عید مبارک

 نئے جوتے، کپڑے پہنے، عطر لگائے، بے دلی سے 'سیویاں' (جسے اب شیر خورما کہتے ہیں) کھاتے ہوئے، ابّو کہتے کہ جلدی کرو بھئی، نماز کا وقت نہ نکل جائے۔ ان کو میٹھا پسند تھا، ہمیں بھی تھا؛ ہر لائلپوری کو ہوتاہے، لیکن سیویاں کبھی پسند نہیں آئیں۔ ان کو کھانا مشکل اور اس سے مشکل نئے کپڑے بچانا ہوتا تھا۔ عید کے جوڑے پر صبح ہی سیویاں گر جائیں تو سارا دن نئے کپڑوں کی شو کیسے ماری جاتی؟ دل چاہتا کہ انڈا پراٹھا کھائیں لیکن ابّو کا اصرار ہوتا کہ عید کی نماز سے پہلے میٹھا کھانا سنت ہے۔ نماز سے واپسی پر پُوڑیاں کھائیں گے۔

چھوٹی عید کی نماز جناح کالونی کی جامع مسجد میں پڑھنے جاتے۔ موٹر سائیکل چلاتے ابّو جی دھیمی آواز میں تکبیر پڑھتے اور ہمیں بھی کہتے کہ عید کی نماز کو جاتے ہوئے تکبیر پڑھنا سنت ہے۔ مسجد میں پہنچنے والے اوّلین نمازیوں میں ہم باپ بیٹا ہوتے تھے۔مولانا اشرف ہمدانی نمازِ عید کے خطبہ کے لئے منبر پر آتے  تو مسجد بھر چکی ہوتی۔ بے پناہ خطیب تھے۔ حاضرین کو ہنسانے، رلانے اور پیسے نکلوانے میں طاق۔ نماز کے بعد عربی کا پورا خطبہ سن کے مولانا کی رقّت انگیز دعا ہوتی۔ ہم حیران ہوتے کہ عید کے دن مولانا کیوں رو اور  رلا رہے ہیں۔ دعا ختم ہوتی اور مولانا عید مبارک   کہتے تو سبھی نمازی عید ملتے۔ سب سے پہلے ابّو جی مجھ سے عید ملتے۔ ان کی گرمجوشی آج تک محسوس ہوتی ہے۔

نماز کے بعد کامران سویٹس جھنگ بازار کا رخ ہوتا۔ مٹھائی کے کافی سارے ڈبّے بنوا ئے جاتے۔ سب سے پہلے دادی، جنہیں ہم   وڈّی امی جی کہتے تھے ، کی طرف جاتے ۔  پھر تایاؤں اور چچا کی طرف سے ہوتے ہوئے، درجہ بدرجہ مٹھائی اور سیویاں کھاتے، دن چڑھے گھر پہنچتے تو امّی منتظر ہوتیں۔ شامی کباب، پلاؤ، سالن  کی خوشبوئیں۔

وقت گزرا تو عید کی نماز کے بعد سب سے پہلے گلستان کالونی کے قبرستان جاتے۔ دادا کی قبر پر فاتحہ پڑھتے۔ کچھ سال بعد نانا کی قبر کا بھی اضافہ ہوگیا۔ ہم تھوڑا بڑے ہوئے تو اکتا سے جاتے کہ ابوّجی جلدی کریں، گھر چلیں۔ تو نرم آواز میں کہتے، "پُت ۔۔ عید دا دن اے، ابا جی  اڈیک دے ہونے کہ شفیع ہالے تیکر ملن نئیں آیا۔۔۔"

مٹھائی کا ایک ڈبّہ خصوصی گھر کے لئے ہوتا جس میں صرف گلاب جامن اور میسو ہوتا تھا۔ گلاب جامن تو سب کی مشترکہ پسند تھا جبکہ میسو امّی کے لئے۔ شام تک اس ڈبّے میں صرف میسو ہی بچا ہوتا تھا۔ ہم پولکا جتنے پرانے ہیں۔ پولکا آئس کریم کیک اسلم بیکری سے لایا جاتا اور سارا دن وقتا فوقتا کھایا جاتا۔  عیدی کا یوں تھا کہ ہماری طبیعت میں خسیس پن فطری ہے۔ پیسے جمع کرتے رہتے، خرچ نہیں کرتے تھے۔ اگلے دن سارے پیسے امّی کو امانتا رکھوا دیتے۔ پچاس سے سو کے درمیان کثیر رقم ہوتی تھی۔ آج تک یہ پیسے امّی کے پاس امانتا پڑے ہیں۔

بچپن سے اس عمر تک کہ ادھیڑ عمری دستک دے رہی ہے، ہمیشہ یہ احساس رہا کہ کوئی بھی پریشانی، مسئلہ یا مشکل ہو تو ابّو جی ہیں ۔ کوئی فکر کی بات نہیں۔ ایک بےفکر احساسِ تحفظ۔ اگرچہ بیمار اور کمزور ہوچکے تھے لیکن یہ احساس کبھی ختم نہیں ہوا۔

آج عید کی صبح اٹھ کے سب سے پہلے سیویاں بنائیں۔ آس پاس والوں میں تقسیم کیں۔ خود بھی کھائیں۔ ابّو سے ملنے قبرستان جانا ممکن نہیں تھا۔ ان کو یہیں سے سلام بھیجا۔  وہ بے فکری اب نہیں۔ ۔۔۔ میاں محمد بخش یاد آئے۔۔۔۔ باپ سِراں دے تاج، محمد۔۔۔

ابوّ جی عید مبارک۔۔۔

Comments
1 Comments

1 تبصرے:

Sufyan Ahmad Sufi نے فرمایا ہے۔۔۔

آپ کی تحریر مکمل ہوتی ہے، سوائے واہ واہ کے کچھہ اور تبصرہ نہیں کرسکتے، عید پر بلاگ کا تحفہ دینے کا شکریہ لیکن شکوہ ہے کہ بہت مختصر لکھا ہے-

تبصرہ کیجیے