من چلے کا سودا ۔ ایک اقتباس

سراج: میں تو کہتا ہوں کہ اس دنیا میں کوئی اصلی آدمی، کوئی اصلی رہبر، اصلی ہادی ہے ہی نہیں۔

ارشاد: آپ اپنی طلب درست کرلیجئے، اصل آدمی مل جائے گا۔ خود بخود آجائے گا آپ کے پاس۔۔۔ کرایہ خرچ کرکے، ٹکٹ خرید کے!

سراج: چلئے پھر ٹھیک ہے ارشاد صاحب میں دنیا سے منہ موڑتا ہوں آج سے، اسی لمحے سے ۔۔۔ دکان چھوڑتا ہوں، گھر میں نے چھوڑا ہے۔ آپ مجھے اپنا غلام بنا لیں، اپنا خلیفہ بنا لیں، یہاں ڈیرا چلائیں۔

ارشاد: مبتدی کے لیے ضروری ہے کہ وہ رزق حلال کمائے اور اپنی اور اپنے گھر والوں کی کفالت کرے۔ آگے چل کر وہ کام تو اسی طرح سے کرتا رہے گا لیکن آہستہ آہستہ اس سے علائق دنیا جدا ہوتے جائیں گے ۔۔۔ فکر اہل و عیال، اندیشہ مال و زر، حب جاہ و تمکنت سے چھٹکارا ہونے لگے گا۔ جب تعلق اور جگہ ہوجائے گا تو یہ کام فروعی رہ جائیں گے اور فروعی کاموں کا عمر بھر کوئی بوجھ نہیں ہوتا۔

سراج: اصل میں بات یہ ہے ارشاد صاحب کہ میں کرامت کی تلاش میں آپ کے پاس آیا تھا اور عامر صاحب نے مجھے یہی امپریشن دیا تھا۔ لیکن افسوس مجھے آپ سے وہ حاصل نہیں ہوا جو میری آرزو تھی۔ آپ تو مجھے پھر میری دلدل میں واپس بھیج رہے ہیں، گہری اور گوڈے گوڈے کھوبو دلدل میں!

ارشاد: (حیرانی، خوشدلی اور خوش اسلوبی سے مسکراتے ہوئے اسے دیکھتا ہے)

سراج: یہ عامر صاحب بھی بڑے بھولے آدمی ہیں۔ کہتے تھے کہ سارے جالے اتر جائیں گے، بات شیشہ ہوجائے گی ارشاد صاحب سے مل کر۔ یہاں تو سواہ بھی نہیں!

ارشاد: میل جول رکھیں سراج صاحب، آتے جاتے رہیں۔ کیا پتہ آپ سے ہمیں کچھ فائدہ ہی پہنچ جائے ۔۔۔ کوئی راہ ہی سیدھی ہوجائے ہماری۔

سراج: خدا نہ کرے میں اب یہاں قدم رکھوں یا پھر کبھی آؤں اس طرف۔ وہ تو قصہ ہی ختم ہوگیا۔ میری تو خواہش تھی کہ آپ مجھے یہاں رکھتے، اپنا خلیفہ بناتے۔ ہم یہ ڈیرا چلاتے، لوگوں کی مدد کرتے۔ لیکن آپ تو مجھے رزق حلال کمانے کو کہہ رہے ہیں۔ حد ہوگئی! میں دنیا چھوڑنی چاہ رہا ہوں، آپ وہی پکڑا رہے ہیں۔

ارشاد: میں آپ کو کلہاڑی اور رسی سے زیادہ اور کیا دے سکتا ہوں سراج صاحب!

سراج: (غصے سے) او جی میں نے کیا کرنی ہے کلہاڑی اور رسی! سر میں مارنی ہے؟

(غصے کے ساتھ اٹھتا ہے اور "ہونہہ" کہہ کر باہر نکل جاتا ہے)۔