کڑی انقلابی

گردش زمانہ نے یہ دن بھی دکھائے کہ اب کڑیاں بھی انقلابی آنے لگی ہیں۔ اگرچہ یہ انقلاب زیادہ تر ملبوسات کی جدید تراش خراش (تراش زیادہ خراش کم!)، مہندی کے نت نئے ڈیزائن، موبائل کے سستے پیکجز پر مہنگی غیبتیں، میکس فیکٹر کی نئی مصنوعات وغیرہ وغیرہ تک ہی محدود ہے۔ اس انقلاب میں باورچی خانے کا کوئی ذکر اس لئے نہیں، کہ انقلابی کڑیوں کو چولہے چوکے سے کچھ زیادہ رغبت نہیں کیونکہ بقول ابرار الحق

پینی پیپسی تے کھانے برگر۔۔۔ بَلّے نی خوراکاں تیریاں

انقلابی کڑیاں اب سویٹر بننے کے بجائے فیس بک پر دوستوں کا نیٹ ورک بنتی ہیں۔اور ان دوستوں میں میرے جیسے منڈوں کو شامل کرتی ہیں، جوشمس الدین کی دوستی کی درخواست تو تین تین مہینے تک التواء میں رکھتے ہیں، لیکن ان کڑیوں کو ڈھونڈ کر بھی دوست بنانے میں ہرج نہیں جانتے۔ اور فیس بک پر کوئی چیز شئیر کرتے ہوئے ان میں ان جدید انقلابنوں کو ٹیگ کرنا ہرگز نہیں بھولتے۔ رات کے پچھلے پہر سٹیٹس، پر تبصرہ تبصرہ بھی کھیلتے ہیں اور ایک میسنا سا نِمّا نِمّا فلرٹ کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھتے ہیں۔

اس سارے فضیحتے کا فائدہ اس لئے نہیں کہ شادی کے بعد زیادہ سےزیادہ دوسرے بچے پر ہی سارا انقلاب، ڈائپرز، فیڈر، گرائپ واٹر وغیرہ کی نذر ہوجاتا ہے۔۔۔۔

حسرت ان "انقلابوں" پہ ہے جو بن "آئے" مرجھا گئے!

محراب خوش قیام سے آگے نکل گئی

محرابِ خوش قیام سے آگے نکل گئی
خوشبو دیے کی شام سے آگے نکل گئی

غافل نہ جانئے مجھے مصروفِ جنگ ہوں
اس چپ سے جو کلام سے آگے نکل گئی

تم ساتھ ہو تو دھوپ کا احساس تک نہیں
یہ دوپہر تو شام سے آگے نکل گئی

مرنےکا کوئی خوف نہ جینے کی آرزو
کیا زندگی دوام سے آگے نکل گئی

عاصم وہ کوئی دوست نہیں تھا جو ٹھیرتا
دنیا تھی اپنے کام سے آگے نکل گئی

(لیاقت علی عاصم)

فرار

انسانی ذہن بھی کمال کی چیز ہے!

ہمارے ایک جاننے والے ہیں، دوست اس لئے نہیں کہ دوستی تو ہمیشہ برابر والوں میں ہوتی ہے، ڈاکٹر ہیں، اپنا کاروبار بھی ہے۔ایک یورپی ملک کی شہریت کے حامل ہیں۔ مہنگی گاڑیاں ہیں، پر تعیش رہائش ہے۔ غرض دنیا کی ہر آسائش میسر ہے۔ صحت بھی مثالی ہے۔ اولاد کی نعمت سے بھی مالامال ہیں۔ لیکن جب بھی ملتے ہیں تو ان سے گفتگو کرکے یہ احساس ہوتا ہے کہ ان سے زیادہ فکرمند اور پریشان شخص اس دنیا میں شاید ہی کوئی اور ہو! شہریت یورپی ملک کی، رہائش خلیجی ملک میں اور فکر میں مبتلا ہیں ایک تیسری دنیا کے پسماندہ ملک کی۔ اتنے دلدوز اور دل سوز انداز میں اپنے آبائی وطن کے مسائل (سیاسی) پر اظہار خیال کرتے ہیں کہ آنکھیں بھر آتی ہیں۔ گفتگو کا اختتام ہمیشہ اس نوٹ پر ہوتا ہے کہ "ہم کبھی نہیں سدھر سکتے"۔اس آدھ پون گھنٹے کی گفتگو سے مجھے ہمیشہ یہ لگتا ہے کہ ان کا ذہن اپنی مسائل سے عاری زندگی سے بور ہو کر کچھ ٹینشن اور مایوسی کا خواہاں ہے جو اسے اپنی روزمرہ کی زندگی میں میسر نہیں آتی۔ اس گفتگو کے اختتام پر جب وہ جانے کے لئے اٹھتے ہیں تو ان سے زیادہ خوش باش اور تروتازہ شخص پوری محفل میں کوئی نہیں ہوتا۔

انسانی ذہن بھی کمال کی چیز ہے!

ایک دوسرے دوست ہیں، سولہ افراد کے کنبے کے واحد کفیل! ملازمت پیشہ، روز کنواں کھودنے والے۔ بلوں، دوائیوں، فیسوں کے چکر میں گوڈے گوڈے دھنسے ہوئے۔ ان سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو باتوں کی ایسی پھلجڑیاں چھوڑتے ہیں کہ شب برات کا گمان ہونے لگتا ہے۔ چٹکلے پہ چٹکلا، ہر آنے جانے والے پر فقرے چست کرنا،سنجیدگی سے اتنے دور، جتنا پوستی، پانی سے ہوتا ہے۔ ان کی باتوں سے کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا کہ اس بندے کو غم روزگار چھو کر بھی گزرا ہوگا۔ ہر بات اور ہر واقعے میں سے مزاح برآمد کرلینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کبھی ان کے منہ سے اپنی پریشانیوں کا ذکر نہیں سنا۔ جب بھی سنا، کوئی لطیفہ یا کثیفہ ہی سنا!

میرا ناقص مشاہدہ بھی اس کی گواہی دیتا ہے کہ جو بندہ اوپر سے جتنا ڈپریس، مایوس اور ٹینشن میں مبتلا نظر آتا ہے، اندر سے وہ اتنا ہی مطمئن اور پر باش ہوتا ہے، یہ سارے ڈفانگ اس نے جان بوجھ کر پالے ہوتے ہیں کہ اصلی نہ سہی نقلی غم ہی سہی! جبکہ جو شخص ہر وقت ہنسنے ہنسانے میں لگا رہے، باتوں کے توتے مینا بنابنا کر اڑاتا رہے، وہ حقیقت میں پریشانیوں اور مشکلات کے عین بیچ میں زندگی کررہا ہوتا ہے!