وکّی پرنس، سموسے اور ساجدہ

یہ زندگی سے مایوس ہوچکے تھے۔ ان کی لائف ڈپریسنگ اور پین فُل ہوچکی تھی۔ ایک ایک کرکے ان کی زندگی کی تمام خوشیاں، غموں میں بدل گئی تھیں۔ یہ جس کام میں ہاتھ ڈالتے، وہ کَم سے کَڑم بن  جاتا۔ ان کا سموسوں کا بزنس تباہ ہوگیا۔ ان کی ریڑھی کے بالکل سامنے ایک اور بندے نے ریڑھی لگا لی۔ وہ آدھی قیمت پر سموسے بیچنے لگا۔ اس کے سموسوں میں آلو بھی زیادہ ہوتے۔ وہ چٹنی بھی زیادہ ڈال کے دیتا۔ دوسری دفعہ چٹنی مانگنے پر بھی منہ نہ بناتا۔ وہ سموسوں پر چھولے بھی ڈالتا۔ اس کی ریڑھی چل گئی۔ وکّی پرنس کی ریڑھی کا ریڑھ نکل گیا۔
یہ وکّی پرنس کی کہانی ہے۔ یہ فلمی ہیرو بننا چاہتے تھے۔ یہ کترینہ کیف کے ساتھ ڈانَس کرنا چاہتے تھے۔ یہ ان کی پَپیاں لینا چاہتے تھے۔ ان کے ساتھ گانے پکچرائز کرانا چاہتے تھے لیکن یہ بیس سال کی عمر میں ہی گنجے ہوگئے۔ ہیرو بننے کی چکر میں اعلی تعلیم بھی حاصل نہ کرسکے اور گورنمنٹ مڈل سکول، کھوتیانوالہ سے ساتویں جماعت تک اعلی تعلیم حاصل کی۔ ان کے فادر بہت سخت انسان تھے۔ یہ ان کو ہاکیوں، ڈنڈوں اور جوتوں سے پھینٹا لگاتے تھے۔ یہ ان کو ہڈ حرام، نکمّا، کام چور کہتے تھے۔ ایک صبح وکّی پرنس سوکے اٹھے تو ان کی لائف بدل چکی تھی۔ انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ دنیا اور اپنے فادر کو کچھ بن کے دکھائیں گے۔ انہوں نے ریسرچ کی۔ انہیں پتہ چلا کہ کھوتیانوالہ میں اچھے سموسے نہیں ملتے۔ لوگ سموسے لینے بیس کلو میٹر دور جاتے ہیں۔ واپس آنے تک سموسے ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔ ان کا مزا نہیں آتا۔ وکّی پرنس نے سموسوں کی ریڑھی لگانے کا فیصلہ کرلیا۔
تین دن بعد کھوتیانوالہ کے مین بازار میں ' وکّی پرنس سموسہ مارٹ' کے نام سے انہوں نے بزنس شروع کیا۔ پہلے دن ہی 347 سموسے بِک گئے۔ ان کو دو ہزار روپیہ بچ گیا۔ پرنس خوش ہوگئے۔ انہوں نے  گھر جاتے ہوئے اللہ ہو سویٹ شاپ سے دو کلو جلیبیاں اور ساقے وڑائچ سے سو گرام چرس  خریدی۔ پرنس کے فادر شام ڈھلتے ہی چرس کا جوڑا بناکر نوش کرتے تھے۔ یہ جب گھر پہنچے تو ان کا ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا۔ پرنس کے فادر چرس دیکھ کے نہال ہوگئے۔ یہ پرنس کی محنت اور ڈیڈیکیشن کے قائل ہوگئے۔ انہوں نے عہد کیا کہ آئندہ کبھی وکّی پرنس کو 'سن آف آ بِچ' نہیں کہیں گے۔ یہ پرنس کی عزت کریں گے۔ یہ ان سے پیار بھی کرنے کی کوشش کریں گے۔
