رخصتی

حالیہ دنوں میں میرے ساتھ عجیب ساماجراہوا ہے۔ میری باتیں کچھ سنجیدہ سی ہوگئیں ہیں، کچھ لکھتا ہوں تو وہ بھی کسی بزعم خود دانشور اور مصلح قوم ٹائپ لکھاری کا لکھا لگتا ہے۔ لکھنے کے بعد میں خود سوچتارہتاہوں کہ یہ میں نے کیالکھ دیاہے؟ حد تو یہ ہے کہ خواب میں بھی ثانیہ و کترینہ کی بجائے رانا مبشر، روئیداد خان، رویت ہلال کمیٹی کے ارکان، "ڈاکٹر" عامر لیاقت وغیرہ کی قبیل کے لوگ آنے لگے ہیں۔ آپ خوب اندازہ کرسکتےہیں کہ صبح جاگنے پر میرے موڈ کی کیا واٹ لگی ہوئی ہوتی ہوگی۔ جن باتوں پر ہنسی آتی تھی، اب ان پرنصیحتیں یاد آنے لگی ہیں۔ شفیق الرحمن اور یوسفی کی بجائے "موت کا منظر اور مرنے کے بعد کیا ہوگا" پڑھنے کا من کرنے لگا ہے۔ ڈائجسٹ پڑھنا لہوو لعب اور فاسقانہ کام لگتا ہے۔ جن محفلوں میں مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا، اب مجھ کو دیکھ کر سب کو ضروری کام یاد آجاتے ہیں۔ اپنے بال برے لگنے لگے ہیں۔ دل میں روز طلب اٹھتی ہے کہ چل بچہ ٹنڈ کرا۔ لیکن ابھی تک اس طلب کی مزاحمت جاری ہے۔ کل رات میں نے اپنی اس حالت پر نہایت رنجیدہ ہوکر اس کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی تو مجھ پر یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ چند دن پہلے ریموٹ کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے میں ایک ایسے چینل پر جاپہنچا تھا جس کے سحر نے مجھے اب تک جکڑا ہوا ہے اور میں اس سے اپنے آپ کو ابھی تک آزاد نہیں کراسکا۔

آپ یقینا یہ جاننے کے مشتاق ہوں گے کہ وہ چینل کونسا تھا؟ اس کانام تو مجھے یاد نہیں آرہا لیکن کچھ نشانیاں ہیں، وہ بیان کردیتا ہوں کہ شاید آپ اس چینل کا نام یاد بتاسکیں۔

ایک بزرگ کہ نہایت سجے ہوئے سٹیج پر تشریف فرما تھےاور نور ان کی صورت پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی تھی۔۔ اوہووو۔۔۔ رہا تھا۔ ان کے دائیں ہاتھ میں ایک چھوٹا جھنڈا(ڈنڈے سمیت) تھا جسے وہ لہرا لہرا کر اور خود لہک لہک کر کچھ کہہ رہے تھے۔ جو میں اپنی کم علمی اور اونچا سننے کی بیماری کی وجہ سے سمجھنے سے قاصر تھا۔ ان کی گود میں ایک چمکدار غلاف والا تکیہ تھا۔جس پر وہ باربار پیار سے بایاں ہاتھ پھیر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک کم عمر صاحب تشریف فرما تھے۔ جو اپنی سریلی آواز میں کچھ مذہبی مناجات گنگنا رہے تھے۔ سٹیج کے سامنے پنڈال میں بہت سے لوگ وہی کاسٹیوم پہنے بیٹھے تھے، جو مرکزی کردار نے زیب تن کیا ہوا تھا اور یہ سارے لوگ ہل ہل کر اور لہک لہک کر فلک شگاف نعرے بلند کررہے تھے۔ سکرین پر ایک "ٹکر" بھی چل رہا تھا کہ صاحبزادہ (نام میں بھول گیا)مدظلہ العالی سلمہ کی رخصتی! اس رخصتی کی کوئی تفصیل نہ تو ٹکر میں موجودتھی اور نہ ہی دونوں مقررین (وہی ی ی ۔۔۔ سٹیج والے) کی بیک وقت تقاریر سے اندازہ ہورہا تھا کہ اس رخصتی کی نوعیت کیا ہے؟ البتہ نورانی چہرے والے بزرگ زور لگاکررونے کی شدید کوشش کررہےتھے، جیسے شاہ رخ خان زور لگاکر اداکاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن کم بخت آنسو تھے کہ نکلنے سے انکاری تھے، اس پر سمجھدار کیمرہ مین نے فرشتہ صورت بزرگ کے کلوز اپ کی بجائے کیمرہ دوبارہ پنڈال میں موجود عقیدت مندوں پر فوکس کردیاجبکہ پس پردہ موسیقی کے طور پر بزرگ کی المناک ہچکیاں (بغیر آنسوؤں والی) بدستور چلتی رہیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ شاید یہ کم عمر صاحب، ان بزرگ شخصیت کے صاحبزادے ہیں اور گھر داماد کے طور پر رخصت ہوکر اپنے سسرال جارہے ہیں اور ان کی جدائی میں یہ رقت آمیز (دیکھنے والوں کے لئے) محفل سجائی گئی ہے!

