گُجّر، ملک اور زہریہ ٹاؤن

آپ قدرت جاوید کو دیکھ لیں۔ آپ امجد کامرانی کو دیکھ لیں۔ آپ رفعت حسین کو دیکھ لیں۔ آپ سمیع اللہ خان کو دیکھ لیں۔ یہ خود کو پھنّے خاں سمجھتے تھے۔ یہ کہتے تھے ہم اصلی صحافی ہیں۔ یہ لوگوں سے بدتمیزیاں کرتے تھے۔ یہ الٹے سیدھے سوال پوچھتے تھے۔ یہ رُوڈ بھی تھے اور ایروگنٹ بھی۔ یہ سیلف رائیچیس بھی تھے اور ان کمپیٹنٹ بھی۔ یہ نیوز پیپرز میں کالم بھی لکھتے تھے۔ یہ چینلز پر ٹاک شو بھی کرتے تھے۔ کوئی ان کے کالم رِیڈ نہیں کرتا تھا۔ ان کے شوز کی ریٹنگ بھی پُوور ہوتی تھی۔ مگر یہ سیلف کرئیٹڈ ہائیپ کی وجہ سے بڑے صحافی کہلاتے تھے۔ آج یہ یو ٹیوب پر سَفر کرتے ہیں۔ کوئی نیوز پیپر ان کو پبلش کرنے پر تیار نہیں۔ یہ چینلز کے ترلے کرتے ہیں۔ یہ اپنا شو چلوانا چاہتے ہیں۔ چینلز والے ان کو گراس نہیں ڈالتے۔ یہ بِٹرّ ہو چکے ہیں۔ یہ کانسپریسی تھیوریز بناتے ہیں۔ یہ اداروں کے اگینسٹ نیریٹو بناتے ہیں۔ یہ اینیمز کے ہاتھوں میں پلے ہو رہے ہیں۔

یہ جیلس بھی ہو چکے ہیں۔ یہ فیمس جرنلسٹس اور اینکرز کے جوک بناتے ہیں۔ یہ ان کا فَن اڑاتے ہیں۔ یہ ان کے ہوم، کلوتھز، وہیکلز اور ہالیڈیز سے بَرن ہوتے ہیں۔ یہ لائف میں کمپلیٹلی ان سکسیس فل ہوچکے ہیں۔ یہ ہر سکسیس فل سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ ڈیفنس فورسز کو ہر پرابلم کا ریزن سمجھتے ہیں۔ یہ ان کی سیکریفائزس کو ریکگنائز نہیں کرتے۔ یہ کپتان کو ڈیم فول کہتے ہیں۔ یہ ان کو اِم دا ڈِم بھی کہتے ہیں۔ یہ ان کے سپرچوئل درجات کے بھی منکر ہیں۔ یہ ان کو ڈرگ ایڈکٹ بھی سمجھتے ہیں۔ یہ فرسٹ لیڈی کو ٹانٹ کرتے ہیں۔ یہ ان کو بلیک میجک کی ماہر سمجھتے ہیں۔ یہ ہر ایوننگ میڈم نور جہاں کا گانا "جادوگرا۔۔۔" بھی سن کر ہنستے ہیں۔

آپ یہ دیکھیں، یہ سب کرنے کے باوجود یہ لوزر ہیں۔ آپ ان کے فیس دیکھیں اور ان کے ایکشن دیکھیں۔ یہ دو دو دن منہ نہیں دھوتے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ دن باتھ نہ لے کر یہ بھی گجر بن سکتے ہیں۔ یہ ان کی مس انڈر سٹینڈنگ ہے۔ یہ پرانی شرٹیں پینٹیں پہنتے ہیں۔ ان کے پاس سمارٹ واچ بھی نہیں۔ یہ اب بھی بٹنوں والے مبئیل یوز کرتے ہیں۔