وکّی پرنس کی دن رات کی محنت رنگ لائی۔ یہ روزانہ سات، آٹھ سو تک سموسے بیچنے لگے۔ انہوں نے اچھی سی وگ بھی لے لی۔ یہ کاٹن کا مائع والا سوٹ بھی پہننے لگے۔ یہ جمعے والے دن میٹھا پان بھی کھانے لگے۔ ساجدہ  ان کی ہمسائی تھی۔ یہ ان کو بالکل لفٹ نہیں کراتی تھی۔ یہ ان کو گنجا  گنجا کہتی تھی۔ چھٹی جماعت سے ہی پرنس، ساجدہ پر فدا تھے لیکن آج تک ساجدہ نے پرنس سے سیدھے منہ بات نہیں کی تھی۔ سموسوں کا کرشمہ ایسا ہوا کہ ساجدہ  ان کو وٹس ایپ پر دل بنا کر بھیجنے لگی۔ ساجدہ نے پرنس کو بغیر دوپٹے والی سیلفیاں بھی بھیجیں۔ یہ پرنس پر فدا ہوگئی۔ اس نے پرنس کو فیس بک پر بھی ایڈ کرلیا۔ ساجدہ کی فیس بک آئی ڈی سحر یار خان تھی۔ پرنس دو سال سے اس کو فرینڈ ریکویسٹ بھیج رہے تھے لیکن یہ ایکسپٹ نہیں کرتی تھیں۔ اب یہ رات کو دیر تک ویڈیو چیٹ بھی کرنے لگے۔ پرنس کی زندگی ایک آئیڈیل لائف بن چکی تھی۔ یہ ماضی کی تلخیاں بھلا کر حال میں زندگی کو انجائے کر رہے تھے کہ
اچانک
سموسوں کی نئی ریڑھی آگئی۔ یہ ان کی زندگی میں المیے اور سیڈ نیس کی ابتداء تھی۔ بزنس ٹھپ ہوا تو ساجدہ دوبارہ ان کو گنجا کہنے لگی۔ فادر نے پڑچھتی پر پڑی ہوئی ہاکی دوبارہ نکال لی اور ہر دوسرے دن پرنس کے آلریڈی سِکے ہوئے کُھنّے سیکنے لگے۔ وکّی پرنس کی لائف میں سوائے ڈپریشن، مِزری اور سیڈ نیس کے کچھ باقی نہ رہا۔ ایک صبح وہ اٹھے اور فیصلہ کیا کہ آج ان کی لائف کا فائنل ڈے ہوگا۔ یہ آج  سوسائیڈ کرلیں گے۔ یہ مین بازار سے نان چھولوں کا ناشتہ کرکے کھیتوں کی طرف نکل گئے۔ یہ کافی دیر بے خودی کے عالم میں چلتے رہے۔ اچانک انہیں ایک درخت کے نیچے سبز پوش بزرگ بیٹھے نظر آئے۔ بزرگ نے اشارے سے پرنس کو اپنی طرف بلایا۔ پرنس سے انکار نہ ہوسکا۔ یہ بے اختیار بزرگ کی طرف کھنچتے چلے گئے۔ یہ ان کے پاس جا کے بیٹھ گئے۔ بزرگ نے اپنے چولے میں ہاتھ ڈالا اور چرس کا جوڑا نکال کے سلگایا ۔ ایک طویل کش لے کر اسے وکّی پرنس کی طرف بڑھادیا۔ پرنس نے بسم اللہ کہہ کے پکڑا ۔ کش لگایا۔ دھواں بابا جی کے چہرے پر چھوڑا۔ بابا جی ہولے سے مسکرائے اور یوں مخاطب ہوئے۔
'میرے بچے! مجھے علم ہے تم بہت پریشان ہو۔ تم بہت ڈپریس ہو۔ تم آج آتم ہتّیا کرنے یہاں آئے ہو۔ میں تمہیں روکوں گا نہیں۔ سوسائیڈ کرنے سے پہلے میری ایک بات سن لو۔'
وکّی پرنس نے اثبات میں سرہلایا۔ بزرگ دوبارہ گویا ہوئے۔ یہ کہنے لگے۔ایک سادہ سا عمل ہے لیکن اس کے اثرات اور فوائد مجرّب ہیں۔ عمل یوں ہے کہ غسل کرکے صاف کپڑے پہنیں۔ قبلہ رخ ہو کے دو زانو بیٹھ جائیں۔ اپنا موبائیل نکالیں۔ ڈیٹا آن کریں۔ یو ٹیوب کھولیں۔ '92 ورلڈ کپ فائنل ہائی لائٹس' سرچ کریں اور جھلکیاں دیکھنی شروع کردیں۔ جھلکیاں پوری ختم نہیں ہوں گی کہ آپ کا ڈپریشن، سیڈنیس سب ختم ہوجائے گا۔ آپ دوبارہ سے اس لائف اور اس کی دلچسپیوں کو انجائے کرنے لگیں گے۔ آپ کے اندر مشکلات اور مصائب کا مقابلہ کرنے کی ہمّت آجائے گی۔ آپ دوبارہ کامیاب ہوجائیں گے۔ ساجدہ دوبارہ آپ کو وٹس ایپ پر دل اور بغیر دوپٹے والی سیلفیاں بھیجنے لگے گی۔ آپ بس ایک دفعہ اس کو ٹرائی ضرور کریں۔
وکّی پرنس اٹھے۔ بزرگ  کا ہا تھ چوما۔ چرس کے جوڑے کا شکریہ ادا کیا اور واپس کھوتیانوالے کی طرف چل دئیے۔ ان کی چال میں ایک عزم، حوصلہ اور ڈیڈیکیشن تھی!

