سوال گندم ۔۔۔ جواب چنا

سوال: آپ کسی کچے انڈے کو کنکریٹ کے فرش پر اسے توڑے بغیر کیسے گرا سکتے ہیں؟
جواب:‌کنکریٹ کا فرش بے حد مضبوط ہوتا ہے، اس کا ٹوٹنا مشکل ہے۔
سوال: اگر آٹھ آدمی دس گھنٹے میں ایک دیوار بناتے ہیں تو چار آدمی اسے بنانے میں کتنا وقت لگائیں گے؟
جواب: کوئی وقت نہیں لگائیں گے، وہ پہلے ہی بنی ہوئی ہے۔
سوال:‌ اگر آپ کے دائیں ہاتھ میں‌تین سیب اور چار نارنگیاں اور بائیں ہاتھ میں چار سیب اور تین نارنگیاں ہوں تو آپ کے پاس کیا ہوگا؟
جواب: بے حد بڑے ہاتھ۔
سوال: کوئی شخص آٹھ دن تک بغیر سوئے کیسے رہ سکتا ہے؟
جواب:‌ وہ رات میں سو سکتا ہے۔
سوال:‌ اگر کسی نیلے سمندر میں سرخ پتھر پھینکا جائے تو کیا ہوگا؟
جواب: پتھر یا تو صرف گیلا ہوگا، یا ڈوب جائے گا۔
سوال:‌ کس چیز کی شکل نصف سیب جیسی ہوتی ہے؟
جواب:‌ سیب کے دوسرے نصف حصے کی۔
سوال: آپ ظہرانے میں کیا چیز نہیں کھا سکتے؟
جواب: عشائیہ۔
(سب رنگ ڈائجسٹ سے انتخاب)

رس(؟) ملائی

اگرچہ آج تک ہم رس ملائی شوق سے کھاتے رہے ہیں لیکن اس کے نام سے ہم کبھی متفق نہ ہوسکے۔ہمارے خیال میں‌ تو اس کا نام ”میٹھے شوربے والی گلاب جامن“ ہونا چاہئے۔ویسے بھی ہمیں تو کبھی اس میں رس (بیکری والا) نظرنہیں آیا۔اور اگر اس رس سے مراد جوس ہے تو ملائی کا جوس کیسے نکل سکتا ہے؟ رس تو ہمیشہ ٹھوس چیز کا نکلتا ہے جیسے گنے کا رس، سیب کا رس، آم کا رس، حکومت پاکستان کے ہاتھوں عوام کا رس۔
اس مسئلے پر ہم نے بہت غوروخوض کرنے کے بعد ایک ترکیب ایجاد کی ہے جو واقعی رس ملائی کہلائے جانے کے قابل ہے۔ اس کے اجزاء زیادہ نہیں لیکن ان کو حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لہذا جو خواتین و حضرات سہل پسند اور عیش کوش ہوں، ان سے درخواست ہے کہ اس ترکیب پر طبع آزمائی نہ کرنا ہی ان کی صحت وسلامتی کے لئے بہتر ہے۔
سب سے پہلے تو ہمیں خالص ملائی کی ضرورت ہوگی۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ ملائی آپ اس دودھ نما چیز سے کشید کرسکتے ہیں جو گوالہ فراہم کرتا ہے تو یقیناً آپ احمقوں کی جنت کے آس پاس کہیں رہائش پذیر ہیں۔ اس دودھ نما سے آپ جگر کو جلانے والی چائے اور خراب معدے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ خالص ملائی حاصل کرنے کے لئے آپ کو کچھ اور آپشنز پر غور کرنا ہوگا۔ مثلاً کسی گاؤں وغیرہ کا سفر۔ لیکن جب سے ہم نے جعلی کرنسی چھاپنے والے کا ایک عبرت ناک واقعہ سنا ہے جو غلطی سے پندرہ روپے کا نوٹ چھاپ بیٹھا تھا اور گاؤں‌کے لوگوں کی سادگی کا فائدہ اٹھانے کے لئے اس نے یہ نوٹ گاؤں میں‌چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ گھر کی بیٹھک میں کھلی ایک کریانے کی دکان سے جہاں ایک بڑی بی تشریف فرما تھیں وہاں اس مرد شریف نے پندرہ روپے کے نوٹ کا کھلا کروایا تو بڑی بی نے اسے ساڑھے سات کے دو نوٹ لوٹادئیےتھے، تب سے ہم اس آپشن سے بھی کچھ ناامید سے ہوگئے ہیں۔
دیکھا، ہم نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ اس ڈش کے اجزاء ملنے بہت مشکل ہیں!
ایک آخری آپشن بچا ہے کہ آپ ایک بھینس خریدیں، اور اس کے دودھ سے خالص ملائی حاصل کرلیں۔ اب دوسرے جز کی باری ہے۔ کسی اچھی سی بیکری سے تازہ رس لائیں۔ برسات کا موسم ہے لہذا اچھی طرح چیک کرلیں کہ رس ”سیلابے“ نہ ہوں۔ لیجئے، اب ترکیب اپنے اختتامی مرحلے تک پہنچا چاہتی ہے۔ ایک رس لے کر اس پر ملائی کا اچھی طرح لیپ کریں اور اس کے اوپر دوسرا رس رکھ دیں۔
مزیدار رس ملائی تیار ہے!