اس محفل کی براہ راست کوریج نے میرے دل میں وہ کیفیات پیدا کردیں، جن کا ذکر شروع میں کیا گیا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ساری دنیا ایسے ہی کاسٹیوم زیب تن کرکے ہر وقت اسی حلیے میں لہکتی پھرے۔ یہ رنگارنگی اور تنوع ختم ہوجائے اور یک رنگی کی کیفیت پیدا ہوجائے تو دنیا کتنی حسین لگنے لگےگی اور اس کائنات کی تخلیق کا مقصد بھی پورا ہوجائے گا!

میرا دوست "ھ" ،جو نہایت بے ہودہ، بدتہذیب، جاہل، گنوار، منہ پھٹ اور دہریہ قسم کا شخص ہے اور بدقسمتی سے اس وقت میرے پاس بیٹھا تھا، اس نے اپنے منحوس چہرے پر خباثت بھری مسکراہٹ سجائی اور ایک آنکھ میچ کر نہایت لوفرانہ انداز میں کہا کہ عقیدت اور جہالت کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور اس کیس میں تو گلے مل رہی ہیں!

32 مارچ

چاند میری زمیں، پھول میرا وطن ۔۔۔۔ سوہنی دھرتی اللہ رکھے ۔۔۔ اے وطن پیارے وطن ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ،  اگر ملی نغموں، ترانوں، نعروں، فوجی پریڈوں سے ملک ترقی کیا کرتے اور قومیں دنیا میں اپنی پہچان بنایا کرتیں تو یقینا ہم اس کائنات میں بسنے والی سب سے عظیم قوم اور سب سے ترقی یافتہ ملک ہوتے۔

سکول کے زمانے میں ۲۳ مارچ کا اپنا ایک رومان ہوتا تھا۔ مارچ پاسٹ کرتے ہوئے چاق و چوبند فوجی، سلامی کے چبوترے کے سامنے سے گزرتے ہوئے ٹینک، توپیں، میزائل اور سونے پر سہاگہ اظہر لودھی کا خون کی گردش تیز کرتا ہوا رواں تبصرہ۔ وہ زمانہ گزرگیا۔ اور اپنے ساتھ بہت سے رومان بھی لے گیا۔ اب 23 مارچ کو بہت سے تلخ سوال میرے سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں اور جواب کا تقاضہ کرتے ہیں۔ میرے پاس ان کا کوئی جواب نہیں!