ڈیم، چندہ اور لعنتی


ارض و سما کے فیصلے گاہے اتنے سہل ہوتے ہیں کہ درویش تو کیا عامی بھی ظاہری آنکھ سے ان کو دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی جائے اور قنوطیت پرستوں کو امیّد دلائے۔
ربع صدی کا قصّہ ہے۔ درویش کے آستانے پر حاضری کا وقت ابھی دورتھا۔ چیچو کی مَلیاں وہ دھرتی جس نے خالو خلیل جیسے بطلِ جلیل کو جنم دیا۔ جھلستی جولائی کی ایک سہ پہر طالبعلم وہاں پہنچا تو چیل، ماس اور کتا، ہڈّی چھوڑ چکا تھا۔ خالو کا دَر کھٹکھٹایا، چوخانے کا تہہ بند ڈاٹے، کندہ ناتراش جس کو تہوتی کہتے ہیں، خالو باہر آئے۔ طالبعلم کو سامنے پایا۔ فرطِ مسرّت سے گلے لگانے کو بڑھے تو تہہ بند ڈھیلا ہو کر کششِ ثقل کو سچ ثابت کرنے لگا تھا کہ ہوش غالب آیا۔ تہہ بند سنبھالا۔ اور طالبعلم کو وہ سبق دیا جو آج بھی اس کا ذہن روشن اور دل منوّر کرتا ہے۔ "چھیدے! گل کردے  ہوئے زبان تے جوش اچ جسم قابوچ ناں رہوے تے بندہ ننگ پڑنگ ہوجانداای"۔ باقی تاریخ ہے۔
مردِ جری جنرل ایّوب کہ دشمن جس سے تھر تھر کانپتا تھا۔ امریکہ کے دورے پر گئے تو امریکہ کا صدر تاریخ میں پہلی دفعہ ہوائی مستقر پر ان کے استقبال کو پہنچا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ امریکہ کی خاتون اوّل، مردِ وجیہہ کو دیکھتے ہی دل ہار گئیں۔ ایسی خوبصورتی، ایسی وجاہت، ایسا دبدبہ۔ اقبالؔ کا مثالی مردِ مومن، دو نیِم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا۔۔۔سمٹ کر  حیا سے اپسرا یوں لجائی۔۔۔ اللہ اکبر۔ مغرب کے دریوزہ گر آج اس قلندر پہ زبانِ طعن دراز کرتے ہیں۔ فاطمہ جناح میں سوائے قائدِ اعظم کی ہمشیرہ ہونے کے کیا خوبی تھی؟ غفار خان،  مجیب الرحمن جیسے وطن دشمنوں کے ساتھ ان کا اتحاد۔ قائد بھی بی ڈی ممبر ہوتے تو ہمشیرہ کی بجائے جنرل ایّوب کو ووٹ دیتے۔وہ شخص کہ پچھلے دوسو سال میں مسلم دنیا اس کا ہمسَر پیدا نہ کرسکی، کیا وہ موروثی سیاست کا حامی ہوتا؟ الحذر۔۔ الحذر۔۔۔ بہتان ہے یہ صریح بہتان۔۔ کذب و ریا جن کا شیوہ ہے، ایسی دریدہ دہنی انہیں کو مبارک۔