دیر

”آپ کی والدہ حیات ہیں؟“ لا ابالی نظر آنے والے اس شخص نے ڈرائیور سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟“ ڈرائیور کے لہجے میں حیرت آمیز برہمی تھی۔
ٹھہریئے!
میرے خیال میں‌ ، ابتداء سے یہ قصہ شروع کرتے ہیں۔
وہ شخص شہر کے مرکزی علاقے سے ویگن میں‌ سوار ہوا تھا۔ اس کو آخری سٹاپ تک جانا تھا۔ خوش قسمتی یا بد قسمتی سے، اسے فرنٹ سیٹ مل گئی۔ جینز ، ٹی شرٹ میں ملبوس وہ شخص اپنے ارد گرد سے لا تعلق نظر آتا تھا۔ حرکات و سکنات اور بدن بولی سے وہ اپنے اندر کی دنیا میں گم رہنے والا لگتا تھا جسے دوڑتی بھاگتی، چیختی چلاتی، پرشور، انسانوں سے لبالب بھری دنیا سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔
ویگن کے چلتے ہی ڈرائیور کا سگریٹ بھی سلگ اٹھا۔ نصیبو لعل کی آواز بھی مقناطیسی فیتے میں‌ سے انگڑائی لے کر جاگ اٹھی۔ اوسطا ہر تیس سیکنڈ کے بعد پریشر ہارن بھی کانوں میں‌ رس گھولتا رہا۔ ڈرائیور نے بھی شاید سوچ رکھا تھا کہ اپنی مہارت کے سارے گر وہ آج ہی آزمائے گا۔ بسوں، ٹرکوں، رکشوں، گدھا گاڑیوں کو اوور ٹیک کرتا، کسی کو گالی دیتا اور کسی سے گالی سنتا ہوا وہ اپنی منزل کی جانب گامزن رہا۔ کنڈیکٹر کی ”روک کے استاد جی“ کی آواز پر وہ سڑک کے عین درمیان بریک لگاکر مسافر اتارتا، چڑھاتا رہا تھا۔
اس سارے ہنگامے کے باوصف، وہ شخص بالکل پرسکون بیٹھا تھا۔ جیسے وہ کوئی تماشائی ہو اور تھیٹر میں‌بیٹھا، اداکاروں کی پرفارمنس سے لطف اندوز ہورہا ہو۔ بالآخر منزل آگئی۔ ویگن مسافروں سے خالی ہوگئی۔ لیکن وہ شخص بدستور گاڑی میں بیٹھا رہا۔ ڈرائیور نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس پر اس شخص نے مندرجہ بالا سوال ڈرائیور سے کیا!
ڈرائیور کی برہمی آمیز ”کیوں“ کے جواب میں وہ یوں گویا ہوا۔
”بھائی صاحب، جب آپ صبح کام پر جانے کے لئے گھر سے نکلتے ہیں تو آپ کی والدہ گھر میں سارا دن آپ کی خیریت اور سلامتی کی دعائیں کرتی ہوں گی کہ میرا بیٹا شام کو خیر خیریت سے گھر کو لوٹ کر آئے۔ اسے اللہ پاک اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ سوچیں، اگر خدانخواستہ آپ کو کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے، آپ زخمی ہوجاتے ہیں یا اس سے بھی بدتر صورتحال سے دوچار ہوکر جاں بحق ہوجاتے ہیں تو آپ کی والدہ کا کیا حال ہوگا؟ اب آپ اس عورت کے دکھ کا اندازہ کریں جو اپنے بیٹے، بھائی، شوہر کے انتظار میں بیٹھی ہے اور اسے پتہ چلے کہ اس کا انتظار ساری زندگی جاری رہے گا اور اس کا پیارا نہیں‌ آئے گا۔“ وہ سانس لینے کو رکا۔ ڈرائیور کے چہرے کے بدلتے رنگوں سےاندازہ ہورہا تھا کہ بات اس کی سمجھ میں آرہی ہے۔
”تو میرے بھائی!“ وہ پھر گویا ہوا، ”اگر آپ کو کسی مسافر کا یا اس کے گھروالوں کا خیال نہیں، تو کم از کم اپنی والدہ کا ہی احساس کریں۔ جو ہر شام آپ کی راہ تکتی ہیں۔ سوچیں کہ صرف پانچ، دس منٹ جلدی منزل پر پہنچنے کے لئے کہیں آپ کو ہمیشہ کے لئے دیر نہ ہوجائے“۔
یہ کہہ کر اس نے دروازہ کھولا اور ویگن سے اتر گیا!