پریشاں ہیں پِنڈ کی جھَلّیاں


سامعین کرام! آداب۔ آج ہم سب یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ عصر حاضر کی مکمل ترین کہانی کار محترمہ ثانیہ فرحان کی تازہ ترین کہانیوں کے مجموعے "پریشاں ہیں پِنڈ کی جھَلّیاں" کی تقریب رونمائی میں شرکت کا شرف حاصل کرسکیں۔ اس مجموعے میں ستتّر کہانیاں شامل ہیں اور مصنفًہ نے نہایت فنکاری اور چابکدستی کے ساتھ اس پُر فِتن دور کی جدلیاتی اور حسیاتی کشمکش کو اپنے گردوپیش کے ماحول کے تناظر میں بیان کیا ہے۔ ہم اپنے کلام کو مختصر کرتے ہیں اور آج کی تقریب کی پہلی مقرّرہ، جو خود بھی ایک عظیم شاعرہ اور دانشور ہیں، کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور ثانیہ کے فن اور شخصیت پر روشنی ڈالیں۔ تشریف لاتی ہیں محترمہ صدیقاں بشیر۔
معزّز سامعین! جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ ثانیہ اور میں بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں (ہال سے چند آوازیں۔۔۔ ہمارے علم میں نہیں ہے۔۔۔)۔ ثانیہ کو اوائل عمری سے ہی ادب سے گہرا شغف تھا۔ پاکیزہ، شعاع، آنچل، خواتین جیسے ادبی ماہنامے، بچپن سے ہی ان کے زیر مطالعہ رہے ہیں۔ انہوں نے سٹار، سونی، زی کے کسی ڈرامے کی کوئی قسط کبھی مِس نہیں کی۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اچھا لکھنے کے لیے اچھا پڑھنا بہت ضروری ہے تو ثانیہ کی کہانیوں میں ان کے زبردست مطالعہ، مشاہدے اور انٹلکچوئلزم کی جھلک نظر آتی ہے۔ خاص طور زبان پر ان کی گرفت ایسی ہے کہ لکھنوی اور دہلوی احباب بھی اس پر رشک کرسکتے ہیں۔ ان کی املاء پر گرفت کی سب سے بڑی وجہ، پرائمری میں ان کی استانی پری خانم کی محنت شامل ہے جو ان کو روزانہ غلط املاء لکھنے پر مرغی بنایا کرتی تھیں۔ قصّہ مختصر، اس محدود سے وقت میں ان کے فن پر پوری طرح روشنی ڈالنا اسی طرح ناممکن ہے جیسے پانچ منٹ میں دو کلو لہسن چھیلنا۔ جاتے جاتے میں اس مجموعے میں شامل ایک کہانی کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جس کا عنوان "اٹک میں کھٹک" ہے۔ اردو افسانے کی تاریخ اور روایت ایسی تحریر کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ میں ثانیہ فرحان کے فن کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں۔ تم لکھو ہزاروں صفحات۔۔۔ ہرصفحے کے ہوں لفظ پچاس ہزار۔۔
سامعین، یہ تھیں صدیقاں بشیر۔ اب آپ کو اپنے خیالات سے مستفید کریں گے اس تقریب کے صاحب صدر، جناب اعظم شاہ اٹکوی، جو حضرو سے تشریف لائے ہیں۔ آپ ایک عظیم فلسفی، شاعر، کہانی نگار، ڈرامہ نگار، ننجا ماسٹر، مافیا چیف اور دیسی بیٹ مین ہیں۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت اس تقریب کو رونق بخشنے کے لیے صرف کیا۔ حالانکہ اس دوران وہ فیس بک پر تقریبا ڈہائی سو زنانہ آئی ڈیز کی والوں پر گھوم سکتے تھے۔ تشریف لاتے ہیں، جناب اعظم شاہ اٹکوی۔۔۔۔
ثانیہ جی اور سامعین۔ محبت بھرا آداب قبول ہو۔ ہم اپنے مقدّر پر جتنا بھی ناز کریں، کم ہے کہ آج ہم اپنی ثانیہ جی کے سامنے موجود ہیں اور ان کی کہانیوں کے عظیم ترین مجموعے پر اپنے زرّیں خیالات و افکار پیش کررہے ہیں۔ ثانیہ جی، صرف کہانی کار ہی نہیں ہیں بلکہ اس دکھوں بھری زندگی میں ایک نخل سایہ دار بھی ہیں جس کے سائے میں لوگ اپنے دکھ بھلا کر راحت پاتے ہیں (سامعین میں سے ایک ناہنجار۔۔۔ جی بالکل ۔۔ ان کا سایہ بھی کسی بڑے برگد کے درخت سے کم نہیں ہے۔۔)۔ اپنے گردوپیش میں پھیلے رنج و آلام کو انہوں نے اس فنکاری سے قلم بند کیا ہے کہ دوران مطالعہ میری چیخیں نکل جاتی تھیں۔ چند کندہ ناتراش ہمسائے ایسی آوازیں سن کر فاسد خیالات میں مبتلا ہوجاتے تھے اور محلّے میں ہمارے بارے غلط خیالات پھیلاتے تھے۔ ان بدنصیبوں کو کیا علم کہ ہم جس کے قتیل ہیں وہ ثانیہ جی جیسی عظیم الشان مصنّفہ ہیں جن کے رشحات قلم ہمارے دل کو تقویت بخشتے ہیں اور دماغ کو روشن کرکے جہالت کی ظلمتیں دور کرتے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اس دور میں زندگی پائی ہے جب ثانیہ جی بھی اس دنیا کو رونق بخش رہی ہیں۔ ہم اکثر سوچا کرتے ہیں کہ بناء ان کے ہماری زندگی کتنی بے ثمر اور بے رس ہوتی اور خاص طور پر فیس بک پر تو شاید ہم دوسرے ہی دن خود کشی کرلیتے۔ اس مجموعے میں چند شگفتہ کہانیاں بھی شامل ہیں۔ ان میں "لاس اینجلس کی کلفیاں" خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس کہانی کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم اتنی شدّت سے ہنسے کہ ہمارے اہل خانہ ہمیں دوبارہ دماغی امراض کے شفاخانے میں داخل کروانے بارے سوچنے لگے تھے۔ اس سے آپ ثانیہ جی کے قلم اور ان کی طاقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہم، ثانیہ جی بارے ساری زندگی بھی بول سکتے ہیں لیکن چونکہ آپ کے پاس وقت کم ہے اس لیے ہم اجازت چاہتے ہیں اور جاتے ہوئے یہ ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا بال پوینٹ ہوتا۔۔۔