جنرل ایّوب کی فراست، مردِ مومن کی فراست تھی۔ صدیوں کا منظر نامہ ان کے سامنے کھلی کتاب کی طرح تھا۔ اس وقت ڈیم بنانے کا بِیڑا اٹھایا جب کوتاہ بین فاؤنڈریاں لگانے میں مشغول تھے۔ این جی اوز مافیا آج چلاّتی ہے کہ پنجاب کے تین دریا ہندوستان کو بیچ دئیے۔ جھوٹ حضورِ والا، سفید جھوٹ۔ تین بیچے نہیں بلکہ تین دریا ہندوستان سے حاصل کرلئے۔ بڑے اور زیادہ پانی والے دریا۔ راوی میں تو کبھی آج تک پانی دیکھا نہیں۔ یہی حال ستلج اور بیاس کا ہے۔ تو کیا یہ خشک دریا لے کر پانی والے ہندوستان کو دے دیتے؟ لوگ مگر غور نہیں کرتے۔ تعصّب و نفرت سے ذہن و دل کو آلودہ رکھتے ہیں۔ سامنے کی بات وہ سمجھ نہیں سکتے، دیکھ نہیں سکتے۔ جیسا باری تعالی فرماتے ہیں ، مفہوم کہ دلوں پر مہُریں لگ جاتی ہیں۔
کیا اس قوم کی مناجات کا کبھی جواب نہیں آئے گا؟ کیا خالق اپنی مخلوق سے بے نیاز ہوگیا ہے۔ ہرگز نہیں۔ خدائے لم یزل ہم پر مہربان ہے۔ جنرل ایوّب جیسے مردِ جری کے بعد اب اس نے ہمیں جسٹس صاحب جیسا مردِ ذکی عطا کیا ہے۔ کیا وہ وقت آن لگا ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا؟ کیا یہی وہ شہسوار ہے جو قرنوں بعد کسی قوم کو عطا ہوتا ہے؟قرائن بتاتے ہیں کہ ہاں! یہی وہ شہسوار ہے جس کا درویشوں اور اللہ کے نیک لوگوں کو انتظار تھا۔ یہی ہے وہ مردِ شجیع جس کے آنے کی خبر اہلِ نظر صدیوں سے دیتے آئے ہیں۔ ادبار کے دن لَد چکے۔ ایک روشن صبح ہماری منتظر ہے۔
ایک ہفتہ ادھر کپتان سے ملاقات رہی۔ ہمیشہ کی طرح بشّاش۔ دیسی گھی میں پکی دیسی مرغی کی ٹانگ بھنبھوڑتے ہوئے ، قرونِ وسطی کا کوئی جنگجو لگ رہا تھا۔ اس کا جدّ اعلی چنگیز خان، جو ایک صحرا سے اٹھا اور پوری دنیا پر بگولے کی طرح چھا گیا ،  اس کی طبیعت بھی ایسی ہی سادہ تھی۔ اسی کی نسل سے رب کریم نے اسلام کو چار دانگِ عالم پھیلانے کا کام لیا۔ طعام سے فراغت کے بعد قہوے کا دَور چلا۔ موضوع وہی پانی کی کمیابی اور جسٹس صاحب کا ڈیم بنانے کا عزم تھا۔ طالبعلم متجسس تھا کہ کپتان نے اس عظیم کام میں کتنا حصہ ڈالا ہے، جسٹس صاحب کے ڈیم اکاؤنٹ میں کتنے پیسے عطیہ کئے۔ دریافت کیا تو کپتان مخصوص انداز میں دھیمے سے مسکرایا  اور بولا، "چھیدے۔۔۔ منگتیاں کولوں منگنا لعنتیاں دا کَم اے۔" فئیر اینف حضورِ والا، فئیر اینف۔
ارض و سما کے فیصلے گاہے اتنے سہل ہوتے ہیں کہ درویش تو کیا عامی بھی ظاہری آنکھ سے ان کو دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی جائے اور قنوطیت پرستوں کو امیّد دلائے۔