شاژیہ اور بِلاّ

ہزار دفعہ منع کرنے کے باوجود،  بِلاّ ، ہمیں پائین کہہ کے ہی مخاطب کر تا تھا اور ابھی بھی کرتا ہے۔ ہم پائین کہنے پر اس کو خونخوار نظروں سے گھورتے تو وہ ایسے ہنسنے لگتا  جیسے گونگی۔۔۔ چلیں چھوڑیں۔  ان دنوں پُونڈی کا لفظ اتنا عام نہیں تھا اس کی بجائے فیصلابادی روزمّرہ میں "ٹیم چُکنا" کا لفظ استعمالا جا تا تھا۔  عام بِلّوں کی طرح ہمارا بِلاّ بھی نہایت عاشق مزاج واقع ہو ا تھا اور ٹیم چُکنے کا نہایت شوقین تھا۔ بِلاّ  فرنیچر کی دکان پر کام کرتا تھا  اور وہاں صبح سات بجے ہی پہنچ جاتا تھا اس کی وجہ فرض شناسی یا کوئی اور ایسی خوبی نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ "شاژیہ" تھی۔  شازیہ  کو جب بِلاّ  شاژیہ کہتا تھا تو اس کے سارے ناآسودہ و بے ہودہ جذبات جس طرح اس نام کے تلفظ میں سماجاتے تھے وہ چیز بیان کرنی مشکل ہے۔ شاژیہ اس وقت بِلّے کی سب سے منظور نظر حسینہ تھی اور روزسکول جاتے ہوئے اس کی دکان کے سامنے سے گزر تی تھی۔  مزے کی بات یہ کہ یہ نام بِلّے نے خود ہی  اس حسینہ کو الاٹ کیا  تھا کہ اس کے اصل نام کا پتہ اس کے فرشتوں کو بھی نہیں تھا اور شاژیہ ، بلِّے کا پسندیدہ نام تھا۔ وہ دور نہایت پسماندہ تھا جب انٹرٹینمنٹ کے نام پر چاچا جی صبح پانچ منٹ کے کارٹون دکھا کے ٹرخا دیا کرتے تھے۔ موبائل فون اور ایس ایم ایس اور ایمیلز  جیسی انٹرٹینمنٹ صرف جیمز بانڈ کی فلموں میں ہی نظر آتی تھی۔ لہذا حسینوں سے رابطہ صرف خط اور خواب میں ہی ہوسکتا تھا۔ 
روزانہ شام کو جب تھڑے پر ہماری محفل مخولیہ جمتی  تو بِلّا ہر بات کو موڑ کر شاژیہ کے ذکر کی طرف ہی لے جاتا تھا ۔ پائین، اج او میرے ول ویخ کے ہسّی سی۔ اج اونہے مینوں سلام کیتا سی۔ اج بڑی سوہنی لگ رئی سی۔ یہ تین باتیں  وہ بلاناغہ ترتیب بدل کے بیانتا تھا۔ ہم اپنی فطرت سے مجبور اس کو ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ بِلاّجی ، شاژیہ کو آپ سے بھائی والی محبت ہے ، غلط خیال نہ لایا کریں۔ اس پر بِلاّ شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پانچ منٹ کے لیے  واک آوٹ کرجا تا اور واپس آنے پر اس کے چہرے پر وہی گونگی والی مسکراہٹ ہوتی تھی۔ 
سردیوں کے ایک خوشگوار جمعے کو ہمارا اسلامیہ کالج کی گراونڈ میں میچ تھا۔ بِلاّ بضد تھا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ جائے گا۔ ہم نے بہتیرا سمجھایا کہ شام ہوجائے گی میچ ختم ہوتے، تو نے اتنی دیر کیا کرنا وہاں۔ لیکن وہ بِلاّ ہی کیا جو کسی کی بات سن لے۔  بہرحال  ہم وہاں پہنچے۔ ٹاس ہارنے کے بعد حسب معمول ہمیں بالنگ کرنی پڑی۔ خوب پھینٹی لگی ۔ اوورز ختم ہوئے تو لنچ اور جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکے ہماری باری شروع ہوئی۔ ہم اپنے تئیں نہایت عظیم بلّے باز تھے  لیکن ہمارے کپتان کی نظر میں ہم صرف بالر ہی تھے اور بیٹنگ کی صلاحیت ہم میں اتنی ہی تھی جتنی تنویر احمد میں بالنگ کی ہے۔ لہذا ہم کافی دیر کے لیے فارغ تھے ۔  بِلاّ، میں اور ہمارا لنگوٹیا تینوں گراونڈ کے پرسکون سے گوشے میں جاکے بیٹھ گئے ۔ زبیر نے سگریٹ سلگا لیا اور اپنی پھینٹی کا غم غلط کرنے لگا، ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ آج تک ہمیں غم غلط کرنے کا کوئی ذریعہ ہی پسند نہیں آیا  لہذا ساری تلخی آج تک ہمارے اندر ہی ہے جو وقتا فوقتا باہر نکلتی رہتی ہے۔  زبیر نے دو کش ہی لیے ہوں گے کہ بِلّے نے سگریٹ جھپٹا اور  گھاس پر پلسیٹے مار کر دھوئیں نکالنے لگا۔ زبیر نے اسے مناسب مغلظات سے نوا ز کر نیا سگریٹ سلگایا اور دوبارہ غم غلط کرنے کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں سے ٹوٹا تھا۔ لیٹے لیٹے سگریٹ پیتے ہوئے ، بِلّے کے ذہن میں پتہ نہیں کیا آیا کہ رومانوی قسم کی خود کلامیاں کرنے لگا۔۔۔"شاژیہ، تینوں کیہ پتہ میں تینوں کنّاں پیار کرداں،    تینوں کیہ پتہ تیرا   پراء تینوں کنّاں یاد کردا"۔۔۔۔ ہمارے قہقہوں کی آوازیں اتنی بلند تھیں کہ پچ پر موجود ہمارے کپتان جی جو بنفس نفیس اوپننگ کے لیے تشریف لےگئے تھے، ان کی توجہ بھی ہماری طرف مبذول ہوگئی کہ ان کمینوں نے کونسا زعفران کا کھیت دیکھ لیا ہے۔
 بس اس دن کے بعد بِلاّ اگر کسی کے منہ سے  شاژیہ کا نام بھی سن لیتا تھا تو  پتھر لے کے اس کے پیچھے بھاگتا تھا۔ یہ مت پوچھیے کہ کیوں۔۔  اور یہ بھی مت پوچھیے کہ محلے کے سارے بچّوں کو شاژیہ کا نام کس نے سکھایا تھا۔