یہ ہالیڈے سیلیبریٹ کرنے کے قابل نہیں۔ یہ سنڈے کو آئلی پراٹھے کھا کے ہالیڈے منا لیتے ہیں۔ انہوں نے سوئٹزر لینڈ کو صرف کیلنڈر پر دیکھا ہے۔ یہ ایورپ کے سپیلنگ تک نہیں جانتے۔ ان کو یہ علم ہی نہیں کہ ایورپ، ای سے شروع ہوتا ہے۔ یہ اسے یورپ یورپ لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ یہ کبھی فیصل مسجد کے مینار پر نہیں چڑھے، میں ایفل ٹاور سے اہرام مصر تک کلائمب کر چکا ہوں۔ میں نے سوئٹزر لینڈ کی جھیلوں میں برہنہ پریاں اپنی آئیز سے دیکھی ہیں۔ جبکہ یہ گوگل امیجز میں ہاٹ چکس ہی سرچ کرتے رہتے ہیں۔ میں واحد جرنلسٹ ہوں جس نے سعودی کنگ کے ساتھ سیلفی کھینچی۔ سعودی رائلز میرا بڑا احترام کرتے ہیں۔ مجھے قلب قلب کہتے ہیں۔

یہ سپرچوئیلٹی پر بھی بیلیو نہیں کرتے۔ ان کے پاس کوئی بابا نہیں۔ میرے پاس تھینک گاڈ ہر فیلڈ کا بابا موجود ہے۔ میں جدھر جاتا ہوں۔ کوئی نہ کوئی بابا مجھے مل جاتا ہے۔ یہ مجھے گائیڈ بھی کرتے ہیں۔ یہ مجھے دنیا بھی دیتے ہیں اور آفٹر لائف سکسیس کی گارنٹی بھی۔ یہ بابے مجھے بتاتے ہیں کہ میں ایک ونس ان آ لائف ٹائم پرسن ہوں۔ ایسے پرسنز ہیومن ہسٹری کا کورس چینج کرنے والے ہوتے ہیں۔ یہ مجھے موٹیویٹ کرتے ہیں۔ یہ مجھے گڈ ڈِیڈز کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ میں جب بھی کسی بابے سے ملوں، ان سے کنورسیشن کروں، اس کے بعد میں لازمی کشمیری، فلسطینی مجاہدین کے چندے والے باکس میں پانچ روپے ڈالتا ہوں۔

میں ایک ہمبل ہیومن بئینگ ہوں۔ میں کبھی بریگ نہیں کرتا۔ آج میں اینگری ہوگیا۔ مجھے غصہ آگیا۔ یہ سب کو ڈس کریڈٹ کرتے کرتے اب ملک نیاز تک پہنچ گئے۔ یہ میں ٹالریٹ نہیں کرسکتا۔ کوئی مجھے جیدا مینٹل کہہ دے، مجھے غصہ نہیں لگتا۔ کوئی مجھے سفارشی کہہ دے، مجھے نوسر باز کہہ دے، میں اگنور کر جاتا ہوں لیکن ملک نیاز کے اس کنٹری میں اتنے کنٹری بیوشن ہیں کہ ان کے خلاف لینگویج اوپن کرنے والے کو معاف نہیں کرسکتا۔ ہیومن ہسٹری میں بہت سے پراجیکٹ ایسے ہیں جو سٹینڈ آؤٹ ہیں مگر آج تک کوئی بھی پراجیکٹ زہریہ ٹاؤن کے کیلیبر تک نہیں پہنچ سکا۔

میں اپنی لائف کے لاسٹ بریتھ تک ملک نیاز کا ڈیفنس کرتا رہوں گا۔ اے گِجّے ہونیں کِسے ہور دے۔۔۔۔

Comments
2 Comments

2 تبصرے:

Mian Asad نے فرمایا ہے۔۔۔

و اللہ استاد محترم کمال کردیا۔
ہارون رشید کی ایسی ٹیکسی کے بعد چود ہری کی تمام عمر کی یدویہد کو واٹر و واٹر کر دیا۔
اللہ کرے ڑور بیاں اور ڑیادھ

Sufyan Ahmad Sufi نے فرمایا ہے۔۔۔

ھاھاھاھاھا لاجواب

تبصرہ کیجیے