا اور کہا کہ پنچایت کی پرمپرا مظلوم کی حمایت اور ظالم کا ہاتھ روکنا ہے۔ اگر پنچایت یہ کام نہیں کرسکتی تو یہ پنچایت نہیں بلکہ زور آوروں کی رکھیل ہے اور سرپنچ اس رکھیل کا دلال ہے۔
طیفے لوہار کی اس بکواس پر چوہدری صاحب نے جیرے پھنئیر کو اشارہ کیا تو وہ اپنے جتھے کے ساتھ طیفے لوہار پر پل پڑا۔  لاٹھیاں اور ریفلوں کے بٹ مار مار کے اس کی ہڈیاں توڑ ڈالیں۔گبلے چوک پر موت کا سکوت طاری تھا۔ اس میں چوہدری صاحب کی آواز گونجی۔۔
"اورکسی کو انصاف چاہیئے؟ چل او ئے بابے ریمتے، پنچایت کا فیصلہ سنا۔"