ایک سوال یہ ہے کہ "پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ" کا کیا مطلب تھا؟ اگر اس کا مطلب پاکستان کو دین اسلام کے مطابق چلانا تھا تو عمر (رض) سے ایک عام آدمی بھری محفل میں پوچھ لیتا تھا کہ یہ کرتہ تو نے کیسے بنا لیا ایک چادر سے؟ اب آپ اپنے کونسلر سے پوچھ کے دیکھیں کہ بھائی یہ ایک ہی سال میں تو موٹر سائیکل سے کار پر کیسے آگیا تو اگلا پورا مہینہ آپ پشت کے بل سو نہیں سکیں گے اور موٹی گدی والی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے بھی دس دفعہ سوچیں گے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ بھونپو نما لوگ اخبارات میں اس دن بیانات چھپواتے ہیں (اب چینلز پر اپنی سریلی آواز میں کلام شاعر بزبان شاعر کی صورت میں بھی) کہ پاکستان قیامت تک قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔ اچھا تو پھر 1971 میں اسرائیل کے دو ٹکڑے ہوئے تھے؟ شاید خدا نے ہمارے لئے اپنے قانون بدل دیئے ہیں۔ ہم جو جی چاہے کرتے رہیں یا یوں کہہ لیں کہ کچھ نہ بھی کریں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں پھر بھی ہم قائم و دائم رہیں گے۔ اور وہ جو مالک کہتا ہے کہ "لیس للانسان الا ما سعی" تو وہ شاید ہمیں چھوڑ کے باقیوں کے لئے کہا گیا ہوگا۔

ہماری رگوں میں یقینا بنی اسرائیل کا خون ہے!

اسی ۲۳ مارچ کے دن چند بزرگ ایسے بھی نمودار ہوتے ہیں، جن کا فرض ہم کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ پاکستان نہ بنتا تو وہ کسی ہندو کی دکان پر منشی ہوتے۔ اور وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار پر آٹھ آٹھ آنسو بہاتے ہیں اور ہمیں سرزنش کرتے ہیں کہ اللہ کا شکر ادا کرو کہ تم ایک "آزاد اسلامی" ملک کے رہنے والے ہو۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتاکہ کیا ہندوستان والےہماری سوکن ہیں؟ یا ہمارا ان سے وٹہ سٹہ ہے؟ کیا ہمیشہ ہم ان کو معیار مان کر ہی اپنی حالت ماپتے رہیں گے؟

ایک اور سوال ہے کہ ریاست اگر ماں جیسی ہوتی ہے تو یہ کیسی ماں ہے جو اپنے ہی بچوں کو کھاجاتی ہے؟یہ ماں ہے یا ناگن؟ یا پھر یہ ریاست صرف اس طبقے کی ماں ہے جن کے لئے اسے بنایا گیا تھا اور جو آج بھی سارے وسائل شیر مادر سمجھ کے ڈیک لگا کے پی جاتے ہیں۔ اور پھر اخبارات اور ٹی وی چینلز پر بھاشنوں کی صورت میں ڈکار مارتے پھرتے ہیں۔ عامیوں کے تعلیم، صحت، روزگار، امن و امان  کے مطالبے پر انہیں ہر سال، اگلے سال ۳۲ مارچ تک کا وقت دے دیتے ہیں۔ اور شاباش ہے ۱۷ کروڑ "غیور" عوام پر جو ۶۲ سال سے ۳۲ مارچ کا انتظار کرتے آرہے ہیں۔ کرتے رہو، قیامت تک!

اوراس پیشینگوئی کے لئے آپ کو رینڈ کارپوریشن کی کسی ریسرچ، ہنود ویہود لابی کا ایجنٹ یا کافروزندیق ہونے کی ضرورت نہیں کہ معاملات اسی طرح چلتے رہے تو ہمارے ان داتاؤں کے پاس کچھ زیادہ ۲۳ مارچیں منانے کا وقت نہیں رہ گیا۔ حشرات الارض کا کیا ہے، آپ کے پاؤں کے نیچے آکر نہ کچلے گئے تو کسی اور کے پاؤں کے نیچےآکر کچلے جائیں گے۔ اور فرق تو ان کو بھی نہیں پڑے گا۔وہ نئےفاتح کے استقبال کے لئے ائیر پورٹ پر ہار لے کر کھڑے ہوجائیں گے، جیسےان کے باپ دادا انگریزوں کے لئے گھنٹوں دھوپ میں کھڑے رہا کرتے تھے۔

بس ذرا حکمرانی کا مزا کرکرا ہوجائے گا!