سی ٹی ۔ بی ٹی

سی ٹی: پائین، اب کیا حال ہے آپ کا؟

بی ٹی: شباژ ساب، بہت برا حال ہے۔ دو دن سے ڈاخٹر نے کھانا بند کیا ہوا ہے۔ میں نے اس کو کہا بھی کہ یار میں ٹھیٹرکررہا ہوں، بمار شمار نہیں ہوں، پر شباژ ساب،یہ گورے بڑے سخت ہیں ۔ ڈبل روٹی،آنڈے ہی دیتے جارہے ہیں۔ میں نے ککے بالوں والی نرس کو بھی کہا کہ اگر ہریسہ کھانے کو نہیں دینا تو ٹیکے میں بھر کے ہی لگادے۔ اس پر وہ ہنسنے لگی، جس پر میرا بھی ہاسا نکل گیا جو کہ آپ کو ملوم ہے کہ ہر نازک موقعے پر نکل جاتا ہے۔ ہیں جی۔۔

سی ٹی: پائین، آپ کو سمجھایا بھی تھا کہ پانچ چھ دن کی بات ہے۔ ذرا احتیاط کرلیں۔ ایک تو آپ کو بات کی سمجھ اس وقت آتی ہے، جب سمجھ آنا نہ آنا برابرہوتا ہے۔ حالات بڑے نازک ہورہے ہیں۔ مجھے تو خطرہ ہے اس دفعہ دوتہائی کی بجائے ، عوام نے ہمیں دس فٹ کا ڈنڈا، دوتہائی تک دےدینا ہے۔

بی ٹی: اوہوہوہوہو۔۔۔ ہیں۔۔۔ شباژ ساب، واقعی؟

سی ٹی: نہیں تو پائین آپ کا خیال ہے، میں بوچر ماررہا ہوں ؟ آپ ایک دو دن دلیہ کھائیں تاکہ آپ کے چہرے پر تھوڑی سی نحوست آئے، کیونکہ پرسوں آپ کا ہسپتال سے ایک لائیو انٹرویو چلوانا ہے اور فوٹو سیشن بھی کروانا ہے۔

بی ٹی: اچھاجی۔ پر اس کے بعد میں نے فل ٹشن پروگرام روٹی کھانی ہے۔ میں نے کہہ دیا ہے بس۔ مجھے کوئی نہیں پتہ پُتہ۔۔ ڈاخٹرسے میں نےپوچھا کہ لسی پی لوں تو اس نے کہا کہ بیئر پی لو۔نشہ ہی کرنا ہے۔۔۔ لو دسّو بھلا۔ یہ انگریز بھی جگتیں کرنے لگے ہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ ڈاخٹر یوٹیوب پر امان اللہ کے ڈراموں کے کلپ دیکھتا رہتا ہے۔ میں نے پیجے کو کہا کہ انگلش میں اس کو تین چار جگتیں لگا تاکہ اس کے ہوش ٹھکانے آئیں۔

سی ٹی: پائین ، خدا کا خوف کریں ، ادھر میری تشریف بنیرے کے ساتھ لگی ہوئی ہے اور آپ کو جگتوں اور لسیوں کے سوا کچھ نہیں سوجھ رہا۔ بس ایک دو دن کی بات ہے ۔ ایک فل ٹیٹ ہسپتالی فوٹو سیشن ہوجائے۔ اس کے بعد جو دل میں آئے، کھائیں۔ جیدے، فانے، کیدو وغیرہ سب کو لفافے اور بریفنگیں دے آیا ہوں۔ ادھر تصویریں چھپنی ہیں ادھر نیر سلطانہ ٹائپ جذباتی کالم چھپ جانے ہیں۔ بس اسی رولے گولے میں ریمنڈ پائین کا رولا ، گول ہوجانا ہے۔

بی ٹی: واہ جی واہ شباژ ساب۔آپ کا کیا ڈماک چلتا ہے۔ آہاہاہاہا۔۔۔لیں یہ سیب کھائیں۔

سی ٹی: پیجا کہہ رہا تھا کہ ایم ٹی کا فون آیا تھا۔ طبیعت پوچھنے کے لیے؟ کیا بات ہوئی؟

بی ٹی: یار، ایک تو شباژ ساب، اس کی سمجھ ہی نہیں لگتی۔ اتنی اونچی آواز میں بول رہا تھا کہ مجھے ٹیلیفون کی بجائے اس کی آواز روشندان سے آرہی تھی۔ میں نے اس کو کہا بھی کہ طیفا جی ابھی تو دو بجے ہیں دن کے، فون پر اونچا بولنے کا ٹیم ابھی کافی دور ہے۔ پر یار وہ کسی کی سنتا ہی نہیں ۔ پتہ نہیں کیا کیا بولی جارہا تھا۔ رویا بھی تھا بیچ میں۔ شاید اس کے ڈاخٹر نے اس کا شربت بند کردیا ہے۔ میں بھی ہاں ہاں کرتارہا۔ بعد میں ککے بالوں والی نرس نے میرے کانوں میں گرم تیل ڈالا تو فیر ذرا کانوں کو سکون ہوا۔۔ہیں جی۔۔۔